اپنی تقدیر خود بنائیے

285

آپ کی تقدیر میں کیا ہے، آپ کامیاب ہیں یا ناکام؟ آپ کی آرزوئیں پوری ہوں گی۔ یا زندگی بھر آپ یوں ہی ہاتھ ملتے رہیںگے؟ اس کا صحیح علم کسی کو نہیں۔ آپ کے پاس کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے جس سے آپ تقدیر کی اصل حقیقت معلوم کر سکیں۔ وہم و گمان اور قیاس اور اندازوں سے اگر کوئی اشارہ ملے بھی تو وہ ہر گز قابل اعتماد نہیں، اس لیے آپ یہ معلوم کرنے میں ہر گز اپنا وقت صرف نہ کیجیے کہ آپ کی تقدیر میں کیا ہے۔ یہ علم نہیں، جہالت ہے۔ دانائی نہیں حماقت ہے۔
مسلمان کو جن حقیقتوں پر ایمان رکھنا چاہیے ان میں سے ایک ایمان بالقدر بھی ہے۔ تقدیر پر ایمان رکھنے کا مطلب یہی ہے کہ آپ دل سے یہ حقیقت تسلیم کریں کہ آپ کو صرف وہی کچھ حاصل ہو گاجو اللہ نے آپ کے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ آپ کی تقدیر میں جو نہیں ہے وہ ہر گز آپ کو میسر نہیں آسکتا۔ لیکن آپ کی تقدیر میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے، یہ نہ آپ کو معلوم ہے اور نہ کسی طرح معلوم ہو سکتا ہے۔ اس لیے زندگی کے کسی مرحلے میں بھی آپ کو سوچنے کی یہ بات نہیں ہے کہ آپ کی تقدیر میں کیا ہے؟
آپ کے سوچنے اور فکر کرنے کی بات اگر ہے تو صرف یہ ہے کہ آپ جو پاکیزہ اور پسندیدہ آرزو رکھتے ہیں، اسے پورا کرنے کے لیے آپ کو کیا کچھ کررہے ہیں۔ تقدیر بنانا اور فیصلہ کرنا خدا کا کام ہے۔ آپ کا کام صرف یہ ہے کہ جو کچھ چاہتے ہیں اس کے لیے اَن تھک محنت کریں اور کسی وقت بھی مایوس، کم ہمتی اور جی چھوڑ بیٹھنے کا شکار نہ ہوں۔
تقدیر پر آپ کی ایک گمراہ کن تعبیر اکثر زندگیوں کو برباد کر ڈالتی ہے۔ اس تعبیر کے چکر سے خدا کی پناہ مانگیے اور اگر اس کا سایہ آپ پر پڑ رہا ہو تو اس سے بھاگ نکلنے کی بے تابانہ کوشش کیجیے۔
بعض پست ہمت، کامل ، تھڑدلے اور آرام طلب لوگ اپنے ناکارہ پن کو ایمان بالقدر کا نام دے کر خود کو بھی دھوکا دیتے ہیں اور دوسروں کو بھی دھوکا دینے کی گمراہ کن کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنی کاہلی، کم ہمتی اور آرام طلبی کے لیے اس یاس انگیز جملے کا سہارا لیتے ہیں کہ ’’تقدیر ہی خراب ہے!‘‘ ان کی سستی، کاہلی، پست ہمتی اور ناکارہ پن پر کوئی ذمے داری نہیں ہے۔ اس عمل کی دنیا میں جہاں شب و روز مسابقت اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی مسلسل کوشش ہو رہی ہے، ان کاہلوں کے نزدیک ان کی بے عملی پر کوئی ذمے داری نہیں ہے۔ ان کی ناکامی اور نامرادی کی ساری ذمے داری اور ان کی تقدیر پر ہے۔ کسی قدر دھوکے میںہیںیہ لوگ اور کیسی عجیب و غریب ہے ان کی منطق ان کی خستہ حالی اور پستی کی ذمے داری خود انہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے۔ کس قدر احمقانہ اور جاہلانہ ہے ان کا یہ انداز فکر۔
آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی کامیاب ہو، آپ تاب ناک زندگی کے مالک ہوں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک پسندیدہ اور پاکیزہ آرزو نہیں ہے۔ مگر اس حقیقت سے کون انکار کی جرات کر سکتا ہے کہ محض آرزو رکھنے سے کوئی آرزو پوری نہیں ہوتی۔ آرزو کیسی ہی اعلیٰ اور پسندیدہ ہو، محض اس وجہ سے وہ کبھی پوری نہیں ہو جائے گی کہ آپ کے سینے میں پرورش پا رہی ہے۔ اسباب کی اس دنیا میں یہ قطعاً ممکن نہیں۔
اس کار گاہِ حیات میں آپ کے لیے یہ سوچنے کا نہ کوئی جواز ہے اور نہ فائدہ کہ آپ کی تقدیر میںکیا ہے۔ آپ کے سوچنے اور فکر کرنے کی بات یہ ہے کہ آپ جو آرزو رکھتے ہیں، اس کے لیے آپ کی فکر و سعی، دوڑ دھوپ، جاں فشانی ، لگن اور مسلسل کوشش و کاوش کا کیا حال ہے؟ ایمان بالقدر کی غلط تعبیر کر کے زندگی کو گنوانے والے کچھ کو تاہ اندیش اور فکر و بصیرت کے مفلس، اگر ہاتھ پر ہاتھ رکھے اپنی قسمت کو رو رہے ہیں تو آپ ان پر افسوس کرنے میں اپنے دو لمحے بھی ضائع نہ کیجیے۔ یہ اپاہج سماج پر بوجھ ہیں۔ ان کا وجود سماج کے لیے پھوڑے کے ورم سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ یہ ہر گز اس لائق نہیں ہیں کہ ان کے گمراہ کن فکر و عمل پر کوئی ہوش و خرد رکھنے والا توجہ کرے۔ یہ زبر دست نادانی اورجہالت ہو گی کہ کوئی ان کی عبرت ناک زندگیوں سے تقدیر کے نازک مسئلے کو سمجھنے کی حماقت کرے۔ خدا کرے ، ا ٓپ ان حرماںنصیبوں سے ہر گز اثر نہ لیں اور خدا کی بخشی ہوئی بے پناہ قوتوں اور صلاحیتوں کو مفلوج کر کے اپنی ناکامی کے لیے آپ تقدیر کی خرابی کا بہانہ ہر گز نہ کریں، بلکہ خود کو ٹٹولنے کی ہمت کریں اور اپنا کڑا جائزہ لیں۔ اس جائزے میں آپ جو قوت بھی صرف کریں گے ، کامیابی کی منزلیں طے کریں گے، آگے بڑھیں گے اوراپنے مقصود سے قریب ہوں گے۔ اس کے بر خلاف اگر آپ تقدیر کا رونا ہی روتے رہے تو یہ ایک ایک لمحہ آپ ضائع کریں گے، اور اپنے کو کچھ اور زیادہ اپاہج بنانے میں زندگی کی قیمتی متاع کو ضائع کریں گے… اور آپ جانتے ہیں کہ دنیا کی حماقتوں میں اس سے بڑی حماقت نہیں ہو سکتی کہ آدمی زندگی جیسی چیز کے لمحات ضائع کر دیں۔
زندگی وہ قیمتی سرمایہ ہے کہ اس سے زیادہ قیمتی سرمایہ تصور کی دنیا میں بھی آپ کے لیے نہیں ہو سکتا ۔ دنیا کی ہر نعمت کا نعمت ہونا زندگی پر موقوف ہے۔ زندگی ہے تو ہر نعمت واقعی نعمت ہے اور زندگی نہیں ہے تو ہر نعمت بے کار ہے۔ کیا یہ بات کسی طرح آپ کے لیے صحیح ہو سکتی ہے کہ ایسی قیمتی متاع کا کوئی لمحہ آپ ضائع کریں۔
پھر یہ حقیقت بھی ذہن میں تازہ کر لیں کہ اس زندگی کا جو لمحہ آپ نے ایک بار ضائع کر دیا ، وہ ضائع ہو ہی گیا… اب وہ کسی قیمت پر آپ کو دوبارہ نہیںمل سکتا۔ گزرا ہو وقت کبھی واپس نہیں آتا۔ جو گزر گیا ، سو گزر گیا۔ یہ حقیقت آپ کے ذہن میں تازہ ہو تو ممکن نہیں کہ آپ کبھی اس متاع عزیز کو ضائع کر دیں۔ دراصل زندگی کی قیمتی گھڑیوں کو وہی نادان ضائع کرنے کا زبر دست جرم کرتے ہیں جو شعور سے محروم ہوتے ہیں۔
پھر یہ حقیقت بھی اچھی طرح ذہین نشین کر لیجیے کہ اپنی ناکامی اور نامرادی کے ذمے داری دوسروں پر ڈالنا بھی کوئی صحت منداندازِ فکر نہیں ہے۔ یہ غلط اندازِ فکر ہے۔ صحت مند اندازِ فکر رکھنے والے اس طرح کبھی نہیں سوچتے۔ اپنی ناکامی کے آپ خود ذمے دار ہیں اور آپ کی کامیابی کا سہرا صرف آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ صرف اسی قدر پائیں گے جس قدر پانے کے لیے کوشش کریں گے۔ اپنا مستقبل آپ خود بنائیں گے۔ آپ بنائیں اور کوئی دوسرا بگاڑ دے ، یہ بھی ممکن نہیں۔ اور آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور مستقبل تاب ناک بن جائے، یہ بھی ممکن نہیں۔ آ پ شب و روز اَن تھک محنت کریں اور صرف ناکامی آپ کے ہاتھ میں آئے، یہ بھی ناممکن۔
سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس کے حکم کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کو صرف وہی ملتا ہے جو خدا چاہتا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے اور جس پر خدا کی کتاب گواہ ہے کہ خدا کسی کی کوشش کو ضائع نہیں کرتا۔ وہ محنت کا بھر پور پھل دیتا ہے۔ بے شک یہ فیصلہ کرنا بھی اس کا کام ہے کہ کس محنت کا کیا پھل دے اور کس قدر دے، لیکن یہ بہر حال طے ہے کہ کیے کا پھل ضرور ملتا ہے۔ یہ بالکل ممکن نہیں کہ آدمی اچھی آرزو سے سینے کو آراستہ کرے، اس کے لیے کوشش و محنت کا حق ادا کرے اور پھر ناکام رہے۔ خدا کا ارشاد ہے۔
وَاَنْ لّیسَ لِلْاِنْسَانِ اِلّ ماسَعی ْ (النجم
ترجمہ: انسان کے لیے کچھ نہیں ہے مگر وہ جس کی اس نے جدو جہد کی ہے۔
اوریہ بھی اسی کا ارشاد ہے:
لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلِ مِنْکُمْ مَنْ ذکَرِ اَوْ اُنْثٰی (آل عمران)
ترجمہ: میں تم میں سے کسی کا عمل ضائع کرنے والا نہیں ہوں، خواہ وہ مرد ہو یا عورت
اور یہ فرمان برحق بھی اس کا ہے۔
وَوْفِیَتُ کُلُ نَفْسِ َماعَمِلَتْ (الزمر 70,39)
ترجمہ: اور ہر شخص کو جو کچھ بھی اس نے کیا ہے، اس کا پورا پورا بدلہ دیاجائے گا۔
اپنی ناکامی پر کڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ نہ یہ صحیح ہے کہ شکایت کا پیکر بن کر آپ بار بار آسمان کی طرف گردن اُٹھائیں اور اس خداکا شکوہ کریں جس کا شکر ہر حال میں آپ پر واجب ہے۔ نہ یہ صحیح ہے کہ آپ اپنی ناکامی کے ذمے دار اپنے ارد گرد ڈھونڈنے کی طفلانہ حرکتیں کریں۔ نہ یہ صحیح ہے کہ آپ اپنے مقدر پر برستے رہیں، جس کا کچھ حال آپ کو معلوم نہیں ہے اور جس کی واقعی حقیقت صرف اس کو معلوم ہے جس نے آپ کا حصہ بنایا بھی ہے ، آپ کو سعی و کوشش کا حکم بھی دیا ہے اور آپ کو گوہر مقصود پالینے کے وسائل و ذرائع ، قوتیں اور صلاحتیں بھی دی ہیں۔ جو چیز آپ کے احاطہ علم سے باہر ہے، جس کے بارے میں آپ کے پاس قطعی علم کا کوئی ادنیٰ حصہ بھی نہیں ہے، اس کے بارے میں خود ساختہ اور موہوم تصور اور گمان کو اپنی فکر و نظر کی بنیاد بنا کر اپنی زندگی کو برباد کرنا کہاں کی عقل مندی ہے۔ جھٹک دیجیے ان اندیشوں کو ، ان بے بنیاد گمانوں کو، اس غلط طرزِ فکر کو، اور جس قدر جلد ممکن ہو، وہم و گمان کی بھول بھلیوں سے باہر نکل آئیے۔
آپ کی ناکامی یا کامیابی کے تنہا ذمے دار آپ ہیں اور کوئی نہیں ہے۔ آپ کے لیے یہ ہر گز زیبا نہیں، یہ تو ان نادان بزدلوں کا کام ہے جو ناکامی، مایوسی اور ذلت و پستی کو خود اپنا مقدر بنا لیتے ہیں۔ وہ اپنی ذات سے بھی مایوس ہوتے ہیں، اپنی صلاحیتوں سے بھی مایوس ہوتے ہیں، دنیا سے بھی مایوس ہوتے ہیں اور اپنے خداس سے بھی۔ ان کا ذہن بھی مریض ہے، ان کا دل بھی مریض ہے۔
کامیابی آپ کا حق ہے۔ یہ حق آپ سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ یہ دنیا اسی لیے پیدا کی گئی ہے کہ یہاں ہر انسان کامیابی حاصل کرے۔ کامیابی کا یقین پیدا کیجیے۔ کامیابی کے کامل یقین کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھیے اور حوصلے کے ساتھ بڑھتے رہیے۔ اپنے خیالات، افکار، جذبات، احساسات اور قوتِ عمل سے کسی وقت بھی خود کو مایوس نہ ہونے دیجیے۔ آپ اگر ناکام ہوتے ہیں تو صرف اس لیے کہ آپ کے دل میں کامیابی کا یقین نہیں ہوتا۔ آپ کا سب سے بڑا سہارا، آپ کا سب سے بڑا وسیلہ، اور آپ کا سب سے بڑا محرک آپ کا یقین ہے۔ ہر چیز سے زیادہ اپنے یقین کی فکر کیجیے۔ اس کو کسی حال میں مُردہ نہ ہونے دیجیے۔ یہی آپ کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ یہ سرمایہ آپ کو کہیں اور سے نہیں مل سکتا۔ اور اگر کسی دوسرے کے پاس ہو تو اس سے آپ کو قطعاً فیض نہیںپہنچ سکتا۔ا ٓپ کو اگر فیض پہنچ سکتا ہے تو صرف آپ کے اپنے یقین سے۔ یہ و ہ سرمایہ نہیں ہے، جسے آپ کسی سے مستعار لیں۔ یہ قرض سے بھی نہیں ملتا۔ یہ کوئی آپ کو ہبہ کرنا چاہیے تو ہبہ بھی نہیں کر سکتا ۔ یہ سرمایہ آپ کے دل میں جنم لیتا ہے۔ آپ ہی اس کو جہنم دینے والے ہیں۔ آپ ہی اس کو بڑھانے والے ہیں، اور آپ ہی اس سے فیض اٹھانے والے۔
یقین محکم آپ کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ اگر آپ خدا نخواستہ اس سے محروم ہیں تو پھر محرومی آپ کا مقد ر ہے اور اگر اس ہتھیار سے آپ مسلح ہیں تو پھر کوئی آپ کو شکست نہیں دے سکتا۔
اٹھیے، خدا پر بھروسا کیجیے۔ اس کی دی ہوئی قوتوں پر بھروسہ کیجیے۔ اپنی شخصیت پر اعتماد کیجیے۔ آپ خود کو بھول گئے، اسی لیے خدا کو بھی بھول گئے اور اسی لیے اس نے بھی آپ کو بھلا دیا۔ پھر آپ کو کامیابی کیسے ہو؟
فکر و مایوسی کی شکنیں اپنی پیشانی سے دور کیجیے۔ چہرے پر یقین کی رونق پیدا کیجیے۔ آنکھوں میں کامیابی کی چمک پیدا کیجیے۔ اپنے زورِ بازو پر اعتماد کیجیے۔ مسلسل محنت یا انتھک جدو جہد اور منزل کو پالینے کی تڑپ پیدا کیجیے۔ زندگی سے فیض اٹھائیے۔ اپنی زندگی سے لوگوں میں بھی زندگی پیدا کیجیے۔اپنی زندگی کا احساس کرائیے۔
کیا وہ بھی زندہ کہلانے کا مستحق ہے ، جو اپنی زندگی سے لوگوں کو موت کی یاد دلاتا ہو، جس کی زندگی کو دیکھ کر لوگ موت کی تمنا کرتے ہوں۔ یہ دنیا آپ کے لیے بنائی گئی ہے۔ یہاں جو کچھ ہے، آپکے لیے ہے۔ یہ رونق، یہ بہار ، یہ زمینیں، یہ مال دولت، یہ آرام و آسائشیں، یہ کامرانیاں، یہ مادی وسائل ، یہ عزت و اقتدار… سب کچھ آپ کے لیے ہے۔ کہاں سے آپ اس گمراہ کن فکر کا شکار ہوئے کہ یہ سب خدا کے باغیوں کے لیے ہے اور آپ کا حصہ مایوسی کے گوشے میں بیٹھا رہنا ہے۔

حصہ