مطالعے سے علم میں اضافہ ہوتا ہے‘ شاداب احسانی

159

علم حاصل کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے‘ علم مومن کی گم شدہ میراث ہے جہاں سے بھی ملے‘ اُسے حاصل کیا جائے۔ علم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک جنگ میں کچھ قیدیوں کے پاس ’’زرِ آزادی‘‘ نہیں تھا تو یہ کہا گیا کہ آپ ہمارے کچھ بچوںکو زیورِ تعلیم سے آراستہ کر دیں تو آپ کو رہا کر دیا جائے گا۔ تعلیمی میدان میں مطالعہ ایک اہم جُز ہے کہ اس سے علم میں اضافہ ہوتا ہے۔ کتب بینی سے ذہنی ارتقا میں اضافہ ہوتا ہے۔ فرید پبلشر ہر رمضان میں کتب میلہ سجاتے ہیں اور لوگوں کو انتہائی کم نرخ پر کتابیں مہیا کرتے ہیں۔ ان کی یہ خدمات قابل ستائش ہیں۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی نے ’’موجِ سخن‘‘ یو ٹیوب چینل کے زیر اہتمام بزمِ فروغ سندھ کے تعاون سے منعقدہ مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ مشاعرے ہر زمانے کی ضرورت ہیں۔ وقت و حالات کے بدلتے ہوئے تناظر میں ان کا انداز بدل جاتا ہے۔ اب مشاعرے بھی فیسٹیول کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ مشاعرے کے آداب ختم ہو رہے ہیں اس کے علاوہ ادبی گروہ بندیوں سے بھی یہ ادارہ متاثر ہو رہا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم مشاعروں کو پروموٹ کریں کہ یہ ہماری مشرقی روایات کا حصہ ہیں۔ اس پروگرام میں اختر سعیدی اور فیاض علی فیاض مہمانان خصوصی تھے۔ راقم الحروف نثار احمد‘ احمد سعید خان اور خالد میر مہمانانِ اعزازی تھے۔ نسیم شیخ‘ سید غضنفر حسین اور یاسر سعید صدیقی ناظمین مشاعرہ تھے۔ تلاوتِ کلام پاک اور نعت رسولؐ پیش کرنے کی سعات نظر فاطمی نے حاصل کی۔ مشاعرے کے آرگنائزر نسیم شیخ نے کہا کہ جب سے کراچی کی فضائوں میں امن و سکون ہے تب سے مشاعروں کا سلسلہ بڑھ گیا ہے تاہم سامعین کرام مشاعروں سے دور ہوتے جا رہے ہیں لیکن آج کے مشاعرے میں سامعین موجود ہیں ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ فرید بھائی نے کہا کہ ہم طویل مدت سے کتب میلہ کا اہتمام کر رہے ہیں لیکن مہنگائی کے سبب لوگوں کی قوتِ خرید کم ہوتی جا رہی ہے جس کے باعث یہ سلسلہ ڈسٹرب ہو رہا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ شعرائے کرام کی اکثریت اپنی کتابیں تحفے کے طور پر لوگوں کو پیش کرتے ہیں ان کی کتابیں فروخت نہیں ہو پاتیں یہ بھی ایک المیہ ہے حکومت پاکستان سے درخواست ہے کہ وہ قلم کاروں کی سہولیات میں اضافہ کرے اور غریب و نادار قلم کاروں کے نسخوں کی اشاعت کا اہتمام بھی کرے۔ اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی‘ اختر سعیدی‘ فیاض علی فیاض‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ احمد سعید خان‘ خالد میر‘ نسیم شیخ‘ ضیا حیدر زیدی‘ شائق شہاب‘ یاسر سعید صدیقی‘ شجاع الزماں خان‘ کاوش کاظمی‘ امت الحیٔ وفا‘ سید غضنفر علی‘ زوہیب حسن اور تاجور شکیل نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ