قیصرو کسریٰ قسط(50)

213

نوکر گھوڑے کو اصطبل کے اندر لے گیا اور فسطینہ نے عاصم کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’ابا جان! بہت تھکے ہوئے تھے جب وہ بیدار ہوں گے تو میں انہیں آپ کے متعلق بتادوں گی‘‘۔
فسطینہ وہاں سے چل پڑی اور ایرج اُس کے ساتھ ہولیا۔ فیروز نے آگے بڑھ کر عاصم کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’آپ کو پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ایرج ایک انتہائی مغرور اور بدمزاج نوجوان ہے۔ اور اُس کا غرور بلاوجہ نہیں یہ ایران کے ایک انتہائی بااثر خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ لوگ اپنے ساتھ برابری کا دعویٰ کرنے والوں کو پسند نہیں کرتے۔ اگر اُس کے دل میں سین کا احترام نہ ہوتا تو یہ تلخ کلامی آپ کے لیے انتہائی خطرناک نتائج پیدا کرسکتی تھی‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’فیروز کیا تم بھی یہ کہنا چاہتے ہو کہ مجھے منہ پر طمانچہ کھا کر مسکرانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی؟‘‘۔
فیروز نے جواب دیا۔ ’’نہیں! میں یہ مشورہ دے رہا ہوں کہ آپ کو ایک اژدھے کے منہ میں ہاتھ دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے، کم از کم اس وقت تک جب تک آپ کے بازوئوں میں اُس کے جبڑے چیرنے کی قوت نہ ہو۔ میں جانتا ہوں کہ سین کی پناہ میں تمہیں کوئی خطرہ نہیں۔ ایران میں بہت کم لوگ اُس سے زیادہ بااثر ہیں۔ وہ شہنشاہ کا دوست ہے اور اس کے اثرورسوخ کا یہ عالم ہے کہ آج جب کہ سیکڑوں ایرانی عیسائی ہونے کے شبہ میں موت کے گھاٹ اتارے جارہے ہیں، بڑے سے بڑا مجوسی پیشوا بھی یہ اعتراض کرنے کی جرأت نہیں کرتا کہ سین کی بیوی عیسائی ہے۔ لیکن یہی اُس کی ایک ایسی کمزوری ہے جس سے کسی وقت بھی اس کے دشمن فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ تم اس بات پر حیران ہو کہ سین روم اور ایران کی لڑائی کا مخالف ہونے کے باوجود خوشی سے محاذ پر چلا گیا تھا۔ لیکن میرے لیے یہ بات کوئی معما نہیں میں جانتا ہوں کہ آج اس کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ اپنی بیوی کو شہنشاہ امراء اور سب سے زیادہ مجوسی کاہنوں کے عتاب سے بچانا ہے۔ اگر تمہیں اس سے کوئی ہمدردی ہے تو تمہاری کوشش بھی یہی ہونی چاہیے کہ تمہاری وجہ سے اس کا کوئی دوست دشمن نہ بن جائے اور ایرج ایک ایسا نوجوان ہے جس کی دشمنی اُس کے لیے خطرناک نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ عاصم نے فیروز کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’میں تمہارا شکر گزار ہوں اور تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ میری وجہ سے سین کو کسی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ میں احسان فراموش نہیں ہوں‘‘۔
جب عاصم اور فیروز یہ باتیں کررہے تھے۔ مکان کے کمرے میں یوسیبیا، ایرج اور اپنی بیٹی کی ناخوشگوار بحث سن رہی تھی۔
فسطینہ کہہ رہی تھی۔ ’’مجھے یہ توقع نہ تھی کہ آپ اُس آدمی کی توہین کریں گے۔ جس نے اپنی جان پر کھیل کر ہماری عزت بچائی ہے۔ اور آپ کو یہ کیسے خیال آیا کہ وہ گھوڑے پر سواری کرنا نہیں جانتا؟‘‘۔
اور ایرج اُسے مطمئن کرنے کے لیے کہہ رہا تھا۔ ’’فسطینہ! میں اُس سے دل لگی کررہا تھا اور ایک عرب کو اِس قدر حساس نہیں ہونا چاہیے تھا‘‘۔
یوسیبیا کچھ دیر اُن کی بحث سنتی رہی بالآخر اُس نے کہا۔ ’’ایرج! وہ ایک غریب الوطن ہے لیکن ہمارا محسن ہے۔ کم از کم تمہیں ہماری خاطر اُس کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہیے تھا‘‘۔
ایرج نے کہا۔ ’’مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ اُسے اتنی اہمیت دیتی ہیں۔ بہرحال فسطینہ کو معلوم ہے کہ اُس نے میرے ساتھ بھی کوئی رعایت نہیں کی۔ اگر ابھی تک اُس کے دل میں کوئی رنجش ہے تو میں جانے سے پہلے اُسے دور کرنے کی کوشش کروں گا‘‘۔
یوسیبیا نے کہا۔ ’’بیٹا! میں تمہاری شکر گزار ہوں اور اب فسطینہ کا گلہ بھی دور ہوجانا چاہیے‘‘۔
فسطینہ بولی۔ ’’امی جان! مجھے کوئی گلہ نہیں‘‘۔
سین کمرے میں داخل ہوا اور ایرج اور فسطینہ ادب سے کھڑے ہوگئے۔ سین نے اپنی بیوی کے قریب بیٹھتے ہوئے تھکی ہوئی آواز میں پوچھا۔ ’’عاصم ابھی تک نہیں آیا؟‘‘۔
فسطینہ نے جواب دیا۔ ’’جی! وہ آگیا ہے‘‘۔
’’اُسے یہیں بلالو، بیٹی‘‘۔
فسطینہ باہر نکل گئی اور سین نے ایرج کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’ایرج! بیٹھ جائو! تم کھڑے کیوں ہو‘‘۔
ایرج بیٹھ گیا اور سین نے قدرے توقف کے بعد کہا۔ ؔؔمیں بہت دیر سویا ہوں، تم نے آرام نہیں کیا؟‘‘۔
’’جی! میں نے بھی تھوڑی دیر آرام کرلیا تھا‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’میں نے تمہیں عاصم کے متعلق بتایا تھا؟‘‘۔
’’جی ہاں! اور میں ابھی اُس سے ملاقات بھی کرچکا ہوں۔ میرے خیال میں ایسے آدمی کو ہماری فوج میں ہونا چاہیے تھا۔
’’میں بھی یہ محسوس کرتا ہوں کہ وہ ایک اچھا سپاہی بن سکتا ہے‘‘۔ سین یہ کہہ کر یوسیبیا کی طرف متوجہ ہوا‘‘۔ میرے خیال میں اب تک وہ فارسی میں کافی دسترس پیدا کرچکا ہوگا‘‘۔
’’ہاں! وہ بہت ذہین ہے اور اگر اُس کا لب و لہجہ درست ہوجائے تو کسی کو یہ شک بھی نہیں گزرے گا، کہ وہ عرب ہے‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’عربوں کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے اور میں نے کئی ایسے تاجر دیکھے ہیں جو متعدد زبانوں میں بے تکلفی سے گفتگو کرسکتے ہیں‘‘۔
فسطینہ کمرے میں داخل ہوئی اور اپنی ماں کے قریب بیٹھ گئی لیکن عاصم تذبذب کی حالت میں دروازے کے باہر کھڑا رہا۔
سین نے فارسی میں کہا۔ ’’آئو! عاصم ہم تمہارا انتظار کررہے ہیں‘‘۔
وہ کمرے میں داخل ہوا اور سین کے اشارے پر ایرج کے قریب بیٹھ گیا۔
سین نے کہا۔ ’’میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ جنگی مہمات سے فارغ ہونے کے بعد میں اطمینان سے تمہارے مستقبل کے متعلق سوچوں گا اور تمہیں یہ سن کر خوشی ہوگی کہ جنگ اب ایک فیصلہ کن دور میں داخل ہوچکی ہے۔ غزہ کے سوا بحیرہ روم کے مشرقی ساحل کے تمام قلعے ہمارے قبضے میں آچکے ہیں اور اب ہماری فوجیں فلسطین میں داخل ہوگئی ہیں، جہاں دشمن کا سب سے بڑا حصار یروشلم ہے۔ رومی اب اپنی تمام قوت وہاں جمع کررہے ہیں۔ اور ہمیں یقین ہے کہ یروشلم میں شکست کھانے کے بعد وہ مشرق میں کسی اور محاذ پر ہمارا سامناکرنے کا حوصلہ نہیں کریں گے تو اس شہر پر قبضہ کرنے کی خواہش پوری ہونے کے بعد ہمارے شہنشاہ بھی شاید جنگ جاری رکھنے میں کوئی فائدہ نہ دیکھیں۔ مجھے صرف ایک رات کے لیے گھر ٹھہرنے کی اجازت ملی ہے اور کل میں یہاں سے روانہ ہوجائوں گا۔ اب میں تم سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر تمہیں کچھ مدت اور یہاں ٹھہرنا پڑے تو تم اداس تو نہیں ہوجائو گے؟‘‘۔
عاصم نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا۔ ’’اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کے ساتھ جانا چاہتا ہوں‘‘۔
فسطینہ کا چہرہ مسرت سے تمتما اُٹھا اور یوسیبیا حیرت زدہ ہو کر عاصم کی طرف دیکھنے لگی۔
عاصم نے کہا۔ ’’میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو کبھی ضرورت پڑے تو میں آپ کے خیمے پر پہرا دے سکوں‘‘۔
سین نے جواب دیا۔ ’’تم اپنے دوستوں کے خیموں پر پہرا دینے کے لیے نہیں بلکہ دشمن کے قلعوں پر فتوحات کر کےپرچم لہرانے کے لیے پیدا ہوئے ہو۔ مجھے خوشی ہے کہ میں نے تمہیں پہچاننے میں غلطی نہیں کی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ کسی دن میں تمہارے شجاعت آزما کارناموں پر فخر کرسکوں گا۔ لیکن اگر تم جنگ سے نفرت کرتے ہو تو تمہیں محض میری خاطر فوج میں شامل ہونے کا فیصلہ نہیں کرنا چاہیے۔ میں چاہتا ہوں تم اچھی طرح سوچ لو‘‘۔
’’میں نے بہت سوچا ہے‘‘۔ عاصم نے اطمینان سے جواب دیا۔
ایرج نے کہا۔ ’’تمہیں یہ بھی سوچ لینا چاہیے کہ لڑائی کے میدان میں عزت و ناموری کی طرف ہر نئے قدم کے ساتھ جان کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔ میں آرمینیا کی جنگوں میں دوبار زخمی ہوچکا ہوں اور میں نے میدان میں گرنے والے بڑے بڑے سورمائوں کو پانی کے ایک گھونٹ کے لیے ترستے دیکھا ہے‘‘۔
عاصم نے حقارت آمیز تبسم کے ساتھ اُس کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’آپ کو میرے متعلق پریشان نہیں ہونا چاہیے، میں گرتے وقت آپ سے پانی نہیں مانگوں گا‘‘۔
یوسیبیا نے مغموم لہجے میں کہا۔ ’’بیٹا! کہیں تمہارے دل میں یہ خیال تو نہیں آیا کہ اس گھر میں تمہاری ضرورت نہیں‘‘۔
’’نہیں‘‘۔ عاصم نے جواب دیا۔ ’’میں صرف یہ سوچتا ہوں کہ اس گھر کو اپنا گھر سمجھنے کے بعد مجھ پر کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں‘‘۔
سین سے کچھ دیر اور باتیں کرنے کے بعد عاصم جب باہر نکلا تو وہ ایسا محسوس کرتا تھا کہ اُس کے دل سے ایک بوجھ اُتر چکا ہے۔
O
اگلے دن طلوع آفتاب سے ایک ساعت قبل عاصم سفر کی تیاری کرچکا تھا۔ نوکر اصطبل کے سامنے گھوڑوں کی باگیں تھامے کھڑے تھے۔ لیکن سین اور ایرج ابھی تک باہر نہیں نکلے تھے۔ عاصم کچھ دیر باغ میں ٹہلنے کے بعد اپنے کمرے میں چلا گیا۔ نوکر ناشتا لے آیا اور وہ کھانے بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر بعد فسطینہ دبے پائوں کمرے میں داخل ہوئی اور وہ اپنے دل میں ناخوشگوار دھڑکنیں محسوس کرتے ہوئے اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔
وہ بولی۔ ’’مجھ کو ڈر تھا کہ آپ مجھے دیکھے بغیر چلے جائیں گے۔ رات سوتے وقت میرے ذہن میں کئی باتیں تھیں لیکن اب مجھے معلوم نہیں کہ میں کیا کہنا چاہتی ہوں‘‘۔
’’فسطینہ!‘‘ عاصم نے اپنی پریشانی پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارے والدین تمہارا یہاں آنا پسند نہیں کریں گے‘‘۔
وہ مسکرائی۔ ’’ابا جان یہ جانتے ہیں کہ اُن کے بعد آپ سے بڑھ کر میرا اور کوئی محافظ نہیں ہوسکتا اور امی جان کو بھی معلوم ہے کہ میں آپ کو الوداع کہنے آئی ہوں۔ ابھی اُن سے میرا جھگڑا ہوگیا تھا وہ کہتی تھیں کہ آپ کو جنگ سے نفرت ہے اور آپ صرف مجھے خوش کرنے کے لیے جنگ میں حصہ لینے جارہے ہیں‘‘۔
’’اور تم نے کیا کہا تھا؟‘‘۔
’’میں نے کہا تھا کہ ایک بہادر انسان جنگ سے خائف نہیں ہوسکتا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’تم واقعی اس سے خوش ہو کہ میں ایران کی فوج میں شامل ہورہا ہوں؟۔ تمہاری والدہ عیسائی ہیں اور میرا خیال ہے کہ تمہارا مذہب بھی اُن سے مختلف نہیں۔ مجھے ڈر ہے کل تم بھی مجھے ایک وحشی اور خونخوار انسان نہ سمجھنے لگو‘‘۔
فسطینہ نے جواب دیا۔ ’’میرے والد کسریٰ کے دوست ہیں۔ وہ ایران کے ایک نامور جرنیل ہیں اور میں فتوحات، شہرت اور عزت کے راستے میں اُن کا ساتھ دینے والوں کو وحشی یا خونخوار نہیں کہہ سکتی۔ میں جانتی ہوں کہ جب آپ چلے جائیں گے تو دمشق کا شہر میرے لیے سونا ہوجائے گا لیکن میں یہ بھی محسوس کرتی ہوں کہ آپ اس دنیا میں صرف میرے والد کے رفیق بن کر ہی کوئی قابل عزت مقام حاصل کرسکتے ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ جب کوئی آپ کا ذکر کرے تو میں فخر سے سر اونچا کرسکوں۔ جب آپ فتوحات کے پرچم لہراتے ہوئے واپس آئیں تو میں آپ کے راستے میں پھول نچھاور کروں۔ میرے لیے سب سے بڑی خوشی یہی ہوسکتی ہے کہ ایران میں کسریٰ اور میرے والد کے بعد آپ کا رتبہ سب سے بلند ہو اور میں یہ ثابت کرنا چاہتی ہوں کہ تم ایک عرب ہونے کے باوجود ایرج جیسے لگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ عزت اور احترام کے حق دار ہو‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’فسطینہ! مجھے عزت اور شہرت کی ضرورت نہیں۔ لیکن اگر تم میری قبا پر خون کے چھینٹے دیکھ کر خوش ہوسکتی ہو تو میں تمہیں مایوس نہیں کروں گا۔ جنگ کے میدانوں میں میری سب سے بڑی تمنا یہی ہوا کرے گی کہ میں کسی دن تمہارے ہونٹوں پر مسکراہٹ دیکھ سکوں۔ لیکن اگر میرے لیے واپسی مقدر نہ ہوئی تو کوئی تمہیں یہ طعنہ نہیں دے سکے گا کہ میں ایک بزدل کی موت مرا تھا‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ