اسقاط حمل کا قانون امریکی سپریم کورٹ کا ممکنہ فیصلہ اور عوامی رد عمل

420

امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں سپریم کورٹ کے سامنے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے‘ یہ مظاہرے امریکا میں اسقاط حمل کے ایک کیس کے ممکنہ فیصلے کے خلاف کیے جارہے ہیں۔ ان مظاہروں کا آغاز اس وقت ہوا جب ایک ویب سائٹ politico نے ایسی دستاویز جاری کیں جو کہ ججز کے ممکنہ فیصلے کے بارے میں تھیں‘ یہ دستاویز دراصل ججز کے ریمارکس تھے جو کہ انہوں نے اس کیس کے سلسلے میں دیگر ججز کے ساتھ شیئر کیے تھے۔ ان ریمارکس کے مطابق امریکی سپریم کورٹ کہ‘ جس کے ججز کی اکثریت اس وقت کنزرویٹو ججز پر مشتمل ہے‘ اِسقاط حمل کے بارے میں سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلے جوکہ روو ویڈ کیس 1973 کے نام سے مشہور ہے‘ سے رجوع کرنے یا اس کے برخلاف فیصلہ دینے جارہے ہیں۔
تقریباً 50 سال قبل امریکی سپریم کورٹ نے اسقاط حمل کی اجازت دی تھی اور اس کو اس بات سے مشروط کیا تھا کہ حمل ٹھیر جانے کے بعد جب تک کوئی انسانی زندگی رحمِ مادر سے باہر اپنی زندگی نہیں گزار سکتی تب تک اِسقاط حمل کی اجازت دی گئی تھی۔ اس ضمن میں ماہرین طب نے اس عرصے کو حمل ٹھیر جانے کے بعد 24 تا 28 ہفتے قرار دیا تھا یعنی کوئی بھی خاتون وضع حمل کے 24 تا 28 ہفتوں کے دوران تک اسقاط کرواسکتی ہے۔ تاہم اس ممکنہ امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب یہ حق ریاستی اسمبلی کو حاصل ہوگا کہ وہ اپنے طور پر اسقاط حمل کے نئے قوانین وضع کرسکیں۔
یہ مظاہرے دراصل امریکا میں اسی فیصلے کو روکنے کے لیے کیے جارہے ہیں۔ اس وقت اسقاط حمل کے قوانین کے حق میں ڈیموکریٹک پارٹی منظم ہے جب کہ کنزرویٹو پارٹی ممکنہ فیصلے کے حق میں نظر آتی ہے۔
اس صورت حال کا تجزیہ کرنے سے قبل اس حوالے سے امریکہ میں ہونے والے مظاہروں اور ان میں لگنے والے نعروں اور بینرز و پلے کارڈز کو بھی دیکھنے اور ان کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت لگنے والے نعروں اور پلے کارڈز میں My Right body My یعنی ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ Abortion is Healthcare, ’’اسقاط حمل صحت عامہ ہے۔‘‘جیسے نعرے قابل ذکر ہیں۔
دوسری جانب معترضین اس کو سیاست سے زیادہ ریاستی امور میں مذہب کی مداخلت سے بھی تعبیر کررہے ہیں۔ تاہم اس حوالے سے سب سے دل چسپ بات یہ ہے کہ امریکی سپریم کورٹ اسقاطِ حمل پر کوئی پابندی عائد کرنے نہیں جارہی بلکہ اسقاط حمل کروانے پر جو آزادی 1973 کے فیصلے کے بعد حاصل تھی اسے واپس لے کر اسقاط حمل کے قوانین وضع کرنے کا اختیار ریاستی اسمبلیوں کو دینے جا رہی ہے کہ ہر ریاست اپنے طور پر اسقاطِ حمل کے قوانین خود وضع کرے۔
یہ ایک ایسی خود مختاری ہے کہ جس کا نعرہ مغربی جمہوریتوں میں سب سے زیادہ بلند کیا جاتا ہے یعنی عوام کے منتخب نمائندے ہی عوام کے لیے قوانین وضع کریں لیکن جمہوری آزادیوں پر یقین رکھنے والے معاشرے میں بھی ایسے افراد موجود ہیں جو اپنے من پسند قوانین کے لیے سپریم کورٹ کے آمرانہ فیصلوں کو نہ صرف قبول کر رہے ہیں بلکہ اس کے دفاع کے لیے اب سڑکوں پر بھی ہیں۔
غیر جانبدار ذرائع یہ بتا رہے ہیں کہ ممکنہ فیصلے کے خلاف امریکی سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر مظاہرے کرنے والوں کی تعداد چند سو کے قریب تھی لیکن امریکی میڈیا پر اس کی کوریج‘ خاص طور پر بین الاقوامی نشریاتی اداروں میں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ شاید ان مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں ہوگی جب کہ ذرائع ابلاغ بھی مظاہرین کی تعداد کی کوئی تصویر جاری کرنے یا اس کو اپنی اشاعت و بلیٹن کا حصہ بنانے سے قاصر رہے۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق ان مظاہروں کو اب باقی شہروں میں بھی منظم کیا جائے گا اور اس کام کا بیڑہ’’عورت مارچ‘‘ والیوں اٹھایا ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ نے اپنی ہیڈ لائن میں بھی خبر کو کچھ اس طرح پیش کیا ہے کہ جس سے یہ تاثر ملے کہ سپریم کورٹ اسقاط حمل پر مکمل پابندی عائد کرنے جارہی ہے۔ جب کہ صورت حال اس سے یکسر مختلف ہے کیوں کہ سپریم کورٹ ان قوانین کو بنانے کا حق ریاستی اسمبلیوں کو دینے جا رہی ہے۔ اب اس ضمن میں میڈیا نے ایک نیا مؤقف بھی اختیار کیا ہے کہ کیوں کہ ریاستی اسمبلیوں میں اراکین کی زیادہ تر تعداد مردوں پر مشتمل ہے لہٰذا اسقاطِ حمل کے خلاف قوانین کو وضع کیا جائے گا جب کہ اسقاط حمل و صحت عامہ کے حوالے سے کام کرنے والے امریکی ادارےGuttmacher Institute کے مطابق امریکی سپریم کورٹ نے قانون سازی کا یہ حق ریاستوں کو تفویض کردیا تو فوری طور پر 26 ریاستوں میں اسقاط حمل پر پابندی عائد ہو جائے گی اس ضمن میں بہت سے ریاستیں قانون سازی کرچکی ہیں اور کچھ قانون سازی کے مرحلے میں ہیں لیکن اگر سپریم کورٹ اپنے سابقہ فیصلے سے رجوع کرتی ہے تو اس کے بعد یہ ریاستیں فوری طور پر قانون سازی کرکے اسقاط حمل پر پابندی عائد کردیں گی۔
امریکی سیاست میں یہ ایک اہم ایشو بن چکا ہے اور اس کا تمام تر سہرا لیکس کے سرہے کہ پہلے ذرائع ابلاغ ایک ویب سائٹ نے اس ڈرافٹ کو جاری کیا جوکہ ججز کی آپس میں دستاویزات سے متعلق تھا اور یقینا یہ ایک خفیہ دستاویز تھی اس کے بعد میڈیا نے چائے کی پیالی میں طوفان کے مصداق چند سو افراد کے مظاہرے کو دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا کہ جس سے اس امریکی نصف آبادی جو کہ خواتین پر مشتمل ہیں‘ کوئی دلچسپی نہیں رکھتیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ امریکی سپریم کورٹ پر دباؤ ڈال کر ممکنہ طور پر من پسند فیصلہ کی کوشش کی جائے گی اگر یہ کوشش کامیاب ہوئی تو بھی اس کا تمام تر سہرا میڈیا کے سر ہوگا کہ جس نے ایک غیر قانونی عمل یعنی خفیہ دستاویز کو اِفشا کرنے کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی بلکہ اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں کو تبدیل کرنے کے لیے ایسے مظاہروں کو غیر معمولی کوریج دی کہ جس کے وہ متقاضی نہ تھے۔
بہرحال یہ صورت حال شاید ایک ماہ مزید جاری رہے تاآنکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے نہ آ جائے۔ تاہم اس فیصلے کے اثرات اور فیصلے پر اثر انداز ہونے کے لیے میڈیا کے کردار پر ایک سنجیدہ بحث کی شدید ضرورت ہے۔ یہ مظاہرے دراصل اس حوالے سے بھی چشم کشا ہیں کہ ان کو منظم کروانے والے اسلامی ممالک میں بھی اسی قسم کے مظاہرے و مارچ منظم کرواتے ہیں کیوں کہ وہ وہاں کھلے عام اس بات کا اظہار نہیں کرسکتے جیسا کہ مغرب میں کیا جا رہا ہے جس کا ایک نعرہ مادر پدر آزادی ہے تاہم ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کا نعرہ اب پاکستان میں بھی عورت مارچ کو منظم کرنے والوں کی جانب سے لگایا جا رہا ہے جس کا شاید منطقی انجام ان کی نظر میں آہستہ آہستہ اسقاط حمل کو جائز قرار دینا اور زنا کو سہل بنانا ہے۔

حصہ