فسلطینی صحافی شیریں ابوعاقلہ کون تھیں؟

445

اسرائیل جانے والے پاکستانی صحافی شیریں کے قتل میں حصہ دار
اسرائیل کی قابض صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی جاری ہے، فلسطین میں ایسا کوئی دن نہیں گذرتا جب کسی علاقے میں فلسطینی اسرائیلی ظلم کا نشانہ نہ بنتے ہوں ۔ الجزیرہ کی 51 سالہ صحافی شیریں ابو عاقلہ کی موت بھی اس موت کے کھیل کا تسلسل ہے جو امریکا سمیت طاقت ور ممالک کی سرپرستی میں اسرائیل بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھے ہوے ہے۔فلسطین میں ظلم ہے ،دہشت ہے اور موت کا روزانہ رقص ہے ،جاں بحق صحافی شیریں ابو عاقلہ غربِ اردن کے شہر جنین میں اسرائیلی کارروائی کی رپورٹنگ کررہی تھیں کہ اسرائیلی فوج نے ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ان کے سر میں گولی ماردی۔ الجزیرہ کے مطابق گولی لگنے کے کچھ دیر بعد ہی شیریں کی موت ہو گئی تھی۔ اس کے علاوہ ایک اور فلسطینی صحافی جوان سال سمودی زخمی ہوئے جو روزنامہ القدس سے وابستہ ہیں۔اسرائیلی سفاکی اور دہشت گردی کا عالم یہ ہے کہ وہ خاتون صحافی شیریں ابو عاقلہ کا تابوت لے جانے والے جلوس پر بھی ٹوٹ پڑی،جس کے باعث بھگدڑ مچنے سے میت سمیت تابوت زمین پر گرگیا۔ اس دوران بھی جلوس کے شرکا نے اسرائیلی مظالم کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور مظاہرین کی فورسز سے جھڑپیں بھی ہوئیں۔
یروشلم کی رہائشی، شیریں ابو عاقلہ امریکی شہری تھیں۔ عقیدے کے اعتبار سے مسیحی شیریں نے جامعہ یرموک کے انجینئرنگ میں داخلہ لیا لیکن صرف ایک سال بعد شوق کی بنا پر وہ شعبہ صحافت میں آگئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کی آواز بننے کے لیے انہوں نے قلم سنبھالا ہے۔تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ فلسطین واپس آکر ریڈیو فلسطین سے وابستہ ہوگئیں اور 1997 میں انہوں نے الجزیرہ میں ملازمت کرلی۔ شیریں جامعہ یروشلم سے عبرانی زبان سیکھ رہی تھیں، ہونٹوں پر بکھری مسکراہٹ ان کا تعارف تھا اور ساتھیوں میں وہ شیریں تبسم (مسکراہٹ) کہلاتی تھیں۔ درندوں نے یہ لازوال مسکراہٹ ہمیشہ کے لیے خاموش کردی۔ غیر شادی شدہ شیریں نے ایک بھائی ٹونی ابو عاقلہ کو سوگوار چھوڑا ہے، انہوں نے 2008، کے بعد سے کئی موقعوں پر غزہ پر اسرائیلی حملوں کی رپورٹنگ کی تھی۔ الجزیرہ نے اسرائیلی فوج پر شیریں کے قتل کا الزام عائد کیا ہے اس نے ایک بیان میں کہا کہ شیرین ابو عاقلہ کو سرعام قتل کیا گیا ہے، بین الاقوامی برادری سے اس کے لیے اسرائیلی فورسز کو ذمے دار قرار دینے کی اپیل کی ہے۔

اسرائیلی بستیوں کے قیام کے لیے مقبوضہ عرب علاقوں میں فلسطینیوں کے مکانات مسمار کیے جارہے ہیں جس کے خلاف مشرقی بیت المقدس اورغرب اردن کے علاقوں میں شدید اشتعال پایا جاتا ہے۔ مظاہرین کو کچلنے کے لیے بھاری فوجی نفری تعینات کی گئی ہے۔ فوج کی فائرنگ سے درجنوں فلسطینی نوجوان شہید ہوچکے ہیں۔ الجزیرہ کے مطابق شیریں اور وہاں موجود تمام صحافیوں نے شناخت کے لیے پریس کی جیکٹ پہن رکھی تھیں، اس کے باوجود صہیونی دہشت گردوں نے ان کو نشانہ بنایا۔ ابھی جون21, میںبھی خاتون صحافی گیوارا بودیری کو اسرائیلی فورسز نے شیخ جراح کے علاقے سے حراست میں لینے کے کئی گھنٹوں کے بعد جب رہا کیا تھا تو انہوں نے بھی حفاظتی جیکٹ پہن رکھی تھی جس پر انگریزی میں پریس (PRESS) کے الفاظ واضح طور پر نظر آرہے تھے۔ اسرائیلی پارلیمان میں اٹھائے نکتہ ٔ اعتراض پر وضاحتی بیان دیتے ہوئے وزیر دفاع بینی گینٹز نے کہا کہ ابتدائی تحقیقات کے مطابق اسرائیلی فوج نے براہ راست شیریں کو نشانہ نہیں بنایا، جائے واردات کی فوٹیج میں اندھا دھند فائرنگ دیکھی جاسکتی ہے جس کی وجہ سے ہمارا خیال ہے کہ خاتون صحافی کسی دہشت گرد کی گولی کا نشانہ بنی ہے اور ایک قیمتی انسانی جان کے نقصان پر ہمیں افسوس ہے۔ بحث سمیٹتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے وزیر دفاع کے تجزئے سے اتفاق کرتے ہوئے اسرائیلی فوج کو مکمل حمایت کا یقین دلایا ہے۔ یعنی مزید تحقیقات کا دروازہ بند کردیا ہے۔ مقتدرہ فلسطین کی وزارت صحت نے اسرائیلی حکومت کی وضاحت کو مسترد کرتے ہوئے اِسے ایک خاتون صحافی کا بہیمانہ قتل قرار دیا ہے۔ فلسطینی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کے رویے سے خوفزدہ ہوکر عالمی نشریاتی اداروں نے اپنے عملے کو فلسطینی علاقوں سے ہٹالیا ہے اور صرف الجزیرہ کے چند صحافی یہاں موجود ہیں۔ سینئر صحافیوں شیریں ابو عاقلہ اور علی السمودی کو نشانہ بنانے کا مقصد یہاں موجود صحافیوں کو خوفزدہ کرنا ہے۔ ایک اور عینی شاہد خاتون صحافی شازیہ کا کہنا ہے کہ شیریں، علی اور میں ذرا بلندی پر کھڑے تھے۔ فلسطینی مظاہرین ہماری پشت پر اور اسرائیلی فوج ہمارے سامنے تھی۔ فوج نے نشانہ باندھ کر ہم تینوں کو نشانہ بنایا۔ شازیہ بھی چھرّے لگنے سے زخمی ہیں۔ یہ اسرائیلی دہشت گردی کا صحافت اور صحافیوں کے خلاف تسلسل ہے، گزشتہ سال اسرائیلی فوج غزہ میں الجزیرہ اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے دفاتر پر بمباری کرچکی ہے۔ اسی طرح گزشتہ سال ہی فلسطینی صحافیوں پر 260 سے زیادہ حملے کیے تھے، اور اس دوران اسرائیلی تشدد سے فلسطینی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد زخمی ہوئی تھی جب کہ کئی صحافی تشدد کے باعث مستقل معذوری کا شکار بھی ہوئے تھے۔ ابھی مئی 2021 میں غزہ کی پٹی میں ایسوسی ایٹڈ پریس اور الجزیرہ کے بیورو سمیت بین الاقوامی میڈیا کے دفاتر کی 11 منزلہ الجلا نامی عمارت پر بمباری کا واقعہ زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2000 سے اب تک 47 سے زیادہ صحافی مارے جا چکے ہیں اور ان کے قتل کا کسی کو بھی ذمے دار نہیں ٹھیرایا گیا جبکہ اسی طرح بغیر کسی احتساب کے تسلسل کے ساتھ صحافیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ صحافیوں کی عالمی انجمن آئی ایف جے اور فلسطینی صحافیوں کی تنظیم پی ایس جے نے شیریں کے قتل کو آزادی صحافت پر براہ راست حملہ قرار دیا ہے۔ حماس نے کہا کہ ابوعاقلہ کا قتل اسرائیلی قابض فورسز کا تازہ ترین جرم ہے، فلسطین کے صدر محمود عباس نے صحافی کی موت پر اسرائیل کی مشترکہ تحقیقات کو مسترد کرتے ہوئے، اسرائیل کو صحافی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کا ذمے دار قرار دیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بھی پیشہ ورانہ فرائض کی انجام دہی کے دوران اسرائیلی درندگی کا شکار بننے والی شیریں ابوعاقلہ کو شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ’’آنجہانی ایک بہادر اور سکہ بند صحافیہ تھیں۔ انہوں نے مشکل ترین حالات میں بھی اپنی ذمے داریاں انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں انجام دے کر شعبہ صحافت کے وقار میں اضافہ کیا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں خاتون صحافی کا قتل اس بات کا بین ثبوت ہے کہ تل ابیب آزاد میڈیا کی طاقت سے کس قدر خوفزدہ ہے۔ انہوں نے الجزیرہ نیوز چینل کی انتظامیہ اور آنجہانی کے لواحقین سے شیریں ابو عاقلہ کے لرزہ خیز قتل پر دلی تعزیت کا اظہار بھی کیا ہے””۔
ترک صدر اردوان نے کہا ہے کہ “”اسرائیلی حکومت کے فلسطینیوں پر مظالم اور ان کی نسل کشی پر چپ سادھنے والوں پر لعنت و ملامت بھیجتا ہوں۔”اسرائیلی حکومت کی جانب سے اپنے حقوق کی جنگ لڑنے والے نہتے درجنوں فلسطینیوں کو شہید کیے جانے پر ردِ عمل کا مظاہرہ کرنے والے صدرِ ترکی نے کہا کہ “حکومت ِ اسرائیل دہشت گردی کر رہی ہے، اسرائیل ایک دہشت گرد مملکت ہے، ترکی فلسطینی بھائیوں کا ساتھ دینے کے عمل کو پُر عزم طریقے سے جاری رکھے گا۔ “انہوں نے کہا کہ “اسرائیل نسل کشی کا مرتکب ہوا ہے، یہ انسانی المیہ، نسل کشی چاہے کسی کی بھی طرف سے کیوں نہ کی گئی ہو میں اس کے ذمہ داروں پر لعنت بھیجتا ہوں۔”۔ ایک ہی دن تین صحافیوں کو براہ راست گولی مارنے کے اس سنگین واقعے پر انسانی حقوق کی مقامی اور عالمی تنظیموں اور اسرائیل کے سرپرست امریکا کی خاموشی حیرت ناک نہیں لیکن افسوسناک ضرورہے۔اس گھنائونے جرم کی پوری ذمے داری قابض اسرائیلی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ اس وحشیانہ واقعے کا تقاضا ہے کہ اسرائیل کے خلاف بین الاقوامی سطح پر بھرپوری آواز اٹھائی جائے اور احتجاج کیا جائے۔لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ کسی صحافی تنظیم اور پریس کلب نے بھی اسرائیلی درندگی کے خلاف احتجاج نہیں کیا ،شاید اس کی وجہ یو ایس اِیڈاور صحافیوںکو ملنے والا وقتا فوقتا امریکی ویزا ہو۔حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن تحقیق طلب ضرور ہے۔ لیکن افسوس اور درد کے ساتھ یہ ہم نے یہ خبر بھی دیکھی کہ ہمارے کے کچھ اسلام اور ملک دشمن صحافی اسرائیل کا دور کرنے میں فخر محسوس کررہے ہیں اور احمد قریشی جیسے لوگوںکے لیے جواز فراہم کررہے ہیں، جس کی تفصیلات یہ ہیں کہ پاکستانی اور امریکی شہریوں پر مشتمل ایک وفد نے ان دنوں اسرائیل کا سات روزہ دورہ کیا ہے، جس میں اس نے اسرائیلی صدر اسحاق برتصوغ سمیت ملک کی اعلیٰ قیادت سے ملاقات کی تھی۔اور پی ٹی وی سے تعلق رکھنے والے احمد قریشی جن کی صحافت کی دنیا مین شہرت ہی اس بات کی ہے ہے کہ وہ ان صحافیوں میں سے جو امریکی پے رول پر ہیں ۔انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں دورے پر جو کچھ لکھا اسے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ کس قماش کے لوگ ہیں کہ ایسے وقت میں جب اسرائیل مستقل دہشت گردی کر رہاہے یہاں وہ کہہ رہے ہیں کہ “”مسجد اقصیٰ کے اندر اور اطراف کے حالات پرامن ہیں۔ صرف رمضان میں جمعے کے وقت کچھ ’عسکریت پسند گروپ‘ نماز تراویح کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسجد کی عمارت میں داخل ہوتے ہیں، ہلکے ہتھیاروں کی اسمگلنگ کرتے ہیں اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ تصادم کرتے ہیں۔ فلسطینی مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکنے کی ہمت کوئی نہیں کرتا۔””
جس پر مقبوضہ بیت المقدس سے تعلق رکھنے والی فلسطینی صحافی برادری نے کہا ہے کہ “” صحافی برادری کے وفد میں پاکستان کے سرکاری ٹی وی سے وابستہ پروگرام اینکر احمد قریشی اسرائیلی بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ ان کا یہ عمل شیرین کے قتل میں حصہ ڈالنے کے مترادف ہے۔ وہ ایسے وقت میں پاکستانیوں کے وفد کے ’صہیونی ریاست‘ کے دورے اور اس کے صدر سے ملاقات کی خبر پر صدمے سے دوچار ہے جب فلسطینی صحافی شیرین ابو عاقلہ کا قتل ہوا۔فلسطینی صحافتی گروپ نے بیان میں مزید کہا کہ فلسطین کی صحافی برادری حکومت پاکستان، سرکاری اور عوامی انجمنوں سے مطالبہ کرتی ہے کہ اسرائیل سے تعلقات بحال کرنے کے مرتکب وفد کے ارکان کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔فلسطین سے تعلق رکھنے والے صحافتی گروپ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’تعلقات بحال کرنے کی ان کوششوں سے اسرائیل کو فلسطینی عوام کے خلاف بالعموم اور میڈیا کے خلاف بالخصوص قتل اور دہشت گردی میں اضافے کا حوصلہ ملتا ہےاوراس اقدام سے القدس میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی مجرمانہ پالیسیوں سے ساز باز کی بو آتی ہے۔””فلسطینی صحافیوں کا غصہ بجا ہے ،اس دورے پر بہت کچھ کہا جاسکتا ہے لیکن کم سے کم یہ ہے کہ یہ مذہب،قوم ،ملت اور فلسطینوں  کے ساتھ  غداری ہے بدقسمتی سے سقوط غرناطہ سے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ تک ،بغداد کی تباہی سے دہلی کے زوال تک یہی ہماری تاریخ ہے کہ احمد قریشی جیسے مسلمانوں میں سے ہی بعض نے مسلمانوںکی پیٹ میں چھرا گھونپا ، جن کی ہر سطح پر مذمت کرنی چاہئیے اور شیریں ابوعاقلہ کو سلام پیش کرنا چاہئیے۔ یہ آج کےمیر جعفر اور میر صادق ہیں ۔ان کے لیے ہی اقبال نے کہا تھا :
جعفر از بنگال صادق از دکن
ننگِ ملّت، ننگِ دیں، ننگِ وطن

حصہ