سوشل میڈیا پر سماج کا جنازہ

443

کسی نے ٹوئیٹ کی کہ ’’غریب کی چھت اور امیر کی وڈیو ہمیشہ لیک ہوتی ہے۔‘‘ اس ہفتے بھی سوشل میڈیا ایسی وڈیوز کی گردش میں رہا۔ حدیث رسولﷺ کے مطابق نظر برحق ہے مگر جو لوگ یہ کہتے یا سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا سے نظر نہیں لگتی، اُن کے لیے یہ ایک اچھی مثال بھی ہے۔ جعلی ڈاکٹر عامر لیاقت اس قابل تو نہیں کہ اُس پر کچھ لکھا جائے، مگر وہ اس ہفتے ٹرینڈ لسٹ میں انتہائی بدنامی کے ساتھ نمودار ہو گئے اس لیے کچھ معاملات میں عبرت کی خاطر لکھنا ضروری محسوس ہوا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ طلاق یا خلع کے واقعات ختم ہو گئے تھے اور یہ اچانک سے ہوگیا۔ پاکستانی شوبز سلیبرٹی سجل علی اور احد رضا میر کی دھوم دھام سے بیرون ملک شادی ہوئی۔ محض 23 ماہ چلنے والی یہ شادی بھی تین دن تک سوشل میڈیا پر ڈسکس ہوئی مگر بقول رابی پیرزادہ ’’مجھے سجل اور احد کی طلاق کا بہت افسوس تھا، مگر دونوں میں سے کسی نے ایک دوسرے کی کردار کشی نہیں کی۔ شادی ایک محترم رشتہ ہے اسے سرکس نہ بنائیں۔ ہم سب نے مرنا ہے اور اپنے اعمال کا جواب دینا ہے۔ جو لوگ دین کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں کیا انہیں ڈر نہیں لگتا۔‘ میڈیا انڈسٹری کے سلبریٹیز کا معاملہ گو کہ خالصتاً مادی بنیادوں اور لبرل اقدار پر کھڑا ہوتا ہے اس لیے رشتوں کی قدر کا اُن کے درمیان محسوس ہونا بھی ایک حیرت انگیز بات ہوتی ہے۔
دوسری جانب عامر لیاقت ہے جو مذہبی تعارف سے شہرت لے کر شوبز سیلیبرٹی بننے کی تگ و دو میں لگا رہا۔ وہ اپنی ٹوئیٹ میں کہہ رہا ہے کہ ’جو حواس باختہ لڑکی کی جانب سے مبینہ وڈیو پر شو، پروگرامز کر رہے اور خبریں بنا رہے ہیں، انتظار کریں گرفت شدید ہوگی اور مزید ہوگی۔ کچھ حاسد، کچھ دشمن اور کچھ شکست کے مارے ہیں۔ عامر لیاقت واپس آئے گا۔‘ ’لیک وڈیو‘ کے چرچے پہلے ہی جاری تھے مگر شکار عامر لیاقت ہوگئے۔ یہ بات درست ہے کہ وِڈیو اُن کی نجی اور غالب امکان یہی ہے کہ اہلیہ کے ساتھ کی ہے، مگر سوال یہ ہے کہ نام نہاد ’’اسلامی اسکالر‘‘ کا روپ دھارنے، اسلامی لبادے میں اپنی شناخت ظاہر کرنے، اسلامی معلومات کا رعب جھاڑنے، اسلام کے نام پر لبرل اقدار کو فروغ دینے والا، نجی زندگی میں ایسا تھا تو استغفار پڑھ کر اس سے متاثر ہونے والوں کو اس کا سارا کھیل سمجھ لینا چاہیے۔ بلاشبہ اللہ کی ذات ستارالعیوب ہے، وہ ہماری پردہ پوشی کا سب سے زیادہ خیال رکھتی ہے، مگر کہیں تو، کسی کو مقام عبرت بنائےگا۔4 ماہ کی اس تیسری شادی کے چرچے جتنے اور جس طرح ہوئے تھے، اسے نظر تو لگنی ہی تھی۔ ایک جانب اس کی نوبیاہتا، کم عمر بیوی کا کریہہ الزامات پر ببانگ دہل مبنی موقف یہی بتا رہا تھا کہ معاملہ بعینہ ایسا نہیں جیسا پیش کیا جا رہا ہے۔ پھر جواب میں عامر لیاقت کا ایک ٹی وی چینل پر بدستور اپنے آپ کو بار بار سنت نبوی کی پیروی اور کم عمر لڑکی سے نکاح کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال دینا انتہائی قابل مذمت فعل تھا، وہ بھی عوام میں حالت نشہ کی بدترین وڈیو لیک ہو جانے کے بعد۔ عامر لیاقت سوشل میڈیا پر اپنے جواب میں بار بار مسلمان کے لیے نکاح کی اہمیت بیان کر رہا ہے، مگر وہ ہر بار نکاح کے اس طرح سے خاتمے کو بیان کرنے سے قاصر ہے۔ اگر تو عامر لیاقت بھی مفتی طارق مسعود کی طرح تین، چار شادیاں کر کے سب کے ساتھ نبھاتا تو کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ مفتی طارق مسعود اس معاملے میں قدرے بہتر مثال ہیں، جو ایک مستند عالم دین، امام و خطیب مسجد بھی ہیں۔ سوشل میڈیا پر وہ ہر مسلمان کو کئی شادیوں کی تبلیغ کی شہرت رکھتے ہیں بلکہ خود کئی بیویوں کے باوجود ایسے کسی اسکینڈل کی زد میں نہیں آئے دوسری جانب عامر لیاقت کوئی ایک شادی نہیں سنبھال سکے۔ یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ عامر لیاقت کی تیسری بیوی بھی کامل جھوٹ کا سہارا لے رہی ہے اور بار بار میڈیا میں تضاد بیانیوں کی وجہ سے ناقابل اعتبار ہو چکی ہے، مگر ہم قرآن مجید سورۃ النور کے سادہ الفاظ میں یہ اُصول جانتے ہیں کہ، ’’گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں۔‘‘ پس تو مجموعی طور پر ایسا ہی ہوا ہے۔ آج بھی عامر لیاقت اپنے تمام تر بیانیے میں اپنی اسلامی معلومات کو ہی آڑ بنا رہا ہے کہ وہ وڈیو لیک کے تلخ تجربات سے کئی بار گزر چکا ہے اور پوری طرح جانتا ہے کہ سادہ لوح عوام کو دوبارہ کیسے بے وقوف بنایا جائے گا۔ مگر وہ بار بار یہ بھول رہا ہے کہ اب وہ اپنےجاہلانہ تکبر کی آگ کی جانب دوڑ تیز کر چکا ہے۔
اس میں عبرت کا سامان یہی ہے کہ سوشل میڈیا پر نام نہاد ’سوشلائزیشن‘ کی خاطر اپنی نجی زندگی، بیوی بچوں اور اپنی سرگرمیوں کی معلومات ڈالنے سے مکمل اجتناب کرنا چاہیے، جو کچھ عامر لیاقت یا اس کی اہلیہ اس ضمن میں کرتے رہے، اس کی اپنی برکات ہوتی ہیں۔ جان لیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی اقدار ویلیو نیوٹرل نہیں ہوتیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق یہ ایک دماغی مرض ہے۔ جسے ماہرینِ ذہنی صحت نے ’سیلفی نارسزم‘ کا نام دیا ہے جس میں مبتلا فرد اپنی بہت زیادہ تعریف چاہتا ہے اور اس کوشش میں رہتا ہے کہ موقع بے موقع خود کو دوسروں کے سامنے نمایاں کرے اور سیلفی نے یہ کام بہت آسان کردیا ہے۔ علمائے کرام اس پھیلتی وبا کے بارے میں بہت احتیاط کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’’کسی شدید ضرورت کے بغیر جان دار کی تصویر بنانا، کھنچوانا یا استعمال کرنا جائز نہیں ہے، لہٰذا فیس بک، واٹس ایپ وغیرہ پر اپنی یا کسی بھی جان دار کی تصاویر لگانا اور اس پر ’ماشاء اللہ‘ یا ’واہ واہ‘ کہنا جائز نہیں ہے۔‘‘ یہی نہیں بلکہ ایک اور غلط مزاج سوشل میڈیا پرتیزی سے بڑھا ہے، بیشتر افراد ہوٹلنگ کے شوقین اور اپنے پسندیدہ ہوٹل میں اپنے کھانے کی تصاویر تصاویر بناتے ہیں اور تبصروں کےساتھ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ بھی کر دیتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ایک تو اپنی تعریف کی خاطر، گھر والے ہوں تو ان کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے، دوسری کھانے کی تعریف کی خاطر، تیسری ہوٹل کا تعارف کی خاطر، چوتھی وجہ اپنے سوشل میڈیا سرکل کی بلکہ اب تو یہ معاملہ پروفیشنل بھی ہو گیا ہے۔ کھانوں کے وی لاگ بنوائے جاتے ہیں، جس میں باقاعدہ ان کے کھانے کی تعریف و معلومات دی جاتی ہے تاکہ مزید گاہگ آسکیں۔
نیوز ویب سائٹ ’العربیہ‘ نے امریکی یونیورسٹی آف ساؤتھ جارجیا میں کی جانے والی علمی تحقیق کے حوالے سے کہا ہے کہ ایک جدید تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو افراد اپنے کھانے کی تصاویر بناتے ہیں وہ لاشعوری طور پر زیادہ بھوک کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان میں بسیار خوری کی پیدا ہو جاتی ہے جس سے ان کے اندر ایک بعد دوسری خوراک کی طلب بڑھ جاتی ہے۔
سابق صدر پاکستان اور پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری کی جانب سے کراچی میں ’فیض حمید‘ کا نام لے کر ’کھڈے لائن‘ والے کمنٹس سوشل میڈیا پر زرداری کے نام سے لسٹ میں نظر آئے مگر نیچے ہونے کے باوجود یہ کمنٹس معمولی نہیں قرار دیے جا سکتے۔ اسی ٹرینڈ کے ذیل میں عمران خان کے چاہنے والے اینکرز کی ٹوئیٹس فیض حمید کو اگلا آرمی چیف بنانے کا مطالبہ کرتی نظر آئیں۔ اس پوری صورت حال نے یہ ضرور بتایا کہ اصل جنگ ادارے کے اندر ہی جاری ہے کہ نئے سربراہ کا تقرر کون کرے گا؟ کیوں کہ جو تقرر کرے گا وہی اگلے پانچ سال نکالے گا۔ اس لیے سوشل میڈیا پر اس عمل کی منظم کوششیں نظر آئیں۔ یہ از خود بڑا سوالیہ نشان تھا کہ ریاست کا تحفظ کرنے والا ادارہ کیاٗ اس کے عہدے بھی یوں سر بازار ہوں گے۔ اب میں ایک مثال یاد دلانا چاہوں گا کہ تحریک لبیک پر بھی کسی زمانے میں افواج پاکستان کے خلاف کوئی بات کرنے کا الزام لگا، اس کے بعد قانونی کارروائی کے علاوہ ریاست کی جانب سے اُن کے تمام دھرنوں کی مکمل کوریج یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر بھی پابندی لگوا دی گئی جو آج بھی جاری ہے۔ مگر کیا تحریک انصاف پر ایسی کوئی پابندی سننے کو ملی؟ جب کہ سب جانتے ہیں کہ جتنا افواج پاکستان کو‘ اس کے سربراہ کو سوشل میڈیا پر نشانہ بنایا گیا اس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں۔ تحریک انصاف کے جلسوں کی کوریج ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا اور اخبارات میں آج بھی ویسی ہی ہے جیسے پہلے تھی۔ دُنیا بھر کی سیکیورٹی ایجنسیاں اور افواج کے سربراہان کے نام تک منظر عام پر آنے سے روکے جاتے ہیں کہ اُن کا دائرہ کار ہی یہی ہوتا ہے، ان کو کام ہی خفیہ رہ کر کرنا ہوتا ہے۔ کیا کہیے کہ ہمارے ملک میں تو ڈی جی آئی ایس آئی، فوج اور سپہ سالار ‘لیفٹیننٹ جنرل، سمیت کیا کچھ ٹرینڈ نہیں بنے۔ سمجھانے کو اِشارہ کافی ہے اور یہی نہیں مزید اِن ٹرینڈز کے اندر کیا کچھ چلتا رہا، وہ بھلا کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے؟
اس میں ایک بات تو صاف ہے کہ عمران خان بھی، فاشزم کی تیکنیک کو بھرپور استعمال کر رہا ہے۔ اس کے تمام نعرے ’فاشسٹ نعروں‘ کی مانند ہر قسم کے دلائل و عقلیت سے خالی ہوتے ہیں، ان میں صرف جذباتیت اور شخصیت کا اثر ہوتا ہے، ہر جلسے کے لیے نیا منجن ہوتا ہے، بروقت، پوری قوت کے ساتھ ان نعروں یا سلوگن کو عوام میں تمام جدید اسلوب کو اختیار کر کے اُتارا جا رہا ہے۔ لوگوں کی جذباتیت ایسی ہے کہ وہ دلائل، حقائق سننے کو کسی طور تیار ہی نہیں ہوتے۔ ان کے نزدیک سچ وہی ہے جو عمران خان کہہ رہا ہے۔ اس میں عوام کو دیکھتے ہوئے مذہب کا تڑکا بھی لگایا جا رہا ہے کیوں کہ وہ جانتا ہے کہ عوام مذہب کے معاملے میں شعوری زیادہ جذباتی ہیں۔
جمہوریت کے حصار میں اس طرح کی حقوق و آزادی کی سیاست کے علاوہ ہر دوسری دعوت ایک مہمل بات بن کر رہ جاتی ہے، مثلاً آج اگر میں ایک بڑے عوامی جلسے میں لوگوں سے کہوں کہ ’مجھے ووٹ دو کیوں کہ میں اسلامی شریعت نافذ کروں گا اور ہم سب کو اس کے لیے بڑی قربانیاں بھی دینی ہوں گی پھر انہیں یہ آیت سنائوں ’ہم تمہیں ضرور خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصان اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے آزمائیں گے۔‘ تو یقین مانیے پاکستانی عوام تو کجا میرے اپنے گھر والے بھی مجھے ووٹ نہیں دیں گے۔ اس لیے کہ اسلامی نظریہ حکومت عوامی سہولیات نہیں بلکہ تزکیۂ عوام کے تصور پر قائم ہے، یعنی جب تک لوگ تزکیے کے عمل سے نہیں گزریں گے وہ احیا و غلبۂ اسلام کی جدوجہد میں شریک نہیں ہوسکتے۔ اس کے مقابلے میں ”انسانی حق کی خیر پر فوقیت“ کا جمہوری فلسفہ تزکیۂ نفس کے مکمل رد پر مبنی ہے کیوں کہ اس میں یہ بات مفروضے کے طور پر مان لی جاتی ہے کہ لوگوں کی خواہشات کے مطابق سہولیات جیسی بھی ہیں حق اور خیر کا اظہار ہیں۔ اب ظاہر ہے اِس کے بعد تزکیۂ نفس کا سوال اٹھانا ہی بے کار ہے کیوں کہ تزکیے کا تو مطلب ہی یہ ہے کہ مجھے وہ نہیں چاہنا چاہیے جو میں چاہنا چاہتا ہوں ”میری چاہت“ تو صرف اس کے مطابق ہونی چاہیے جو ”مجھے چاہنا چاہیے“۔ مگر عمران خان کے معاملے میں آپ کیا کہیں گے؟ میں تو جب کچھ کہوں گا ناں کہ جب مجھے معلوم ہو کہ عمران خان کا بیانیہ ہے کیا؟ کوئی ایک بیانیہ تو بتا دے؟ کبھی کہتا ہے فوج کی مداخلت۔ میر جعفر، میر صادق ہیں۔ میں مان لیتا ہوں، مگر اگلے دن کہتا ہے فوج سر کا تاج ہے، میر جعفر تو شہباز شریف ہے فوج سے کوئی مسئلہ نہیں۔ کبھی کہتا ہے امریکا کی مداخلت و سازش ہے، میں مان لیتا ہوں، پھر اگلے دن کہتا ہے میں امریکا کا کوئی مخالف نہیں ہوں، کبھی غلامی کا کہتا ہے تو آخری جلسہ میں دوبارہ کرپشن کا مسئلہ لے آتا ہے۔ کبھی کچھ کہتا ہے پھر کچھ۔ جان لیں کہ خطاب سے پہلے ’ایاک نعبد‘ پڑھنے سے سیکولر و لبرل فکر پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شلوار قمیص اور پشاوری چپل مذہبی بیانیے کا اظہار ضرور ہیں مگر اس سے زیادہ نہیں۔ میں نے تو موجودہ ایم کیو ایم پاکستان کے رابطہ کمیٹی روم میں سورۃ شوریٰ کی آیت بھی لگی دیکھی ہے۔ تو کیا وہ سب اسلامی ہو گئے؟
یہی وجہ ہے کہ لوگ اسلام اور سیکولر ازم میں فرق کو شعوری طور پر نہیں سمجھ سکے۔ جب ہم کہتے ہیں کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا، پاکستان کا آئین اسلامی ہے، اقتدار اعلیٰ اللہ کو حاصل ہے، کوئی قانون خلاف قرآن و سنت نہیں بن سکتا۔ تو ساری بات ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اس لیے الگ سے اسلام کے نفاذ کی ضرورت و اہمیت لوگوں کو مزید کنفیوز کر دیتی ہے۔ اس کے مطابق ریاست اللہ کے احکامات اور قانون کے نفاذ کی ذمہ دار ہے تو اب ریاست کے خلاف کوئی بغاوت تو اقتدار اعلیٰ کے خلاف بغاوت کہلائے گی، اس لیے سیکولر ازم کے لبادے کو اسلام سمجھ کر بخوشی پہن لیا جاتا ہے جہاں سے مسائل بڑھتے چلے جاتے ہیں۔

حصہ