انتظام

224

’’اماں مجھے اپنی دوست کو گفٹ دینا ہے۔ ہزار روپے دے دیں۔‘‘ الشبہ نے ناشتے کرتے ہی اماں کی جان کھانا شروع کر دی۔
’’مہینے کا آخر چل رہا ہے اور تمہاری بچوں جیسی فرمائشیں… میرے پاس یہی آخری ہزار کا نوٹ ہے۔ کل تمھاری خالہ کی طرف جانا ہے شمائلہ کے نکاح پہ اس کے ہاتھ پہ رکھنے کے لیے بھی کم ازکم ہزار، پانچ سو تو ہوں۔ پھر شادی کی تقریب الگ ہے تو اُس کاخرچا بھی الگ۔ آنے جانے کے لیے کرائے کے لیے بھی چاہیے ہوں گے۔ مجھے تو کل کی فکر ہے اور تم …‘‘ اماں نے خرچوں کی لمبی فہرست سنا ڈالی۔
’’میری تو کوئی پروا ہی نہیں اماں۔‘‘ الشبہ نے ٹھنکتے ہوئے کہا۔
’’کہا بھی تھا کہ آخری سال ہے، میں اپنی دوست کو کوئی اچھا سا گفٹ دینا چاہتی ہوں۔ آپ نے کہا تھا دے دینا، اللہ برکت دے گا۔ اب کہاں ہے برکت؟‘‘
’’زیادہ بکواس نہیں کرنے لگی، بولنے سے پہلے سوچا کرو کہ کس کے متعلق اور کیا بات کرنی ہے۔ اللہ ہی برکت ڈالتا ہے ورنہ تمھارے ابا کی اتنی سی تنخواہ میں پورا مہینہ کیسے چلتا ہے ،یہ بھی وہی جانتا ہے۔‘‘
’’سوری اماں!‘‘ الشبہ شرمندہ سی ہوگئی۔ مگر برکت کا اسے کبھی مفہوم سمجھ نہیں آیا۔
اماں نے زیادہ تو نہیں پڑھا تھا۔ مگر مناسب پڑھی لکھی، شریف خاندان کی تھیں۔ اس مہنگائی کے دور میں رشتے داریاں بھی نبھاتی اور بچوں کے اسکول کی فیس بھی کسی نہ کسی طرح وقت پر ہی نکال لیتیں۔ ان کی سفید پوشی کا بھرم ہمیشہ قائم رہتا۔ اماں اس کو جواب دے کر بظاہر کام میں لگ گئیں، لیکن برابر دعا کر رہی تھی کہ ضرورت تو پانچ ہزار کی ہے کہ الشبہ اور ان کے ابا کے پاس شادی کی تقریبات میں پہننے کے لیے کوئی ڈھنگ کے کپڑے نہیں۔ پھر بھانجی کو شادی میں دینے کے لیے بھی کچھ پلّے نہیں رکھا۔ الشبہ کی فرمائش تو یکسر فراموش ہوچکی تھی۔
رات ضمیر صاحب نے یہ کہہ کر اور متفکر کر دیا کہ اگلے روز ان کے افسر علاقے کا دورہ کریں گے اور ہو سکتا ہے کہ وہ اس علاقے میں رہنے والے کسی بھی اپنے ملازم کے گھر کا بھی دورہ کر لیں۔ رئیسہ بیگم کو اب اس بات کی بھی فکر ہوگئی کہ اُن کے گھر کا ہی دورہ نہ کر لیں لیکن ضمیر صاحب نے یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ بڑے لوگ زیادہ دیر نہیں ٹھیرتے۔ ساتھ ہی چائے کے بندوبست کا بھی کہہ دیا تھا۔
ابھی وہ آنکھیں بند کیے لیٹے ہی تھے کہ دروازے پہ دستک ہوئی۔ پتا چلا کہ کوئی دیرینہ دوست ملنے آیا ہے۔ انہوں نے الشبہ سے کہا کہ بیٹا چائے بنا دو۔ وہ چائے دینے گئی توضمیر صاحب کے دوست نے بیٹی کو خوشی میں سر پر ہاتھ رکھ کر ہزار کا نوٹ مٹھی میں پکڑاتے ہوئے کہا کہ ’’اوئے ضمیر یہ چھوٹی سی الشو اتنی بڑی ہوگئی۔‘‘ اُس نے لینے سے انکار کرناچاہا تو اشرف انکل نے سرپر چپت لگائی۔ ابا کی مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے لینے ہی پڑے۔ اس کے ہزار روپے کا اللہ نے انتظام کردیا تھا۔ لیکن اسے خیال آیا کہ اماں کو شادی میں دینے دلانے کے لیے بھی پیسوں کی ضرورت تھی۔ اس کی دوست کا گفٹ تو اگلے مہینے بھی آسکتا ہے۔ وہ پیسے خاموشی سے اماں کو دینے کا سوچ کر سونے چلی گئی۔ صبح نماز پڑھ کر نیند کے شدید غلبے کے باعث وہ پھرسو گئی۔ اس کی آنکھ اچانک ہلکے ہلکے شور سے کھلی۔ وہ کمرے سے باہر آئی تو اماں کو باورچی خانے میں مصروف دیکھا۔
’’کیا کر رہی ہیں۔اماں…؟‘‘
’’ارے جس کا ڈر تھا، وہی ہوگیا۔‘‘ اماں تیزی سے چائے کا پانی چڑھا رہی تھیں۔
’’تمھارے ابا کے جن افسروں کو آنا تھا، حقیقتاً پہنچ بھی چکے ہیں ، صحن میں ہی بیٹھے ہیں…ذرا جلدی سے چائے کے کپ لی کر آو۔‘‘
’’اماں اس سیٹ کے صرف پانچ کپ پرچ ہیں باقی ایک کے دو کپ ہیں اور دوسرے سیٹ کی تین پرچیں اور دو کپ ٹوٹے ہوئے ہیں…کیا کروں؟‘‘ الشبہ نے اماں کو ساری صورتِ حال بتاتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’اچھا لاؤ پانچ کپ والا سیٹ دے دو‘ تمھارے ابا کو ان کے ساتھ چائے پینے سے روک دوں گی۔‘‘
چائے جا چکی تھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ناشتا کر کے باورچی خانے سے نکلیں تو کمرے کا منظر ہی الگ تھا۔ ایک خوب صورت سی باسکٹ چاکلیٹس، بسکٹس، چپس اور مختلف قسم کے اسنیکس سے بھری ہوئی رکھے تھی، اندر ایک ڈبہ بھی تھا۔ اس کے علاوہ ایک ڈبہ باسکٹ کے ساتھ باہر بھی رکھا تھا اور ساتھ ایک مٹھائی کا ڈبہ خوب صورت پیکنگ میں موجود تھا۔ رئیسہ بیگم کی آنکھیں خوشی سے لبریز نظر آرہی تھیں۔
کمپنی والوں نے بہترین ورکر کا ایوارڈ بابا کو دیا تھا اور یہ سب کچھ ان کو تحفتاً دیا گیا تھا۔ سب کے جانے کے بعد رئیسہ اور اس نے باسکٹ کا افتتاح کیا۔ اِس خوب صورت سجی ہوئی چوکور باسکٹ میں ابا کے لئے ایک برانڈڈ سوٹ بھی نکلا۔ اس کے علاوہ تین ہزار کیش اور ساتھ میں دوخوب صورت قیمتی ٹی سیٹ اور واٹر سیٹ بھی تھے۔
اماں نے خوشی سے اس کی طرف دیکھا اور کہا ’’لو کپ پرچ کا مسئلہ بھی حل ہوگیا اور باجی کو دینے کے لیے گفٹ اور پیسوں کا بھی انتظام ہوگیا۔ تمھارے ابا کا سوٹ بھی آگیا۔ اب نکاح سے فارغ ہو کر تمھارے لیے شادی کا سوٹ بھی خرید لوں گی۔‘‘ اماں بہت خوش تھیں۔
’’تم یہ چاکلیٹس وغیرہ اپنی دوست کے لیے رکھ لو۔‘‘ شام کو رئیسہ بیگم سب تحائف کے ساتھ بہن کے گھر پہنچی تھیں۔ اسی چوکور باسکٹ میں اس کی سجاوٹ بگاڑے بغیر واٹر سیٹ، اسنیکس یعنی چپس، بسکٹس کے ہاف رول، چاکلیٹس، سپاری کا پیکٹ اور پرفیوم جو ابا کے لیے آیا تھا اس کے علاوہ مٹھائی کا ڈبہ اور پیسوں کا لفافہ بھی رکھ کر بہن کے حوالے کر دیا۔
نکاح کے بعد خالہ نے الشبہ کو شادی کی خوشی میں ایک خوب صورت جوڑا دیا۔ اگلے دن الشبہ اماں کے ساتھ جاکر باقی پیسوں سے اپنی دوست کے لیے گفٹ اور اماں کے لیے بھی شادی کا نیا سوٹ لے آئی۔
خوشی کی بات یہ نہیں تھی کہ اماں کو اپنا آخری ہزار کا نوٹ خرچ کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ بلکہ خوشی کی بات یہ ہوئی کہ الشبہ کو برکت کا مفہوم سمجھ آگیا تھا کہ آپ کے پاس سو روپے ہوں اور آپ کی ضرورت ہزار روپے کی ہو تو آپ کی ہزار روپے کی ضرورت بھی پوری ہو جائے اور آپ کے سو کا نوٹ جگہ سے بھی نہ ہلے یعنی امیدوں سے بڑھ کر کسی کام کا ہو جانا ہی برکت ہے۔

حصہ