خوش قسمتی کا راز

208

اس کے خیال میں دادی جان دنیا کی خوش قسمت ترین خاتون تھیں۔ خدمت تو ہر ماں کی‘ کی جاتی ہے لیکن جو آئو بھگت اور محبت اس نے دادی جان کی ہوتے دیکھی تھی‘ وہ اور کہیں سنی بھی نہ تھی۔ اس کے ابّو ایک بڑے عہدے پر فائز تھے اور دن بھر میں ہزاروں لوگوں کی ڈانٹ ڈپٹ کیا کرتے تھے‘ لیکن جب دادی جان کے پاس آتے تو یوں معلوم ہوتا کہ گویا چراغ کے جن ہوں۔ جب تک پوچھ پوچھ کر دادی جان کے دس کام نہ کر لیتے انہیں چین نہ آتا۔آخر ایک روز اس نے دادی جان سے پوچھ ہی لیا۔
…٭…
سہیل صاحب ایک چھوٹے سے کاروبار کے مالک تھے‘ بالکل تنہا تھے‘ زندگی سے بے زار تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ بہت ہی بور آدمی تھے۔ لوگوں سے دور بھاگتے تھے‘ کسی کام میں دل نہ لگتا تھا اور کاروبار روز بہ روز نیچے آتا جارہا تھا۔ ڈاکٹر سے لے کر ہر جاننے والے کا یہی مشورہ تھا کہ فوراً شادی کر دی جائے‘ مگر سہیل صاحب اسے ایک اور زندگی کا ضیاع قرار دیتے تھے۔
اتفاق سے ایک لڑکی راحیلہ کا ذکر آیا جو پولیو زدہ تھی‘ زیادہ خوب صورت بھی نہ تھی اور جوانی ڈھل جانے کے ساتھ ساتھ شادی سے مایوس ہو چکی تھی۔ زندگی سے قطعاً مایوس نہ تھی‘ انتہائی زندہ دل تھی۔سہیل صاحب کو کسی نہ کسی طرح منا لیا گیا‘ لڑکی والوں نے بھی چھوٹتے ہی ہاں کر دی اور شادی ہوگئی۔
راحیلہ کا معاملہ یہ تھا کہ وہ کوئی لمبے چوڑے سپنے اور خواب لے کر نہیں آئی تھی‘ جن کے پورے نہ ہونے یا ٹوٹنے کااسے خوف ہوتا۔ اس کے لیے تو یہ زندگی ایک بونس تھی‘ ایک لاٹری تھی جو خود بخود کہیں سے نکل آئی تھی اور اس کے ہاتھ سے نکل جانے کی اسے کچھ خاص فکر نہ تھی۔
اسی وجہ سے سہیل صاحب کے ساتھ انتہائی بے رونق زندگی گزارنے کے باوجود اسے کوئی غم نہ تھا۔ بحیثیت انسان اسے فکر صرف اس بات کی تھی کہ وہ اس سے بات ہی نہیں کرتے تھے‘ برف کی کئی تہیں تھیں جو ان کے اوپر چڑھی تھیں۔ راحیلہ انہیں اتارنا چاہتی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے ان کے ماضی سے تجسس ہو‘ بلکہ وہ ان کو بات چیت کرنے والا انسان بنانا چاہتی تھی۔
…٭…
’’مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر دونوں ایٹم بم انہوں نے ہی گرائے تھے‘ اس قدر افسوس اپنی زندگی پر ایسا ہی آدمی کرسکتا ہے۔‘‘ راحیلہ اپنی بھابھی سے بولی۔
’’ارے کوئی ناکام عشق وشق کا چکر تو نہیں ہے؟‘‘ بھابھی نے رازدارانہ انداز میں پوچھا۔
’’نہ جی نہ… اگر ایسے ہی دل پھینک ہوتے تو چھ مرتبہ مجھے ہی دے بیٹھے ہوتے۔ ایسے گھنائونے گھنائونے مذاق کرتی ہوں ان کے ساتھ‘ مگر مجال ہے جو ڈانٹ ہی لگا دیں۔‘‘
’’بیٹا! تم خوش تو ہونا۔‘‘ کہیں سے اماں نمودار ہوئیں اور وہی جملہ بولا جو صدیوں سے مائیں اپنی بیاہی بیٹیوں سے تکلفاً بولتی چلی آئی ہیں۔
’’کہاں اماں… سوچا تھا پیا کے دیس کو سدھاروں گی تو زندگی میں ایک ہلچل آجائے گی۔ ساس بہو کے جھگڑے ہوں گے‘ نندوں سے مارا ماری ہوا کرے گی‘ میاں کی ڈانٹ مارا ہوا کرے گی‘ روتے دھوتے گھر آئوں گی تو میکہ کی ہمدردیاں سمیٹوں گی‘ مگر یہاں تو کچھ بھی نہیں… چچ…چچ…‘‘ راحیلہ نے افسوس سے سر ہلایا۔
اماں اور بھابھی حیرت سے اسے دیکھ رہی تھیں کہ وہ چیز کیا ہے۔
…٭…
وہ کھانا بنانے میں طاق تھی۔ اس نے ایک سے بڑھ کر ایک لذیز کھانے بنائے‘ مگر نہ ہی اسے داد ملی نہ ہی ہشت اور نہ ہی کبھی سہیل صاحب کی زبان پر کوئی حرفِ غلط آیا۔
آخر ایک روز تنگ آکر اس نے ساری ڈش جلا ڈالی اور اس پر بس نہ کیا بلکہ جھلا بھنا کھانا سہیل صاحب کو پیش بھی کر دیا۔
اس دن سہیل صاحب بولے ’’آج کیا ہے ناں کوئی کام۔‘‘
میں یہ کام روزانہ کر سکتی ہوں‘ آپ فکر نہ کریں‘ اب میں ہر کام ایسے ہی کیا کروں گی۔‘‘ وہ خوش دلی سے بولی۔
اور واقعی اس نے ایسا ہی کیا۔ اگلی روز استری کرتے ہوئے اس نے ان کی شرٹ جلا دی۔ سہیل صاحب بھی کسی دوسری دنیا کی مخلوق تھے‘ وہی شرٹ پہن کر چلے گئے۔
اس دن راحیلہ کا ماتھا ٹھنکا۔ اس نے سوچا کہ زندگی سے اور آدم سے اتنا بے زار شخص آخر کاروبار کر کیسے رہا ہے‘ جیسے تیسے ہی سہی‘ آخر آٹھ دس گھنٹے گزارتا کیسے ہے اور کس لیے؟ کوئی تو وجہ ہے کہ یہ شخص سانس لے رہا ہے ورنہ وہ تو اس کا بھی روادار نہیں۔راحیلہ نے بھرپور منصوبہ بندی کی اور ٹوہ میں لگ گئی۔
اس رات جب سہیل صاحب گھر میں داخل ہوئی تو راحیلہ نے آگے بڑھ کر ان کی دونوں کلائیاں تھام لیں۔
سہیل صاحب کو پہلی بار وہ سنجیدہ لگی۔ لیکن انہیں کیا پتا تھا……
’’آپ سے پہلے‘ میری ایک شادی اور ہوئی تھی۔‘‘ اس نے گویا دھماکا کرنا چاہا۔
سہیل صاحب نے صرف بھنویں اچکانے پر اکتفا کیا۔
’’ایک بچہ بھی ہے میرا۔‘‘ اس مرتبہ سہیل صاحب چونکے۔
’’ہماری کوئی اولاد تو ہے نہیں لہٰذا میں اس بچے کو اپنے ساتھ اس گھر میں رکھنا چاہتی ہوں۔‘‘ راحیلہ بولی۔
یہ باتیں ایسی تھیں کہ ان پر ٹھیک ٹھاک ہنگامہ ہوجانا چاہیے تھا‘ لیکن سہیل صاحب ٹکر ٹکر اسے دیکھتے رہے۔
’’کل آپ میرے ساتھ چلیں گے اسے لینے۔‘‘ راحیلہ نے کہا اور ان کے ہاتھ چھوڑ دیے۔
ان کے جانے کے بعد وہ دھیمے سے بڑبڑائی ’’شکر ہے‘ کوئی تو فائدہ ہوا ان کے نہ بولنے کا۔‘‘
…٭…
مختلف گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے وہ ایک بورڈنگ اسکول کے سامنے رکے۔ ’’اس بورڈنگ اسکول میں ہے تمہارا بچہ؟‘‘ انہوں نے بے یقینی کی کیفیت میں پوچھا۔
’’جن بچوں کے باپ مر جاتے ہیں ان کے لیے اس سے بہتر جائے پناہ کوئی نہیں ہے۔‘‘
سہیل صاحب نے عجیب سا منہ بنایا۔ راحیلہ کو بہت خوشی ہوئی کہ کوئی بات تو ان کے دل تک پہنچی۔
’’چلیے…‘‘ وہ بولی۔
’’تم اکیلے ہی جائو۔‘‘
’’اکیلے لاسکتی ہوتی تو آپ کو ساتھ کیوں لاتی… مجھ سے اپنا وجود تو ٹھیک سے سنبھلتا نہیں‘ دوسرے کو کیا سنبھالوں گی۔‘‘
سہیل صاحب بحث کے عادی نہیں تھے اور راحیلہ کے ساتھ گزرنے والے یہ لمحات انہیں بہت کھَل رہے تھے‘ لہٰذا وہ اتر گئے۔
’’یاسر سہیل!‘‘ راحیلہ نے اندر پہنچ کر بچے کا نام بتایا۔
’’کیا…؟‘‘ سہیل صاحب چونکے‘ ابھی تک وہ راحیلہ کی بات کو سچ سمجھ رہے تھے‘ مگر اب انہیں اندازہ ہوا کہ یہ سارا ڈراما کس لیے رچا یا گیا ہے۔
تھوڑی ہی دیر میں ایک بچہ دروازے سے باہر آیا اور ’’پاپا… پاپا!‘‘ کہتا ہوا سہیل صاحب سے لپٹ گیا۔
’’پاپا! مجھے یہاں نہیں رہنا‘ پاپا مجھے گھر لے چلو۔‘‘ وہ روتے ہوئے بولا۔
’’پاپا آپ کو گھر ہی لے جانے کے لیے آئے ہیں۔‘‘ راحیلہ پیار سے بولی‘ بچہ ناآشنائی سے ا سے دیکھنے لگا۔
’’یہ آنٹی ہیں تمہاری۔‘‘ سہیل صاحب نے تعارف کرایا۔
’’آنٹی نہیں… ماما۔‘‘ راحیلہ دھیرے سے بولی۔
…٭…
’’اگر آپ میرے شوہر نہیں ہوتے تو میں آپ کو ایسی ڈانٹ لگاتی‘ ایسی ڈانٹ لگاتی کہ آپ کی سات پشتیں یاد رکھتیں۔‘‘ راحیلہ تیز لہجے میں بولی۔
سہیل صاحب خاموش ہی رہے‘ شاید انہوں نے سوچا ہو کہ جس بات کا جواب اگلے جملے سے خود ہی مل جائے گا‘ اس کے لیے منہ کھولنے کی زحمت کون کرے۔
’’میں نے آپ کو شادی کے بعد ہی بتادیا تھا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں اگر آپ لولے لنگڑے ہوں‘ اندھے کانے‘ بہرے ہوں‘ معذور یا اپاہج ہوں‘ غریب نادار‘ قرض دار ہوں اور چاہے پہلے سے دو‘ تین شادیاں کی ہوئی ہوں‘ مجھے آپ ہر حال میں قبول ہیں۔‘‘
’’مگر تم نے بچے کا آپشن نہیں دیا تھا۔‘‘
راحیلہ پولیو ہونے کے باوجود اچھل پڑی‘ اسے ایک فیصد بھی یہ امید نہ تھی کہ یہ جملہ ان کی طرف سے آئے گا۔ اسے یہ بھی سمجھ نہ آیا کہ وہ سنجیدہ ہیں یا مذاق کر رہے ہیں۔
’’ابھی جو میں نے سنا یہ آپ ہی بولے تھے یا میرا وہم تھا؟‘‘ اس نے تصدیق چاہی۔
’’تمہیں شاید کوئی اعتراض نہ ہوتا لیکن تمہارے خاندان والوں کو ضرور ہوتا اور میرے خاندان والوں کو بھی تھا‘ انہوں نے یہ بات ظاہر کرنے سے منع کیا تھا۔‘‘ سہیل صاحب بولے۔
’’میں دیکھتی ہوں کسے اعتراض ہوتا ہے اور اگر کسی کو ہوا تو کہہ دوں گی کہ میرا بچہ ہے‘ پہلی شادی سے‘ کچھ بگاڑ سکتے ہو تو بگاڑ لو۔‘‘
بچہ بے چارہ گھر کو تو ترساہوا تھا ہی‘ ماں کے نہ ہونے اور باپ کے ہونے کے باوجود والدین کی محبت سے بھی یکسر محروم تھا۔
شروع شروع میں تو اس نے بڑی بدتمیزی کا مظاہرہ کیا۔ بات بات پر چیخنا چلانا‘ چیزیں توڑ پھوڑ دینا وغیرہ لیکن آہستہ آہستہ وہ راحیلہ کی محبت اور شفقت کے زیراثر آتا چلا گیا۔ سہیل صاحب کو شاید اپنی زندگی سے تو کوئی دل چسپی نہیںتھی، لیکن تھوڑی بہت تھی تو اپنے بیٹے یاسر کی زندگی سے۔
اس کے گھر آجانے کے بعد ان کے مزاج میں بھی ہلکا پھلکا فرق پڑ گیا تھا اور وہ نسبتاً کم آدم بے زار لگنے لگے تھے۔ پہلے جہاں وہ راحیلہ سے کوئی بات نہ کرتے تھے‘ اب کبھی کبھی یہ پوچھ لیتے کہ ’’یاسر نے کھانا کھا لیا؟… یاسر سو گیا…؟ یاسر کی طبیعت اب کیسی ہے…‘‘ وغیرہ۔
ایک دن وہ آفس جانے لگے تو راحیلہ بولی’’میں آپ کو زندگی سے جتنا قریب لانے کی کوشش کرتی ہوں‘ آپ آفس جاکر اس سب کیے کرائے پر پانی پھیر دیتے ہیں۔‘‘
’’تنگ آگیا ہوں میں بزنس کے بکھیڑوں سے بھی‘ آگ لگا دینا چاہتا ہوں سب کو۔‘‘ وہ نفرت سے بولے۔
’’تو ایک منٹ رکیے گا‘ میں ذرا ماچس لے آئوں۔‘‘ وہ برا سا منہ بنا کر اسے دیکھنے لگے۔
’’چلیے! خود ہی چلی چلتی ہوں، ایک ہی بات ہے۔‘‘ وہ دروازہ کھول کر گاڑی میں بیٹھ گئی۔
سہیل صاحب کچھ دیر تو سر پکڑ کر بیٹھے رہے، مگر شاید وہ بحث میں نہیں پڑنا چاہتے تھے کہ اس بہانے بھی انہیں کسی سے ’’بات‘‘ کرنی پڑتی تھی‘ لہٰذا چل دیے۔
’’مجھے یقین ہے کہ آپ نے آفس میں بوڑھے کھوسٹ لوگ بھرے ہوئے ہوں گے جو سب کے سب قبر میں پائوں لٹکائے بیٹھے ہوںگے‘ میں انہیں نکال کر چست قسم کے نوجوان بھرتی کروںگی‘ ایک آدھ خوب صورت سی سیکرٹری اپوائنٹ کروں گی آپ کے لیے‘ پھر دیکھوں کی کیسے دل نہیں لگتا آپ کا ’’بزنس‘‘ میں۔‘‘ وہ بڑبڑائی جارہی تھی‘ جب کہ سہیل صاحب کو اتنا برا لگ رہا تھا کہ وہ گاڑی کسی دیوار سے مارنے کا سوچ رہے تھے۔
…٭…
یاسر راحیلہ کو ’’ماما‘‘ کہنے لگا تھا۔ا س کے پاس اسے اچھی تربیت بھی ملتی اور پیار بھی۔ اچھی اچھی کہانیاں بھی سننے کو ملتیں اور کام کی باتیں بھی‘ مزے مزے کے کھانے اور غلطی پر ڈانٹ بھی کھانے کو ملتی۔
جہاں یاسر اپنے دوستوں کے سامنے ہمیشہ والدین کے کامپلیکس کاشکار رہتا‘ وہیں اب اس کے دوست اس کی نئی ماما پر رشک کرتے اور وہ کہتا ’’یہ میری نئی نہیں صرف ماما ہیں۔‘‘
وہ شام کوچھت سے اسے گلی میں کرکٹ کھیلتا بھی دیکھتیں اور رات کو ہوم ورک بھی کراتیں۔ چھوٹی سے چھوٹی بات پر اسے سراہتیں اور سمجھانے کی بات پر سمجھاتیں۔ نتیجتاً یاسر ان کا پوری طرح دلدادہ ہوگیا کیوں کہ سہیل صاحب کا بیٹا ہونے کے باوجود بھی‘ تھا تو وہ ایک انسان ہی۔
آفس جا کر بھی راحیلہ کیسے چپ بیٹھتی‘ اس نے وہاں بھی ایک آفت مچا دی۔ ہر چیز میں ٹانگ اڑاتی‘ ضرورت کے وقت چیختی چلاتی اور حکم بھی چلاتی۔ کبھی کبھی سہیل صاحب حجت کرتے‘ جس پر وہ کہتی ’’آپ ہی کی مدد کر رہی ہوں‘ بزنس کو آگ لگانے میں‘ ہونے دیں جو غلط بھی میں کہہ رہی ہوں۔‘‘
ہونا کیا تھا‘ بچے کی طرح بزنس بھی سدھر گیا۔
…٭…
’’جب مجھے پتا چلا تھا کہ سہیل کا پہلی شادی سے ایک بچہ ہے اور وہ مجھ سے اور میرے گھر والوں سے چھپایا گیا ہے تو مجھے بہت غصہ آیا‘ میں نے ایک عام عورت بن کر یہی سوچا کہ اس کو اس کے ہاسٹل ہی میں مرنے دینا چاہیے‘ مگر پھر میرے دل میں نیکی کا جذبہ پیدا ہوا‘ اس وقت مجھے وہ کام بہت مشکل اور بے فائدہ لگا‘ لیکن اس چھوٹے سے فیصلے نے مجھے جو کچھ دیا وہ میرے بیان سے باہر ہے‘ تم خود دیکھتی ہو‘ بلکہ تم خود بھی اسی نیکی کے پھل کا ایک حصہ ہی تو ہو۔‘‘ دادی جان بولیں تو اوّل تو میں شرما ہی گئی۔ پھر میں نے حیرت سے کہا ’’یعنی آپ ہماری سگی دادی نہیں ہیں؟‘‘
’’پیچھے سے میرے سر پر ایک زوردار چپت پڑی۔ ’’میں تمہارا سوتیلا باپ ہو سکتا ہوں‘ مگر یہ تمہاری سگی دادی اور میرے سگی سے بھی زیادہ سگی ماں ہیں۔‘‘
میں نے گھبرا کر پیچھے دیکھا تو ابوجی کھڑے تھے‘ میں بوکھلا کر اندر بھاگی‘ پیچھے دادی جان کہہ رہی تھیں ’’ارے یاسر بیٹا! کیوں ڈانٹتے ہو بچی کو؟ یہ ہماری اس کی ذاتی بات چیت تھی‘ تمہارا اس سے کیا لینا دینا۔‘‘

حصہ