جادو کا پتھر

204

آخری قسط

وہ تینوں تمام دن برابر دوڑتے رہے اور شام ہوتے ہوتے بادشاہ کے باغ تک پہنچے۔ انھوں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو دیوار کے اس طرف نوجوان کا سنہرا محل چمک رہا تھا۔۔۔ “اب ہم کو کسی طرح باغ کے اندر داخل ہونا چاہیے۔” کتے، بلی اور چوہے تینوں نے آپس میں طے کیا۔
لیکن باغ کی دیواریں اتنی اونچی تھیں کہ ان کو پھاند کر اندر جانا ناممکن تھا۔ سب دروازوں پر اندر سے مضبوط تالے لگے تھے۔
کتا بلی اور چوہا تینوں دیوار میں کوئی سوراخ تلاش کرنے لگے۔ سوراخ نہ ملا تو وہ تینوں مل کر دیوار کے نیچے زمیں میں ایک سوراخ بنانے لگے۔ سب سے پہلے چوہے نے اپنے پنجے کام میں لگا لیے۔ پھر بلی،اور آخر میں کتا اس کی جگہ کام میں لگ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سرنگ تیار ہو گئی۔
پہلے چوہا سوراخ سے ہو کر اندر گیا۔ پھر بلی بھی اندر چلی گئی۔ کتا باہر پہرہ دینے لگا۔
بلی اور چوہا دونوں سارے محل میں دوڑتے پھرے اور بالآخر اس کمرے میں داخل ہو گئے جہاں شہزادی سوئی ہوئی تھی اور پاس ہی چڑیل پڑی سو رہی تھی، جس نے اپنے ہونٹ زور سے بھینچ رکھے تھے۔ عقل مند چوہا فوراً سمجھ گیا کہ جادو کے پتھر کو اس نے اپنے منہ میں زبان تلے دبا رکھا ہے۔ چوہا دبے پاؤں جا کر چڑیل کی چھاتی پر چڑھ گیا اور اپنی دم کی نوک سے اس کی ناک میں گدگدی کرنے لگا۔ چڑیل نے اپنا منہ کھول کر ایک چھینک ماری اور جادو کا پتھر اچھل کر فرش پر گر پڑا۔ بلی نے فوراً اس کو منہ میں اٹھا لیا اور جب تک چڑیل ہوش سنبھالتی بلی اور چوہا دونوں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتے ہوئے سوراخ کے راستے باہر سڑک پر آ گئے جہاں کتا ان کا انتظار کر رہا تھا، کتے نے فوراً جادو کا پتھر بلی سے لے کر اپنے منہ میں دبا لیا اور تینوں آگے دوڑ پڑے۔
ادھر محل میں کھلبلی مچ گئی۔ سب “پکڑو! پکڑو!” کر کے چیخنے لگے۔
چور کی تلاش ہونے لگی، لیکن انھیں یہ کیا معلوم تھا کہ جادو کا پتھر کسی کتے کے منہ میں پڑا ہوا ہے۔
کتا، بلی اور چوہا تینوں دوڑتے ہوئے تھوڑی دیر میں دریا کے کنارے پہنچے اور آپس میں اس بات پر بحث کرنے لگے کہ جادو کے پتھر کو اس پار کون لے جائے؟
بلی کہتی تھی: “پتھر کو اس پار میں لے جاؤں گی۔”
کتا کہتا تھا:
“نہیں، تمھیں تو تیرنا بھی نہیں آتا، کہیں اس کو لیے ڈوب ہی نہ جاؤ۔
چوہے کی بھی یہی خواہش تھی کہ جادو کے پتھر کو اس پار میں لے جاؤں۔ تینوں بہت دیر تک بحث کرتے رہے۔ کتا اپنی بات پر اڑا رہا اور پتھر اسی کے پاس رہ گیا۔ تینوں تیرتے ہوئے دریا پار کرنے لگے۔ اچانک کتے نے پانی میں اپنا عکس دیکھ لیا اور کوئی دوسرا کتا خیال کر کے زور سے جو بھونکا تو جادو کا پتھر اس کے منہ سے نکل کر پانی میں گر گیا۔ اسی وقت اچانک کہیں سے ایک بڑی سی مچھلی نکلی اور وہ پتھر کو نگل گئی۔
“میں نے کہا تھا نا کہ پتھر کو تم ہر گز نہ لے جانا۔” بلی نے مایوس ہو کر کتے سے کہا۔
اب وہ تینوں پریشان تھے کہ کیا کیا جائے۔ اپنے مالک کے پاس خالی ہاتھ جانا نہیں چاہتے تھے۔ نزدیک میں ماہی گیروں کی ایک بستی تھی۔ وہ تینوں حیران و پریشان چلتے ہوئے اس بستی میں گئے۔ تینوں کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔
خوش قسمتی سے ایک مچھیرے نے ایک بڑی مچھلی پکڑ لی تھی۔ اس نے مچھلی کو کاٹ کر اس کی آنتیں پھینک دیں۔ کتا بلی اور چوہا تینوں آنتوں کو کھانے لگے۔
اچانک بلی خوشی سے میاؤں کر اٹھی۔ معلوم ہوا کہ مچھلی کی آنتوں میں اس کو اچانک کوئی چمکیلا پتھر مل گیا ہے۔ تینوں نے اس کو ذرا غور سے دیکھا تو پتا چلا کہ انھیں کا جادو کا پتھر ہے، تینوں خوشی سے اچھلنے لگے۔ بلی نے پتھر کو اپنے منہ میں لے لیا اور تینوں اپنے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ گھر پہنچتے ہی بلی نے جادو کے پتھر کو نوجوان کے گھٹنوں پر رکھ دیا۔ نوجوان اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سمایا اور اس نے کتے، بلی اور چوہے تینوں سے کہا:
“تم لوگوں کا احسان میں جیتے جی نہیں بھولوں گا۔”
“اور ہم جیتے جی تمھاری خدمت کرنے کو تیار ہیں، کیوں کہ کبھی تم ہی نے ہماری جانیں بچائی تھیں۔” کتے، بلی اور چوہے نے ایک آواز میں اس کو جواب دیا۔
نوجوان نے جوش میں آ کر کہا:
“ابھی میں پتھر کو حکم دیتا ہوں وہ سونے کا محل پھر سے آجا ئے گا۔”
ماں نے بیٹے کو روکتے ہوئے کہا:
“رہنے دو’ بیٹے۔ سونے کے محل کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔”
تب نوجوان نے جادو کے پتھر سے کہا:
“محل کو مٹا دو۔” تو بس پھر کیا تھا، نہ محل رہا، نہ چڑیل رہی اور نہ ہی بادشاہ اور اس کی بیٹی رہی۔ ان سب کا نام و نشان مٹ گیا۔
لوگ کہتے ہیں کہ اس کے بعد نوجوان نے ایک مالی کی بیٹی سے شادی کر لی اور وہ لوگ بڑے سکھ اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

حصہ