برطانیہ :غربت میں ریکارڈ اضافہ

606

برطانیہ اس وقت تاریخی شرح افراط زر کی لپیٹ میں ہے، افراط زر کی شرح 40 سالہ تاریخ کا ریکارڈ توڑ چکی ہے اور حکومتی دعوے جو کہ 6 فیصد کے تھے یہ شرح اس کے برخلاف 9 فیصد تک جب کہ چند ذرائع کے مطابق 10 فیصد تک جاچکی ہے اور تاحال اس میں کمی کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آتا۔ برطانیہ میں اب اشیاء خورونوش کی بلند ترین قیمتوں کہ وجہ سے فوڈ فاؤنڈیشن کے اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 73 لاکھ افراد غذائی قلت کا شکار ہیں یعنی کہ وہ دن میں ایک بار ھی کھانا کھاسکتے ہیں۔ ان میں 26 لاکھ بچے اور 47 لاکھ بڑے شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق اس میں 57 فیصد کا اضافہ چند دنوں میں نوٹ کیا گیا۔ اس رپورٹ کے اعداد وشمار نہ صرف تکلیف دہ ہیں بلکہ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی چکا چوند کا پردہ بھی چاک کررہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 12.8 فیصد گھرانے جو کہ 68 لاکھ پر مشتمل ہیں مکمل پیٹ بھر کر کھانا کھانے یا کھانے کو ایک وقت کھانے پر مجبور ہیں اور اس کی بنیادی وجہ اشیاء خورونوش کی بلند ترین قیمتیں ہیں۔ جبکہ 8.8 فیصد گھرانے جو کہ 46 لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہیں بھوک لگنے کے باوجود پیٹ بھر کر کچھ نہیں کھا پارہے کیونکہ ہر چیز ان کی دسترس سے باہرہے۔ سب سے زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ 24 لاکھ کے قریب افراد مکمل فاقہ کشی کا شکار ہیں۔
بچوں کی غذائی قلت یا کم غذا ملنے کی شرح بھی اب بڑھ کر 17.2 فیصد تک چلی گئی ہے اور 18 سال سے کم عمر 26 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکارہوچکے ہیں۔
برطانیہ میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں روز اضافہ نہیںہوتا اور بنیادی اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں حکومت تبدیلی نہیں کرنے دیتی یا اس میں معمولی سا اضافہ ہوتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر صرف اس سال میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں بھی 5.9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ نہ صرف اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ بلکہ اس کے علاوہ بجلی‘ گیس کی بلوں میں 58 فیصد ہوش ربا اضافے نے غریب و متوسط طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اس وقت برطانیہ اپنی معاشی تاریخ کے بد ترین دور سے گزر رہا ہے‘ اس کی ایک وجہ کورونا کے باعث بڑی تعداد میں حکومت کی جانب سے کرنسی کا چھاپنا اور دوسری جانب عالمی سرمایہ داروں کی جانب سے دوران کورونا سے ہونے والے نقصانات کی سود سمیت واپسی ہے جس کے باعث عالمی کساد بازاری کی صورت حال پیش آرہی ہے۔ اسی دوران برطانیہ کی بڑی توانائی کمپنیوں نے اپنے منافع کا اعلان کیا یہ اعلان سال گزشتہ یعنی 2021 کے کاروبار پر تھا جب کہ حکومت نے بجلی اور گیس کی قیمتوں کو منجمد کردیا تھا۔ شیل پیٹرولیم کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق کمپنی نے سال 2021 میں 14.2 ارب برطانوی پاونڈ منافع کمایا جب کہ سال 2020 میں یہ منافع 3.57 ارب برطانوی پاونڈ تھا یعنی صرف ایک سال میں تقریباً 400 فیصد اضافہ، اب جب کہ توانائی کی قیمتوں میں کم از کم 54 فیصد اضافہ ہوا تو اس سال یعنی 2022 میں منافع کی یہ شرح 400 فیصد سے بھی زائدہوسکتی ہے۔
اس وقت برطانیہ میں صورت حال یہ ہے کہ برطانوی باشندے گیس اور بجلی کے استعمال میں اس قدر محتاط ہو چکے ہیں کہ تین اور چار کمروں کے گھر میں رہنے والے ایک کمرے تک محدود ہو چکے ہیں تاکہ بلاوجہ پورے گھر کو گرم رکھنے کے لیے گیس استعمال نہ کی جائے۔ برطانوی بزرگ پینشنرز بد ترین صورت حال کا شکار ہیں کہ جہاں ان کو اب بنیادی اشیائے خورونوش کے لیے بھی جدوجہد کرنی پڑرہی ہے۔ حکومت کی جانب سے جاری کردہ پنشن میں اب ان کا گزارہ تقریباً ناممکن ہے۔ برطانوی ریڈیو بی بی سی ریڈیو فور کے مطابق ایک بڑی تعداد میں ایسی خواتین جوکہ سنگل مدر کے طور پر زندگی گزار رہی ہیں وہ مہنگائی سے شدید متاثر ہیں اور ان کو بلا مبالغہ اب کھانے پینے کے بھی لالے پڑ گئے ہیں۔ ایک خاتون نے ریڈیو پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سنگل مدر ہے‘ اس کے دو بچے ہیں جب کہ وہ خود کام بھی کرتی ہے۔ گیس‘ بجلی کے بل اور کرایہ دے کر اس کے پاس صرف 60 پاؤنڈ ایک ہفتے میں باقی بچتے ہیں جوکہ اس کی اور بچوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی ناکافی ہیں۔
برطانوی حکومت اس وقت بدترین معاشی صورت حال کی وجہ سے شدید ترین دباؤ اور تنقید کی زد میں ہے۔ بھارتی نژاد وزیر خزانہ رشی سونیئر پر بھی شدید دباؤ ہے کہ وہ عوام کی بہبود کے لیے فوری طور پر ریلیف پیکج کا اعلان کریں۔ برطانوی پارلیمنٹ میں اب خود اراکین پارلیمنٹ اس بات کا اعلان کر رہے ہیں کہ لوگوں کو خوراک پہنچانے کے لیے وہ خود بھی اب فوڈ بینک قائم کررہے ہیں کہ جہاں سے غریب افراد کو مفت کھانا تقسیم کیا جائے گا۔ یاد رہے اس سے قبل یہ کام فلاحی تنظیمیں ہی کرتی تھیں لیکن شدید غربت کے شکار افراد کی تعداد میں اضافے کے بعد وہ بھی مکمل طور پر یہ سہولت فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔
صورت حال کی سنگینی کا مزید اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ برطانوی چیف انسپکٹر آف کانسٹبلری نے پولیس فورس پر زور دے کر کہا ہے کہ خوراک تک عوامی رسائی محدود ہونے کی وجہ سے خوراک کی چوری کو چوری قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ پولیس افسران کو از خود فیصلہ کرناہوگا کہ کسی فرد نے چوری محض بھوک مٹانے کے لیے کی ہے یا اس کے علاوہ بھی کوئی اور وجہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب جب کہ عام آدمی کو کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں تو پولیس کو بھی اس صورت حال کو مدنظر رکھنا ہوگا۔ اگر پولیس ہر کھانا چوری کرنے والے فرد پر مقدمہ درج کرے گی تو یہ قرین انصاف نہیں ہوگا۔ چیف نے عندیہ دیا کہ غربت میں اضافے کی وجہ سے جرائم کی شرح میں تین سو فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ عام آدمی کا اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے غیر قانونی اقدامات اٹھاناہوسکتی ہے۔
عالمی سرمایہ دارانہ نظام اب مغرب کی چکاچوند کرنے والی روشنی میں بھی اپنی حشر سامانیوں کے ساتھ اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام نے پہلے امیر کو مزید امیر اور غریب کو مزید غریب کیا‘ اب اس نظام نے غریب کے منہ سے نوالہ بھی چھین لیا ہے۔ یہ سب کچھ برطانیہ میںہو رہا ہے جو آج بھی اپنے آپ کو ایک سوشل ویلفیئر اسٹیٹ کہتا ہے شاید کہ امریکا اور دیگر ممالک میں اس سے بھی بدترین صورت حال ہو۔
سرمایہ دارانہ نظام کا سورج غروب ہونے کو تو ضرور ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کی جگہ کون سا نظام لے گا؟
یہ سوال تمام نظریاتی قوتوں کے لیے اہم ترین ہے کیوں کہ نظام کو نعرے نہیں بلکہ نظام ہی تبدیل کرتے ہیں اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے انسانی زندگی کو جس سطح پر پہنچایا ہے نئے نظام کو اپنی ابتدا اس سے بلند سطح سے کرنی ہوگی۔

حصہ