ـ10 نقشوں کی دنیا

379

دنیا کو سمجھنے اور سمجھانے کے بہت سے طریقے ہیں۔ آج تک جو کچھ ہوتا آیا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے تجزیے کی بنیاد پر ہم ایک اندازہ قائم کرسکتے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ یہ دنیا حالات و واقعات سے عبارت ہے۔ تاریخ کے بارے میں ایک تصور یا نظریہ یہ ہے کہ کچھ بھی الل ٹپ نہیں ہوتا یعنی تمام بڑے اور نمایاں حالات و واقعات کو سمجھا جاسکتا ہے، اُنہیں آپس میں جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے۔ تاریخ کے ریکارڈ پر گہری نظر رکھنے والے جب معاملات کو آپس میں جوڑتے ہیں تب کسی بھی بڑے واقعے کی ایک واضح تصویر بنتی ہے اور اس تصویر کے آئینے میں بہت کچھ سمجھا جاسکتا ہے۔
برطانیہ کے 63 سالہ ٹم مارشل ایک انوکھے انداز سے دنیا کے بڑے واقعات اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کا تجزیہ کرنے والے صحافی اور مبصر ہیں۔ انہوں نے برسوں برطانیہ کے ادارے بی بی سی اور امریکا کے میڈیا گروپ اسکائی نیوز کے لیے خدمات انجام دیں۔ آج کل وہ لندن میں اپنی ویب سائٹ thewhatandthewhy.com چلا رہے ہیں۔ اس ویب سائٹ کے لیے وہ ایڈیٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ٹم مارشل نے جنگی محاذوں پر جاکر ایک کتاب لکھی ہے جس کا عنوان ہے ’’پریزنرز آف جیوگرافی : ٹین میپس دیٹ ایکسپلین ایوری تِھنگ اباؤٹ دی ورلڈ‘‘ ہے۔ اس کتاب کے ذریعے انہوں نے یہ حقیقت آئینے کی طرح ہمارے سامنے رکھی ہے کہ محض تاریخ ہی نہیں بلکہ جغرافیہ بھی ملک کے حال اور مستقبل پر غیر معمولی حد تک متاثر ہونے کی سکت کا حامل ہے۔
ٹم مارشل اگرچہ دفاعی امور کے رپورٹر یا تجزیہ کار نہیں تاہم وہ جنگی محاذوں پر فوجیوں کے درمیان رہتے ہوئے رپورٹنگ کے عادی رہے ہیں۔ کسی بھی ملک کے زمانۂ امن اور زمانۂ جنگ کے جغرافیائی حالات اور اُس ملک کی سرحدوں اور پڑوسیوں کے حالات کی روشنی میں وہ اُس ملک کے لیے رپورٹنگ اور تجزیہ کرنے کے شوقین اور ماہر ہیں۔ ٹم مارشل نے اس نکتے پر بہت تحقیق کی ہے کہ کسی بھی ملک کو اُس کی جغرافیائی خصوصیات بہت حد تک محفوظ رکھتی ہیں۔ پہاڑی سلسلے، میدان، کھائیاں اور دیگر قدرتی وسائل کسی بھی طاقتور ملک کے حملوں سے کمزور ممالک کو محفوظ رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے جان جوکھم میں ڈال کر بوسنیا، کروشیا، کوسووو، افغانستان، عراق، شام اور اسرائیل میں خطرناک حالات میں رپورٹنگ کی ہے۔ ٹم مارشل نے اپنی کتاب میں چین، روس، ریاست ہائے متحدہ امریکا، مغربی یورپ، مشرقِ وسطٰی، پاکستان و بھارت، جزیرہ نما کوریا و جاپان، لاطینی امریکا اور انٹارکٹیکا کے نقشوں کی مدد سے دنیا کو بتایا ہے کہ ماضی، حال اور مستقبل کے لیے یہ تمام خطے زائچے کا درجہ رکھتے ہیں۔
’’پریزنرز آف جیوگرافی‘‘ کے ابتدائی صفحات میں ٹم مارشل نے خاصے ہلکے پھلکے انداز سے لکھا ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن راسخ العقیدہ مسیحی ہیں اور وہ باقاعدگی سے آرتھوڈوکس چرچ جاتے ہیں۔ وہ روزانہ رات کو سوتے وقت دعا مانگتے ہوئے خدا سے یہ شکوہ ضرور کرتے ہوں گے کہ اُس نے یوکرین اور یورپ کے درمیان پہاڑی سلسلہ کیوں نہ رکھا! کوئی بڑا پہاڑی سلسلہ نہ ہونے کے باعث مغربی یورپ کے ممالک بہت سے آسانی سے ہتھیار اور دوسری ضروری اشیا یوکرین پہنچاسکتے ہیں۔ امریکا جیسے دور افتادہ ملک کے لیے بھی اس بیس (مغربی یورپ) سے روس پر حملہ کرنا بہت آسان ہے کیونکہ روس کو محفوظ رکھنے والا کوئی پہاڑی سلسلہ موجود نہیں۔ ٹم مارشل نے یہ کتاب یوکرین پر روس کی لشکر کشی سے قبل لکھی ہے مگر پھر بھی انہوں نے روس کے مقابل یوکرین کو حاصل ہونے والے جغرافیائی فوائد گِنوائے ہیں۔
یونان، فارس، بابل، روم اور اُس سے پہلے کی استعماری قوتوں کے لیے پوری دنیا کو یا پھر فیصلہ کن حد تک دنیا کے کئی خطوں پر تصرف قائم کرنا اس لیے ممکن نہ ہوسکا تھا کہ ان تمام خطوں کو اِن کا محلِ وقوع اور قدرتی وسائل تحفظ فراہم کرتے تھے۔ بہت سے ممالک ہر طرح کے حالات میں اپنے لیے ترقی اور خوش حالی کی راہ ہموار کرنے میں کامیاب رہتے ہیں جبکہ دوسری طرف بہت سے ممالک زرخیز زمین، اچھا محلِ وقوع اور دیگر بہت سے فوائد حاصل ہونے پر بھی زیادہ کامیاب نہیں رہتے اور خوش حالی کی منزل سے دور رہتے ہیں تو اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ان ممالک کو بعض جغرافیائی خصوصیات پریشان رکھتی ہیں۔ تعلیم کی کمی اور افلاس کے باعث معاشرے غیر مہذب ہوتے جاتے ہیں، باہمی کشمکش بڑھتی جاتی ہے اور یوں سفاکی کا دائرہ بھی وسعت اختیار کرتا جاتا ہے۔
بعض ریاستوں کو زرخیز زمین، دریا، جھرنے، پہاڑ، میدان اور سمندر ملے ہوئے ہیں۔ اُن کے لیے ترقی کرنا اور عمومی خوش حالی یقینی بنانا قدرے آسان ہے۔ بعض جغرافیائی کمزوریوں کو دور کرنے میں ٹیکنالوجی کلیدی کردار ادا کرتی ہے تاہم یہ حقیقت بھی اٹل ہے کہ ہم جس سرزمین پر رہتے ہیں یا اپنے بچوں کو پالتے ہیں وہ ہمارے ساتھ ساتھ دنیا پر بھی مختلف سطحوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔
کسی بھی خطے، ملک یا ملک کے کسی بھی حصے میں واقع پہاڑ، میدان، ندی نالے اور زمین کی نوعیت یہ طے کرتی ہے کہ متعلقہ باشندے کیا کرسکتے ہیں اور کیا نہیں کرسکتے۔ قدرتی وسائل ہی طاقتور دشمن کے خلاف بھرپور دفاع کی گنجائش بھی فراہم کرتے ہیں۔ بھارت کی مثال دیتے ہوئے ٹم مارشل نے لکھا ہے کہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے اور سخت سرد ماحول بھارت کو چین اور دیگر ممالک کی طرف سے کسی بھی حملے سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ ایسا جغرافیہ ہے جو نئی تاریخ کو واقع ہونے نہیں دیتا۔ اِسی طور پاکستان اور بھارت کے درمیان چولستان اور کچھ کے ریگستان بھی دونوں ممالک کو خطرناک ارادوں پر عمل سے باز رکھنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ بھارت کو برداشت کرنے کے موڈ میں نہ ہونے پر بھی چین اب تک صرف ایک بار (1962 میں) جنگ لڑ سکا ہے۔ چین کو جنگی ارادوں پر عمل سے باز رکھنے میں ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ ہی فیصلہ کن کردار کا حامل رہا ہے۔
متعدد ممالک ایسے ہیں جن کے لیے دریاؤں نے مضبوط و محفوظ سرحد کا کردار سنبھالا ہوا ہے۔ بعض ممالک کا محلِ وقوع ایسا ہے کہ وہ دشمن کو بہت دور سے دیکھ لیتے ہیں اور پھر متعلقہ حکمتِ عملی بھی تیار کرلیتے ہیں۔ یوں وہ پہلے حملہ کرنے کی پوزیشن میں آجاتے ہیں۔
ٹم مارشل نے لکھا ہے کہ نائن الیون کے بعد جب امریکا اور یورپ نے مل کر افغانستان میں طالبان سے مقابلے کے لیے شمالی اتحاد قائم کیا تب وہ شمالی اتحاد کی افواج کے ساتھ تھے۔ امریکا اور یورپ کی افواج کے پاس جدید ترین ہتھیار اور دیگر متعلقہ ساز و سامان تھا۔ طالبان کو ختم کرنا بظاہر اُن کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوسکا۔ مزار شریف کے بیس سے امریکی طیارے طالبان پر حملوں کے لیے اڑان بھرتے تھے تب میں نے دیکھا کہ شدید طوفانِ گرد و باد اُن کے مشن ناکام بناتا تھا۔ بعض اوقات تو محض ایک فٹ کے فاصلے پر دیکھنا ممکن نہ ہوتا تھا۔ افغان فوجیوں کے لیے یہ حالات پریشان کن تھے نہ غیر متوقع۔ مغربی ممالک کے فوجیوں کی سمجھ ہی میں کچھ نہ آتا تھا کہ کیا کریں۔ اس نوعیت کے طوفانِ گرد و باد میں امریکا کی جدید ترین سیٹلائٹ ٹیکنالوجی بھی ناکام ثابت ہوتی تھی۔ طوفانِ گرد و باد کے بعد جب بارش ہوتی تھی تو پورا افغانستان جیسے کیچڑ اور دلدل میں تبدیل ہوتا دکھائی دیتا تھا۔ کئی بار ایسا ہوا کہ امریکا کے فوجی ٹھکانے بھی موسمی حالات کی نذر ہوگئے۔ کہیں کہیں تو تیزی آندھی سے فوجیوں کے خیمے اڑ گئے اور سامان تباہ ہوگیا۔ جغرافیائی خصوصیات اور موسمی حالات کی پیدا کردہ مشکلات ہی نے امریکا اور دیگر اتحادیوں کو مجبور کیا کہ اپنے فوجی واپس بلائیں۔ یہ فوجی شدید گرمی اور شدید سردی کا سامنا کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے۔ اِن کے اپنے ممالک کی موسمی کیفیت کچھ اور تھی۔ افغانستان میں اُنہیں انتہائی نوعیت کی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ امریکا کو افغانستان میں شدید جانی نقصان بھی برداشت کرنا پڑا ہے۔ اب امریکی قیادت کی سمجھ میں یہ بات آچکی ہے کہ اتنی دور سے آکر اِن خطوں میں قدم جمانا ممکن نہیں اور جنگی ساز و سامان کی نقل و حمل میں بھی غیر معمولی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چین نے اب تک سارا زور معاشی ترقی پر دیا ہے۔ اب وہ سمندروں پر زیادہ سے زیادہ حکمرانی کی خواہش پر عمل پیرا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد تجارتی راہداریوں کو محفوظ بنانے کے ساتھ ساتھ امریکا اور یورپ پر حملوں کے لیے اپنی پوزیشن بہتر بنانا بھی ہے۔ امریکا کے بارے میں بلا خوفِ تردید کہا جاسکتا ہے کہ وہ دنیا کے تمام ممالک سے زیادہ محفوظ ہے اور اس کا بنیادی سبب اس کا محلِ وقوع ہے۔ دنیا کے نقشے پر امریکا کو دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ یورپ، روس اور چین کے لیے کئی سمندر پار کا چیلنج ہے۔ کسی بھی ملک کی بحریہ کے لیے امریکا کو نشانہ بنانا آسان نہیں اور بری افواج کے لیے تو تقریباً ناممکن ہے۔ امریکا کو دونوں طرف سے بحرالکاہل اور بحرِ اوقیانوس کی اوٹ ملی ہوئی ہے۔
بعض ممالک کا معاملہ یہ ہے کہ ان سے کسی کی جنگ نہیں ہوتی اور جغرافیائی خصوصیت کی بنیاد پر اُن کا کوئی دشمن بھی نہیں ہوتا۔ غیر معمولی قدرتی وسائل سے مالا مال اور ترقی یافتہ و خوش حال ہونے کے باوجود کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سوئیڈن، ناروے، انڈونیشیا وغیرہ متعدد خطوں اور قوتوں کے درمیان جاری مناقشوں سے دور رہتے ہیں۔ دوسری طرف افریقا سے قدرت روٹھی ہوئی ہے۔ یہ پورا خطہ افلاس، غذائیت کی کمی، تشدد، لوٹ مار، قتل و غارت اور وبائی امراض سے اَٹا ہوا ہے۔
ٹم مارشل نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سب سے پہلے برطانوی حکمرانوں نے اس بات کو بھانپ لیا تھا کہ دو ممالک کے درمیان فساد کی بنیادی نقشہ بھی ہوسکتا ہے۔ جن خطوں میں ممالک کے درمیان واضح سرحدیں نہیں تھیں وہاں طاقت کے ذریعے برطانوی سلطنت نے سرحدیں قائم کیں، ملکوں کے ٹکڑے کیے اور اس کی ایک عمدہ مثال ہندوستان کی تقسیم اور اُس کے نتیجے میں پاکستان کا معرضِ وجود میں آنا بھی شامل ہے۔ بعد میں پاکستان کے دو ٹکڑے ہوئے اور بنگلا دیش قائم ہوا۔ اگر پاکستان نہ بنا ہوتا تو بھارت بہت حد تک چین کو بھاری پڑ جاتا۔ ایسے میں امریکا اور یورپ کے اسلحہ ساز اداروں کا بزنس ٹھنڈا ٹھار رہتا اور مشرقِ وسطٰی کی بھی وہ کیفیت نہ ہوتی جو اس وقت ہے۔ جزیرہ نما کوریا کے دو ٹکڑے کرکے پورے خطے کو اُبلتی ہوئی پتیلی جیسی حالت میں رکھنا بھی انسانوں کے بنائے ہوئے نقشے ہی کا کمال ہے۔
بعض ممالک اور خطے اس قدر عجیب محلِ وقوع کے واقع ہوئے ہیں کہ اُنہیں عالمی سیاست و معیشت کی لڑی میں آسانی سے پرویا نہیں جاسکتا۔ جاپان ترقی یافتہ ہے، غیر معمولی دھن دولت کا مالک ہے مگر اِس جزیرے پر قدرتی وسائل برائے نام ہیں۔ دوسری طرف جنوبی امریکا ایسے خطے میں واقع ہے کہ دنیا بھر میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس سے یہاں کے ممالک کا جیسے کچھ لینا دینا ہی نہ ہو۔ عالمی سیاست و معیشت میں جنوبی امریکا کی پوزیشن نہ ہونے کے برابر ہے۔
اور آخر میں انٹارکٹیکا۔ بحرِ منجمد کو اب تک نظر انداز کیا جاتا رہا ہے مگر اب بڑی طاقتیں اس خطے پر بھی نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ اس خطے میں قدرتی، معدنی وسائل بہت بڑے پیمانے پر ہیں۔ اب اس خطے پر تصرف کے لیے لڑائیاں ہوں گی۔
قدرت نے ہمارے لیے جو نامساعد حالات پیدا کیے ہیں وہ دراصل چیلنج ہیں۔ اب ایسی ٹیکنالوجیز آچکی ہیں جن کی مدد سے قدرت کی پیدا کردہ رکاوٹوں کو بھی ایک طرف ہٹایا جاسکتا ہے۔ میزائل پہاڑوں کے اوپر سے گزرتے ہوئے کسی بھی مقام کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ پہاڑوں میں راستے بنانا بھی اب ممکن ہوچکا ہے۔ شدید گرمی کا عمدگی سے سامنا کرنے کے لیے ایئر کنڈیشنرز ہیں جبکہ خون منجمد کردینے والی سردی کا سامنا ہیٹرز کے ذریعے کامیابی سے کیا جاسکتا ہے۔
ٹم مارشل کہتے ہیں کہ جغرافیائی سطح پر جو کچھ پایا جاتا ہے اُسے محض جنگ کے نقطۂ نظر سے دیکھنا درست نہیں۔ جنگ تو کبھی کبھار ہوتی ہے اور کبھی کبھی تو طویل مدت نہیں ہوتی۔ کسی بھی ریاست یا معاشرے کے لوگوں کی اچھی زندگی، کام کرنے کی مثالی صلاحیت و سکت، خوش حالی، زندگی کی ہماہمی سبھی کچھ درحقیقت جغرافیے پر منحصر ہوتا ہے۔ جن علاقوں کا موسم معتدل رہتا ہو وہاں کے لوگوں میں ذہانت بھی زیادہ ہوتی ہے اور وہ زندگی کو بھرپور جوش و خروش کے ساتھ بسر کرنے کے معاملے میں بھی بہت نمایاں رہتے ہیں۔ تاریخ اور فطری علوم و فنون کی سمت اور حالت دونوں کا تعین حتمی تجزیے میں جغرافیہ ہی کرتا ہے۔ اپنی ایوارڈ یافتہ کتاب ’’وھائے نیشنز فیل‘‘ میں بھی ٹم مارشل نے جغرافیہ کے کردار پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بہت سی سپر پاورز کو جغرافیہ ہی نے ناکامی سے دوچار کیا ہے۔

حصہ