حقیقی خوشی و اطمینان قلب

394

سمیعہ (اپنی کزن امبر کو اپنے سامنے دیکھتے ہوئے جو امریکا میں رہتی تھی اور اب راحیل سے شادی کے بعد پاکستان میں مقیم تھی کیونکہ راحیل پاکستان میں ایک بہت بڑے بزنس کا مالک تھا ارے امبر آئو آئو کیسی ہو بہت دنوں کے بعد آئی ہو۔
امبر: مسکراتے ہوئے۔ ہاں میں بالکل ٹھیک ہوں لیکن تم کہیں جارہی ہو؟ مین تو بور ہورہی تھی اس لیے یہاں آگئی۔
سمیعہ: (خوش اخلاقی سے) بہت اچھا لگا مجھے، تمہیں یہاں دیکھ کر… ہاں پڑوس میں دورہ قرآن ہورہا ہے۔ میں اور امی وہیں جارہی ہیں۔ تم… کیا تم ہمارے ساتھ چلو گی؟۔
امبر: نہیں یار مجھے تو معاف ہی رکھو۔ میں وہاں جا کر کیا کروں گی؟
سمیعہ (کچھ سوچتے ہوئے) یقینا تمہیں وہاں جاکر بہت اچھا لگتا ہے۔ خیر چھوڑو۔ میں امی سے کہتی ہوں وہ چلی جائیں گی میں تمہارے ساتھ۔
امبر: (ملی جلی کیفیت سے) لیکن… میں وہاں زیادہ دیر نہیں بیٹھوں گی۔
یہ تینوں خواتین آنٹی حاجرہ (جو ان ہی کی گلی میں رہتی تھی) کے گھر پہنچی۔ بڑا سا ہال نما کمرہ کھچا کھچ خواتین سے بھرا ہوا تھا۔ سب نے محبت سے ان تینوں کو بھی اپنے درمیان جگہ دی۔ سامنے بیٹھی ہوئی ایک معتبر خاتون سورۃ البقرہ کی تلاوت و تفسیر بیان کررہی تھیں۔ بڑا مسحور کن ماحول تھا شروع میں تو یہاں ہال میں پہنچ کر امبر کو بڑا عجیب سا محسوس ہوا چاروں طرف بیٹھی خواتین اسکارف یا عبایا ہے ہوئے تھی لیکن امبر جینز کی پینٹ اور شرٹ میں تھی وہ سمجھ رہی تھی کہ اب خواتین اسے تنقید بھری نظروں سے دیکھیں گی لیکن سوائے ایک آدھ کے سب کی توجہ معلمہ کی طرف تھی۔ بیان کے ختم ہونے کے بعد خواتین کو چائے وغیرہ پیش کی گئی سب نے ایک دوسرے سے حال احوال پوچھا اور ’’بیان‘‘ سے متعلق کچھ سوال ذہن میں تھا تو معلمہ سے پوچھ رہیں تھیں۔ آنٹی حاجرہ نے اسپیشل امبر کے بارے میں سمیعہ کی ساس سے پوچھا جب انہیں اور معلمہ کو پتا چلا کہ امبر امریکا سے آئی ہے تو بڑے پیار سے اس کا حال احوال پوچھا جبکہ امبر تو یہ سوچ رہی تھی کہ ابھی معلمہ اسے سر پر دوپٹہ لینے اور ڈھنگ کا لباس پہننے کی نصیحت کریں گی لیکن ایسا کچھ نہ ہوا۔ امبر جو یہ کہہ کر یہاں آئی تھی کہ وہ تھوڑی دیر کے بعد واپس آجائیں گی اب دو گھنٹوں سے اس محفل میں شریک رہی۔ اسے ان خواتین سے مل کر اچھا محسوس ہوا۔
امبر جدید اور ماڈرن ذہنیت کی لڑکی تھی جس کی تمام زندگی امریکا میں گزری وہیں پلی بڑھی تعلیم حاصل کی جو اس کا کزن تھا۔ اور سمیعہ کے پڑوس میں ہی رہتا تھا۔ نہایت اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ایک بڑے بزنس مین کا اکلوتا تھا وہ اپنے باپ کے ساتھ مل کر اس بزنس کو خوش اسلوبی سے چلا رہا تھا اسی لیے اس شادی میں شرط یہی رکھی گئی کہ امبر کو پاکستان میں رہنا ہوگا اسی لیے مجبوراً پاکستان وہ تو رہی تھی لیکن وہ اکھڑی اکھڑی رہتی لوگوں سے ملنا جلنا بھی محدود تھا۔ پڑوس میں ہی اس کی کزن سمیعہ بھی اپنے سسرال والوں کے ساتھ رہتی تھی جس سے کبھی کبھار ملنا ہوتا تھا حالانکہ سمیعہ کی ساس اور امبر کی ساس کا ایک دوسرے سے کافی ملنا جلنا رہتا۔ بس امبر کی ایک ہی خواہش تھی اور کسی طرح راحیل راضی ہوجائے اور اس کے ساتھ امریکا چلے جبکہ راحیل نے اسے پہلے دن سے ہی یہ باور کرایا تھا کہ وہ اپنے بوڑھے والدین کو کسی صورت میں تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ راحیل ایک بہترین سلجھا ہوا نوجوان تھا وہ ہر طرح سے امبر کا خیال رکھتا اس کی تمام خواہشات اور ضروریات کو اہمیت دیتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ امبر گزشتہ آٹھ مہینوں سے پاکستان میں تھی۔ اور عید پر تو اس کا امریکا جانے کا پروگرام تھا کہ وہ اپنوں کے ساتھ عید کرے گی۔ امبر آج کی محفل سے واپس آئی تو پہلی مرتبہ وہ اپنی ساس کے ساتھ گھل مل کر باتیں کرنے لگی ورنہ اس کا زیادہ وقت اپنے کمرے میں ہی گزرتا تھا۔ ساس بھی اس کی یہ تبدیلی محسوس کیے بغیر نہ رہ سکی۔
تمام دن معلمہ کی پُرسوز اور مسحور کن تلاوت کی آواز اس کے کانوں میں گونجتی رہی۔ خصوصاً سورۃ البقرہ کی آیت (ترجمہ) اس لیے تم میرا ذکر کرو اور میں بھی تمہیں یاد کروں گا، میری شکر گزاری کرو اور ناشکری سے بچو‘‘۔ اس سے سوال کررہی تھی کہ میں 24 سال کی ہوگئی ہوں کیا میں اللہ کی نعمتوں کا شکر کررہی ہوں یا اس کا ذکر کررہی ہوں۔ اس کے باوجود اللہ مجھے نواز رہا ہے۔ دو تین دن کے بعد رات کو اس کا دل چاہا کہ سمیعہ سے بات کرے اس نے سمیعہ کو فون کیا۔ حال احوال کے بعد سمیعہ نے امبر کو بتایا کہ آنٹی اور معلمہ کو تم بہت اچھی لگی ہو۔ وہ تمہارے بارے میں پوچھ رہی تھیں۔ یہ سن کر امبر کو بڑا تعجب ہوا، وہ تو سمجھ رہی تھی کہ اس کے پیٹھ پیچھے خواتین نے اسے تنقید کا نشانہ بنایا ہوگا کہ محفل کے آداب سے ناواقف سر پر دوپٹہ بھی نہیں لیا۔ امبر نے، جبکہ…
سمیعہ: کیا سوچ رہی ہے۔
امبر: ہاں۔ کچھ نہیں… اور تم سنائو دورہ قرآن کیسا جارہا ہے؟
ماشاء اللہ… بہت زبردست۔ بس رب العالمین ہمیں ہدایت عطا فرمائے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کریں۔
امبر: (ہچکچاتے ہوئے) روز جاتی ہو تم، میرا مطلب ہے کہ گھر کے کام کاج وغیرہ۔
سمیعہ: کوشش تو یہی ہوتی ہے دونوں بچے بھی اسکول جارہے ہیں ایک بجے سے پہلے نہیں آتے۔ اس لیے آسانی ہوجاتی ہے۔ ماسی کو بھی ایک بجے ہی بلاتے ہیں۔
امبر: اچھا… اگر مجھے وقت ملا تو میں بھی آجائوں گی۔
اس طرح اب گاہے بہ گاہے امبر بھی دورہ قرآن میں شریک ہونے لگی اور ایک فوری مثبت تبدیلی جو اس کے اندر نظر آئی وہ اس کا ’’دوپٹہ‘‘ تھا۔ جس نے اس کی خوبصورتی میں اضافہ کردیا۔ خصوصی طور پر راحیل اس کی تبدیلی سے بہت خوش ہوا۔
قرآن کا معجزہ تھا کہ اب امبر کبھی کبھار روزہ بھی رکھ رہی تھی اور نماز بھی پڑھ رہی تھی۔ اسے خود اپنے اندر پیدا ہونے والی اس تبدیلی پر حیرانی ہورہی تھی۔ امریکا میں مما اکثر رمضان میں روزہ رکھنے کے لیے کہتی تو وہ ٹال مٹول سے کام لیتی۔ قرآن پڑھ تو لیا تھا لیکن شاذ و نادر قرآن کی تلاوت کرتی۔ اسے بڑی حیرانی ہورہی تھی کہ جب سے وہ پاکستان آئی تھی اس کا دل بے چین اور بے سکون رہتا تھا جیسے اس کے اندر کوئی کمی ہو۔ اسی لیے وہ سسرالیوں کے ساتھ بھی اکھڑی اکھڑی رہتی۔ بیچاری ساس پوری کوشش کرتی کہ وہ سب کے ساتھ ہنس بول کر زندگی گزارے۔
امبر: راحیل آپ سے بات کرنی تھی۔
راحیل: (سوالیہ نطروں سے دیکھتے ہوئے) کیا؟۔ شاید تم اپنی امریکا کی فلائٹ کے بارے میں کہنا چاہتی ہو وہ تو 25 رمضان کو ہے۔ تم چلی جانا… تمہاری بکنگ تو کنفرم ہے۔
امبر: (ہچکچاتے ہوئے) وہ اصل میں، میں یہ کہنا چاہ رہی تھی کہ (اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ راحیل سے اپنی بات کیسے کہے کیونکہ راحیل کے منع کرنے کے باوجود اس نے عید امریکا میں کرنے کی ضد کی تھی جبکہ راحیل چاہتا تھا کہ اس کی پہلی عید ہے شادی کے بعد، وہ عید سسرال والوں کے ساتھ کرے۔ مما اور پاپا کا بھی یہی خیال تھا لیکن امبر نہ مانی تھی)۔
راحیل: ہاں بھئی کہو کچھ کہہ رہی تھیں تم۔
امبر: (جلدی سے) آپ میری فلائٹ کینسل (ملتوی) کروادیں۔
راحیل (حیرانی سے) ملتوی؟۔
امبر: ہاں راحیل میں عید آپ لوگوں کے ساتھ کرکے اگلے مہینے امریکا چلی جائوں گی۔
آج عید کا دن تھا مما، بابا اور راحیل کے چہروں پر خوشی و مسرت تھی مما بار بار امبر کو گلے لگ کر چوم رہی تھی یوں لگ رہا تھا کہ آج یہ ’’کنبہ مکمل‘‘ ہوگیا ہو۔ اور امبر کا دل خوشی کے ساتھ مطمئن تھا کہ واقعی میں دوسروں کو خوشی دینے سے آپ کے دل کو اللہ اطمینان اور حقیقی خوشی بخشتا ہے۔ اسی لیے حقوق کے بعد حقوق العباد کی ادائیگی پر زور دیا گیا ہے۔ اور اس مرتبہ اس دورہ قرآن کی محفل میں شرکت کرنے سے اس میں یہ مثبت تبدیلی آئی تھی جس کی وجہ سے اس کے بے قرار دل کو بھی سکون مل گیا تھا کہ واقعی میں عید کا مزا تو اپنوں کے درمیان ہی رہ کر مل سکتا ہے۔

حصہ