فرحت عباس کے شعری مجموعے ’’یہ عشق‘‘ پر مختصر تاثرات

284

ڈاکٹر فرحت عباس پیشے کے اعتبار سے میڈیکل پریکٹیشنز ہیں لیکن ایک عمدہ شاعر و محقق بھی ہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے‘ ان سے جو بھی ایک بار ملتا ہے وہ ان کا اسیر ہو جاتا ہے۔ ان کا ایک شعر ہے کہ:
اُس نے دیکھے ہی نہیں مہر و محبت والے
اُس سے کہنا کہ کبھی ہم سے بھی مل کر دیکھے
انہوں نے 1970ء میں کالج کے مشاعروں سے اپنی شعری کا آغاز کیا۔ نثر و نظم اور تنقید نگاری کے حوالے سے بھی شہرت پائی اور سرکاری سطح پر بھی کئی ایوارڈ حاصل کیے۔ زیر تبصرہ شعری مجموعہ ’’یہ عشق‘‘ 176 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 67 غزلوں کے علاوہ دو حمد اور چار نعتیں بھی شامل ہیں۔ وہ گزشتہ بیس برس سے راولپنڈی میں مقیم ہیں۔ ان کے لب و لہجے میں غزل کا روایتی حسن نظر آتا ہے تاہم انہوں نے متنوع موضوعات کو بھی کامیابی سے شاعری میں ڈھالا ہے ان کے استعاروں میں زبان کی وسعت اور مفاہیم کی رنگا رنگ نمایاں ہے۔ چونکہ ہر شاعر معاشرے کی آنکھ ہوتا ہے وہ اپنی آنکھ سے ہمیں وہ مناظر بھی دکھاتا ہے جو ہماری زندگی پر اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔ اس معیار پر ڈاکٹر فرحت عباس بھی پورے اترتے ہیں کہ انہوں نے موجودہ عہد کے مناظر ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں۔ آج کے معاشرے میں قدم قدم پر منافقت‘ دھوکے بازی اور خود غرضی نظر آتی ہے‘ اس آہنگ کے لیے ڈاکٹر فرحت عباس نے کہا ہے کہ:
دل میں کینہ‘ حسد نگاہوں میں
اور کہنے کو دوستانہ ہے
انہوں نے غزل میں چھوٹی بحروں کا بہ کثرت استعمال کیا ہے کربلا کے واقعات بھی سہل ممتنع میں لکھ کر کمال کیا ہے انہوں نے کربلا کے منظر نامے میں خیمہ‘ ریت‘ آگ‘ پیاس‘ بے چارگی اور رضائے الٰی کے تلازمے جس خوب صورتی سے استعمال کیے ہیںوہ قابل ستائش ہیں۔ ان کے ہاں ترقی پسندانہ اشعار بھی نظر آتے ہیں اور خود کلامی کے ڈھنگ بھی نمایاں ہیں۔ وہ زود گو شاعر ہیں اور شاعری کی تمام اصناف میں چونکا دینے والے اشعار کہے ہیں۔ ان کا یہ شعری مجموعہ ’’یہ عشق‘‘ دراصل عشق کی والہانہ کیفیات کا مظہر ہے جن میں عشقِ خداوندی اور عشقِ رسول اکرمؐ شامل ہیں لیکن عشق مجازی بھی موجود ہے۔ انہیں لفظوں کے برتنے کا ہنر آتا ہے روز مرہ استعمال ہونے والے الفاظ کو شاعری میں جگہ دی ہے‘ ان کا کلام کلاسیکیت اور غنائیت سے بھرپور ہے وہ چاہتے ہیں کہ دنیا میں تمام انسانوںکو خوش حال زندگی نصیب ہو اس مقصد کے لیے وہ کہیں کہیں شاعر کے بجائے مولوی بن کر نصیحت کرتے ہیں۔ ان کے اسلوب ِ بیان تازہ کاری کے جوہر نمایاں ہیں انہوں نے زندگی کے مختلف عنوانات پر قلم اٹھایا ہے‘ تصنع سے گریز کرتے ہیں‘ قاری تک رسائی حاصل کرنے کے لیے انسانی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہیں اور کوئی ایسا شعر نہیں کہتے جو زمینی حقائق کے خلاف ہو۔

حصہ