وجود زن سے۔۔۔

263

عورت حقیقتاً کائنات کا حُسن، ایک ایسی ہستی جس کا ہونا نہ ہونا معنی رکھتا ہے۔ انسانی معاشرہ عورت اور مرد سے مل کر تخلیق پاتا ہے۔ ابتدائے آفرینش میں جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کیا تو آدم علیہ السلام کے ساتھ ان کی بیوی حضرت حوّا کو بھی وجود عطا فرمایا۔ ہر خاندان کی اکائی ایک مرد اور ایک عورت ہے۔ اُن سے مل کے گھر بنتا ہے اور نسل آگے چلتی ہے۔ عورت اور مرد گھر کی گاڑی کے دو پہیے تصور کیے جاتے ہیں۔
اللہ تعالی نے مرد و عورت دونوں کی ذمہ داریوں کے دائرے متعین کر دیے ہیں۔ مرد عورت پر قوام ہے کیوں کہ گھر اور بیوی بچوں کی تمام تر ذمہ داری وہ اٹھاتا ہے۔ گھر سے باہر کے تمام کام اس کے دائرۂ اختیار میں آتے ہیں اور خواتین کے لیے حکم ہے کہ گھروں میں ٹک کے بیٹھو‘ گھر کی چار دیواری عورت کی اصل جگہ ہے‘۔ عورت بیٹی کی شکل میں وہ باپ کا فخر و غرور، بہن کی حیثیت میں بھائیوں کی غیرت کا نشان‘ بیوی بن کر شوہر کا وقار و افتخار اور ماں کی شکل میں تو جنت بھی اس کے قدموں تلے آ جاتی ہے۔شوہر جب گھر آئے تو اپنی مسکراہٹ اور بنائو سنگھار سے اس کا دل لبھائے، شوہر کی اطاعت و فرمانبرداری کرے‘ اپنے بچوں کی اچھی تربیت کرے‘ یہ سب اس کی ذمہ داریاں ہیں۔ بچے اس کے لیے اہم امتحان ہوتے ہیں، ان کی تعلیم و تربیت میں کسی بھی قسم کی کوتاہی کا وہ سوچ بھی نہیں سکتی۔ اچھی فرض شناس ماں کے دم سے ہی ایک اچھی قوم وجود پاتی ہے۔ قوم کے معمار نہ صرف جنم لیتے ہیں بلکہ ان کی گود میں پرورش پا کر ملک کے محافظ بھی بنتے ہیں۔
بظاہر بہت نازک سراپا اور لطیف وجود رکھنے کے‘ اس کے چٹان جیسے پختہ عزم و ہمت کے آگے بڑے بڑے پہاڑ جیسے مسئلے اور مرحلے ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں۔ عورت میں اللہ تعالیٰ نے کمال کی انتظامی صلاحیتیں رکھی ہیں۔ ضرورت کے وقت اپنے باپ یا شوہر کا ہاتھ بٹانے کے لیے گھر سے نکلتی بھی ہے تو وہ اپنے حقیقی مقامِ کار کو بھی نظر انداز نہیں کرتی۔زندگی کے ہر میدان میں عورت نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے اور اپنی محنت و کاوش کے زور سے ہر شعبہ میں ممتاز مقام حاصل کیا ہے۔
ازواج مطہرات، دختران رسول، رابعہ بصری یہ وہ روشن ستارے ہیں کہ اگر ہم ان کی سیرت پڑھیں تو حیران ہو جائیں کہ کیسے کیسے نامساعد حالات میں بھی وہ سیسہ پلائی دیوار بنی رہیں۔ علامہ اقبال کی والدہ نے اپنے بیٹے کو حلال نوالہ کھلانے کا اہتمام انتہائی توجہ اور لگن سے کیا اور یہی سبب تھا کہ ان کی شاعری میں قرآن کے اسباق نظر آتے ہیں۔ تحریک پاکستان کے عظیم رہنما اور خلافت موومنٹ چلانے والے مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی پر بھی اپنی والدہ کی اچھی تربیت کا اثر نظر آتا تھا۔ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان، عافیہ صدیقی، آسیہ اندرابی، مروہ الشربینی اور مریم مختیار جیسی سیکڑوں خواتین اپنی محنت، ہمت اور طاغوت کے خلاف برسر پیکار رہنے کے سبب تاریخ میں اپنے نام سنہری حروف سے لکھوا چکی ہیں۔ یہ سب ہمارے لیے مشعل راہ ہیں اور ان کی حیات زندگی ہمارے لیے عمل کی راہیں روشن کرتی ہے۔

حصہ