قیصروکسریٰ قسط(48)

304

عاصم نے کہا۔ ’’میں یہ ماننے کے لیے تیار ہوں کہا اگر فوکاس، شہنشاہ موریس کو قتل کرکے بازنطینی سلطنت پر قبضہ نہ کرتا تو ایران کو حملہ کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی۔ لیکن اب جب کہ فوکاس قتل ہوچکا ہے اور نیا قیصر ایران کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کا خواہش مند ہے تو پرویز کے لیے اس جنگ کو جاری رکھنے کا کیا جواز ہے؟‘‘۔
سین نے جواب دیا۔ ’’ہمارے شہنشاہ کے لیے جنگ جاری رکھنے کی سب سے بڑی وجہ اُن کی فتوحات ہیں۔ ایک شکست خوردہ فوج ہمیشہ صلح اور امن کی طرف راغب ہوتی ہے لیکن ایک فاتح لشکر کو ایک کامیابی ہمیشہ دوسری کامیابی کا راستہ دکھاتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں تامل نہیں کہ روم اور ایران کبھی ایک دوسرے کے دوست نہ تھے۔ بعض حالات نے عارضی طور پر انہیں جنگ بندکرنے پر مجبور کردیا تھا۔ خسرو پرویز کو بہرام سے نپٹنے کے لیے شہنشاہ موریس کی اعانت کی ضرورت تھی اور موریس یہ محسوس کرتا تھا کہ بہرام کے مقابلے میں پرویز کو مدد دینا رومیوں کے لیے زیادہ سود مند ہوگا۔ بہران سے انہیں یہ امید نہیں ہوسکتی تھی کہ وہ لڑے بغیر اپنی سلطنت کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا بھی رومیوں کے حوالے کردے گا لیکن پرویز کے متعلق شہنشاہ موریس کو اس بات کا یقین تھا کہ وہ ایک کمزور ہمسایہ ثابت ہوگا۔ پرویز نے رومیوں کی اعانت کے صلے میں آرمینیا کے بیشتر علاقے اُن کے حوالے کردیے تھے لیکن ا گر رومیوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ کسریٰ نے ہمیشہ کے لیے اُن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں تو اُن کی غلطی تھی۔ پرویز کو اپنے کھوئے ہوئے علاقے واپس لینے کے لیے کسی بہانے کی ضرورت تھی اور فوکاس کے ہاتھوں موریس کے قتل سے اُسے یہ بہانہ مل گیا۔ اگر شہنشاہ موریس قتل نہ ہوتا تو ممکن ہے کہ دوچار سال اور خیریت سے گزر جاتے لیکن یہ کہنا غلط ہے کہ ایران اور روم کے جو تعلقات ہنگامی مصلحتوں کے تحت استوار ہوئے تھے وہ کسی دائمی امن کی ضمانت ہوسکتے ہیں۔ اگر آرمینیا میں ایرانی لشکر کو کسی ناکامی کا منہ دیکھناپڑتا تو ممکن ہے کہ پرویز اپنی تلوار نیام میں کرنے پر مجبور ہوجاتا لیکن اب رومیوں کے مقابلے میں اُسے پہلی بار اپنی قوت کا احساس ہوا ہے اور یہ احساس اس قدر شدید ہے کہ وہ صلح اور امن کے الفاظ بھی سننا گوارا نہیں کرتا‘‘۔
عاصم نے کہا۔ ’’لیکن آپ ان سب باتوں کے باوجود اس جنگ کو پسند نہیں کرتے‘‘۔
سین نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا۔ ’’میری پسند نا پسند کوئی معنی نہیں رکھتی۔ انطاکیہ میں شہنشاہ سے ملاقات کے بعد میرے لیے صرف دو راستے تھے ایک یہ کہ میں پوری قوت کے ساتھ اس جنگ کے خلاف اپنی آواز بلند کروں اور وہ مجھے بزدل یا رومیوں کا طرف دار سمجھ کر کچل ڈالیں اور دوسرا یہ کہ میں اس حقیقت کا اعتراف کرلوں کہ اس لڑائی کو روکنا اب میرے بس کی بات نہیں۔ صلح اور جنگ کے متعلق سوچنا ایک بادشاہ کا کام ہے مجھے صرف اُن ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے جو ایران کے ایک سپاہی کی حیثیت سے مجھ پر عائد ہوتی ہیں۔ میں نے دوسرا راستہ اختیار کیا ہے۔ اور یہ اس لیے نہیں کہ مجھے خون بہانے میں کوئی لذت محسوس ہوتی ہے بلکہ اس لیے کہ مجھے ہمیشہ کے لیے اُس آدمی کی نگاہوں سے گرجانا پسند نہیں جسے وقت آنے پر میں کوئی اچھا مشورہ دے سکتا ہوں۔ خسرو پرویز کبھی میرا دوست تھا اور میرے مشوروں پر عمل کیا کرتا تھا لیکن اس وقت اُس کے صلاح کار ایسے لوگ ہیں جنہیں میرے سامنے دم مارنے کی جرأت نہ تھی۔ میری آخری اُمید یہی ہے کہ کسی دن میں اُس کا کھویا ہوا اعتماد حاصل کرسکوں گا۔ اور صلح دامن کے حق میں میری آواز شہشناہ کے کانوں کو ناخوش گوار محسوس نہیں ہوگی میری غیر حاضری میں بعض حاسدوں کو شہنشاہ کے کانوں میں میں زہر بھرنے کا موقع مل گیا تھا لیکن میں انہیں اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دوں گا۔ شہنشاہ عنقریب یہاں پہنچ رہا ہے اور اس کے بعد شاید مجھے کسی محاذ پر بھیج دیا جائے۔ لیکن جب تک میں یہاں ہوں تمہیں اپنے مستقبل کے متعلق سوچنے کی ضرورت نہیں‘‘۔
’’دمشق پہنچنے سے پہلے میری بیوی اور بیٹی تمہاری پناہ میں تھیں اور اب تم میری پناہ میں ہو۔ تم نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے اور میں صرف اپنا فرض ادا کرنا چاہتا ہوں۔ آج سے ہم دنیا کی ہر خوشی اور غم میں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ اگر میں تمہارے لیے کچھ نہ کرسکا تو مجھے ساری عمر افسوس رہے گا‘‘۔
سین نے کہا۔ ’’میں تمہارا شکر گزار ہوں اور تمہیں کوئی ایسا حکم نہیں دوں گا جو ایک باپ اپنے بیٹے یا ایک دوست اپنے دوست کو نہ دے سکے۔ میرا پہلا حکم یہ ہے کہ تم اپنے کمرے میں جا کر لباس تبدیل کرو اور پھر واپس آکر ہمارے ساتھ کھانا کھائو‘‘۔
سین مسکرا رہا تھا اور عاصم یہ محسوس کررہا تھا کہ اس خوش وضع انسان کی نگاہیں سنگلاخ چٹانوں کو بھی موم بنا سکتی ہیں وہ اپنے دل میں محبت اور اطاعت کی دھڑکنیں محسوس کرتا ہوا اُٹھا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ پھر جب وہ کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں لیٹا سین کی باتوں پر غور کررہا تھا تو اُسے ایک اُلجھن سی محسوس ہوئی تھی۔ اُسے یہ توقع نہ تھی کہ ایران کا ایک جرنیل اُس سے اس درجہ بے تکلفی کے ساتھ پیش آئے گا۔ پھر اُسے سین کی گفتگو کے دوران میں یوسیبیا کے چہرے کا اتار چڑھائو دیکھ کر بارہا یہ محسوس ہوا تھاکہ وہ کسی ذہنی کرب میں مبتلا ہے اور سین کا مقصد اس کی دلجوئی سے کہیں زیادہ اپنی بیوی کو مطمئن کرنا ہے۔
عاصم کے لیے یہ سمجھنا مشکل نہ تھا کہ زمانے کی گردش نے ایک جری انسان کو امن اور جنگ کے متعلق اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور کردیا ہے۔
چند دن بعد کسریٰ پرویز انطاکیہ سے دمشق پہنچ گیا اور ایران کے لشکر نے شام کے کئی اور شہروں کو تاخت و تاراج کرنے کے بعد لبنان پر یلغار کردی۔ لبنان کے ساحلی شہر دفاعی لحاظ سے خاصے مضبوط تھے اور سمندر کی طرف سے اُن کے رسد و کمک کے راستے کھلے تھے لیکن رومیوں کی سراسیمگی کا یہ عالم تھا کہ وہ کسی جگہ بھی جم کر مقابلہ نہ کرسکے۔
دمشق میں پرویز کی آمد کے بعد سین کی یہ پریشانی دور ہوچکی تھی کہ وہ شہنشاہ کی نگاہوں سے گر چکا ہے۔ اب وہ دربار میں اُن چند سرکردہ جرنیلوں کے دوش بدوش کھڑا ہوتا تھا جو جنگی امور کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ پرویز دمشق کے اُس عالیشان محل میں مقیم تھا جہاں فتح سے قبل رومی حاکم رہا کرتے تھے۔ سین صبح ہوتے ہی محل میں چلا جاتا اور غروب آفتاب تک وہاں مصروف رہتا۔ بعض اوقات وہ گھر آکر بھی کئی کئی گھنٹے مختلف محاذوں کے جنگی نقشے تیار کرنے میں منہمک رہتا تھا۔
ان ایام میں عاصم کی حالت ایک ایسے انسان کی سی تھی جو کسی تیز رفتار ندی کے بھیانک گرداب سے نکلنے کے بعد کنارے کی چٹان کے دوسری طرف ایک بڑے دریا کی طغیانیوں کا مشاہدہ کررہا ہو اور جسے آگے بڑھنا یا پیچھے ہٹنا یکساں دشوار اور ہمت شکن محسوس ہوتا ہو۔ یہ چٹان سین کا گھر تھا جہاں پائوں جمانے کے بعد وہ ماضی کے گرداب کو بھول جانا چاہتا تھا لیکن اس سے آگے اُس کے مستقبل کی تمام منزلیں زیادہ بھیانک اور زیادہ حوصلہ شکن طوفان کے آغوش میں چھپی ہوئی تھیں۔
یہ گھر حال اور مستقبل کے درمیان ایک جزیرہ تھا جہاں اُس کی خواہش صرف زندہ رہنے تک محدود تھی۔ وہ علی الصباح اُٹھتا۔ اپنے گھوڑے کی دیکھ بھال کرتا۔ پائیں باغ میں ٹہلتا اور پھر جب اسے اپنے گردوپیش سے اُکتاہٹ محسوس ہونے لگتی تو مہمان خانے کے ایک کمرے میں جا بیٹھتا۔ یوسیبیا اُس کے ساتھ حسب معمول انتہائی شفقت سے پیش آتی لیکن کبھی کبھی اُسے ایسا محسوس ہوتا کہ وہ اپنے دل پر جبر کرکے مسکرانے کی کوشش کررہی ہے۔ جنگ کے باعث جو اداسی دمشق کے درودیوارپر چھائی ہوئی تھی وہ کبھی کبھی اُس کے پُروقار چہرے کو بھی مغموم بنادیتی تھی۔ نوکر جن کی تعداد اب سات تک پہنچ چکی تھی مختلف محاذوں پر ایرانیوں کی فتوحات کی خبریں لاتے تھے۔ یوسیبیا بظاہر ان خبروں پر مسرت کا اظہار کرتی لیکن عاصم کو بارہا ایسا محسوس ہوتا کہ سین کی بیوی اپنے صحیح احساسات پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔ فسطینہ اُس سے مختلف تھی۔ اُسے اِس بات پر فخر تھا کہ وہ سین کی بیٹی ہے اور اُس کا باپ شہنشاہ سے ہم کلام ہوتا ہے۔ وہ اُسے ایران کا سب سے بڑا جرنیل اور پرویز کو ساری دنیا کا فاتح دیکھنا چاہتی تھی۔ رومی اور یونانی سپاہیوں کی تباہی اور اہل شام کی مظلومیت کے متعلق اُس کے تاثرات اپنی ماں سے قطعاً مختلف تھے۔ وہ بے حس یا سنگدل نہ تھی اور کبھی کبھی شامیوں کی مظلومیت کی داستانیں سن کر اس کے شگفتہ چہرے پر غم کے بادل چھا جاتے تھے لیکن ایرانیوں کے مظالم سے شاکی ہونے کے باوجود اُسے یہ محسوس ہوتا تھا کہ رومی بلاوجہ اِس جنگ کو طول دے کر اہل شام کے مصائب میں اضافہ کررہے ہیں، وہ اکثر کہتی ’’قیصر یہ جانتا ہے کہ وہ ایران کا مقابلہ نہیں کرسکتا، اُس کی افواج ہر محاذ سے بھاگ رہی ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ وہ ہار نہیں مانتا۔ اگر وہ ہمارے شہنشاہ کی اطاعت قبول کرلے تو یہ جنگ ختم ہوسکتی ہے۔ کاش! رومیوں کو کوئی یہ بات سمجھا سکتا کہ ایرانی قسطنطنیہ فتح کیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ فسطینہ مختلف طریقوں سے عاصم کو بھی یہ سمجھانے کی کوشش کیا کرتی تھی کہ ایران کے لشکر میں ایک بہادر سپاہی کے لیے شہرت اور ناموری کے دروازے کھلے ہیں۔ اگر تم چاہو تو ابا جان تمہارے لیے بہترین عہدہ حاصل کرسکتے ہیں اور تم کسی دن ایران کے شہنشاہ کو بھی اپنا گرویدہ بنا سکو گے لیکن عاصم اُس کی باتوں کو ایک بچے کی دل لگی سمجھ کر گفتگو کا موضوع بدل دیتا۔
کچھ دنوں سے عاصم نے سین کے گھر میں بیکاری کے لمحات گزارنے کے لیے فارسی زبان سیکھنی شروع کردی تھی اور اُس کی درخواست پر سین فوج کے ایک عمر رسیدہ سپاہی کو اپنے گھر لے آیا تھا جس نے نوشیرواں کے زمانے میں گرفتار ہونے کے بعد ایک رومی افسر کے غلام کی حیثیت سے اپنی جوانی کے ابتدائی سال قسطنطنیہ اور شام کے مختلف شہروں میں گزارے تھے۔
اس بورھے سپاہی کا نام فیروز تھا اور وہ اپنی مادری زبان کے علاوہ سریانی، رومی اور یونانی زبانوں میں بے تکلفی سے گفتگو کرسکتا تھا۔ عاصم کو سین کے گھر میں بیکاری کے لمحات گزارنے کے لیے کسی ساتھی اور فیروز کو بڑھاپے میں کسی قدردان کی ضرورت تھی۔ چناں چہ وہ چند دن میں ایک دوسرے کے ساتھ خاصے بے تکلف ہوگئے۔ فیروز درمیانے قد اور دوہرے جسم کا ایک تندرست اور توانا آدمی تھا۔ اُس کے بال سفید ہوچکے تھے لیکن چہرے پر ابھی تک جوانوں کی سی تازگی نظر آتی تھی۔ سین نے اُسے عاصم کو فارسی سکھانے کے علاوہ اُس کی حفاظت کی ذمہ داری بھی سونپ دی تھی اور وہ سائے کی طرح اُس کے ساتھ رہتا تھا۔ کبھی کبھی عاصم اور فیروز سیروشکار کے بہانے گھوڑوں پر سوار ہو کر شہر سے باہر نکل جاتے اور جب وہ تھک کر کسی درخت کی چھائوں میں بیٹھ جاتے تو فیروز اپنے بچپن یا جوانی کی کوئی دلچسپ داستان شروع کردیتا۔
ایک رات عاصم فیروز سے باتیں کررہا تھا۔ سین کا ایک نوکر کمرے میں داخل ہوا اور اُس نے کہا ’’جناب! آقا آپ کو یاد فرماتے ہیں‘‘۔
عاصم کسی توقف کے بغیر اُٹھا اور نوکر کے پیچھے چل دیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ سین کے کمرے میں داخل ہوا۔ وہ ایک خوبصورت قالین پر بیٹھا ایک نقشہ دیکھنے میں منہمک تھا۔ عاصم کچھ دیر تذبذب کی حالت میں کھڑا رہا اور پھر ادب سے اُس کے سامنے بیٹھ گیا۔ سین نے نقشہ لپیٹ کر ایک طرف رکھ دیا اور اُس کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔
’’عاصم! تمہیں یہ سن کر خوشی ہوگی کہ شہنشاہ نے میرا مشورہ مان لیا ہے‘‘۔
’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اب جنگ ختم ہوجائے گی‘‘۔
’’نہیں‘‘۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔
(جاری ہے)

حصہ