مجرم کون۔۔۔؟

197

آج مجھے کافی دن کی مصروفیت کے بعد اس ڈائری کو کھولنے کا موقع ملا جو مسز نثار نے پندرہ دن قبل میرے حوالے کی تھی۔ جبکہ مسز نثار اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ٹھیریے! پہلے میں مسز نثار کا آ پ سے تعارف کرا دوں۔ مسز نثار سے میرا کا کوئی خونی رشتہ نہ تھا بلکہ اس تعلق کی بنیاد دین تھا جو تمام تعلقات پر فوقیت رکھتا ہے۔
جب پہلی بار درسِ قرآن میں ان سے ملاقات ہوئی‘ عمر چالیس سے پچاس کے درمیان رہی ہوگی۔ ایک کھوئی کھوئی سی پرکشش چہرہ مگر بجھی بجھی سی آنکھیں‘ چہرے پر ازحد سنجیدگی اور بے تاثر سپاٹ لہجہ۔ درس کے اختتام پر میرے قریب آ کر گویا ہوئیں۔
’’سنیں مجھے بھی اپنے گھر درسِ قرآن رکھوانا ہے مجھے دن اور وقت بتادیجیے۔‘‘اس طرح ان سے تعلق اور شناسائی ہوئی اور ان کے گھر اور محلے میں درس قرآن کا سلسلہ چل پڑا۔
مسز نثار کے چار بچے‘ دو بیٹے اور دوبیٹیاں ہیں۔ ماشا اللہ سب ہونہار اور قابل ہیں۔ بظاہر ایک خوش حال اور متوازن فیملی تھی۔ مگر مسز نثار کی ازحد سنجیدگی کی وجہ سمجھ نہیں آ تی تھی۔ وہ شاذ و نادر ہی کبھی کسی بات پر مسکراتی تھیں اور ان کی
آ نکھیں ایسا لگتا جیسے کسی چیز کی تلاش میں ہیں۔ میں نے انہیں ایک‘ دو بار کریدنے کی کوشش بھی کی مگر وہ بڑی خوب صورتی سے ٹال جاتیں۔ اور ایک دن اچانک دل کا دورہ پڑنے سے اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں ۔
آ ج ان کی وہ ڈائری میرے سامنے تھی جس میں شاید ان کی زندگی کا وہ راز تھا جس سے کوئی بھی واقف نہیں تھا۔ انھوں نے ڈائری میرے حوالے کرتے وقت مجھ سے کہا کہ تم اخبار و رسائل میں لکھتی ہو تو میری یہ داستان ایک پیغام کی صورت اپنے الفاظ میں دنیا تک ضرور پہنچانا‘ تم واحد فرد ہو جس کے سامنے میں اپنی زندگی کے اس پہلو کو کھول رہی ہوں جس میں نہ جانے کتنی خواتین مبتلا ہیں اور روز جیتی اور روز مرتی ہیں۔
میں نے ان سے وعدہ کیا کہ آ پ کا نام اور مقام بدل کر اس کو ضرور شائع کروائوں گی۔ گھر آ کر ایسی مصروفیت میں گھری کہ پندرہ دن بعد ہی اس ڈائری کو اٹھانے کا موقع ملا ‘ اسی دوران مسز نثار بھی خالق حقیقی سے جاملیں۔ اور ایسا لگتا ہے کہ شاید وہ یہ راز کسی محفوظ ہاتھ میں پہنچانے کے ہی انتظار میں تھیں۔ بہرحال جب میں نے ڈائری پڑھنی شروع کی جیسے جیسے پڑھتی گئی اس اذیت کو محسوس کرتی گئی جو انھوں نے جھیلی آ پ بھی انہی کی زبانی اس اذیت کو محسوس کریں۔
میرا نام زہرہ ہے میرا تعلق ایک لوئر مڈل کلاس گھرانے سے تھا جہاں دوسری مشکلات کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کے رشتوں کا بھی بڑا مسئلہ ہوتا ہے اور بھولے بھٹکے آنے والے رشتوں کو غنیمت جان کر والدین اپنے سر سے بوجھ اتار پھینکتے ہیں۔ ایسی ہی کسی گھڑی میں نثار صاحب کا رشتہ کسی جاننے والے کے توسط سے آ یا۔ بس اس رشتے میں فقط اتنا دیکھا گیا کہ لڑکا کماؤ پوت ہے‘ عادات اطوار‘ عمر اور جوڑ وغیرہ کو بالکل اہمیت نہیں دی گئی اور کچھ ہی دن بعد وہ دن بھی آ گیا جب میں رخصت ہو کر نثار صاحب کے گھر آ گئی۔ ساس سسر فوت ہوچکے تھے باقی سب بہن‘ بھائی اپنے گھروں کے تھے۔ لوگوں کی نظر میں، میں خوش قسمت تھی کہ آ گے پیچھے کوئی ذمے داری نہ تھی۔ نثار صاحب اور میری عمر میں پندرہ سال کا فرق تھا۔ میری نظر میں اس فرق کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ میں ٹھیک ٹھاک شکل و صورت اور بہت حد تک سگھڑ اور ذہین تھی۔ مجھے پہلا تحفہ شادی کے دوسرے دن اپنے شوہر کی ڈانٹ کی صورت میں ملا۔ جو بہت معمولی سی بات پر مجھے پڑی۔ کوئی سوچ سکتا ہے کہ نئی نویلی دلہن کو پہلے دن ہی اتنے سخت لہجے کا سامنا کرنا پڑے گا؟ اور احساس، وہ تو شاید تھا ہی نہیں ان کے اندر۔ خیر میں نے اپنے آ نسوئوں کو بڑی مشکل سے حلق سے نیچے اتارا۔ اُس دن کے بعد کوئی دن ایسا نہ گیا کہ جب معمولی اور چھوٹی باتوں پر سخت و سست نہ کہا گیا ہو۔ میں کوشش کرتی کہ کوئی ایسی غلطی نہ ہو جو ان کا موڈ آ ف کر دے مگر نظر خامی یا کمی پر ہی جاتی۔ نرمی‘ احساس و محبت‘ حوصلہ افزائی اور تعریف جیسے الفاظ سے وہ بالکل نابلد تھے۔
میں پڑھی لکھی باشعور تھی‘ مجھ سے یہ پل پل کی اذیت اور بے عزتی برداشت نہ ہوتی۔ مگر میں کس کو اپنے دل کے زخم دکھاتی؟ ان کے نزدیک تو صرف مادّی ضروریات ہی پورا کرنا اہم تھا۔ جذبات و احساسات کا اظہار کبھی کرنا نہ آ یا۔ میرا تعلق عورتوں کی اس قبیل سے تھا جس میں وہ اپنے سے وابستہ لوگوں اور چیزوں کو بے وقعت اور کمتر نہیں دیکھنا چاہتی اس لیے دنیا کے سامنے خوش اور پُرسکون زندگی کا نقاب چڑھائے رکھا۔
ہم مشرقی عورتیں بھی کیا چیز ہیں۔ شادی کے بعد مرکز و محور شوہر اور گھر کو بنالیتی ہیں ہر چھوٹی بڑی خوشی اسی سے وابستہ کر لیتی ہیں۔ سجتی سنورتی ہیں‘ پہنتی اوڑھتی ہیں گھر کو سجاتی سنوارتی ہیں تو اس نظر سے کہ ان کا شوہر انہیں سراہے گا‘ اس کو خوشی اور سکون و اطمینان حاصل ہوگا۔ مگر جب شوہر کی نظر ان ساری چیزوں کو چھوڑ کر کسی معمولی کمی خامی پر جاکر ٹکے اور اس کو لے کر بک بک‘ جھک جھک شروع کردے تو آپ اس سجی سنوری لڑکی کے جذبات و احساسات کو سمجھ سکتے ہیں۔ آخر جب شوہر کو ہی دل چسپی نہیں تو کیسا سنگھار اور کیسا بننا سنورنا؟ ہر بار اسی طرح ہوتا اور میں جا کے منہ دھوکر اورکپڑے بدل کر روز مرہ کے کاموں میں اپنے آ پ کو مصروف کرلیتی۔ کئی بار میں نے کوشش کی جب ذرا شوہر کا موڈ بہتر دیکھا کہ ان سے پوچھوں کہ انہیں مجھ سے کیا شکایت ہے کہ کبھی انسان کو اپنی خامی نہیں پتا چلتی‘ دوسرا اس کو محسوس کرکے اپنا رویہ بدل لیتا ہے۔ مگر پوچھنے پر بھی فقط اتنا جواب ملتا کہ ’’جاؤ یار میرا دماغ خراب مت کرو‘ اپنا کام کرو۔‘‘
شوہر فلموں اور ڈراموں کے انتہائی شوقین تھے‘ میں بھی کچھ وقت تک ساتھ دینے کی کوشش کرتی پھر تھک کر کمرے میں آ جاتی کہ مجھے ان چیزوں سے کبھی زیادہ دل چسپی نہیں رہی اور شوہر صاحب کا انتظار کرتے کرتے نیند کی آغوش میں چلی جاتی۔ میں باتیں کرنے کو ترس گئی تھی۔ میرا دل چاہتا کہ ان کے ساتھ ڈھیر ساری باتیں کروں‘ کچھ وہ اپنے دل کی کہیں اور کچھ میں۔ مگر وہاں تو ایک چُپ اور سو سُکھ والی بات تھی۔ اسی طرح برسوں گزر گئے‘ اس دوران میں چار بچوں کی ماں بن گئی اور ان کی پرورش اور تربیت میں لگ گئی۔ شوہر کی مستقل بے التفاتی کے سبب اپنا خیال رکھنا بھی چھوڑ دیا اور شوہر سے وابستہ خواہشات کو سینے کے اندر کہیں دور‘ بہت دور دفن کردیا۔ مگر کبھی کبھی یہ خواہش اتنی شدت سے ابھرتی کہ مجھے لگتا کہ شاید میرا دل یا دماغ پھٹ جائے گا اور اگر میرا تعلق قرآن سے نہ جڑتا تو شاید ایسا ہو بھی جاتا۔ قرآن سے جڑنے اور سیرت کے مطالعے سے پتا چلا کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی ازواج کے ساتھ کیسا خوب صورت تعلق تھا جس کی بنیاد دین تھی۔ یہ بھی احساس ہوا کہ ہر مرد اور عورت جو دین کی حقیقی روح کو سمجھتے ہیں ان کا ساتھ ایک دوسرے کے لیے رحمت ہے۔ میں ہر نماز میں گڑگڑا کر اللہ سے دعا کرتی کہ اے رب! ہم دونوں کو بھی اس کا مصداق بنادے۔ میں نے ان کو دین سے بھی جوڑنے کی کوشش کی مگر ہر کوشش صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔ مگر شاید میری کوشش یا تڑپ میں ہی کچھ کمی تھی۔ ان سب حالات پر خدا شاہد ہے۔
میری خواہشات کبھی بہت بڑی نہیں رہیں۔ بہت معمولی خواہشات تھیں اور بالکل جائز فقط اتنی کہ شوہر کبھی یہ کہے کہ ’’کتنا کام کرتی ہو‘ تھک جاتی ہوگی۔‘‘ کبھی کہے کہ ’’تم پر یہ رنگ سوٹ کرتا ہے۔‘‘ کبھی تیار ہونے پر یہی کہہ دے کہ ’’آ ج اچھی لگ رہی؟‘‘ ہو یا یہ کہ ’’تم نے کھانا کھایا کہ نہیں… چلو میرے ساتھ کھانا کھاؤ۔‘‘ کبھی بیمار ہو۔ تو بتانے کی ضرورت نہ پڑے۔ کبھی خوش ہوں یا موڈ خراب ہو تو چہرے سے پہچان جائے اور تسلی کے دو بول ہی بول دے۔ عید تہوار شادی بیاہ کے موقع پر ہی سہی کبھی اس خواہش کا اظہار کر دے کہ تم نے مہندی نہیں لگائی تمھارے ہاتھوں پہ مہندی بہت اچھی لگتی ہے۔ ایسی ہی چھوٹی چھوٹی بے شمار خواہشات جو صرف اور صرف شوہر سے وابستہ ہوتی ہیں اور قرآن سے تعلق کے بعد تو فقط ایک ہی خواہش کہ وہ بھی دین سے جڑ جائیں‘ میرے نزدیک دین سے تعلق پیدا ہونے کے بعد انسان میں لازمی تبدیلیاں آ تی ہیں مگر میری یہ تمنا، تمنا ہی رہی۔
سب دنیا والے جسمانی تشدد کو ہی تشدد سمجھتے۔ مگر یہ تشدد کی کون سی قسم ہے؟ جس میں اپنے زخم کسی کو دکھائے نہیں جاسکتے کہ ان زخموں کا تو کوئی ثبوت‘ کوئی نام ونشان ہی نہیں۔ یہ درد تو صرف روح پر جھیلے جاتے ہیں سہے جاتے ہیں جن کی کوئی دوا نہیں ہوتی یہ صرف رستے ہیں اور ایک دن ناسور بن جاتے ہیں۔
میں نے اپنے ایک ایک زخم‘ ایک ایک دکھ کو معاف کیا کیوں؟ کیوں کہ میں آ ج بھی اپنے شوہر سے محبت کرتی ہوں اور یہ کہہ کہ اپنے دل کو تسلی دے لیتی ہوں کہ پگلی انہیں بھی تم سے محبت ہے بس اظہار کا سلیقہ کبھی نہ آ یا انہیں۔ پھر میں حضرت آسیہ کے شوہر فرعون کو یاد کرتی یوں کہ میرا شوہر کم ازکم فرعون تو نہیں ہے۔ بس ایسے ہی دل کو تسلیاں دیتی ہوں۔ مگر کم ظرف انسان ہوں نا کہ اتنے پر ہی تھک گئی۔قرآن سے تعلق کے بعد میں صبر کے مفہوم سے آشنا ہوئی اور اب میں اپنے تمام معاملات اپنے رب کے سپرد کرکے مطمئن اور پُرسکون ہوں کہ وہی بہترین عدل کرنے والا ہے۔
یہ ساری روداد پڑھنے کے بعد میرے الفاظ تو جیسے گونگے ہوگئے ہیں۔ فقط آ نسوئوں کی جھڑی ہے جو برسے جارہی ہے۔ اس ساری روداد کا ہے کسی کے پاس اگر کوئی جواب تو ضرور بتائے۔

حصہ