ہالی ووڈ فلم: سیل ٹیم سکس دی ریڈ آن اسامہ بن لادن

2622

ذرائع ابلاغ فکر ونظر کے زاویے تبدیل کررہے ہیں۔ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جسے ابلاغ کا دور کہا جاتا ہے، اور ابلاغ عامہ اب سائنس کا درجہ حاصل کرگیا ہے۔ اس کی جہاں دیگر اقسام بڑی اہمیت کی حامل ہیں وہاں انیسویں صدی میں ایجاد کے بعد فلم بیسویں صدی میں تفریح کے ذریعے سے بڑھ کر آج زمانے کی ترقی کے ساتھ ابلاغ کا اہم وسیلہ اور صنعت کا درجہ بھی حاصل کرچکی ہے۔ تما م دنیا میں اس صنعت پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہورہی ہے۔ فلم کی دنیا میں ہالی ووڈ (امریکا)کا اہم مقام ہے۔ ہالی ووڈ کے قیام کو اب ایک سو پینتیس سال ہوگئے ہیں اور اس نے دنیا پر گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ ہالی ووڈ نے تفریح کے ساتھ ساتھ سماجی مسائل اور جنسی موضوعات پر فلمیں بنائی ہیں بلکہ سیاسی موضوعات اور پروپیگنڈے کے پس منظر میں بھی بے شمار فلمیں منظرعام پر آچکی ہیں۔ ہالی ووڈ کی ایکشن فلموں کو تقسیم کیا جائے تو چار مرکزی حصے بنتے ہیں، پہلی قسم کی فلموں میں گینگ وار، سائنس فکشن اور ڈراؤنی فلمیں شامل ہیں۔ دوسری قسم کی فلمیں تاریخی کرداروں پر بنائی گئیں، ان میں حقیقی اور فرضی دونوں طرح کی فلمیں شامل ہیں۔ تیسری نوعیت کی فلموں کا تعلق پہلی اور دوسری جنگِ عظیم سے ہے۔ ہالی ووڈ نے ان جنگوں پر فلمیں بناکر اپنے فوجیوں کی بہادری کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور خود کو بے قصور ثابت کرنے کی کوشش کی۔ ان کے نزدیک ہر جنگ کی وجہ وہ نہیں تھے بلکہ کوئی دوسرا تھا، امریکا نے ہر بار صرف اپنے دفاع میں ہتھیار اٹھائے۔ چوتھی طرح کی فلمیں نائن الیون کے بعد تخلیق ہوئیں جن میں موضوع دہشت گردی ہے، اور امریکا پر حملے سے لے کر اسامہ بن لادن کو مارنے تک تمام مراحل میں اپنے آپ کو حق کی لڑائی لڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ حقائق کیا ہیں یہ ایک الگ موضوع ہے مگر ان فلموں کے ذریعے فلم بینوںکے دماغ تک پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک خیال یہ موجود ہے کہ ہالی ووڈ نے کبھی امریکا کی اپنی دہشت گردی پر کوئی فلم نہیں بنائی۔ مثال کے طور پر پاکستان میں ڈرون حملوں کی وجہ سے بے گناہوںکی ہلاکتوں پر کوئی فلم تخلیق نہیں کی گئی جب کہ بہت سے امریکی شہری بھی ان حملوں کے مخالف ہیں۔ لیکن اُسامہ بن لادن کو مارنے کے لیے جو آپریشن کیا گیا، اس واقعے پر ایک برس کے اندر فلم بنادی گئی۔ فلم سیل ٹیم سکس’’دی ریڈ آن اسامہ بن لادن‘‘ بھی موجودہ عالمی منظرنامے میں ایک اہم فلم ہے۔ اس تحقیق کا بنیادی مقصد پروپیگنڈہ کے نظریات و دیگر نظریات کی روشنی میں پاکستان میں ہونے والے ایک متنازع امریکی فوجی آپریشن کے لیے فلم میں پیش کردہ اخلاقی و قانونی جواز کا مطالعہ ہے۔ اس فلم میں پیش کردہ حقائق ،بالخصوص امریکیوں اور دنیا کی سوچ کے جمودکو توڑنے کے کردار کا جائزہ لینا ہے۔
تاثر بھی ہے کہ امریکا جس کا بھی دشمن ہوا، اس کی فلموں میں وہی ظالم کردار میں دکھائی دے گا۔ ویت نام اور نائن الیون ہو یا افغانستان اور عراق پر قبضہ، ہالی ووڈ کی فلمیں بھی انھی موضوعات کے اردگرد گھومتی رہی ہیں۔ دہشت گردی اور جنگی موضوعات پر بنائی گئی فلموں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کون سی فلمیں ہیں جن کے پیچھے ایک پروپیگنڈہ شامل ہے، یا وہ کسی خاص ایجنڈے کے تحت بنائی گئی ہیں، کیوں کہ متوازن یا غیر جانب دار فلموں میں دونوں طرف کی منظرکشی ہونی چاہیے، مگر اس پر یہ رائے موجود ہے کہ ہالی ووڈ کی فلمیں اس کے برعکس نظر آتی ہیں۔
یہ فلم ایک متنازع امریکی فوجی آپریشن پر مبنی ہے، جو کہ پاکستان کی حدود میں ہوا۔ اس فلم کے ذریعے یہ دکھایا گیا ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں ہی روپوش تھا۔ اس فلم کو تکنیکی لحاظ سے اتنا اچھا بنایا گیا ہے کہ پروپیگنڈہ ہونے کے باوجود اسے دیکھا جائے۔ اسے کہتے ہیں صلاحیت اور ڈیجیٹلائزیشن کا درست استعمال، جس کا مظاہرہ اکثر ہالی ووڈ کرتا ہے۔ سیل ٹیم سکس’’دی ریڈ آن اسامہ بن لادن‘‘ خطرناک ترین مبینہ آپریشن پر بنائی گئی ہے جس کے لیے کئی ماہ تک امریکیوں نے منصوبہ بندی کی تھی۔ ’’سیل ٹیم سکس‘‘ نے پہلی بار میں سب سے زیادہ دیکھی جانے والی فلم کا ریکارڈ قائم کیا۔ فلم کو پہلی بار 27 لاکھ افراد نے دیکھا جو نجی ٹی وی چینل کی تاریخ کا نیا ریکارڈ ہے۔ ’’سیل ٹیم سکس‘‘ میں اسامہ پر امریکی حملے کی منصوبہ بندی اور پھر القاعدہ رہنما کو ٹارگٹ بنانے کے مناظر عکس بند کیے گئے ہیں۔
تاریخی پس منظر:
2 مئی 2011ء کو ایبٹ آباد میں ہونے والا امریکی آپریشن پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین واقعہ ہے، جس کے بارے میں قوم آج تک تذبذب کا شکار ہے۔ 2 مئی2011ء کی رات امریکا کی جانب سے پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے مبینہ کمپائونڈ پر ہیلی کاپٹرز اور کمانڈوز کے ذریعے کارروائی کی گئی۔ اس آپریشن کی ذمے داری امریکی اسپیشل فورس نیوی سیل کی ’ٹیم سکس‘ کو سونپی گئی تھی جو 2001ء سے مشرقی افغانستان میں بن لادن کی تلاش میں مصروف تھی۔ اس مہم میں 2 ’بلیک ہاک‘ ہیلی کاپٹر، 23 کمانڈوز، ایک مترجم اور کائرو نامی تربیت یافتہ کتے شامل تھے۔ افغان شہر جلال آباد سے اُڑان بھرنے والے پانچ ہیلی کاپٹروں میں سے تین پاکستان کے ایک غیر آباد علاقے میں اُتر گئے۔ خاصی گنجائش والے ان ’شنوک‘ ہیلی کاپٹروں میں دو درجن اہلکار سوار تھے۔ عمارت میں کُل تین مردوں اور ایک خاتون کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا۔ عمارت میں بن لادن کے کمرے کے باہر برآمدے سمیت ہر منزل پر بچے بھی موجود تھے۔ اسامہ بن لادن تک پہنچنے میں امریکی کمانڈوز کو تقریباً 15 منٹ کا وقت لگا، جب کہ اگلے لگ بھگ 23 منٹ ناکارہ ہیلی کاپٹر کو تباہ کرنے میں لگے۔آپریشن مکمل ہونے کے بعد امریکی ہیلی کاپٹر واپس افغانستان کے بگرام ائربیس پر پہنچے اور اسامہ بن لادن کی لاش کو سمندر برد کرنے کے لیے فوراً امریکی بحری جہاز پر منتقل کردیا گیا، تاکہ اس کی قبر کے مقام پر مقبرہ قائم ہونے کے امکانات ہی ختم ہوجائیں۔ جس کے بعد امریکی صدر بارک اوباما نے اسامہ بن لادن کے جاں بحق ہوجانے کا اعلان کیا اور اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ مشہور امریکی صحافی سیمور ہرش نے اسامہ کی اس حملے میں موت پر شک کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی روداد جھوٹ پر مبنی ہے۔ آپریشن کے مناظر براہِ راست مختلف مقامات پر نشر کیے جاتے رہے جن میں پینٹاگان اور وائٹ ہائوس بھی شامل ہیں۔
فلم میں ایبٹ آباد آپریشن کی خفیہ معلومات بھی موجود ہیں۔ ایبٹ آباد کمپائونڈ کی نگرانی، سی آئی اے ٹیم کی جاسوسی کی کہانی بھی اس میں شامل کی گئی ہے۔ فلم میں امریکی صدر اوباما کی جھلک نظر آتی ہے جس کی وجہ سے اس فلم کو انتخابی مہم کا حصہ قرار دیا گیا۔ اسامہ آپریشن اوباما دور کی سب سے بڑی کامیابی سمجھا جاتا ہے، اس لیے صدارتی الیکشن سے صرف دودن پہلے اس فلم کا ریلیزہونا معنی خیز قرار دیا گیا۔ فلم میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایبٹ آباد آپریشن سے قبل امریکی میرین سیل نے امریکا کے دشمن نمبر ایک اسامہ کو ہلاک کرنے کے لیے تیاریاں کیں۔ فلم کے ڈائریکٹر جان اسٹاک ویل ہیں، جب کہ کیم گیگانڈٹ، اینسن مائونٹ اور فریڈی روڈریگویز نے فلم میں اہم کردارادا کیا ہے۔ 90 منٹ کی فلم کی حمایت کرنے والوں میں صدر بارک اوباما کے لیے فنڈز اکٹھے کرنے والے اہم رہنما، ہالی ووڈ کی اہم شخصیت ہاروین وین اسٹین بھی شامل ہیں۔ اسامہ بن لادن پر حملے سے متعلق ایک اور فیچر فلم’’زیرو ڈارک 30‘‘ جو عراق جنگ پر فلم’’دی ہرٹ لاکر‘‘ بنانے پر آسکر ایوارڈ حاصل کرنے والے ڈائریکٹر بگلو نے بنائی ہے۔ ڈائریکٹر جان اسٹاک ویل کے کریڈٹ میں بطور ڈائریکٹر شامل کئی فلموں میں سے اکثر میں مماثلت ہے، مگر حیرت انگیز طور پر یہ وار، ایکشن، تھرلر اس موضوع پر ان کی پہلی فلم تھی۔ تاہم فلم ڈائریکٹر جان اسٹاک ویل نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ اس سے ووٹرز پر کوئی اثر پڑے گا۔ اپنے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا ’’یہ نہ تو کبھی اس حوالے سے لکھی گئی تھی اور نہ ہی اس سوچ کے ساتھ اسے فلمایا گیا ہے۔‘‘
آئی ایم بی ڈی فلمی ویب سائٹ پر اسکائپ گوٹس نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ یہ اسامہ کے پکڑے جانے پر ایک ایکشن فلم ہے جس میں حصہ لینے والی ٹیم کی ٹریننگ سے لے کر بن لادن کی ہر ایک سرگرمی اور حرکت پر نظر رکھی ہوئی تھی۔ ابتدا میں سیل ٹیم سیکس کو بھی نہیں معلوم تھا کہ ان کا ٹارگٹ دنیا کا مطلوب ترین شخص ہے۔ ان کو یہ ضرور معلوم تھا کہ ان کا مشن امریکا کے سب سے بڑے دشمن کو ختم کرنا ہے۔ اس بارے میں کچھ ایسی افواہیں بھی موجود تھیں کہ فلم کے پرڈیوسر Harvey weinstein نے کچھ ایسے سین بھی اس میں شامل کیے ہیں جن میں امریکی صدر اوباما اس مشن میں اہم فیصلے کرتے نظر آتے ہیں اور ان کی خصوصی شرکت نظر آتی ہے، جبکہ weinsteinاس بات سے انکاری ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے، 2012ء کے صدارتی انتخاب سے کچھ روز پہلے فلم کا ریلیز ہونا کسی خاص ایجنڈے کی نشاندہی کرتا ہے، جبکہ وائٹ ہائوس ان باتوں کی نہ تصدیق کرتا ہے اور نہ تردید۔
برطانیہ کے اخبار گارجین میں اپنے6نومبر2012ء کے تجزیے میں جان پیٹرسن نے لکھا ہے کہ Harvey weinstein ڈیموکریٹک کے لیے مالی تعاون کرنے والا پروڈیوسر تھا، اس کی خواہش تھی کہ فلم ’’ڈارک ارتھ‘‘ سے زیادہ اس کی فلم کو شہرت حاصل ہو۔ سیل ٹیم سیکس نے اُس وقت کے ماحول میں پروپیگنڈے کا کام کیا۔
کاروباری دنیا ہو یا سیاست کا بازار، لوگ پروپیگنڈے سے متاثر ہوتے ہیں، اور امریکی کچھ زیادہ ہی متاثرہوتے ہیں۔ یہ بات امریکی مصنف ایڈورڈبر نیز نے اپنے ایک مضمون میں بھی لکھی ہے۔ ماضی میں فلم کو پروپیگنڈہ ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد ہالی ووڈ نے مختلف دہائیوں میں جو فلمیں تخلیق کیں، ان کی تعداد 100 سے بھی زیادہ ہے، جن میں سے کچھ فلمیں بہت مشہور ہوئیں جن میں40 کی دہائی میں ٹو بی اور ناٹ ٹو بی، ہینگ مین ایلسوڈائے، لسن ٹو بریٹن، ملینز لائیک اَس، اے واک اِن دی سَن، اے میٹر آف لائف اینڈ ڈیتھ، وینٹ دی ڈے وال جیسی فلمیں شامل ہیں۔ ان میں سے اکثر فلمیں نازی فوجیوں کے بارے میں بنائی گئی ہیں اور پہلی جنگ عظیم کی منظرکشی ان فلموں کے ذریعے بہتر طور پر کی گئی ہے۔
50 کی دہائی میں دی کرینز ایر فلائنگ، آئس کولڈ ان ایلکس، نائٹ اینڈ فوگ، پاراٹروپ کمانڈ، برج آن دی ریورکوائی، اٹیک جیسی فلمیں بنیں، جن میں دل کش اوردل دہلا دینے والے مناظر تھے، لیکن یہ وہ وقت تھا جب فلموں میں ٹیکنالوجی شامل نہیں ہوئی تھی۔ 60 کی دہائی میںآرمی آف شیڈوز، دی ڈرٹی ڈوزین، ہیل ان دی پیسفک، دی گریٹ اسکیپ، بیٹل آف بریٹن، ویئر ایگلز ڈیئر، ہینی بال بروکس، مسٹر کلین جیسی فلمیں تخلیق کی گئیں۔ 70 کی دہائی میں سولجر آف اورنج، کیلیز ہیروز، کراس آف آئرن جیسی فلمیں بنیں۔ ’’بلیک سنڈے‘‘ نامی فلم کو ویت نام کے تناظر میں بنایا گیا۔ اسی طرح 80 کی دہائی میں’’کم اینڈ سی‘‘کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس دہائی میں بننے والی دیگر فلموں میں گریو آف دی فائر فلائز، دی بِگ ریڈ ون، داس بوٹ، اسکیپ ٹو وکٹری، دی کیپ، دی لاسٹ میٹرو، ایمپائر آف دی سن، میپ ہسٹو، شوہو جیسی فلمیں شامل ہیں۔ اس دور تک آتے آتے فلموں میں ٹیکنالوجی کا عمل دخل بھی ہوگیا اور فلمیں بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین ہونے لگیں۔ 90 کی دہائی میںدی تھِن ریڈ لائن سیونگ پرائیویٹ ریان، یوروپا جیسی فلمیں تخلیق ہوئیں۔
نئی صدی کے آغاز پر ذہانت اور ٹیکنالوجی دونوں کا استعمال بھرپور طریقے سے ہونے لگا۔ اس صدی کے چودہ برسوں میں موضوعات بہت زیادہ بڑھ گئے اور پرانی جنگوں کے علاوہ نئی جنگوں پر بھی فلمیں بننے لگیں۔ ان برسوں میں پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے بننے والی فلموں میں ڈیز آف گلوری، دی پیانسٹ، ڈان فال اور دیگر فلمیں شامل ہیں۔ اس دورکے بعد مختلف ممالک نے ایک دوسرے کے لیے جاسوسی کا نظام بھی ترتیب دیا تھا، اس کی مناسبت سے 2010ء میں انجلینا جولی کی فلم ’’سالٹ‘‘ ریلیز ہوئی، جو روس اور امریکا کے سرد جنگ کے زمانے کی فلم ہے ، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح یہ ایک دوسرے کے خلاف جاسوسوں کو تربیت دے کر استعمال کیا کرتے تھے۔ نائن الیون، افغانستان اور عراق کے حوالے سے بنائی گئی فلموں کی تعداد درجنوں میں ہیں۔
ان فلموں کو دہشت گردی کے خلاف جدوجہد قرار دیا گیا۔ رپیسٹروپ، ورلڈ ٹریڈ سینٹر، اے مائٹی ہارٹ، لوائنز فور لیمب، فائر آور افغانستان، اسامہ، قندھار، دی ہرٹ لاکر، جنریشن کِل، دی فور ہارسمین، اِن دی ویلی آف اِلاہ، ہوم آف دی بریو، بیٹل فور ہدایتا، اسٹاپ لاس، زیرو ڈارک تھرٹی شامل ہیں۔ پھر اس فہرست میں زیر بحث ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے متعلق بننے والی فلم ہے۔ ’’سیل سکس‘‘ جو صدارتی انتخاب سے دو دن پہلے نشرکی گئی تھی، امریکی اخبار ڈیلی میل نے فلم کے نشر ہونے کے بعد اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ’’اس فیصلے پر جہاں ایک جانب اوباما کی ٹیم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی وہیں دوسری جانب ری پبلکنز نے اسے پروپیگنڈہ قرار دیا ہے۔ پروپیگنڈہ سے منسلک مشہور قول ہے کہ ’’جھوٹ کو اتنا اور بار بار پھیلائو کہ لوگ اسے قبول کرلیں۔‘‘
’’اگر تم اپنے مخالف کو قائل نہیں کرسکتے تو کم از کم اسے الجھا دو، تاکہ اس کی یکسوئی برقرار نہ رہے۔‘‘ لیکن یہ بھی واضح رہے کہ پروپیگنڈہ صرف جھوٹ کا نہیں ہوتا ہے۔ فلم کے مطالعے کے نتیجے میں جو فلم کے مناظر اور ڈائیلاگ شواہد کی صورت میں ظاہر ہوئے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ فلم کا اسکرپٹ ایجنڈا سیٹنگ کا حصہ ہے اور اس کی تیاری میں بلیک، وائٹ اورگرے پروپیگنڈے سے بھرپور مدد لی گئی ہے، جیسا کہ دنیا کو جب یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ امریکا انسانی حقوق کا سب سے بڑا علَم بردار ہے اور اس نے اسامہ بن لادن کو مارنے کا جو جواز پیش کیا وہ بقول امریکی صدر یہ تھا کہ ’’ہم نے پوری دنیا کو ایک بہت بڑے دہشت گرد سے بچا لیا۔‘‘ لیکن تجزیہ نگار اس خیال کی نفی بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیںکہ خود امریکا جس کو اپنا سب سے بڑا دہشت گرد سمجھتا تھا اُس نے اس سے نجات حاصل کی ہے۔ اسامہ پوری دنیا کا مسئلہ نہیں تھا۔ فلم میں حقائق کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ ناظر کو خود بہ خود امریکی قوم اور امریکی فوج سے ہمدردی پیدا ہوجائے۔ ہم جب یہ کہتے ہیںکہ یہ امریکی پروپیگنڈہ وار کا ایک منظم عمل ہے تو اس کی دلیل ہمیں فلم کے کئی سین سے ملتی ہے، مثلاً ایک سین میں گوانتا ناموبے کے قیدی سے جب سی آئی اے کا افسر یہ کہتا ہے کہ ’’سعودی انٹیلی جنس تمہارے ساتھ بات کرنا چاہتی ہے۔ شاید یہ بات کرنا صحیح لفظ نہیں، ذرا سوچوتم بندھے ہوئے ہو اور تمہارے جسم پر کھال نہیں ہے، کیا تمہیں پتا ہے کہ انسانی جلد کی تین تہیں ہوتی ہیں؟ تمہیں یہ جگہ جنت کی طرح دکھائی دے گی۔ یہ تو طے ہے کہ تم آخر میں مرجائو گے، انہوں نے جو تشدد خانے بنائے ہیں وہ بڑے معیاری ہیں، پھر تمہاری بیوی، بچے… وہ بھی مریں گے۔‘‘ یہاں یہ بات بتانا اور دنیا کو دکھانا مقصود ہے کہ سعودی بڑے ظالم لوگ ہیں اور امریکن تمہارے اتنے بڑے بڑے جرائم ہونے کے باوجود تم سے ناانصافی نہیں کررہے۔ اس پس منظر میں یہ بات بھی ہمارے پیش نظر رہنی چاہیے کہ امریکا کی وضع کردہ دہشت گردی کی جنگ میں سعودی عرب اور پاکستان اس کے اتحادی تو ہیں لیکن امریکا کسی صورت ان دونوں ممالک پر اعتماد نہیں کرتا اور جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان ممالک میں اپنے ایجنڈے کے تحت دہشت گردی بھی کرواتا ہے اور پھر اس واقعے کو کبھی ان ممالک کے لیے ہمدردی جتانے کے لیے استعمال کرتا ہے اور کبھی ’’ڈومور‘‘ کا مطالبہ کرتا ہے۔ مذکورہ سین میں یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ یہ لوگ اتنے کمزور اور بے بس ہیں کہ ذرا سے خوف سے سب کچھ فرفر بتانا شروع کردیتے ہیں، اور بعد میں دکھایا جاتا ہے کہ قیدی (القاعدہ کا اہم رہنما) سعودی انٹیلی جنس کے تشدد کے خوف سے تمام معلومات افشا کردیتا ہے۔
فلم میں یا تاثر دینے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ افغانستان میں امریکی فوج کو کامیابی مل رہی ہے اور وہ افغانستان پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم خواتین پر اعتماد کرتے ہیں لیکن جواب میں ہمیں دھوکہ ملتا ہے، نقصان اٹھانا پڑتا ہے، اسی تسلسل میں ٹیم لیڈر امریکی فوجی کہتا ہے ’’ہماری ٹریننگ اس طرح ہوتی ہے کہ ہمیں اصولوں کے مطابق جینا ہوتا ہے،کسی کو بلاوجہ نقصان نہ پہنچائو، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو اپنی ڈھال نہ بنائو اور نہ ہی پچاس پائونڈ دھماکہ خیز مواد اپنی چھاتی سے باندھو۔ اگر ہم اخلاقی قوانین کو نہیں مانیں گے تو ہم میں اور اُن میں کوئی فرق نہیں‘‘ وغیرہ۔ اس کے علاوہ بھی کئی ایسے مناظر اور بول ہیں جن سے ہمدردی حاصل کرنا اور دنیا کو یہ بتانا مقصود ہے کہ امریکی قوم یا فوج کتنی مہذب اور بلند اخلاق پر فائز ہے کہ وہ حالتِ جنگ میں بھی اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتے اور دشمن کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرتے ہیں۔ جب کہ نتیجے کے طور پر انہیں اپنے فوجیوں کی جانوں کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
فلم میں ایبٹ آباد آپریشن کے بعد اُسامہ کی لاش کو سمندر برد کرنے کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات کا بڑی سمجھ داری سے مگر اشارے میں جواب دینے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ فلم کے ایک سین میں کہا گیا ہے کہ ’’اُسے(اسامہ) اُڑا دینا چاہیے… ہمیں پتا ہے لوگ ثبوت مانگیں گے، لاش دیکھنا چاہیں گے اور ڈی این اے میچ بھی۔ ہمارے خلاف بہت سی افواہیں جنم لیں گی۔‘‘ یہاں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکا کے لیے اُسامہ کو پاکستان میں مارنے کا فیصلہ کرنا اتنا آسان نہیں تھا، جب اس طرح کی کارروائیاں ہوتی ہیں تو بعد میں بہت سے سوالات اٹھتے ہیں اور اس واقعے میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
فلم میں یہ بھی بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اُسامہ کی ایبٹ آباد میں موجودگی کا پاکستان بالخصوص فوج اور آئی ایس آئی کو معلوم تھا، اس لیے فلم میں کہلوایا گیا کہ ’’ہم مان لیتے ہیں کہ اسامہ مرا نہیں ہے اور وہ وہاں اپنی27 بیویوں، 127بچوں اور 27 بکریوں کے ساتھ ہے، تو کیا پاکستانیوں کو نہیں معلوم کہ وہاں پر وہ (اُسامہ) ہے؟ آف کورس معلوم ہے کہ وہ وہاں ہے، یہ فوجی علاقہ ہے، کاکول ملٹری اکیڈمی سے آدھے میل کی دوری پر۔‘‘
امریکا کی طرف سے یہ بات کئی مواقع پر آتی رہی ہے اور آتی رہتی ہے کہ اُسامہ پاکستانی فوج کی پناہ میں تھا۔ 11 ستمبر 2015ء کو امریکی فوج کے لیفٹیننٹ جنرل (ر) مائیکل ٹی فلن جو 2012ء سے 2014ء تک ڈیفنس انٹیلی جنس ایجنسی (ڈی آئی اے) کے سربراہ تھے اور افغانستان میں ایساف افواج کے ڈائریکٹر آف انٹیلی جنس بھی رہ چکے ہیں، نے کہا تھا:
’’یہ جاننے کے فوراً بعد کہ اسامہ بن لادن کو پاکستان میں پناہ گاہ مل گئی ہے، پاکستان میں نہ جانا ایک بہت بڑی اسٹرے ٹیجک غلطی تھی۔ اگر ہم یہ غلطی نہ کرتے تو ہمیں اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں دس سال نہ لگتے۔‘‘مائیکل فلن نے یہ بھی کہا تھا کہ ’’آج پاکستان جو بھی کہے، لیکن اسے شیشے میں یہی نظر آئے گا کہ اس نے دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کو پنپنے دیا اور تاریخ بھی یہی کہے گی کہ پاکستان نے انسداد دہشت گردی کے لیے جو کیا، اس سے کہیں زیادہ کرسکتا تھا۔‘‘
اس کے علاوہ یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہمارے آدمی آئی ایس آئی میں بھی موجود ہیں اور ہم ضرورت پر انہیں استعمال کرسکتے ہیں۔ دکھایا بھی گیا ہے کہ پولیس والے جاسوس کو ایبٹ آباد میں روکتے ہیں تو آئی ایس آئی کا آدمی جاسوس کو چھڑوا دیتا ہے۔ اسی ایک مقام پر کہا گیا کہ ہمارے دو ایجنٹوں کا راز فاش ہوتے ہوتے رہ گیا… ہمارے آئی ایس آئی میں ذرائع ہیں مگر القاعدہ کے بھی وہاں ذرائع ہیں، کیا آپ کو لگتا ہے دو بلین سالانہ سے انہیں خریدا جاسکتا ہے؟
دوران آپریشن مانیٹرنگ روم: پاکستانی جیٹ(طیارے) حرکت میں آگئے ہیں، فضا میں بلند ہورہے ہیں۔ پھر آگے بتایا اور دکھایا گیا ’’پاکستانی جیٹ واپس چلے جائیں ورنہ حملہ کردیا جائے گا۔‘‘ اور پاکستانی جیٹ امریکی دھمکی پر واپس جاتے نظر آتے ہیں۔‘‘
اس بحث کو مزید آگے بڑھایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امریکیوں کی یہ کارروائی کوئی پہلی کارروائی نہیں تھی، اس سے پہلے بھی اُن کی جانب سے کئی مرتبہ شمالی اور جنوبی وزیرستان میں اس قسم کی کارروائیاں ہوچکی تھیں لیکن پاکستان میں اس قدر اندر داخل ہوکر ایبٹ آباد جیسے علاقے میں کبھی ایسی کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی۔ تاہم واقعات سے متعلق دیے گئے بیانات سے کئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ تقریباً دو گھنٹے تک امریکی بلیک ہاک ہیلی کاپٹر پاکستانی فضائوں میں، اور امریکی افواج کے قدم پاکستان کی سر زمین پر رہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ ملک کی فضائی افواج اور جاسوسی کے اداروں کو ان کی موجودگی کا پتا نہیں چل سکا، یہ بات ناقابلِ یقین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کہا جارہا ہے پاکستان کے اربابِ اختیار کو اس کارروائی کے بارے میں بتادیا گیا تھا اور ساتھ ہی یہ ہدایات بھی جاری کردی گئی تھیں کہ وہ امریکی کارروائی کے دوران کسی قسم کے ردعمل سے گریز کریں گے اور اس کارروائی میں کسی بھی مزاحمت سے اجتناب کریں گے، اور فلم کے ڈائیلاگ میں اس بات کو دھمکی کی صورت میں بیان بھی کیا گیا اور دورانِ آپریشن مانیٹرنگ روم کو دکھاتے ہوئے کہا گیا ’’پاکستانی جیٹ (طیارے) حرکت میں آگئے ہیں، فضا میں بلند ہورہے ہیں‘‘۔ پھر آگے بتایا اور دکھایا گیا ’’پاکستانی جیٹ واپس چلے جائیں ورنہ حملہ کردیا جائے گا۔‘‘ اور پاکستانی جیٹ امریکی دھمکی پر واپس جاتے نظر آتے ہیں۔ اور جب ہم اس دور کے اخبارات کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات بھی سامنے آتی ہے اور اس بات کی تصدیق پاکستان کی وزارتِ خارجہ اور خود اُس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیان سے ہوتی ہے جو انہوں نے 3 مئی کو دیا، جس میں انہوں نے امریکی کارروائی کو جواز فراہم کیا۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ ’’امریکا نے یہ کارروائی اپنے اس منصوبے کے عین مطابق کی ہے جس کے بارے میں امریکا نے پہلے ہی اعلان کررکھا تھا کہ اگر اسامہ بن لادن کی موجودگی کے بارے میں دنیا کے کسی بھی مقام کے بارے میں پتا چلا تو اسامہ کوختم کرنے کے لیے امریکی افواج خود کارروائی کریںگی۔‘‘ تاہم مختلف الفاظ میں پاکستان کے لوگوں کو یقین دلایا گیا ہے کہ طاقت ور امریکا نے پاکستان کے اعتراضات کے برعکس یہ کارروائی مکمل کی۔ اس دور کے امریکی ذرائع ابلاغ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خفیہ معلومات کی روشنی میں یہ یقین کیا گیا کہ متعلقہ مقام پر اسامہ بن لادن کی موجودگی کے 40 سے 60 فیصد امکانات ہیں، جو کسی بھی کارروائی کے لیے کافی تھے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی قسم کی پیچیدگی سے بچنے کے لیے جس مقام پر امریکی کمانڈو کو کارروائی کرنی تھی اس سے متعلق پاکستان کے حکام کو آخری وقت میں اطلاع دے دی گئی ہو لیکن انہوں نے اپنے اصل ہدف کے بارے میں معلومات کو خفیہ ہی رکھا۔ اس طرزعمل سے سی آئی اے کے سربراہ کے اس توہین آمیز بیان کی بھی عکاسی ہوتی ہے کہ پاکستان کو ہدف کی نوعیت کے بارے میں نہیں بتایا گیا تھا کیوں کہ ایسا کیا جاتا تو خطرہ تھا کہ کارروائی کے بارے میں معلومات پہلے ہی ظاہر کردی جاتیں اور مشن ناکام ہوجاتا۔ اور یہی وائٹ پروپیگنڈہ فلم میں بھی کیا گیا ہے۔
مغربی میڈیا کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ دہشت گردی کے مختلف واقعات کو بنیاد بناکر یا اسامہ اور ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے نئے نئے انکشافات کرکے پاکستان کو بدنام کیا جائے۔ مذکورہ فلم اسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ فلم کے مواد پر تجزیہ کرنے سے بھی یہ بات سامنے آئی ہے کہ ہالی ووڈ کی فلم ’’سیل سیکس‘‘ دنیا میں اُس امریکی خواب کا تسلسل ہے جو اس کے بانیوں نے دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر دیکھے تھے۔ پالیسی سازوں نے عالمی حکمرانی کے اپنے اس خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کئی منصوبے بنا رکھے ہیں، ان میں سے اُن کا ایک ایجنڈا یہ بھی ہے کہ اپنی اخلاقی ساخت کا پروپیگنڈہ کیا جائے اوردنیا پر طاقت کا رعب بٹھایا جائے، اور فلم اس کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ فلم سیل ٹیم سکس میں پروپیگنڈہ تھیوری کی قسم وائٹ پروپیگنڈے کے پس منظر میں ایبٹ آباد آپریشن ایک سوچا سمجھا آپریشن تھا، اس کو باور کرانا بھی مقصود تھا۔ اس بات کی اپنی جگہ اہمیت ہے اور اس سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستان نہ صرف باخبر تھا بلکہ ملوث بھی تھا۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ امریکا کا سب سے بڑا دشمن پاکستان کے ایسے حساس علاقے میں موجود ہو اور پھر بھی امریکی حکومت کہے کہ پاکستان سے تعلقات خراب نہیں ہوں گے! اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اتنا جدید ریڈار سسٹم ان ہیلی کاپٹرز کو نہ دیکھ سکے؟ پاکستان نے افغانستان سے یہ احتجاج تک نہ کیا کہ افغانستان کی زمین ہمارے خلاف استعمال ہوئی اور ہیلی کاپٹر افغانستان سے یہاں آکر اور چالیس منٹ یہاں کارروائی کرنے کے بعد بغیر فیول لیے واپس جا ہی نہیں سکتے۔ ان سب باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک مشترکہ اور سوچا سمجھا منصوبہ تھا، ورنہ اگر امریکا کے جاسوسی کے آلات اتنے جدید ہوتے کہ صرف تین ماہ میں ایبٹ آباد میں موجود اسامہ کا پتا لگا لیا تو گزشتہ سات سال تک یہ کام کیوں نہ ہوسکا؟ اس لیے ہم نے جہاں یہ کہا کہ اس فلم میں بلیک پروپیگنڈے سے کام لیا گیا ہے وہاں اس فلم میں وائٹ پروپیگنڈہ بھی شامل ہے جس میں حقائق کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا گیا، اور یہاں پر جنگی حکمتِ عملی کے تحت معاہدوں کو فلم کے ذریعے لوگوں کو بتاکر پاکستان کو نیچا دکھانا مقصود ہے کیوں کہ واقعہ ایبٹ آباد کے بعد پاکستان کے لیے کئی مواقع پر امریکا کے ’’ڈومور‘‘ کے مطالبے میں کچھ دینا مشکل ہوگیا تھا جس کی وجہ عوام کا دبائو اور اس واقعے پر تشویش تھی۔ جیسا کہ ہم تجزیہ کرچکے ہیںکہ یہ فلم امریکا کی کوئی پہلی فلم نہیں ہے، ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے امریکا اور دیگر مغربی ممالک میں کئی مضامین اور کتب شائع ہوچکی ہیں جب کہ متعدد اور فلمیں بھی منظرعام پرآچکی ہیں جن میں اسامہ بن لادن کے گڑے مُردے اُکھاڑنے اور ایبٹ آباد آپریشن پر نئے نئے سوالات اٹھانے کی کوشش کی جا چکی ہے تاکہ اسامہ بن لادن اور ایبٹ آباد آپریشن کے معاملے کو ہوا دے کر پاکستان اور پاکستان کی مسلح افواج کو بدنام کیا جا سکے۔
بہرحال پیش بندی کے پس منظر میں بنائی گئی فلم میں ایبٹ آباد آپریشن کا امریکی عوام اور دنیا کو جواز فراہم کرنے کی جہاں کوشش ہے وہاں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ 2011ء میں ایبٹ آباد آپریشن کے حقائق منظرعام پر لانے کے لیے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں جو ایبٹ آباد کمیشن قائم کیا گیا تھا اور کمیشن نے وزیراعظم پاکستان کو اپنی رپورٹ 4 جنوری 2013ء کو پیش کردی تھی، ایسی صورت حال میں جب ایبٹ آباد آپریشن کے حوالے سے نئے نئے انکشافات سامنے آرہے ہیں، ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر نہ لانے سے مختلف خدشات جنم لے رہے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے تاکہ عوام کو نہ صرف حقائق سے آگاہی حاصل ہوسکے بلکہ مغربی میڈیا کے من گھڑت نت نئے انکشافات اور پروپیگنڈے کا سدباب بھی کیا جا سکے۔

حصہ