زندگی دائمی خوشیوں سے عبارت ہے

464

اس فریبِ سکون و راحت پر
اتنا ہنسیے کہ آنکھ تر ہو جائے
(حفیظ میرٹھی)
سکون و راحت کی اکہری تعبیریں ہم سے متاع دانش چھین لیتی ہیں۔ مسرت اور غم کوئی ایک رخی راستہ نہیں۔ اس کی تعبیر زندگی کا گہرا شعور مانگتی ہیں۔ نفسیات و اعصاب کے ماہرین کہتے ہیں کہ کسی خیال کے تعاقب میں جذبات و احساسات کا دورانیہ صرف چند ہی لمحوں کا پڑاو رکھتا ہے۔ پھر بدن کا نظام اس کو معمول پر لے آتا ہے۔ پھرغم اوجھل ہو جاتا ہے۔ ہمارا وجود فکر کی تھکن بھول جاتا ہے بلکہ مسرت کی قیمتی لذت بھی فراموش کردیتا ہے۔ اس کے باوجود اگر کوئی یہ کہے کہ ’’میں مدت سے پریشان ہوں‘‘ یا ’’ایک زمانے سے دکھی ہوں‘‘ تو اس حماقت مآب شخصیت پر دو سنگین جرم کے الزام لگتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے دوسرا یہ کہ وہ غم کی آنے والی ہر لہر کو جانے نہیں دیتا بلکہ اپنے اختیار سے تھامے رکھتا ہے۔
ربِ کریم نے ہمارے وجود میں غم بھولنے کی نعمت کو سرشست کے طور پر رکھ چھوڑا ہے۔ ہم انسان ہیں ’’صاحبِ نسیان‘‘ بھولنے والی ذات۔ غم ہو کہ مسرت سب پل دو پل میں فراموش کرنا ہی ہماری پہچان ہے۔ راحت و اذیت میں گھری ہماری زندگی ایک بیکراں سمندر ہے۔ اس میں ایک موج غم کی تو دوسری موج مسرت کی آتی ہے۔ اسی تموج میں تیرنا ہی جینا ہے۔ خود کو غموں کے تھپیڑوں کے حوالے کردینا تیراکی کا فن نہیں سکھاتا۔
علامہ اقبالؒ نے تو ’’رموز بے خودی‘‘ میں خوف سے پیدا ہونے والے غم کو ’’اُم الخبائث‘‘ کہا ہے جو زندگی کی شہ رگ کاٹ دیتا ہے۔ جس کا علاج صرف ربِ کائنات کی پناہ میں ہے یعنی توحیدِ ربانی میں ہے۔
یہ موضوع ادھورا ہے اگر ہم نبیٔ رحمتؐ کے شمائل کا باب نہ دیکھیں۔ انھیں ہر دیکھنے والے نے یک زبان ہوکر کہا کہ ’’محمدؐ مسکراتے تھے۔‘‘ عداوت رکھنے والوں نے بھی تصدیق کی کہ ’’یہ چہرہ جھوٹے کا نہیں ہوسکتا۔‘‘ مسکراہٹ کی دل کشی میراثِ محمدؐ ہے۔ ہمیں اس کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھنا ہوگا۔ میری تمنا ہے کہ ہر مسلمان نبیؐ کے روپ رنگ کی اس پہچان کو اپنے گھر کے مرکزی حصے میں ایک طغرا سا آویزاں کردے جسے پر لکھا ہو کہ ’’محمدؐ مسکراتے تھے۔‘‘ جسے دیکھ کر ہمارے مزاجوں کے ہنگام کو قرار آجائے۔
ہماری صفوں میں جانے کہاں سے غم کی تنظیم کا خیال آیا کہ ہم منظمِ غم منانے لگ گئے۔ ایک فرقہ تو غم کو عقیدہ کی بنیادوں میں اُتار دیا۔ پھر جنتری کو زندگی سے جوڑ دیا گیا۔ مرنے کے تین دن، دس روز، چالیس اور پھر سال ہا سال ’’جشنِ گریہ‘‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ لیکن دبے پائوں ان دکھ بھری محفلوں میں مسرت شامل ہوگئی، تفریح نے غم کو کھسکا کر اپنی جگہ نکال لی بلکہ میلہ ٹھیلہ، روشنیا ں سب اپنے حصے کا ہنگام لے آئے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے انسان جشن تقریبات اور ہنگامہ پسند کرتا ہے۔ کسی نہ کسی بہانے اس کے دل کو شان و شوکت کی جلوہ نمائی کی طلب ہوتی ہے۔ خود بھی خوش ہوتا اور اوروں کو اپنے مسرت میں شامل کرتا ہے بلکہ اپنے مخالف گروہوں کو جتلا جتلا کر اپنی مسرت پر ڈینگ مارتا ہے۔ جشن منانے کے لیے وہ کوئی پیکر تراشتا ہے۔ عروس میں پنکھا، علم، کاغذی گنبد اور جانے کیا کیا کچھ۔ عقل کا یہ المیہ ہے کہ جہاں وہ وحی کے حالۂ نور سے نکلتی ہے تب وہیں وہ تھک کر کوئی صنم کدہ تعمیر کرلیتی ہے‘ کوئی پیکرِ محسوس ڈھونڈ لیتی ہے۔ اس مقام پر غم اور مسرت گڈ مڈ ہو جاتے ہیں۔ بقول برہمانند جلیس کے:
مسرت کو مسرت غم کو جو بس غم سمجھتے ہیں
وہ ناداں زندگی کا راز اکثر کم سمجھتے ہیں
علامہ اقبالؒ کا ایک فارسی شعر دیکھیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ شعلوں سے کھیل گئے جس میں انھوں نے ’’تصورِ عید‘‘ پر ہمیں اپنا نورِ بصیر ت دیا ہے۔
’’عید آزادں شکوہ ِ ملک و دیں
عید محکوماں ہجومِ مومنین‘‘
یعنی مسرت و انبساط کی وہی گھڑیاں اعتبار و وقار رکھتی ہیں جو آزاد ذہنوں کے سبب دنیا کو ملتی ہیں۔ عید اس سعادت کے سبب مبارک کہلانے کا حق رکھتی ہے جہاں ملک کی سرحدوں کو وسعت ملے۔ زندہ نظریہ کی شان و شوکت دنیا دیکھے۔ جب کہ غلام زادے تو عید کے دن بھڑاس سے بہل جاتے ہیں۔ ان کی سرسری اور سپاٹ سرگرمیاں ملیہ ٹھیلا اور تفریح سے زیادہ نہیں ہوتیں ۔ آزادوں کی عید جسے غزوہ بدر کی فتح ’’عید رمضان‘‘ ٹھیری اور فتح مکہ ’’عید قربان‘‘ کا ایک اشارہ بنا۔ اس کے برعکس بازاروں کے رنگ اورخوش بو کو خود پر انڈیل کر، سرکس سے دل بہلا کر جینا کسی بھی صاحبِِ نظریہ قوم کے جینے کا ڈھنگ نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں ہمیں حزن و مسرت کی گتھی کو سلجھانے کے لیے ایک نگاہ سرورِ دوعالمؐ کی زندگی پر ڈالنی ہوگی کہ آپ کا نصابِ غم اور مسرت کا باب کیا تھا۔ کیسے آپ نے اپنے مخالف کے رویئے کو جو کبھی حسنِ اختلاف کے معیار سے نیچے اتر کر کوئی حرکت کر بیٹھتا تو کیسے آپ غم کے زہراب میں نظریہ کا آبِ حیات بانٹتے۔ کبھی یوں بھی ہوا کہ آپؐ کی برہمی سے ملکوں کے جغرافیہ کے نقشوں کی نئی صورت گری ہوئی۔ زمین کی آڑی ترچھی لکیروں کے کس بل نکال دیے۔ یہ ہوتا ہے آزاد ذہنوں کے سردار کا تصورِ مسرت۔
کبھی سیاسی عداوتوں سے گھری اس دنیا میں حکومت کا سفاک ٹولہ اپنی سازشوں سے ہمیں دکھ دیتا۔ ان کا دیا ہواغم ہر طرح کے سکون کو معطل کر دیتا ہے۔ ہمارے صبر کے پیمانے چھلک اٹھتے ہیں۔ ہم اپنے مسائل کو وسائل سے جوڑنے میں ناکام ہو جاتے ہیں۔ زندگی ایسے لگتی ہے کہ جیسے ہم ضائع ہو گئے۔ دل نقدِ حیات ہار جاتا ہے۔ ایسے میں دل روتا ہے لیکن دکھ میں ڈھلے ان آنسوئوں پر کبھی گھبرا کر دل نہ ہارنا۔ یہ آنسو بتلاتے ہیں کہ ہم دکھ جھیل گئے لیکن اپنی کج کلاہی کا بانکپن نہیں چھوڑے۔ ہم نے نظریہ سے سمجھوتا نہیں کیا۔ زندگی سے فرار اختیار نہیں کی۔ اذیت سہتے سہتے پل بھر کو آنکھوں سے غم ابل پڑا ہے۔ لیکن اب غم کو نمک کے توازن کی طرح رکھنا ہوگا۔ غم کو دل کی دنیا میں مزید یاد کر کے کینہ انڈیلا جائے۔ دکھ کو اپنے رویوں میں ہمیشہ کے پکی جگہ نہ دی جائے کیوں کہ مسرت ’’اتفاق‘‘ نہیں ’’انتخاب‘‘ ہے۔ خوشی کہیں زمینوں میں چھپی گی اس اور تیل کے ذخائر کی طرح کا کوئی مال نہیں بلکہ دل کی دنیا میں بسنے والی ایک کیفیت ہے۔ مسرت کی تلاش کوئی الھڑ مزاج کھلنڈرے کی سرگرمی نہیں بلکہ ایک سنجیدہ اور پروقار سرگرمی ہے۔ مسرت کو ئی گرا پڑا ہوخزانہ یا بزرگوں کا ترکہ نہیں جو اتفاق سے یا وراثت میں کسی کو مل جائے بلکہ یہ وہ زمزمہ ہے جو عمل کے مضراب سے نغمہ بن کر ابھرتا ہے۔ یہ کوششوں کی بخشش ہے۔ یہ مشقتوں کی دھوپ کا گھنا سایہ ہے۔ مسرت ایک سمت سفر ہے منزل نہیں۔ شمس رمزی کی دُعا پر بات تمام کرتے ہیں:
غم دیے ہیں تو مسرت کے گہر بھی دینا
اے خدا! تو مجھے جینے کا ہنر بھی دینا

حصہ