عید آن لائن

195

طویل مسافت کے بعد یادوں میں وہ دھندلے آثار نمایاں ہونے لگے تھے۔ وہ گلیاں، چوبارے، چبوترے، صحن، برآمدے دھندلکے سے نکل کر کچھ واضح ہورہے تھے… ہاں کچھ کچھ۔
اس دو منزلہ مکان کی وہ کھپریل والی چھت جس پر مٹی کی تہیں تب ہی ہٹتیں جب زور کا مینہ برستا، سب کچھ دھل کر صاف ہوجاتا… سو اب بھی یادوں کا مینہ برس کر واضح ہورہا تھا، یا شاید اب بھی دھندلکوں میں لپٹا ہوا گم تھا۔
…٭…
بچوں کا شور، لڑکیوں بالیوں کا وہ قل قل کرکے دوپٹے میں منہ چھپا کر ہنسنا اور ساتھ اپنی اماؤں سے ڈانٹیں کھانا۔ چاچی، تائی، پھوپھی کی فکرمندیاں، دادی کی ہر تھوڑے وقفے کے بعد یاددہانی اور ساتھ ظاہری ناراضی… کہاں گیا…؟ سب کہاں گیا؟
’’اری بلقیس! وہ جو تم الوداع کے لیے کاسنی، سبز جوڑا لائی تھیں، اُس کے ساتھ کا دوپٹہ رنگ لیا؟‘‘
’’ارے اماں! اب گھر میں کون دوپٹہ رنگتا ہے! اب تو بازار سے رنگے رنگائے دوپٹے مل جاتے ہیں، وہ بھی بڑی آسانی سے۔ چاچی نے، جو افطاری کے پکوڑوں کے لیے پالک کتر رہی تھیں‘ اطمینان سے جواب دیا۔
’’تو اور کیا اماں! اب روزے رمضان میں کون اتنی مشقت جھیلے؟‘‘ قبل اس کے کہ دادی اس تساہل اور لاپروائی پر کچھ فرماتیں، پھوپھی زبیدہ نے بھاوج کی حمایت میں کہا اور دادی پردیسن بیٹی کی نفی نہ کرسکیں۔
’’یہ نمی کہاں ہے؟ آج قرآن پاک نہیں سنایا اس نے۔‘‘
’’ کہاں ہوگی اماں، باغ میں جھولے پر بیٹھی جھونٹے لے رہی ہوگی۔‘‘
’’آئے ہائے اس پہر باغ میں وہ کیا کررہی ہے؟ اری جا بشیرن! بلالے اس کو… کہہ دے قرآن مجید لے کر فوراً میرے کمرے میں آجائے۔‘‘
’’جی آپا۔‘‘ بشیرن مستعدی سے کہہ کر پراٹھے بیلتے بیلتے ٹانگوں پر ہاتھ رکھتے اٹھی۔
…٭…
’’سنتی ہو! دھوبی سے میرے کپڑوں میں کلف لگوالی تھی؟‘‘
’’جی جی… بے فکر رہیں، آپ کے کپڑے، ٹوپی، رومال، عطر سب تیار ہیں۔‘‘
’’اسد میاں کہاں ہیں؟‘‘
’’نہا رہے ہیں۔ اچھا آج اچھن میاں کی دکان سے سارا سودا آنا ہے۔ عید میں اب دن کتنے رہ گئے!‘‘
’’تو کیا اب تک منگوایا نہیں؟‘‘ دادا ابا کی آواز میں تعجب نمایاں تھا۔
’’بس چند چیزیں درکار ہیں۔‘‘ دادی نے بات سنبھالی۔ لیکن دادا ابا کو تہہ تک پہنچنے میں چند لمحے ہی لگے تھے۔
’’کیا آئے گا؟ بلکہ کیا کیا؟‘‘
’’سویوں کے لیے گڑ، میوہ۔ زردے کے لیے دو رنگی اشرفیاں۔ کھیر کے لیے اصیل چاندی کے ورق… ہاں بریانی واسطے سیلا چاول، باقی گوشت، سبزی وغیرہ تو آئی رکھی ہیں۔‘‘ چند لمحے توقف کے بعد پھر گویا ہوئیں ’’میں کہتی ہوں کہ آج کل کے بیوپاری بڑی بے ایمانی کررہے ہیں، ہر شے میں ملاوٹ۔ پانچ سیر منگواؤ تو پاؤ، ڈیڑھ پاؤ کی ڈنڈی مار جاتے ہیں۔‘‘ دادی کے دکھڑے لامتناہی تھے اور دادا کو سب اَزبر، لہٰذا وہ اَن سنی کر جاتے۔
’’اے بچی! تم نے اپنے دوپٹے پر گوٹا ٹانک لیا؟‘‘ دادی کو پاس سے گزرتی پوتی کی صورت دیکھ کر کچھ یاد آیا اور سلسلہ کلام نے رُخ بدلا۔
’’اماں جان! ابھی تک تو کرتا ہی پورا نہیں ہوا۔‘‘ لہجے میں فکرمندی کم، لاپروائی زیادہ تھی۔
’’اے ہے تو کب کروگی؟ یا پھر اپنی اماں کے سر ہی ڈالو گی؟‘‘ دادی نے مخصوص انداز میں کہتے گول چشمے کے پیچھے سے آنکھیں دکھائیں ( جن میں محبت زیادہ اور غصہ کم ہی ہوتا۔)
’’میں سوچ رہی ہوں کہ گل جان سے کروالوں۔‘‘ پوتی نے خادمہ کی بیٹی کا نام لیا۔
’’حد ہوگئی تم سے، وہ اپنا جوڑا تیار کرے گی یا تمھارا؟ نہیں تم نے خود ہی ٹکائی کرنی ہے، ورنہ پہننا پرانا جوڑا۔‘‘
’’ہائے اماں جان، ایسا نہ کہیں۔ اچھا، لگا لوں گی۔‘‘ وہ منہ بسورتی چلی گئی۔
’’ہائے ہائے! ایک ہمارا زمانہ تھا…‘‘ اب دادی بیتا سہانا زمانہ یاد کررہی تھیں۔
…٭…
عابدہ بیگم کی آنکھوں میں ماضی ایک حسین رُت کی طرح تھا۔ بچپن، لڑکپن… بہت کچھ گھوم رہا تھا۔ ماضی دھندلکوں سے نکل کر واضح ہوکر، پھر قصۂ پارینہ بن رہا تھا۔ ’’کیسی ہوتی تھی وہ عید کی تیاری۔‘‘ ایک گہری مسکراہٹ نے ان کے ہونٹوں کو چھوا۔
’’اری لڑکیو! یہ چوڑیاں، پراندے آگئے ہیں۔ اپنے اپنے جوڑوں کے رنگوں کے مطابق رکھ لو اور مہندی بھی منگوا دی، اچھی طرح گھولنا۔‘‘ دادی کی آواز نے پھر عمرِ رفتہ کو یاد کیا۔ اپنی بہو، بیٹیوں اور پوتے پوتیوں کے لیے وہ فکرمند ہی رہتیں۔ ’’ارے بتاؤ برس کا برس دن آگیا، لیکن ان کی لاپروائیاں ویسی ہی، اب تہوار پر تو سب کام پہلے سے ہوں… ارے بڑی دلہن تم نے زاہد میاں اور محمود کے تو…‘‘
’’اماں جان! ساری تیاری ہے۔ آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘ دلہن نے تشفی دی۔
’’اور مہمانوں کے لیے شاہی زردہ بنے گا۔‘‘
’’جی جی یاد ہے مجھے۔‘‘ تائی اماں نے پھر کہا تو شاید دادی کو اطمینان ہوا۔
…٭…
عابدہ آج حسین ماضی کو یاد کررہی تھیں۔ کس تیزی سے وقت نے کروٹ بدلی تھی۔ ماضی، حال اور مستقبل… وقت تو گزر ہی جاتا ہے اپنے جلو میں خوب صورت اور یادگار لمحات کو لے کر، جیسے آج عابدہ بھی اپنے بچپن کو یاد کررہی تھیں۔ وہ عید کیسی ہوتی تھی۔ روایتی، خالص، مشرقی حسن لیے۔ آج دادی، پھوپھی، اماں اور تائی سب ہی تو خیالوں کے اس منظر میں واضح تھیں۔
کیا تھا اس عید میں اور آج کے ماڈرن تہوار میں… بچے بڑے ہورہے تھے، ان کی دل چسپیاں تہوار سے متعلق تبدیل ہورہی تھیں۔ گھر بیٹھے بھی اب عید کی تیاریاں ہوجاتی تھیں۔ آن لائن کپڑے، جوتی کی خریداری، پھر اگلے دن ان کپڑوں کو درزی کے حوالے، پارلر کے چکر، کھانے بھی تیار شدہ مصالحہ جات سے جھٹ پٹ تیار۔
بدل گیا، سب کچھ ہی تو بدل گیا۔ وہ رونق، وہ ہلچل، وہ خوشی سب کی نوعیت ہی تبدیل ہوگئی۔ رشتے داروں سے زیادہ اہمیت دوستوں اور ان کے ساتھ پارٹیوں کی تھی۔ روایات مٹ رہی تھیں۔ نہ وہ مہندی، چوڑی کی کھنک، نہ شوق… اور نہ عید کارڈ دینے کا جوش… سب زمانے کی نذر ہوگیا۔ وہ کل اور آج کا موازنہ کررہی تھیں۔ اب تو موبائل نے سہولت دے دی۔ ایک کلک اور… درجنوں دوستوں کو برقی، لمحاتی مبارک باد، برانڈڈ سلے سلائے لباس، بازاری دعوتیں، جس میں سب کچھ بازار سے تیار شدہ دستیاب۔
ہر خوشی آن لائن… تو کیا اب، عید بھی…؟

حصہ