قائد کا پاکستان ۔۔۔مگر کیسے؟

213

”پاپا جانی! ”ویلکم ٹو پرانا پاکستان“ کا مطلب کیا ہے؟“
”کیوں، تمہیں اس کا مطلب جاننے کی کیا پڑی ہے؟ تم کتاب پر دھیان دو اور اپنا ہوم ورک مکمل کرو۔“
”میں نے ہوم ورک مکمل کرلیا ہے، کل عارف بھائی ریاض انکل سے کہہ رہے تھے ”ویلکم ٹو پرانا پاکستان“ بس اسی لیے پوچھ رہا ہوں۔“
”میں نے کہا ہے تم ایسی باتیں نہ کرو اور خاموش رہو۔“
”ٹھیک ہے آپ نہ بتائیں، میں کل کلاس ٹیچر سے معلوم کرلوں گا۔“
”ارے بے وقوف! اسکول میں کسی سے مت کہنا، بری بات ہے۔ تم اتنا سمجھ لو عمران خان نیا پاکستان بنانے کا نعرہ لگا کر حکومت میں آئے تھے، اس لیے وہ پہلے دور کو پرانا اور اپنے اقتدار کے زمانے کو نیا پاکستان کہتے ہیں۔ یہ بڑوں کے سمجھنے کی باتیں ہیں، اور پھر تمہیں نئے اور پرانے پاکستان سے کیا مطلب! تم پڑھائی کرو، یہ سیاسی داؤ پیچ ہیں، وقت کے ساتھ سب سمجھ جاؤ گے۔“
”اچھا،تو یہ بات ہے، ٹھیک ہے میں سمجھ گیا، ”ویلکم ٹو پرانا پاکستان“ کا مطلب ہے اب پرانا زمانہ وآپس آجائے گا۔ پاپا جان اگر پرانا دور پھر سے آجائے گا تو کیا دادا جان بھی واپس گھر آجائیں گے؟ کیونکہ دادی اماں پہلے زمانے کی باتیں سناتے ہوئے کہتی ہیں کہ تمہارے دادا کو اس دنیا سے گئے کئی سال ہوگئے ہیں، اور کیا میں پھر سے کے جی ون میں بیٹھا کروں گا۔“
”بیٹا تم کتنا بولتے ہو، فضول گفتگو کیے جارہے ہو۔ دیکھو اپنی عمر سے بڑی باتیں نہیں کرتے، اب آخری مرتبہ کہہ رہا ہوں خاموش رہو۔“
”اچھا پلیز، ایک اور بات بتادیں۔“
”نہیں نہیں نہیں، اب چپ ہوجاؤ۔“
اس سے پہلے کہ میرا بیٹا مزید کچھ کہتا، میں اُس کے سوالات سے جان چھڑا کر گھر سے باہر نکل آیا۔ گھر سے تو نکل آیا لیکن جن سوالات کی بوچھاڑ سے بچنے کے لیے میں نے گھر سے باہر نکل جانے میں عافیت جانی تھی مجھے کیا خبر تھی کہ ان کا سننا یا انہیں برداشت کرنا میرا مقدر بن چکا ہے، یعنی گھر سے نکلتے ہی میری نگاہ آدھے درجن سے زائد نوجوانوں کے حصار میں گھرے عارف اور ریاض پر پڑی جو باقاعدہ مناظرہ کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ مجھے نہ چاہتے ہوئے بھی اس محفل میں جاکر بیٹھنا پڑا، یا یوں کہیے کہ مجھے بھی زبردستی اس تھڑے پر بٹھا لیا گیا جہاں یہ دونوں ایک دوسرے سے بدکلامی کرنے میں مصروف تھے۔ ان کے درمیان ہونے والی بحث کا سر تھا نہ پیر، بس جو منہ میں آیا ہانکے جارہے تھے۔ ریاض مختلف حوالوں سے نیا پاکستان بنانے کے درمیان آنے والی رکاوٹوں اور سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے خاصا جذباتی دکھائی دے رہا تھا، قریب کھڑے سارے ہی لوگ اُس کی ایک ایک بات پر توجہ دے رہے تھے، وہ کہہ رہا تھا:
”ہمارے خلاف بین الاقوامی سازش ہوئی ہے، ہم آزاد خارجہ پالیسی بنارہے تھے، ستّر برس سے ظلم کی زنجیروں میں جکڑے عوام کو غیر ملکی آقاؤں کے چنگل سے آزاد کروانے کی جدوجہد کررہے تھے، ہم نے بڑی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی، لیکن پیسوں کے بل پر چند کرپٹ خاندانوں اور ضمیر فروش سیاست دانوں نے نئے پاکستان کا خواب شرمندئہ تعبیر ہونے نہ دیا بلکہ نئے دور کا آغاز ہونے سے قبل ہی ہمارے تمام منصوبے مٹی میں ملا دیے۔“
ریاض کی زبان قینچی کی طرح چل رہی تھی، وہ مستقل بولے جارہا تھا، اس صورت حال میں عارف کے چہرے کے بدلتے رنگ نمایاں ہورہے تھے، میرا مطلب ہے وہ غصے میں لال پیلا ہورہا تھا، ایسے میں وہ آخر کب تک خاموش رہ سکتا تھا! وہ موقع کی تلاش میں تھا، وہ جب بھی بولنے کی کوشش کرتا، سننے والے ہر بار اُسے ”اپنی باری پر بات کرنا“ جیسے جملے بول کر روک دیتے۔ اس وقت وہ سوائے خاموش رہنے کے کر بھی کیا سکتا تھا! خیر، خاصی دیر بعد عارف کو بھی اپنے جوہر دکھانے کا موقع فراہم کردیا گیا۔ پھر کیا تھا، وہ بھی راشن پانی لے کر ریاض پر چڑھ دوڑا، کہنے لگا:
”بے کار کی باتیں مت کرو، خوابوں کی دنیا سے باہر نکلو، اب تمہارا کوئی بازار نہیں، جتنے سبز باغ دکھانے تھے وہ تم دکھا چکے، لوگ پاگل نہیں جو آزمائے ہوئے کو پھر سے اپنے سروں پر مسلط کرلیں، یہ صدیوں کی بات نہیں ابھی کل ہی کی بات ہے۔ کون نہیں جانتا کہ نئے پاکستان میں روزگار کے پہلے سے کھلے در بھی بند ہوگئے تھے، غریبوں کے منہ سے نوالہ چھیننے کا کام پورے ملک میں جہاد کی طرح جاری رہا، نیا پاکستان بننے کے بعد محض چند مہینوں میں ہزاروں افراد کو نوکریوں سے فارغ کردیا گیا، غریب عوام پر گیس اور بجلی کے بھاری بلوں کا بوجھ ڈالا گیا، مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان نے غریب کا جینا دوبھر کردیا تھا، جس کی وجہ سے نئے پاکستان میں رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگیا تھا، یوں ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت اور اقربا پروری کو دیکھتے ہوئے ہی لوگوں کو پرانے پاکستان کی یاد ستانے لگی، اور عوام سوچنے پر مجبور ہوئے کہ پرانے پاکستان کے وہ حکمران جنہیں چور ڈاکو کہا گیا، جب اقتدار کی کرسی پر فائز تھے اُس زمانے میں بجلی اور گیس کے اتنے بھاری بل کبھی نہیں آئے، غریبوں کے چولہے جلانے والے پرائیویٹ سیکٹر کا کباڑہ بھی اس طرح نہیں کیا جس طرح نیا پاکستان بنانے والوں نے کیا۔ ایسا ستیاناس نہیں کیا گیا کہ سرمایہ کار سرمایہ لگانے کے بجائے اپنا سرمایہ نکلوانے پر مجبور ہوں۔ اس لیے لوگوں نے پرانے پاکستان کو خوش آمدید کہا ہے۔ میں مانتا ہوں کہ مہنگائی، غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل پرانے پاکستان میں بھی تھے، لیکن اس قدر گمبھیر اور خطرناک کبھی نہ تھے، پرانے پاکستان میں دو وقت کا نہ سہی لیکن ایک وقت کا کھانا تو غریب پیٹ بھر کر کھا لیا کرتے تھے، لیکن نیا پاکستان بنانے والوں کی نااہلی کے باعث غریبوں کے گھروں میں آگ بھی نہیں جلتی۔ نئے پاکستان کے ایمان دار وزیروں اور مشیروں کو اگر خدمتِ خلق کا واقعی شوق اور غریبوں کی کوئی فکر ہوتی تو یہ سنگِ مرمر سے بنے محلات اور پجارو گاڑیوں سے نیچے اتر کر کیچڑ زدہ گلیوں اور محلوں میں غریبوں کی جھونپڑیوں میں ضرور جھانکتے، کیونکہ جس ریاست مدینہ کا ذکر کرتے کرتے ان کی زبان نہیں تھکتی تھی اُس ریاست کے حکمران راتوں کو نہ صرف لوگوں کی چوکیداری کرتے تھے بلکہ لمحہ بہ لمحہ ان کی خبر بھی لیتے تھے، ان کو اپنی تنخواہوں اور مراعات سے زیادہ رعایا کی فکر ہوتی تھی، وہ ہزاروں اور لاکھوں کے حساب سے اپنی تنخواہیں بڑھانے کی فکر کرنے کے بجائے ایک مزدور کی اجرت کے برابر اپنی تنخواہ مقرر کرتے تھے تاکہ پتا چلے کہ اس تنخواہ میں مزدور کا گزارا ہوتا ہے کہ نہیں۔ جبکہ اس کے برعکس نئے پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کے دعوے داروں کو اپنی تنخواہوں اور مراعات کی فکر تو تھی مگر وہ اس ملک میں خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے غریبوں اور مزدوروں کے حالات سے بالکل بے خبر اور نابلد رہے۔ میرے نزدیک چوروں اور ڈاکوؤں کے مقابلے میں اگر خود کو ایمان دار حکمران کہلوانے والوں کے بھی یہی حالات، عادات اور اطوار ہیں تو پھر ہمیں نیا نہیں بلکہ وہی پرانا پاکستان، ہمارا پاکستان چاہیے جس میں کم ازکم ہم جی تو سکتے ہیں۔ اس لیے اب نئے پاکستان کا چورن بکنے والا نہیں، لہٰذا فضول باتیں ہانکنے کے بجائے خاموش رہو اور پرانے پاکستان والوں کو ملک کی خدمت کرنے اور اسے تیزی سے ترقی کی جانب گامزن کرنے دو۔“
قصہ مختصر یہ کہ عارف اور ریاض کے درمیان ہونے والی لفظی گولہ باری کا اختتام ”میں نہ مانوں“ پر ہوا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے سیاسی رہنماؤں نے اپنے ذاتی نظریات اور آنا کی تکمیل کی خاطر عوام کو ذہنی طور پر تقسیم در تقسیم کرکے رکھ دیا۔ ایک ہی خاندان میں مختلف آرا رکھنے والے ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے۔ سیاسی رہنما خود کو محب وطن اور دوسروں کو چور، ڈاکو اور غدار جیسے القابات سے نوازنے لگے۔ جھوٹ، بدکلامی اور بدتہذیبی کے باعث ملک میں عدم استحکام، افراتفری اور بے چینی میں اضافہ ہوگیا، ہماری معاشرتی اقدار تباہی کے دہانے پر آن پہنچیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ انقلاب ایک دن میں نہیں آیا بلکہ گزشتہ 72سال سے جو کچھ بھی ہوتا چلا آرہا ہے یہ سب اسی کا شاخسانہ ہے۔ نیم کے درخت سے آم کے پھل حاصل کرنے کا تصور احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ کبھی ”سب سے پہلے پاکستان“ کے نام پر، کبھی ”خوشحال پاکستان“ کا نعرہ لگاکر، کبھی ”سیکولر پاکستان“ کہہ کر، کبھی ”سر سبز پاکستان“ بنانے کی مالا جپتے ہوئے، کبھی ”ایشین ٹائیگر“ بنانے کی گردان کرتے ہوئے، اور اب ”نیا پاکستان“ بنانے کے ترانے گاتے ہوئے ساری قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے، اور ہم ہیں کہ بنا سوچے سمجھے ایک سراب کے پیچھے دوڑے چلے جارہے ہیں۔ بس اسی چکر میں ساری قوم کی سانسیں پھول چکی ہیں اور منزل ہے کہ دکھائی نہیں دیتی۔ کامیابی ملے بھی تو کیسے! جب نظریات اور راستہ ہی درست نہ ہو تو کامیابی کیسی! ظاہر ہے جس ملک کی بنیاد لا الٰہ الااللہ پر رکھی گئی ہو، اس خطے کو نیا اور پرانا پاکستان جیسے نعرے مارکر نہیں بلکہ خدا کے بنائے ہوئے نظام یعنی قرآن کے دستور کو نافذ کرکے ہی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔ یہی قائد کا حقیقی پاکستان ہوگا۔ بصورتِ دیگر بدحالی، دہشت گردی، بھوک و افلاس اور تفرقے کے سوا کچھ حاصل نہ ہوگا-

حصہ