شعرو شاعری

446

میر تقی میر
الٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا
دیکھا اس بیماریِ دل نے آخر کام تمام کیا
عہدِ جوانی رو رو کاٹا پیری میں لیں آنکھیں موند
یعنی رات بہت تھے جاگے صبح ہوئی آرام کیا
حرف نہیں جاں بخشی میں اس کی خوبی اپنی قسمت کی
ہم سے جو پہلے کہہ بھیجا سو مرنے کا پیغام کیا
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
سارے رند اوباش جہاں کے تجھ سے سجود میں رہتے ہیں
بانکے ٹیڑھے ترچھے تیکھے سب کا تجھ کو امام کیا
سرزد ہم سے بے ادبی تو وحشت میں بھی کم ہی ہوئی
کوسوں اس کی اور گئے پر سجدہ ہر ہر گام کیا
کس کا کعبہ کیسا قبلہ کون حرم ہے کیا احرام
کوچے کے اس کے باشندوں نے سب کو یہیں سے سلام کیا
شیخ جو ہے مسجد میں، ننگا رات کو تھا مے خانے میں
جبّہ، خرقہ، کرتا، ٹوپی مستی میں انعام کیا
کاش اب برقعہ منہ سے اٹھا دے ورنہ پھر کیا حاصل ہے
آنکھ مندے پر ان نے گو دیدار کو اپنے عام کیا
یاں کے سپید و سیہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے
رات کو رو رو صبح کیا یا دن کو جوں توں شام کیا
صبح چمن میں اس کو کہیں تکلیف ہوا لے آئی تھی
رخ سے گل کو مول لیا قامت سے سرو غلام کیا
ساعد سیمیں دونوں اس کے ہاتھ میں لا کر چھوڑ دیئے
بھولے اس کے قول و قسم پر ہائے خیال خام کیا
کام ہوئے ہیں سارے ضائع ہر ساعت کی سماجت سے
استغنا کی چوگنی ان نے جوں جوں میں ابرام کیا
ایسے آہوئے رم خوردہ کی وحشت کھونی مشکل تھی
سحر کیا اعجاز کیا جن لوگوں نے تجھ کو رام کیا
میرؔ کے دین و مذہب کو اب پوچھتے کیا ہو ان نے تو
قشقہ کھینچا دیر میں بیٹھا کب کا ترک اسلام کیا

خواجہ میر درد
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
جس لیے آئے تھے سو ہم کر چلے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مر چلے
کیا ہمیں کام ان گلوں سے اے صبا
ایک دم آئے ادھر اودھر چلے
دوستو دیکھا تماشا یاں کا سب
تم رہو خوش ہم تو اپنے گھر چلے
آہ بس مت جی جلا تب جانیے
جب کوئی افسوں ترا اس پر چلے
ایک میں دل ریش ہوں ویسا ہی دوست
زخم کتنوں کے سنا ہے بھر چلے
شمع کے مانند ہم اس بزم میں
چشمِ تر آئے تھے دامن تر چلے
ڈھونڈھتے ہیں آپ سے اس کو پرے
شیخ صاحب چھوڑ گھر ،باہر چلے
ہم نہ جانے پائے باہر آپ سے
وہ ہی آڑے آ گیا جیدھر چلے
ہم جہاں میں آئے تھے تنہا ولے
ساتھ اپنے اب اسے لے کر چلے
جوں شرر اے ہستیٔ بے بود یاں
بارے ہم بھی اپنی باری بھر چلے
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
جب تلک بس چل سکے ساغر چلے
دردؔ کچھ معلوم ہے یہ لوگ سب
کس طرف سے آئے تھے کیدھر چلے

محمد رفیع سودا
دل مت ٹپک نظر سے کہ پایا نہ جائے گا
جوں اشک پھر زمیں سے اٹھایا نہ جائے گا
رخصت ہے باغباں کہ تنک دیکھ لیں چمن
جاتے ہیں واں جہاں سے پھر آیا نہ جائے گا
آنے سے فوج خط کے نہ ہو دل کو مخلصی
بندھوا ہے زلف کا یہ چھٹایا نہ جائے گا
پہنچیں گے اس چمن میں نہ ہم داد کو کبھو
جوں گل یہ چاک جیب سلایا نہ جائے گا
تیغِ جفائے یار سے دل سر نہ پھیریو
پھر منہ وفا کو ہم سے دکھایا نہ جائے گا
آوے گا وہ چمن میں نہ اے ابر جب تلک
پانی گلوں کے منہ میں چوایا نہ جائے گا
عمامے کو اتار کے پڑھیو نماز شیخ
سجدے سے ورنہ سر کو اٹھایا نہ جائے گا
زاہد گلے سے مستوں کے باز آنے کا نہیں
تا مے کدے میں لا کے چھکایا نہ جائے گا
ظالم نہ میں کہا تھا کہ اس خوں سے درگزر
سوداؔ کا قتل ہے یہ چھپایا نہ جائے گا
دامان و داغ تیغ کو دھویا تو کیا ہوا
عالم کے دل سے داغ دھلایا نہ جائے گا

حیدر علی آتش
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا
طبل و علم ہی پاس ہے اپنے نہ ملک و مال
ہم سے خلاف ہو کے کرے گا زمانہ کیا
آتی ہے کس طرح سے مرے قبضِ روح کو
دیکھوں تو موت ڈھونڈ رہی ہے بہانہ کیا
ہوتا ہے زرد سن کے جو نامرد مدعی
رستم کی داستاں ہے ہمارا فسانہ کیا
ترچھی نگہ سے طائر دل ہو چکا شکار
جب تیر کج پڑے تو اڑے گا نشانہ کیا
صیاد گل عذار دکھاتا ہے سیرِ باغ
بلبل قفس میں یاد کرے آشیانہ کیا
بیتاب ہے کمال ہمارا دلِ حزیں
مہماں سرائے جسم کا ہوگا روانہ کیا
یوں مدعی حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتشؔ غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا

نظیر اکبرآبادی
دور سے آئے تھے ساقی سن کے مے خانے کو ہم
بس ترستے ہی چلے افسوس پیمانے کو ہم
مے بھی ہے مینا بھی ہے ساغر بھی ہے ساقی نہیں
دل میں آتا ہے لگا دیں آگ مے خانے کو ہم
کیوں نہیں لیتا ہماری تو خبر اے بے خبر
کیا ترے عاشق ہوئے تھے درد و غم کھانے کو ہم
ہم کو پھنسنا تھا قفس میں کیا گلہ صیاد کا
بس ترستے ہی رہے ہیں آب اور دانے کو ہم
طاقِ ابرو میں صنم کے کیا خدائی رہ گئی
اب تو پوجیں گے اسی کافر کے بت خانے کو ہم
باغ میں لگتا نہیں صحرا سے گھبراتا ہے دل
اب کہاں لے جا کے بیٹھیں ایسے دیوانے کو ہم
کیا ہوئی تقصیر ہم سے تو بتا دے اے نظیرؔ
تاکہ شادی مرگ سمجھیں ایسے مر جانے کو ہم

محمد ولی اللہ ولی دکنی
سرورِ عیش گاویں ہم اگر وہ عشوہ ساز آوے
بجا دیں طبل شادی کے اگر وہ دلنواز آوے
خمارِ ہجر نے جس کے دیا ہے درد سر مجھ کوں
رکھوں نشہ نمن انکھیاں اگر وہ مست ناز آوے
جنونِ عشق میں مجکوں نئیں زنجیر کی حاجت
اگر میری خبر لینے کوں وہ زلفِ دراز آوے
ادب کے اہتمام آ گے نہ پاوے بارواں ہر گز
ترے سائے کی پابوسی کوں گر ریگِ حجاز آوے
عجب نئیں گر گلاں دوڑیں پکڑ کر صورت قمری
اداسوں جب چمن بھیتر دہ سروِ سرفراز آوے
پرستش اس کی میرے سر پہ ہوئے سر مستی لازم
صنم میرا رقیباں کے اگر ملنے سو باز آوے
ولی اس گوہر کانِ حیا کی کیا کہوں خوبی
میرے گھر اس طرح آتا ہے جوں سینے میں راز آوے

حصہ