زندگی کو آسان بنائیں۔۔۔مگر کیسے؟

616

زندہ تو ہم سب ہیں مگر کیا واقعی محض زندہ رہنے کو زندگی کہا جاسکتا ہے؟ کیا زندگی سانسوں کا تسلسل سے بڑھ کر کچھ نہیں؟ ہم کسی دور افتادہ مقام کو چھوڑیں، محض اپنے ہی ماحول میں موجود لوگوں کا معروضی طریقے سے جائزہ لیں گے تو اندازہ ہوگا کہ بہت سے ہیں کہ محض جیے جارہے ہیں اور اِسی کو زندگی سمجھ کر خوش ہیں۔ بات اگر محض خوش ہو رہنے تک محدود ہوتی تو خیر کوئی بات نہ تھی۔ مشکل یہ ہے کہ جو لوگ خود کو عضوِ معطل بنائے ہوئے ہیں اُن کے ہاتھوں دوسروں کے لیے بہت سی الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔ اُنہیں جو کچھ کرنا چاہیے وہ اُن سے ہو نہیں پاتا اور یوں بہت سے معاملات میں صرف اور صرف خرابی سامنے آتی ہے۔
شخصی ارتقا کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ انسان پورے ہوش و حواس کے ساتھ زندگی بسر کرے۔ جب انسان اپنے ماحول سے بھرپور مطابقت رکھتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے تب وہ اپنی خواہشات اور سکت کے مطابق بہت کچھ کرنے کے قابل بھی ہو پاتا ہے۔ شخصی ارتقا کے ماہرین اس بات پر بہت زور دیتے ہیں کہ انسان بیدار مغز رہتے ہوئے جیے۔ بیدار مغز رہتے ہوئے جینے کے کئی مفاہیم ہوسکتے ہیں۔ اگر کوئی شخص گھر سے نکل کر دفتر جاتا ہے اور دفتر سے واپس آکر گھر میں بیٹھ رہتا ہے تو زندگی پُرسکون تو گزر سکتی ہے مگر اِسے بھرپور زندگی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ طرزِ فکر و عمل کسی کسی کے لیے تو مفید ثابت ہوسکتا ہے مگر پورے معاشرے کی ایسی روش ہو تو چل چکا معاشرہ۔ بیدار مغز رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا ایک واضح مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے حقوق و فراض کے حوالے سے باشعور اور حساس ہو اور دوسروں کے کام آنے کی بھی کوشش کرے۔ ایسا اُسی وقت ہوسکتا ہے جب انسان یہ طے کرے کہ اُسے دوسروں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے اور عمومی غنودگی کی سی حالت میں زندگی بسر نہیں کرنی۔ غنودگی کی سی حالت میں جینے کا مطلب نیند میں جھونکے مارنا نہیں بلکہ اِس طور جینا ہے کہ ماحول کا کچھ خیال ہی نہ رہے۔ آپ نے اپنے ماحول میں ایسے بہت سے لوگ دیکھے ہوں گے جو لگے بندھے انداز سے جی رہے ہیں۔ اُنہیں کسی بھی واقعے یا سانحے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُن کے معمولات متاثر نہیں ہوتے۔ وہ تبدیل کو پسند نہیں کرتے۔ اُن کی بھرپور کوشش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ بھی جس طور چل رہا ہے بالکل اُسی طور چلتا رہے۔ بیدار مغز رہتے ہوئے جینے کا مطلب یہ ہے کہ انسان ہر معاملے کا پورا شعور رکھے، حِظ اٹھائے، اپنے حصے کا کام کرے اور معاملات کو بہتر بنانے کے حوالے سے جو بھی کردار ادا کیا جانا ہو وہ ادا کرے۔ بیدار مغز ہونا یعنی لمحۂ موجود میں جینا۔ خیالوں کی وادیوں میں بھٹکنے والے یا تو ماضی کو روتے رہتے ہیں یا پھر مستقبل کے حوالے سے فکر مند رہتے ہیں۔ ایسے میں وہ لمحۂ موجود سے بھرپور حِظ اٹھانے میں ناکام رہتے ہیں۔ کبھی آپ نے اس بات پر غور کیا ہے کہ جو کچھ بھی آپ کرتے ہیں اُس میں آپ کا وجود کس حد تک شامل یا داخل ہوتا ہے؟ آکسفرڈ مائنڈ فُلنیس سینٹر کی تحقیق بتاتی ہے کہ جو لوگ لمحۂ موجود میں زندگی بسر کرتے ہیں اُن کے چہرے کِھلے ہوئے ہوتے ہیں۔ ہر دور کے انسان کا ایک بنیادی المیہ یہ ہے کہ وہ لمحۂ موجود کو چھوڑ کر ماضی یا پھر مستقبل میں گم رہتا آیا ہے۔ ایسے میں بے چینی کا پیدا ہونا تو لازمی امر ہے۔ شہریارؔ نے خوب کہا ہے:
سینے میں جلن، آنکھوں میں طوفان سا کیوں ہے؟
اِس شہر میں ہر شخص پریشان سا کیوں ہے؟
دل ہے تو دھڑکنے کا بہانہ کوئی ڈھونڈے
پتھر کی طرح بے حِس و بے جان سا کیوں ہے؟
تنہائی کی یہ کون سی منزل ہے رفیقو!
تاحدِ نظر ایک بیابان سا کیوں ہے؟
اس طرح کے احساسات اُسی وقت ابھرتے ہیں جب انسان اپنے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش نہ کرے یا پھر ایسی کسی کوشش میں ناکامی کا سامنا کرے۔ آج ہمیں ہر طرف ایسے چہرے دکھائی دیتے ہیں جن پر رونق کم اور بیزاری زیادہ ہے۔ وقت نے ہر دور کے انسان پر جبر ڈھایا ہے مگر آج وقت جو جبر ڈھارہا ہے وہ انوکھا ہے۔ انسان الجھ کر رہ گیا ہے۔ بیشتر معاملات میں سچ اور جھوٹ کے درمیان حدِ فاصل مٹ سی گئی ہے۔ حرام و حلال کا امتیاز بھی قصۂ پارینہ ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں انسان کا پریشان رہنا فطری امر ہے۔ آج ہنستے ہوئے چہرے چراغ لے کر ڈھونڈئیے تب ملتے ہیں۔ اُداس چہرہ، بے نور سی آنکھیں اور تنی ہوئی نسیں انسان کی ذہنی و دلی کیفیت کو بخوبی بیان کردیتی ہیں۔ ایسے میں لوگ یہ کہتے ہیں ملتے ہیں کہ کسی بات میں لطف نہیں، سب کچھ معمول کے مطابق ہے اور بس جیسے تیسے چل رہا ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ زندگی کے نام پر محض سانسوں کی گنتی پوری کر رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کا بنیادی سبب ہے کہ بیدار مغز یا حاضر دماغی کا فقدان۔
آکسفورڈ مائنڈ فلنیس سینٹر کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر مارک ولیمز کہتے ہیں کہ مائنڈ فُلنیس یعنی بیدار مغزی یہ ہے کہ انسان تمام احساسات کا اثر محسوس کرے۔ فی زمانہ بیدار مغزی کو انہماک سے جوڑ دیا گیا ہے۔ انہماک بیدار مغزی کا محض ایک حصہ ہے۔ ہم کبھی یہ سوچتے ہیں کہ جو کچھ ہمارے آس پاس ہو رہا ہوتا ہے اُسے ہم کس حد تک محسوس کرتے ہیں اور اُس کے ساتھ جینے کی کتنی کوشش کرتے ہیں؟ ہمارے احساسات سو فیصد زندہ ہیں یا نہیں؟ بیدار مغز ہونے کے لیے ناگزیر ہے کہ انسان لمحۂ موجود کو کسی صورت نظر انداز نہ کرے۔ ہم ہمیشہ یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہے بس یہی ایک پل ہے، اِسی میں جینا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم ہر پل میں جینے کی کوشش نہیں کرتے۔
خیالات اور زندگی پر اُن کے اثرات کے حوالے سے کیے جانے والے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ بہت کم لوگ ہیں جو لمحۂ موجود میں جیتے ہیں۔ اکثریت یا تو ماضی سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب نہیں ہوتی یا پھر آنے والے زمانے کے بارے میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوتی رہتی ہے۔ بہت سوں کا یہ حال ہے کہ جو کچھ کھاتے ہیں وہ تھوڑی دیر بعد بھول جاتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ کھاتے وقت اُن کا ذہن کہیں اور ہوتا ہے۔ یوں وہ کھانے کی پوری لذت بھی نہیں لے پاتے۔ کھاتے وقت لوگ یا تو ٹی وی دیکھ رہے ہوتے ہیں یا پھر ایک ہاتھ میں سیل فون تھام رکھا ہوتا ہے۔ کھانے کا مطلب محض پیٹ بھرنا نہیں بلکہ کھانے کی پوری لذت سے ہم کنار ہونا ہوتا ہے۔ انسان صبح سے شام تک بھاگ دوڑ کس چیز کے لیے کرتا ہے؟ پیٹ بھرنے کے لیے نا؟ تو پھر لازم ہے کہ کھانے کا بھی بھرپور لطف لیا جائے۔ کھانا محض اس بات کا نام نہیں کہ جیسے تیسے کچھ چیزیں پیٹ میں اتار لی جائیں۔ کھانے کی خوشبو اور لذت دونوں سے بھرپور محظوظ ہونا چاہیے۔ اس کے لیے ذہن و دل کا حاضر رہنا لازم ہے۔ بہت سوں کو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کھا کیا رہے ہیں۔ کھانے کے معیار پر بھی توجہ دی جانی چاہیے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ جو ڈش ہم کھارہے ہیں وہ کن چیزوں سے بنائی گئی ہے۔ کھانے کا تعلق صحت سے ہے اس لیے اِس معاملے میں لاپروائی کی گنجائش نہیں۔ اور سوال صرف کھانے کا نہیں، ہم تو ہر معاملے میں احساس سے محرومی کی طرف جارہے ہیں۔ انسان جو کچھ بھی کرے اُس میں اُس کا پورا دل اور دماغ ہونا چاہیے۔ اب غسل ہی کا معاملہ لیجیے۔ لوگ محض جسم پر پانی ڈالنے کو غسل سمجھتے ہیں۔ یہ کام بھی وہ بوجھ سمجھ کر کرتے ہیں۔ جب ہم کسی بھی کام کو بوجھ سمجھ کر کرتے ہیں تو اُس سے لطف کشید نہیں کرسکتے۔ بیدار مغزی صرف اس بات کا نام ہے کہ انسان ہر معاملے کو پوری طرح محسوس کرے، جہاں تک ممکن ہو اُس سے لطف کشید کرے۔
ہر انسان کو اپنا پورا وجود محسوس کرنا چاہیے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہے جب انسان لمحۂ موجود میں رہنے کو ترجیح دے۔ گزرے ہوئے زمانوں کا ملال اور آنے والے زمانوں کے بارے میں تشویش اِنسان کو کہیں نہیں رہنے دیتی۔ آپ اپنے ماحول کو محسوس کرتے ہیں؟ صبح کی چہل قدمی کے دوران پرندوں کی آوازوں کے ساتھ ساتھ پھولوں، کلیوں اور پتوں کی خوشبو محسوس کرتے ہیں؟ ماحول کے ساتھ زندہ رہنا کمال کی بات ہے اور یہ کمال صرف اِتنا کرنے سے آ جاتا ہے کہ آپ اپنے آپ ذہن کو متحرک اور حاضر رکھیں۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ آپ کے ذہن میں کس طرح کے خیالات پنپتے رہتے ہیں؟ کبھی آپ نے تنفس کے بارے میں غور کیا ہے؟ آتی جاتی سانس کو ہم ذرا بھی درخورِ اعتناء نہیں گردانتے۔ جو سانس ہم لے رہے ہیں وہ اگر نہ نکلے تو سمجھ لیجیے ہم گئے۔ سانسوں کی آمد و رفت کو ہم ذرا بھی اہمیت نہیں دیتے۔ کبھی سوچیے کہ یہ عمل ہے تو ہم ہیں۔ بس اِسی بات کو پوری شدت سے محسوس کرتے ہوئے اِس کا لطف بھی اٹھائیے۔
ہم بہت سے معاملات میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہماری توجہ اُس پر ہے جبکہ ایسا ہوتا نہیں۔ ہم بے دھیانی کے عالم میں جی رہے ہوتے ہیں۔ بہت سے معمولات کو ہم کسی بھی درجے میں اہم نہیں گردانتے جبکہ اُن سے ہمارا بہت کچھ وابستہ ہوتا ہے۔ ہم کر کچھ رہے ہوتے ہیں اور ذہن میں کچھ اور چل رہا ہوتا ہے۔ بیدار مغزی کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان ماحول میں اپنی موجودگی کو اچھی طرح محسوس کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں فرحت محسوس ہوتی ہے اور حافظہ تیز ہوتا ہے۔ بیدار مغزی سے آپ لوگوں کو سمجھنے میں زیادہ کامیاب بھی رہیں گے۔ یوں فیصلہ کرنے کی صلاحیت بہتر ہوگی اور آپ پُرسکون نیند کے مزے لے سکیں گے۔
کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کرکے کسی پُرسکون گوشے میں بیٹھیے اور تمام آوازوں کو غور سے سُنیے۔ کہیں کوئی پرندہ چہچہا رہا ہوگا۔ کسی گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دے گی۔ کسی کے گھر میں ٹی وی چل رہا ہوگا تو اُس کی آواز آپ کی سماعت سے ٹکرا رہی ہوگی۔ ہم بالعموم اپنے ماحول میں موجود آوازوں کو زیادہ محسوس نہیں کرتے۔ یہ گویا ماحول سے گریز کی کیفیت ہے۔ بعض آوازوں کو ہم سخت ناپسند کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اُنہیں محسوس کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ بعض آوازیں ہمیں پسند ہوں یا نہ ہوں۔ آتی تو رہتی ہی ہیں۔ ہم کسی بھی آواز سے جتنا چِڑتے ہیں وہ آواز ہمیں اُتنا ہی چِڑاتی ہے۔ کسی بھی ناپسند آواز سے چِڑنے اور پریشان ہونے کے بجائے اُس پر متوجہ ہوکر اُس سے ممکنہ لطف کشید کرنا ہوتا ہے۔ یہ بھی ایک فن ہے جو بیدار مغز لوگوں کو آتا ہے۔ ایسا کرنے سے اور کچھ ہو نہ ہو، ذہن مثبت سرگرمیوں کی طرف مُڑتا ہے۔
ہماری ناخوشی اور چِڑچِڑے پن کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ ہماری زندگی میں جو کچھ بھی غلط ہوا ہو اُس کے بارے میں ہم بہت سوچتے ہیں۔ کوئی کچھ ایسا ویسا بول گیا ہو تو ہمیں آگ سی لگ جاتی ہے۔ اگر یہ عادت پختہ ہو جائے تو پھر بات بات پر ہمیں آگ لگی ہے اور ہم بھڑکتے ہی رہتے ہیں۔ ایسے میں اگر کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو تو ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ اگر خود ہم سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو بار بار یہ خیال آتا ہے کہ یہ غلطی آخر ہوئی کیسے۔ کبھی آپ نے سوچا ہے کہ ایک ہی بات کو آپ کتنی بار سوچتے ہیں؟ کبھی کبھی کسی جواز یا سبب کے بغیر کُڑھتے رہتے ہیں۔ ایسے میں لازم ہے کہ توجہ کسی اور چیز پر مرتکز ہو۔ اس کے لیے لازم ہے کہ دوسرے تمام خیالات کو ایک طرف ہٹاکر آپ اُس پر متوجہ ہوں جو اِس وقت ہو رہا ہے۔
بیدار مغزی یہ ہے کہ زندگی کو سنجیدگی سے لیا جائے مگر خیر، اِس کی بھی ایک حد ہے۔ زندگی صرف سنجیدگی کا نام نہیں۔ زندگی کو دریا جانتے ہوئے بہنے دیجیے۔ تمام ہی معاملات کو اپنے تصرف میں لینے کی کوشش مت کیجیے۔ لازم نہیں کہ سب کچھ ہماری توقعات یا اندازوں کے مطابق ہی ہو۔ زندگی کو بوجھل بنانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ ہلکا بنانے کی کوشش کیجیے تاکہ کوئی بھی معاملہ غیر ضروری سنجیدگی کی دلدل میں دھنس کر نہ رہ جائے۔ انسان زیادہ سے زیادہ پُرکشش دکھائی دینے کے لیے کیا کیا جتن کرتا ہے۔ بیوٹیشینز کو ہزاروں روپے دیئے جاتے ہیں کہ چہرہ چمکادیں لیکن اگر دل اُداس اور ذہن پریشان ہو تو چہرہ چمکنے کا نام نہیں لیتا۔ بہت سے لوگوں کو آپ اس حال میں پائیں گے کہ چہرے پر سادہ سی کریم بھی نہ لگائی گئی ہو تب بھی چمک دمک متاثر کیے بغیر نہیں رہتی۔ ایسا اُسی وقت ہوتا ہے جب دل خوش ہو، ذہن مطمئن ہو۔
آج ہر انسان مختلف محاذوں پر چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے۔ جب تک دم میں دم ہے، قدم قدم پر چیلنج رہیں گے۔ ہمیں اِن چیلنجز سے بہ طریقِ احسن نمٹنے کا طریق سیکھنا ہے۔ کسی بھی بڑے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے لازم ہے کہ آپ پُرسکون ہوں، دل اور دماغ دونوں پر کوئی بوجھ محسوس نہ کریں۔ آپ جس قدر پُرسکون رہیں گے، مشکلات کا سامنا کرنے میں اُتنی ہی آسانی رہے گی۔ یہ سب کچھ بیدار مغز رہنے کی حالت کا حصہ ہے۔ مشکلات سے گھبرانا نہیں ہے بلکہ اُن سے نجات کا طریقہ سوچنا اور اُس پر عمل کرنا ہے۔ کس نے تکلیف پہنچائی ہے اور کون تنقید کرتا ہے یہ سوچنا آپ کا کام نہیں۔ نہ آپ یہ سوچیں کہ کوئی آپ کی ٹانگ کھینچنے کی کوشش کر رہا ہے اور نہ ہی یہ سوچیں کہ کون کیسا یا کیسی ہے۔ آپ کی توجہ صرف اپنے کام پر ہونی چاہیے۔ صلاحیت و سکت کو بروئے کار لاکر آپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ بس حاضر دماغی کو گلے سے لگائے رکھنا ہے۔ اگر آپ حق پر ہوں گے، ذہنی صحت کے حامل ہوں گے تو کوئی بھی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ زندگی کا حقیقی لطف پانے کا ایک ہی طریقہ ہے … یہ کہ زمانۂ حاضر میں زندگی بسر کیجیے۔ ایک ایک پل کا مزا لیجیے، ناکارہ خیالات اور بے بنیاد اندیشوں سے دور رہیے۔ تو پھر آج اور ابھی طے کیجیے کہ آپ پورے ہوش و حواس کے ساتھ زندگی کا لطف پانے کی بھرپور کوشش کریں گے اور اس معاملے میں کوئی بھی رکاوٹ قبول اور برداشت نہیں کریں گے۔ ایک اور کام کی بات۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جُوں جُوں انسان بڑا (یعنی بوڑھا) ہوتا جاتا ہے، لوگوں سے اُس کا اعتماد اور اعتبار اٹھتا جاتا ہے۔ ڈھلی ہوئی عمر میں وہ چند ہی لوگوں پر بھروسا کرتا ہے۔

حصہ