قیصرو کسریٰ قسط(49)

198

’’اس مرتبہ میں نے انہیں صلح کا مشورہ دینے کی حماقت نہیں کی۔ بلکہ اس بات پر زور دیا کہ ہمیں یروشلم پر چڑھائی کرنے سے پہلے لبنان کی چند اور بندرگاہوں پر قبضہ کرلینا چاہیے تا کہ رومیوں کا بحری بیڑہ ہمارے لیے کسی پریشانی کا باعث نہ ہو۔ ہمارے جرنیلوں کی اکثریت اس بات کی حامی تھی کہ ہمیں کسی تاخیر کے بغیر یروشلم پر چڑھائی کردینی چاہیے۔ وہاں سے کل یہودیوں کا ایک وفد آیا تھا اور انہوں نے بھی شہنشاہ پر زور دیا تھا کہ رومی افواج فیصلہ کن جنگ لڑنے کی نیت سے یروشلم میں جمع ہورہی ہیں اس لیے ہمیں حملے میں تاخیر کرکے انہیں مزید تیاری کا موقع نہیں دینا چاہیے لیکن میں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اگر یروشلم کے محاصرے نے طول کھینچا تو اہل روم کو اپنی بحری قوت سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جائے گا اس لیے ہمیں یروشلم کا محاصرہ کرنے سے پہلے اُن کی کمک کے راستے بند کردینے چاہئیں۔ آج ایک طویل بحث کے بعد شہنشاہ نے میری تجویز مان لی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی مجھے سیاریہ کا محاصرہ کرنے والے لشکر کو کمک پہنچانے کا حکم دیا ہے۔ میں کل صبح یہاں سے تین ہزار سواروں کے ساتھ روانہ ہوجائوں گا۔ چند دن تک شہنشاہ خود بھی لبنان کے محاذ پر پہنچ جائیں گے۔ اس جنگ کو ختم کرنے کی اب ایک ہی صورت باقی رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ ہم رومیوں کو اس حقیقت کا اعتراف کرنے پر مجبور کردیں کہ وہ ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اور اُن کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ بلاتاخیر ہتھیار ڈال دیں۔ میں علی الصباح فوج کے مستقر میں چلا جائوں گا۔ اور وہاں سے محاذ پر روانہ ہوجائوں گا اس لیے شاید تم سے دوبارہ ملاقات کا موقع نہ ملے۔ میں تم سے یہ وعدہ لینا چاہتا ہوں کہ تم یہیں رہو گے اور میری غیر حاضری میں دمشق چھوڑ کر بھاگنے کی کوشش نہیں کرو گے۔ یہ حکم نہیں بلکہ ایک درخواست ہے، ایک ایسے شخص کی درخواست جو تمہیں اپنا بیٹا سمجھنے میں ایک راحت محسوس کرتا ہے۔ میری عمر کا انسان نئے ساتھی اور دوست تلاش نہیں کرتا لیکن تمہیں دیکھ کر مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تم جیسے ہمیشہ سے میرے ساتھ ہو‘‘۔

عاصم نے متاثر ہو کر کہا۔ ’’اِس گھر سے باہر میرے لیے کوئی جگہ نہیں اور اگر ہو بھی تو میں آپ کی اجازت کے بغیر نہیں جائوں گا‘‘۔
سین مسکرایا۔ ’’میں تمہارا شکریہ ادا کرتا ہوں‘‘۔
تھوڑی دیر بعد عاصم اپنے بستر پر لیٹا اپنے دل میں سین کی گفتگو دہرا رہا تھا۔ اُسے اس بات کی کوئی خوشی نہ تھی کہ پرویز نے لبنان کی بندرگاہیں فتح کرنے کے متعلق سین کا مشورہ مان لیا ہے۔ تاہم یہ پہلا موقع تھا کہ اُس کے خیالات ایرانیوں کی فتح کے حق میں تھے اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ سین محاذ جنگ پر جارہا تھا۔
…٭…
عاصم کو سین کے گھر میں زندگی کی تمام آسائشیں میسر تھیں۔ ماضی کے زخم آہستہ آہستہ مندمل ہورہے تھے۔ وہ دنیا جسے عاصم اپنے پیچھے چھوڑ آیا تھا دنوں، ہفتوں اور مہینوں کے پردوں میں چھپتی جارہی تھی۔
ابتداء میں جنگ کے متعلق وحشت ناک خبریں اُسے پریشان کیا کرتی تھیں اور وہ ہرنئے شہر یا قلعے پر ایرانیوں کی فتح یابی کی خبر سننے کے بعد اپنے دل میں ناخوشگوار دھڑکنیں محسوس کیا کرتا تھا۔ لیکن اب وہ ان خبروں کا عادی ہوچکا تھا۔ ایرانیوں کی بربریت کے خلاف اگر اُس کے دل میں کوئی نفرت تھی تو وہ سین سے عقیدت کے جذبات میں دب چکی تھی۔ تاہم جب وہ تنہائی کے لمحات میں اپنے حال اور مستقبل کے متعلق سوچتا تو اُسے اِس قسم کے خیالات پریشان کرنے لگتے، میں یہاں کیا کررہا ہوں؟۔ اس گھر میں میری کیا حیثیت ہے؟ میں کب تک روم اور ایران کی جنگ سے بے تعلق رہ سکتا ہوں؟ یہ گھر اِس دنیا میں میری آخری جائے پناہ ہے۔ سین نے اُس وقت میری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے جب میرا کوئی سہارا نہ تھا۔ کیا وفاداری کا یہ تقاضا نہیں کہ میں اُس کے دوستوں کو اپنا دوست اور اُس کے دشمنوں کو اپنا دشمن سمجھوں۔ وہ میدان جنگ میں میرے متعلق کیا سوچتا ہوگا؟۔ اُس کی بیوی جو عیسائی ہونے کے باوجود صبح و شام اپنے شوہر کی سلامتی کی دعائیں مانگتی ہے اور اُس کی بیٹی جس کا چہرہ ایرانیوں کی فتوحات کی خبریں سن کر دمک اُٹھتا ہے، میرے متعلق کیا سوچتی ہوں گی۔ اور یہ نوکر جنہیں فسطینہ میری بہادری کے قصے سنا کر مرعوب کرنے کی کوشش کیا کرتی ہے میرے متعلق کیا خیال کرتے ہوں گے؟‘‘۔
کبھی کبھی اُسے اِس گھر کی چار دیواری کے اندر ایک گھٹن سی محسوس ہونے لگتی اور اُس کا جی چاہتا کہ وہ بے بسی اور مجبوری کی زنجیریں توڑ کر کسی ایسے ویرانے کی طرف نکل جائے جہاں اُسے جاننے والا کوئی نہ ہو۔ لیکن پھر مکان کے کسی گوشے سے فسطینہ کے معصوم قہقہے سنائی دیتے اور زندگی کے تلخ حقائق اُس کی نگاہوں سے اوجھل ہوجاتے ایک دن فسطینہ بھاگتی ہوئی اُس کے پاس آئی اور عاصم کو ایسا محسوس ہوا کہ کائنات کی ساری خوشیاں اور تمام قہقہے اُس کی آنکھوں میں سما گئے ہیں۔ وہ بولی ’’ابا جان کا خط آیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہم نے تین شہر اور فتح کرلیے ہیں۔ دیکھیے یہ اُن کا خط ہے۔ انہوں نے امی جان کو آپ کے متعلق بھی چند باتیں لکھی ہیں۔ میں آپ کو پڑھ کر سناتی ہوں۔ وہ لکھتے ہیں مجھے ہمیشہ اس بات کا خیال رہتا ہے کہ میں ساری عمر اس کی نیکی کا بدلہ نہیں دے سکوں گا۔ میں واپس آکر اُسے کسی ایسے کام پر لگادوں گا جو اُس کی خواہش کے مطابق ہو۔ میں شہنشاہ سے اُس ذکر کیا تھا اور انہوں نے فرمایا تھا کہ ایسا نوجوان ہماری طرف سے انعام کا مستحق ہے۔ میں کسی دن موقع ملتے ہی اُسے شہنشاہ کی خدمت میں پیش کروں گا‘‘۔
عاصم کوئی جواب دینے کی بجائے اس انجان لڑکی کی طرف دیکھتا رہا۔ اور وہ قدرے توقف کے بعد بولی ’’مجھے یقین تھا کہ ابا جان آپ کے لیے کوئی بڑا عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ جب آپ شہنشاہ کے سامنے پیش ہوں گے تو آپ کے لیے عزت اور شہرت کے تمام دروازے کھل جائیں گے۔ ممکن ہے آپ کسی لشکر کے سالار بن جائیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو کسی علاقے کا حاکم بنادیا جائے‘‘۔
عاصم مسکرایا۔ ’’اگر میں سالار یا حاکم بن جائوں تو تم خوش ہوجائو گی؟‘‘۔
’’ہاں‘‘۔ اُس نے سنجیدہ ہو کر جواب دیا۔ ’’پھر کسی کو یہ کہنے کی جرأت نہ ہوگی کہ آپ جنگ میں حصہ لینے سے خوف کھاتے ہیں۔ اور آپ کوکسی کی بھیڑیں چرانے کا خیال بھی نہ آئے گا‘‘۔
فسطینہ ہنستی ہوئی واپس جارہی تھی اور عاصم پہلی بار چند برس آگے ان دنوں کا تصور کررہا تھا جب وہ کسریٰ کی فوج کے ایک سالار کی حیثیت سے کسی بڑی مہم سے واپس آرہا ہوگا اور کسی خوبصورت محل کے دروازے پر اس کمسن لڑکی کی بجائے ایک عورت اُس کے استقبال کے لیے کھڑی ہوگی۔ لیکن تھوڑی دیر بعد اُسے یہ حسین تصورات مضحکہ خیز محسوس ہونے لگے۔ وہ اپنے دل میں کہہ رہا تھا۔ یہ ہوسکتا ہے کہ میں پرویز کی فوج میں بڑے سے بڑا عہدہ حاصل کرلوں۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ کسی خوبصورت محل پر میرا انتظار کرنے والی عورت فسطینہ ہو۔ میں ایک عرب ہوں اور سین کی بیٹی کسی ایرانی شہزادے کی راہ دیکھنے کے لیے پیدا ہوئی ہے۔ میں اُسے اپنے دل میں جگہ دے سکتا ہوں لیکن میری دنیا اُس کے لیے بہت تنگ ہے۔ اور اس کی دنیا میں کسی دن میری حیثیت اُن ستاروں سے مختلف نہیں ہوگی جن کی ٹمٹماہٹ طلوع آفتاب کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے‘‘۔
پھر جب اپنی غریب الوطنی، کم مائگی اور بے بسی کے احساس سے اُس کا دم گھٹنے لگا تو اُس کے دل کی گہرائیوں میں وہ جذبہ خود پسندی کروٹیں لینے لگا جو زندگی کے ہر امتحان میں ایک بددی کا آخری سہارا تھا۔ اب وہ اپنے دل کی تسلی دے رہا تھا۔ میں اپنے ماضی کو واپس نہیں لاسکتا لیکن مجھے اپنے حال اور مستقبل سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ اس دنیا کی راحتیں اُن لوگوں کا خراج ہیں جو تلوار کی نوک سے اپنا راستہ صاف کرتے ہیں اور میں اپنی تلوار پر بھروسا کرسکتا ہوں۔ زندگی میں یہی میرا ایک ایسا دوست اور ساتھی ہے جس نے مجھے کبھی دھوکا نہیں دیا۔ اسی نے میرے لیے سین کے گھر کا دروازہ کھولا ہے اور یہی مجھے آئندہ کے لیے اُس کی دوستی کا مستحق ثابت کرسکتی ہے۔ اپنی قوتِ بازو پر اعتماد کرکے میں ایران کے عالی نسب شہزادوں کے دوش بدوش کھڑا ہوسکتا ہوں۔ اگر یہ لوگ مجھے ایک بہادر آدمی سمجھتے ہیں تو میں انہیں مایوس نہیں کروں گا‘‘۔
O
ایک دن عاصم فیروز کے ساتھ سیر کو نکلا اور دیر تک جبل الشیخ کی دلفریب وادیوں میں گھومتا رہا۔ شام کے قریب گھر پہنچتے ہی اُسے سین کی آمد کی اطلاع ملی اور اُس نے اپنے دل میں خوشگوار دھڑکنیں محسوس کرتے ہوئے ایک نوکر سے پوچھا۔ ’’وہ ٹھیک ہیں نا؟‘‘۔
’’ہاں! بالکل ٹھیک!‘‘ اُس نے جواب دیا۔ عاصم کوئی اور سوال کیے بغیر آگے بڑھا اور اصطبل کے سامنے گھوڑے سے کود پڑا، ایک نوکر نے بھاگ کر گھوڑے کی باگ پکڑلی اور عاصم چند ثانیے اُس کی گردن پر ہاتھ پھیرنے اور تھپکیاں دینے کے بعد زین اتارنے لگا۔ اچانک اسے ایک بلند قہقہہ سنائی دیا اور وہ مڑ کر پائیں باغ کی طرف دیکھنے لگا۔ فسطینہ چند قدم دور ایک خوش پوش اور وجیہہ نوجوان کے ساتھ انتہائی بے تکلفی سے باتیں کررہی تھی اور وہ اُس کی مسکراہٹوں کے جواب میں پوری قوت کے ساتھ ہنسنے کی کوشش کررہا تھا۔ عاصم کو اپنی طرف متوجہ دیکھ کر فسطینہ آگے بڑھی اور اس اجنبی نوجوان کے کھوکھلے قہقہے حلق میں اٹک کر رہ گئے۔
فسطینہ نے قریب آکر کہا۔ ’’ابا جان آگئے ہیں اور انہوں نے آتے ہی آپ کے متعلق پوچھا تھا، آپ نے بہت دیر لگائی…‘‘ عاصم نے کہا۔ ’’میں ذرا دور نکل گیا تھا۔ وہ کہاں ہیں؟‘‘۔
’’اندر سو رہے ہیں‘‘۔
’’اور وہ کون ہے؟‘‘۔
فسطینہ نے جواب دیا۔ ’’یہ ایرج ہے اور ایران کے ایک بہت بڑے خاندان سے تعلق رکھتا ہے۔ مدائن میں اس کا گھر ہمارے گھر کے سامنے تھا۔ اس کا باپ ابا جان کا دوست تھا۔ یہ آرمینیا کی جنگوں میں دو بار زخمی ہوچکا ہے اور اب لبنان کے محاذ سے ابا جان کے ساتھ آیا ہے‘‘۔
ایرج جو تذبذب اور پریشانی کی حالت میں کھڑا تھا، آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھا۔
فسطینہ نے اُس سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’یہ عاصم ہیں اگر یہ ہماری مدد نہ کرتے تو آج شاید ہم یہاں نہ ہوتے‘‘۔
عاصم نے ایرج کی طرف ہاتھ بڑھایا لیکن اُس نے مصافحہ کرنے کے بجائے عاصم کے گھوڑے کی گردن پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔ ’’یہ گھوڑا بہت خوبصورت ہے‘‘۔
ایک ثانیہ کے لیے عاصم کی رگوں کا سارا خون سمٹ کر اُس کے چہرے میں آگیا۔ تاہم اس نے ضبط سے کام لیتے ہوئے کہا۔ ’’یہ گھوڑا خوبصورت بھی ہے اور شریف بھی اور عرب گھوڑوں کے ظاہری حسن کی بجائے اُن کی شرافت کی زیادہ قدر کرتے ہیں‘‘۔
ایرج نے گھور کر عاصم کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’ہم گھوڑے کی شرافت کا اندازہ کرنے کے لیے اس کے سوار کو دیکھتے ہیں۔ اگر ہماری ملاقات اس گھر کے بجائے کسی اور جگہ ہوتی تو میں اپنے نوکروں سے کہتا کہ اس گھوڑے کو ایک اچھے سوار کی ضرورت ہے۔ اب میں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اس کی قیمت کیا ہے؟‘‘
عاصم نے زین اُتار کر نوکر کے حوالے کرتے ہوئے کہا۔ ’’اس کی قیمت ایک بہادر اور شریف دوست کی مسکراہٹ ہے‘‘۔
فسطینہ جو اب تک پریشانی کی حالت میں اُن کی گفتگو سن رہی تھی۔ ایرج سے مخاطب ہو کر بولی۔ ’’آپ کو خیال کیسے آیا کہ ہمارے گھر میں مہمان اپنے گھوڑے فروخت کرنے آتے ہیں؟‘‘۔
ایرج کا غرور پریشانی میں تبدیل ہورہا تھا اور اسنے اپنی خفت مٹانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا میں تو صرف مذاق کررہا تھا فسطینہ! مجھے معلوم تھا کہ یہ عرب اپنے گھورے پر جان دینے کو تیار ہوجاتے ہیں‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ