عید ہے دل کی خوشی

350

ساری زندگی کی سست، کاہل، کام چور مہرین کا رشتہ میڈم نویدہ رضا کے بیٹے کے لیے آیا تو سب نے منہ میں انگلیاں داب لیں۔ ’’ارے نویدہ رضا تو حد درجہ ڈسپلنڈ اور اصول و ضوابط کی پابند ہیں۔‘‘
’’وہ… نویدہ میڈم، وہ بائیو کیمسٹری کی ہیڈ… وہ تو بہت سخت ہیں۔‘‘
جہاں سے وہ گزرتیں شریر سے شریر لڑکی کو سانپ سونگھ جاتا۔ کیا اسٹاف اور کیا اسٹوڈنٹس، سب پر ان کا رعب تھا۔ رعب ہی نہیں، دبدبہ بھی۔
جب مہرین تک رشتے کی بات پہنچی تو وہ ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کی عملی تصویر بن چکی تھی۔ مشاورت در مشاورت کے بعد رشتہ قبول کرلیا گیا، ہر اعتراض کو سات سمندر کے پانیوں میں ڈبو دیا گیا۔ سو سنار کی ایک لوہار کی، ابا پکے لوہار بن گئے اور حتمی فیصلہ سنا دیا:
’’ایسے رشتے تو قسمت والوں کو ملتے ہیں، جو خوبیاں اب ناپید ہیں وہ ہماری بیٹی کے نصیب میں لکھ دی ہیں تو ہم کیوں ٹھکرا کر گناہ گار بنیں!‘‘
لیجیے جناب بات پکی ہوئی اور دو ماہ کے بعد شادی بھی ہوگئی۔
جن کی پورے کالج میں دھاک بیٹھی تھی اب ان کی بہو بننا مہرین کی قسمت میں لکھ دیا گیا تھا۔ مہرین بے چاری دم سادھے سسرال میں داخل ہوئی۔ بی ایس اور ایف ایس کے دو سال سمیت چھ سال کالج میں اُن سے واسطہ پڑا تھا۔ انہیں دیکھ کر تو مالی بابا تک کا رنگ فق ہوجاتا تھا، چڑیا جتنے دل والی مہرین کی کیا مجال ان سے بے تکلفی سے بات کرنے کی، بھلے بہو ہی تھی ان کی۔
پھر قدم پھونک پھونک کر رکھتے ہوئے مزید دو چار ہفتے گزر گئے، وہ جو پنجابی میں کہتے ہیں ’’یا راہ پیا جانے یا واہ پیا جانے‘‘ تو مہرین کو اتنے عرصے میں ان کی کچھ خوبیاں بھی دیکھنے کو ملیں۔ وہ گھر میں بھی ڈکٹیٹر کا کردار بہ خوبی ادا کرنے کے ساتھ بہترین ماں‘ بہترین بیوی‘ بہترین بھابھی اور بہترین دیورانی تھیں۔ خاندان کے لوگ ان پر جان چھڑکتے تھے۔ شادی کو دوسرا مہینہ مکمل ہوا تو روزے شروع ہوگئے۔ روزے میں وہ بہت مہربان اور مشفق ساس کا کردار نبھا رہی تھیں۔ سدا کی نیند کی کچی مہرین کو کبھی سحری کے وقت کام کے لیے پکارا، نہ کوئی مشقت کا کام اس سے لیا۔ بس خاموشی سے گھر کے کام کرتیں اور قرآن کھول کر تلاوت میں مصروف رہتیں۔ کسی معاملے میں روک ٹوک یا بے جا مداخلت وہ پہلے بھی نہیں کرتی تھیں، ہاں وقت اور اپنے اصولوں کی سخت پابند تھیں اور مہرین بھی کسی حد تک خود کو اُن کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کررہی تھی کہ رمضان کا دوسرا عشرہ شروع ہوگیا۔
تیرہویں روزے کی افطاری کے وقت جب سارے افرادِ خانہ دستر خوان پر موجود تھے، انہوں نے سب کو متوجہ کیا ’’میری عمر دو‘ چار سال میں ریٹائرمنٹ کو پہنچ جائے گی‘ میں نے منت مانی تھی کہ ابرار کی شادی کے بعد اعتکاف پر بیٹھوں گی، الحمدللہ ابرار کی شادی کو دو ڈھائی ماہ مکمل ہوچکے ہیں، مہرین بیٹی کو بھی گھر گرہستی کا بہت حد تک پتا چل گیا ہے، پھر بھی اس کی مدد کے لیے ایک کُل وقتی ملازمہ کل سے آجائے گی‘ سحری وہی بنایا کرے گی، بس گھر چلانے کی ذمے داری مہرین کو لینا ہوگی… کیوں مہرین بیٹی ٹھیک ہے نا؟‘‘ انہوں نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
’’جی آنٹی! آپ بے فکر ہوکر اعتکاف پر بیٹھیں، اِن شاء اللہ آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔‘‘
’’بہت شکریہ‘ جیتی رہو۔ میں نے تمہارے موبائل فون پر ان دنوں کے کاموں کی فہرست بھیج دی ہے روزانہ کی تاریخ ڈال کر، الگ الگ کام ہیں‘ امید ہے تم گھبرائو گی نہیں۔‘‘
’’جی آنٹی، سب سے پوچھ لیا کروں گی میں۔‘‘ مہرین نے کہا۔
’’میرا اور تمہارے انکل کا سوٹ درزی کے پاس ہے، اس نے پندرہویں روزے کی سہ پہر دینے کا وعدہ کیا ہے، وہ وارڈروب میں لٹکا دینا، عیدی پر دینے کے لیے نئے نوٹوں کا بینک منیجر کو پیغام دے دیا ہے، وہ ستائیسویں روزے کی دوپہر میں انکل سے کہہ کر منگوا لینا۔‘‘
’’جی اچھا آنٹی…‘‘ مہرین نے تابع داری سے کہا۔
بیسویں روزے کے ساتھ ہی اعتکاف کا بندوبست مکمل ہوگیا، سارے کاموں کی فہرست ایک مرتبہ پھر گوش گزار کی اور اللہ کے سپرد کرکے گوشہ نشین ہوگئیں۔
مہرین پوری دل جمعی سے گھر میں سربراہ کی ذمے داری پوری کررہی تھی۔ احساسِ ذمے داری سے نیند بھی کم ہوگئی۔ پچیس کے بعد چھبیس اور پھر انتیسواں روزہ شروع ہوگیا۔
سوشل میڈیا پر ایک ہی تکرار تھی: چاند تیس کا ہوگا، چاند کی پیدائش انتیس رمضان کو ممکن ہی نہیں۔ اس لیے مہرین بھی کچھ سست تھی۔ سوٹ اس نے منگوا لیے تھے۔ نئے نوٹ بھی سسر سے کہہ کر بینک سے موصول ہوچکے تھے۔ سحری اور افطاری کی تیاری میں اس نے کمالِ مہارت دکھائی۔ ہر طرح سے اس نے اچھی بہو بننے کی پوری کوشش کی۔
’’خیر ابھی تیسواں روزہ باقی ہے، کل بقایا کام بھی مکمل کرنا ہیں۔‘‘ اس نے اپنے آپ کو اس سوچ کے ساتھ ڈھیلا کیا اور عشاء کی نماز سے پہلے ہی کمر سیدھی کرنے کے لیے صوفے پر دراز ہوگئی۔ خدا جانے کتنی دیر تک گھوڑے بیچ کر سوئی تھی کہ اچانک سسر اور اپنے میاں کی تیز آواز سے اس کی آنکھ کھلی۔
وہ ہڑبڑا کر اٹھی۔ دیکھا تو اس کی نند اور خاندان کے افراد پھولوں کے ہار اور گجرے لیے سامنے کھڑے ہیں۔ کچی نیند میں آنکھ کھلنے کی وجہ سے وہ ہوش اور غنودگی کے درمیان غوطے لگا رہی تھی۔
’’بھابھی عید مبارک… چاند نظر آگیا ہے، امی کو اعتکاف سے اٹھانا ہے، اٹھیے ذرا۔‘‘
وہ سچ مچ پریشان ہوگئی… ’’کیا چاند…؟‘‘
’’جی، رات کے دس بجے اعلان ہوا ہے، اب دس بج کر بیس منٹ ہوگئے ہیں۔‘‘
منہ پر پانی کے چھینٹے مار کر وہ بھی ان لوگوں میں شامل ہوگئی۔ ساس بہت خوش تھیں، سب کے سامنے بار بار مہرین کا شکریہ ادا کیا، دعائیں دیں۔ مہرین نے لپک جھپک کر اچھی سی پُرتکلف چائے کا انتظام بھی کرلیا۔ سب مہمان چائے پیتے ہی رخصت ہوگئے۔ پھر شیر خرمہ بناتے اورکچھ دیگر کام نمٹاتے رات کا ایک بجا تو ساس نے کہا ’’مہرین! ہمارے کپڑے منگوا لیے تھے نا، کل پہننے والے؟‘‘
’’جی آنٹی منگوالیے تھے۔‘‘
’’اور نئے نوٹ‘ عیدی میں دینے کے لیے؟‘‘
’’جی آنٹی وہ بھی منگوا لیے تھے۔‘‘ مہرین نے جواب دیا۔
’’جیتی رہو ،کپڑے جوتے سب ریڈی ہیں نا وارڈروب میں…؟ عید کے دن تو بجلی بھی دھوکا دے جاتی ہے۔‘‘ ساس نے کہا۔
’’ریڈی… وہ سوری اسی لفافے میں ہیں، میں نے سوچا تیس روزے ہوں گے تو کل پریس کرلوں گی۔‘‘ مہرین نے شرمندگی سے سر جھکا کر کہا۔
’’کہاں ہیں؟ میں ابھی کرلیتی ہوں، پچھلی مرتبہ تو بجلی غائب رہی تھی، بہت پریشانی ہوئی تھی سب کو۔‘‘
مہرین نے کمرے میں جا کر کپڑوں کا تھیلا ان کے سامنے رکھا۔ ساس نے اشتیاق سے لفافہ کھولا، کپڑے نکالے… ’’یہ کیا؟ وہ حیرت سے بولیں۔‘‘
مہرین بھی ہکا بکا، کیونکہ لفافے میں بیس بائیس سال کی لڑکی کی میکسی اور ٹرائوزر پڑا تھا۔
’’اوہ یہ…‘‘ وہ صدمے سے بول ہی نہ سکی، اس کے ماتھے پر پسینے کے قطرے اس کی کیفیت کے ترجمان بنے ہوئے تھے۔ وہ کالج کی ڈرپوک مہرین بن گئی تھی۔
’’یہ کیا ہوا؟ میں نے کھول کر دیکھا کیوں نہیں؟ آنٹی نے کہا تو تھا کہ وارڈروب میں کپڑے لٹکا دینا۔‘‘ بے اختیار اس کی دونوں آنکھوں سے آنسو نکل کر اس کی نا اہلی پر ماتم کناں ہوگئے۔
’’کیا ہوا؟ مہرین بیٹی رو کیوں رہی ہو؟‘‘ ساس نے اسے سینے سے لگایا۔
’’آنٹی سوری، میری غلطی سے ایسے ہوا، مجھے کھول کر دیکھنا چاہیے تھا۔ اب آپ کیا پہنیں گی؟ آپ نے تو اتنے شوق سے سلوایا تھا سوٹ۔‘‘
’’تو کوئی بات نہیں میری جان، میں کوئی اور کپڑے پہن لوں گی… عید پر نئے کپڑے شرط تو نہیں ہیں، کوئی مسئلہ نہیں۔‘‘
’’لیکن آنٹی…‘‘وہ رونے لگی۔
بے وقوف لڑکی! عید پر نئے کپڑے بچوں کا شوق ہوتا ہے، ہم جیسوں کا نہیں۔ دوسری بات یہ کہ عید تو دل کی خوشی کا نام ہے، معاف کرنے کا، گلے لگانے کا… اب اس بات پر میں سب کی عید برباد کردوں کہ میرے کپڑے نئے کیوں نہیں؟ حد ہوگئی۔ وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔
’’سچ آنٹی؟‘‘ مہرین بے ساختہ بول کر شرمندگی سے منہ پر ہاتھ رکھنے لگی۔
’’ہاں بیٹا! بالکل سچ، اعتکاف سے اندر دھل کر صاف شفاف ہوگیا ہے، نیا پن آگیا ہے باہر کے لیے۔ اب برانڈڈ کپڑے نہ بھی ہوں تو خیر ہے۔‘‘ انہوں نے اسے ہر فکر سے آزاد کیا اور مہرین تو جیسے ہلکی پھلکی ہوکر ہوائوں میں اُڑ رہی تھی۔

حصہ