زین بھی پاس ہوجائے گا

225

آج کل میٹرک کے پرچے ہورہے ہیں۔ کل میرے بیٹے دائم کا دوست زین اس سے ملنے آیا، کہنے لگا: ”یار کس مصیبت میں پھنس گیا ہوں، دو سال سے اردو کا پرچہ دے رہا ہوں لیکن پرچہ کلیئر نہیں ہورہا، یہ میری جان کو آیا ہوا ہے، سارے پرچے پاس کرلیے ہیں مگر یہ عذاب بنا ہوا ہے۔ اِس مرتبہ آخری چانس ہے، اگر اب بھی کلیئر نہ کیا تو رجسٹریشن ختم ہوجائے گی اور پھر سے سارے پرچے دینے ہوں گے۔ یہ مذاق نہیں تو اور کیا ہے! کتنے افسوس کی بات ہے کہ انگلش، فزکس، کیمسٹری اور ریاضی جیسے مشکل مضامین پاس کرنے کے باوجود صرف ایک اردو کی وجہ سے میری ساری محنت پر پانی پھر جائے گا۔ یہ تو کھلی ناانصافی ہے، کیا کروں؟ کے جی ون سے میٹرک تک انگلش میڈم اسکول میں تعلیم حاصل کی ہے جہاں نہ تو اردو پڑھائی گئی اور نہ ہی اس کے متعلق کوئی آگاہی دی گئی۔ اے فور اپیل اور بی فور بک ہی پڑھتے رہے، اس لیے اردو لکھنے پڑھنے میں مشکل ہوتی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ بار بار اسی پرچے میں فیل ہورہا ہوں، لیکن میں نے بھی سوچ لیا ہے اِس بار کتاب کے اوراق پھاڑ کر لے جاؤں گا، یا پھر واٹس ایپ کی مدد سے چھپائی کرکے اس مصیبت سے جان چھڑا لوں گا۔ آخر کب تک میٹرک کے پرچے ہی دیتا رہوں! مشہور کہاوت ہے: ”جب گھی سیدھی انگلیوں سے نہ نکلے تو انگلیاں ٹیڑھی کرنی پڑتی ہیں“۔ میں اس خشک مضمون کی وجہ سے اپنا وقت مزید ضائع نہیں کرسکتا، اور ویسے بھی یہ زبان کس کام کی؟ صرف ہمارے معاشرے میں لوگوں سے بات چیت کے لیے ہی استعمال ہوتی ہے۔ گھر کا بچہ بچہ اردو زبان ہی بولتا ہے۔ مجھ سمیت سب کو بولنا آتی ہے، اس لیے اس کا امتحان لینا بطخ کے بچے کو تیرنا سکھانے کے مترادف ہے۔ کتاب کھول کر دیکھو تو وہی سیاق و سباق کی باتیں، باوا آدم کے زمانے کی شاعری اور افسانے، جابر بن حیان کی تعریفیں… بس یہی کچھ تو ہم اپنے بڑوں سے سنتے آرہے ہیں۔ کہتے ہیں جابر بن حیان پہلے مسلم سائنس دان تھے۔ اگر یہ پہلے مسلم سائنس دان تھے تو ہم کیا کریں! آخر یہ لکیر کب تک پیٹی جائے گی! اور سب سے اہم بات تو یہ کہ سائنس سے متعلق ان کی خدمات کا ذکر سائنس کی کتاب میں ہونا چاہیے۔ گندھک، تیزاب اور پارے کا اردو کے نصاب سے کیا واسطہ! دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے اور ہم ہیں کہ بجائے خود کچھ کرنے کے، اپنے سائنس دانوں کی یادوں میں کھوئے ہوئے ہیں، بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی مکھی پہ مکھی مارنے کا درس دیتے چلے جارہے ہیں۔ اگر زبان نے واقعی اتنی ترقی کرلی ہے تو پھر میر درد، مرزا غالب اور میر تقی میر کے علاؤہ کسی نئے شاعر و افسانہ نگار کو نصاب میں جگہ کیوں نہیں دی جاتی! اردو کو شخصیات کے گرد ہی گھمانا ہے تو اس کی ترقی کے دعوے کرنا خود فریبی نہیں تو اور کیا ہے!“
میرا یہ اصول ہے کہ جب بھی میرے بیٹے کا کوئی دوست اُس سے ملنے گھر آئے، یا وہ خود کہیں باہر جائے تو میری کوشش ہوتی ہے کہ اس سے باخبر رہوں، یعنی ان بچوں پر گہری نظر رکھوں تاکہ ان کے مشاغل میرے علم میں ہوں۔ میرے نزدیک یہی والدین کا فرض ہے اور تربیت کا طریقہ بھی، اسی لیے میں اپنے بیٹے کے دوست زین کی ایک ایک بات برابر والے کمرے میں بیٹھا خاموشی سے سنتا رہا۔ خاصی دیر اردو پر دل کی بھڑاس نکالنے کے بعد جب وہ جانے لگا تو میں نے ان دونوں کو اپنے پاس بلا لیا اور ساتھ کتاب بھی منگوا لی تاکہ اُس کے دل میں اردو کے خلاف اٹھنے والے طوفان کو ٹھنڈا کرسکوں، اور پھر میرے لیے کسی نوجوان طالب علم کا یوں اردو سے متنفر ہونا لمحہ فکر سے کم نہ تھا، اس لیے سب سے پہلے میں نے مادری زبان کے بارے میں اُس کی جانب سے دیے جانے والے لیکچر پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے، اس لیے اسے سیکھنا ہماری اوّلین ترجیح ہونا چاہیے، جبکہ فضول باتوں کے بجائے اردو کی کتابوں پر خاص توجہ دینے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا: ”اگر تم نے سال بھر روزانہ ایک سوال بھی یاد کیا ہوتا تو اب تک ساری کتاب حفظ کرچکے ہوتے اور آج اس طرح باتیں نہ بگھار رہے ہوتے۔ روزانہ کتاب پڑھنا تو دور کی بات، اگر ایک ہفتے میں ایک سوال بھی یاد کرلتیے تو اچھے خاصے اردو دان بن جاتے۔ اگر تمہارے پاس میری باتوں کے مقابل کوئی دلیل ہے تو بتاؤ یا اپنی سچائی ثابت کرنے کا فارمولا پیش کرو، یا کوئی ایسا سوال پوچھو جو تمہیں پریشان کیے ہوئے ہے، شاید میں تمہاری کوئی مدد کرسکوں۔“
زین تو جیسے پہلے ہی پوری طرح تیار بیٹھا تھا، کہنے لگا: ”انکل کیا قومی زبان! کیسی اردو! پاکستان میں اس زبان کا نفاذ کہاں اور کب ہوا؟بدقسمتی سے پاکستان میں قومی زبان کو اپنا حق منوانے کے لیے اپنی ہی قوم سے لڑنا پڑرہا ہے، خود اپنے ہی لوگ اردو کو تعلیمی زبان نہیں بننے دیتے۔ میں اردو میں فیل ہورہا ہوں، اس کا مطلب بالکل بھی یہ نہیں کہ میں تاریخ سے واقف نہیں ہوں۔ میں اردو لکھنے میں ضرور کمزور ہوں لیکن حقائق سے پوری طرح واقف ہوں۔ میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ قیام پاکستان سے قبل1906ء میں وائسرائے ہند کے سامنے جو یادداشت پیش کی گئی اُس کا مطالبہ بھی اردو زبان کا تحفظ تھا۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی کی تعلیمی کانفرنس، لاہور کی ترقی پسند کانفرنس، پنجاب یونیورسٹی کے اہم عملی اقدامات اس امر کا ثبوت ہیں کہ اُس وقت تک قوم میں اردو کے لیے پورا جوش و خروش پایا جاتا تھا۔ اسی اثنا میں جب پاکستان سے کچھ اختلافی آوازیں اٹھیں تو قائداعظم نے مارچ 1948ء میں ڈھاکا پہنچ کر اعلان کیا کہ اردو ہی ملک کی سرکاری زبان ہوگی۔ اسی طرح 1954ء میں دستور ساز اسمبلی نے بھی مرحلہ اوّل میں اردو کا حقِ اوّل تسلیم کیا۔ 1969ء میں نور خان کی سربراہی میں ایک تعلیمی کمیشن بنایا گیا۔ نور خان کمیشن کی سفارشات پاکستانی قومیت کی روح کے عین مطابق تھیں، ان میں بھی انگریزی کے مقابلے میں اردو کا پلڑا بھاری رکھا گیا تھا، اور 1973ءکے آئین میں تو صاف صاف لکھا ہوا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہے، جبکہ پندرہ سال کے اندر اندر یعنی 1988ء تک اس کے نفاذ کے انتظامات مکمل ہوجانے چاہیے تھے۔ اب آپ ہی بتائیں اتنا کچھ ہونے کے بعد وہ کون تھا جس کی وجہ سے ملک میں اردو کا نفاذ نہ ہوسکا؟“
زین کی طرف سے نفاذِ اردو کے بارے میں جو کچھ کہا گیا اسے سننے کے بعد اُس کی معلومات پر مجھے کوئی حیرانی نہ تھی، کیوں کہ میں جانتا تھا کہ وہ جو کچھ بھی کہہ رہا ہے میرے نزدیک اس کی حیثیت رٹے رٹائے جملوں سے زیادہ کچھ نہیں، اس لیے اس کے دلائل سے متاثر ہونے کے بجائے میں نے کہا: ”یہ جو کچھ بھی تم نے میرے سامنے نفاذِ اردو سے متعلق بیان کیا وہ تمہاری رائے نہیں بلکہ ڈاکٹر سید عبداللہ کے لکھے مضمون کی جھلک تھی۔ جب تم دوسرے کو قائل کرنے کے لیے کسی کا لکھا گیا مضمون سنا سکتے ہو تو امتحان پاس کرنے کے لیے یاد کیوں نہیں کرتے؟“
لیکن وہ بھی کب ماننے والا تھا، کہنے لگا:
”پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے آپ کے سامنے جو تاریخ رکھی ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے، اور دوسرا یہ کہ اردو کے پرچے میں ایک سوال نہیں ہوتا بلکہ یہ خاصا بڑا ہوتا ہے، میرا مطلب ہے بس لکھتے ہی چلے جاؤ، اور پھر ایک پرچہ دے کر کوئی شاعر و ادیب بھی تو نہیں بن سکتا۔ اگر نئی نسل کو اردو سکھانی ہے تو پورا نظام تعلیم تبدیل کرنا ہوگا، اردو کو ذریعہ تعلیم بنانا ہوگا، تمام فنی یونیورسٹیوں اور دفاتر میں ہونے والے امتحانات، انٹرویو سمیت عدالتی سطح تک اردو ہی رائج کرنا ہوگی۔ ہمیں انگلش اسکولوں میں داخل کرواکر اردو کی بات کی جائے گی تو یہ ہمارے ساتھ زیادتی ہوگی۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ نعیم انکل کی والدہ ہمارے گھر اُن کے بیٹے عبداللہ کو لے کر آئی تھیں، امی نے عبداللہ کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگیں ”یہ میرا پوتا ہے“۔ جس پر عبداللہ نے دادی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ”میرا نام تو عبداللہ ہے، آپ پوتا کیوں بتا رہی ہیں؟“ دیکھا آپ نے، کس طرح کے جی ٹو کے بچے کی جانب سے دیے جانے والے جواب نے اسکولوں میں پڑھائی جانے والی اردو کی قلعی کھول کر رکھ دی! بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ آج کا بچہ 89 کو بھی نانی کی نواسی سمجھنے پر مجبور ہے۔ یہ ایک عبداللہ کا مسئلہ نہیں بلکہ ہر دوسرے بچے کا یہی حال ہے۔ سنا ہے ماضی میں سرکاری اسکولوں کی سطح تک تھوڑی بہت اردو پڑھائی جاتی تھی، آج جو لوگ اردو کا درس دے رہے ہیں وہ اُس وقت کہاں تھے جب نفاذِ اردو کے لیے دی جانے والی سفارشات پر حکومتوں نے کوئی عملی قدم نہ اٹھایا۔ انھی حکمرانوں کی تعلیم دشمن پالیسیوں کی وجہ سے نہ صرف سرکاری درس گاہیں ویران ہونے لگیں بلکہ اردو نصاب بھی اجنبی ہوتا گیا۔ ظاہر ہے جس معاشرے میں اردو میں بولے گئے رشتوں کی شناخت نہ ہو وہاں کتابوں میں لکھی گئی تحریروں کا مطالعہ کرکے کس طرح امتحان دیا سکتا ہے!“
زین بات کرتے ہوئے کسی فلسفی سے کم نہ لگتا تھا، اس کی باتیں سن کر میں نے بھی اپنے جوہر دکھانے کی ٹھان لی، میں نے کہا: ”جن محکموں اور درس گاہوں کا تم ذکر کررہے ہو وہاں اگر اردو کا نفاذ نہ ہوسکا تو دوسرے ذرائع سے بھی تو ہم اردو لکھنا پڑھنا بلکہ ادب سیکھ سکتے ہیں، مثلاً پڑھائی کے ساتھ ساتھ ادبی محفلوں میں شرکت کرنا، اردو مکالمے سننا، سالانہ بنیادوں پر ہونے والی ایسی کانفرنسوں میں شریک ہونا جہاں ہماری قومی زبان کی ترقی کے لیے ادیب، شاعر اور افسانہ نگار بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔ ایسی محافل سے کچھ نہ کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔“
لیکن یہاں تو مسئلہ ہی دوسرا تھا، یعنی زین نے ہر بات کا جواب دینے کی مکمل تیاری کر رکھی تھی، کہنے لگا: ”انکل یہ انٹرنیٹ کا دور ہے، آج کوئی بات چھپائی نہیں جا سکتی۔ میں یہ بھی اچھی طرح جانتا ہوں کہ ان محفلوں میں اردو کی ترقی کے لیے کسی قدر ”محنت“ کی جاتی ہے۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ ان تقریبات کے انعقاد سے اردو سے زیادہ منتظمین ترقی کرتے ہیں۔ ہر کسی کے سر پر اپنی شہرت کا ہی بھوت سوار ہوتا ہے۔ فروغِ ادب کے نام پر ادیبوں، شاعروں اور منتظمین نے باقاعدہ اپنے اپنے گروپ بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ سارا کام خودنمائی کے لیے کیا جاتا ہے۔ اگر آپ کو میری بات پر یقین نہیں تو ملک میں ہونے والی کسی بھی کانفرنس یا مشاعرے میں جاکر دیکھ لیں، ساری حقیقت عیاں ہوجائے گی۔ یہاں بھی ذاتی مراسم کی بنیاد پر ہی دعوت نامے تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ان مجالس میں شرکت کرنے والوں کو اردو سے زیادہ اپنی ذاتی ترقی کی خواہش ہوتی ہے۔ انہیں اردو کتنی عزیز ہے خوب جانتا ہوں، ان کی اردو سے محبت کا یہ عالم ہے کہ یہ ایک دوسرے کی بات تک سننے کو تیار نہیں ہوتے۔ اگر کوئی نوجوان اپنے خیالات کا اظہار کررہا ہو تو خود کو بڑا کہلانے والے شاعر و ادیب پنڈال سے باہر چائے کی چسکیاں لینے میں مصروف ہوتے ہیں، جبکہ ان کے اپنے گروپ کا کوئی مقالہ نگار یا شاعر اپنا نقطہ نظر پیش کرے تو سب واہ واہ کرنے لگتے ہیں، یعنی وہ خود تقاریر کرتے اور خود ہی سنتے ہیں اور ایک دوسرے کو کامیابی کی مبارک باد دے کر اپنے تئیں خوش ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بچپن میں کھیلا جانے والا آپا بوا کا وہ کھیل ہے جو آپ کو اردو زبان کی ترقی کے نام پر منعقد کی جانے والی ہر کانفرنس میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اگر حاضرین کی بات کی جائے تو وہ بھی اسی سکّے کا دوسرا رخ ہوتے ہیں۔ بس اسی فارمولے پر عمل کرتے ہوئے قومی زبان اردو کو دنیا بھر میں متعارف کروانے کی کوشش کی جارہی ہے، جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ کالج اور یونیورسٹی کے طلبہ کو ایسی نشستوں میں مدعو کیا جائے تاکہ اسی بہانے اُن کی کچھ نہ کچھ تربیت ہوسکے اور اردو کے بارے میں ان کے نظریات درست ہوسکیں۔ میرے نزدیک زبان کے نفاذ اور اسے دنیا میں متعارف کرانے کا تعلق ملک کی معاشی صورت حال سے ہوتا ہے۔ دنیا بھر کے وہ ممالک جہاں ان کی اپنی زبان رائج ہے، معاشی طور پر خاصے مضبوط ہیں۔ اگر ہمارا ملک بھی معاشی ترقی میں نمایاں مقام حاصل کرلے تو دنیا ہم سے ہماری زبان میں ہی رابطہ کرنے پر مجبور ہوگی۔ تبھی تو مختلف ممالک کے سربراہانِ مملکت نے اپنے ساتھ ترجمان تک رکھے ہوتے ہیں۔ زمانے کی ریت یہی ہے اور یہی حقیقت بھی۔ ملکوں کے درمیان آپس کی دوستیاں اپنی اپنی غرض پر ہوتی ہیں، لہٰذا ہمارے ہاں نفاذِ اردو کی کوششیں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتیں جب تک ہم معاشی طور پر مضبوط نہ ہوجائیں۔ اور اگر واقعی نئی نسل کو اردو کی طرف راغب کرنا ہے تو معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ اپنے نظام تعلیم پر بھی خاص توجہ دینا ہوگی، میرا مطلب ہے کہ دُہرا نظام تعلیم ختم کرکے ایک ہی سمت کا تعین کرنا ہوگا۔ آدھا تیتر آدھا بٹیر نہیں چل سکتا۔ اس کے لیے فوری طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔“
اب تو زین کی باتوں سے میں بھی حیران تھا۔ وہ لفّاظی میں تو پاس ہوچکا تھا لیکن میٹرک کا ہونے والا اردو کا پرچہ ابھی باقی تھا جس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے اُسے کتاب کو ہی پڑھنا ہوگا۔ اس لیے میں کسی طور بھی اس کی حوصلہ افزائی نہیں کرسکتا تھا، لہٰذا میں نے اُسے دل لگا کر پڑھتے رہنے کا مشورہ دے کر ڈھیروں دعاؤں کے ساتھ روانہ کردیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نتیجہ آتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ اس مرتبہ زین ضرور پاس ہوجائے گا-

حصہ