عروبہ کی کہانی

278

دوسرا اور آخری حصہ
’’ہو…‘‘ اس نے گہری سانس لی اور بولی ’’سمجھتا تو یہی ہے‘ مگر ایسا ہے نہیں۔‘‘
’’کوئی تم سے پیار نہ کرتا ہو مگر یہ سمجھتا ہو یہ بہتر ہے اس سے کہ کوئی تم سے پیار کرتا ہو اور اسے سمجھتا نہ ہو۔‘‘ مہرین نے فلسفہ جھاڑا۔
’’آپ نے ایم فل کس میں کیا؟‘‘ عروبہ نے بات بدلی۔
’’تم اس سے پیار نہیں کرتی؟‘‘ مہرین نے سنی اَن سنی کی۔
’’ابتدا میں کیا تھا‘ مگر جب بے شمار مسائل نکلے‘ برے رویے سامنے آئے تو سب ختم ہو گیا۔‘‘ عروبہ بولی۔
’’مطلب تم اس کی الٹ ہو۔ تم اس سے پیار کرتی ہو مگر یہ سمجھتی نہیں ہو۔‘‘
’’بالکل نہیں۔ میں اس سے نفرت کرتی تو نہیں لیکن اس کی سرحد پر کھڑی ہوں۔‘‘ عروبہ نے بیچ جملہ ہی اندازہ بہتر کیا۔
’’اگر تمہیں دو انتخاب ملیں تو کس کو پسند کرو گی وہ شوہر جس سے تم محبت کرو مگر وہ تم سے نہ کرے یا وہ شوہر جس سے تم محبت نہ کرو مگر وہ تم سے کرے۔‘‘ مہرین کا سوال ٹیڑھا تھا مگر سامنے بھی عروبہ تھی۔
’’دونوں میں سے کوئی نہیں۔ دونوں ایک دوسرے سے محبت کریں‘ کیا ایسا جوڑ ملنا ناممکن ہے؟‘‘ عروبہ پھٹ پڑی۔
’’کوئی چیز ناممکن نہیں۔ تم اپنے شوہر سے محبت کرنا شروع کردو یہ ممکن ہو جائے گا۔‘‘ مہرین نے بھی ایم فل خواہ مخواہ پاس نہیں کیاتھا۔
’’یہ ناممکن ہے۔‘‘
’’یہی تمہاری بات کا جواب بھی ہے‘ تم چاہو تو ممکن‘ تم نہ چاہو تو ناممکن۔‘‘
’’وہ تمہاری امی ہیں؟‘‘ کچھ دیر توقف کے بعد مہرین دوبارہ بولی۔
’’مجھے آپ سے بات نہیں کرنی۔‘‘ عروبہ روٹھ سی گئی۔
’’آئی ایم سوری۔ میری جو بات بری لگی ہو‘ تم دل کی اتنی صاف اور کھری ہو انسیت ہو گئی تم سے بات کرکے۔ ایسا لگ رہا ہے ہم صدیوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہیں۔‘‘ مہرین نے معذرت کی۔
’’ہاں… امی ہیں۔‘‘
’’وہ خوش ہیں خلع کے فیصلے سے؟‘‘
’’میری خوشی میں ان کی خوشی ہے۔‘‘
’’تمہارے دلائل کے آگے کوئی ٹک جو نہیں سکتا۔‘‘ مہرین بڑبڑائی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ عروبہ نے آنکھیں نکالیں۔
’’مطلب یہ کہ کوئی اور لڑکا تو ان کی نظر میں نہیں ہے؟‘‘
’’پتا نہیں۔ شاید ہو۔‘‘ عروبہ نے کندھے اچکائے۔
’’ان سے کہو اس کا خیال دل سے نکال دیں۔ وہ بدل جائے گا۔‘‘ مہرین نے یقین سے کہا۔
’’آپ کچھ جانے بغیر یہ کیسے کہہ سکتی ہیں؟‘‘
’’ابھی تم اس کے لیے حرام ہو‘ شیطان اسے بہکا رہا ہے‘ جیسے ہی تمہارے نکاح کا بندھن ٹوٹے گا‘ شیطان بیچ سے نکل جائے گا کیوں کہ اس کا مقصد پورا ہو جائے گا۔‘‘ مہریننے تفصیل بتائی۔
’’ایسا کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ عروبہ یقین سے بولی۔
’’کیا گارنٹی ہے؟‘‘
’’رشتہ داری۔‘‘
’’پھر تو یہ پریشر کا فیصلہ ہے۔ پریشر ختم‘ فیصلہ واپس۔‘‘ مہرین بولی۔
’’مجھے نہیں پتا۔ یہ امی کا مسئلہ ہے میرا نہیں۔‘‘ عروبہ نے ہاتھ اٹھا دیے۔
’’بہت خوب‘ کیا تم نے واقعی ماسٹرز کیا ہے؟‘‘ مہرین مسکرائی۔
’’یہ سوال ہے یا طنز؟‘‘
’’بیرون ملک تو نہیں رہتا؟‘‘ مہرین کا سوال سن کر عروبہ اچھل پڑی۔
’’آپ نے یہ کیوں پوچھا؟‘‘
’’خاندان کی روایت یا بزرگوں کے آپس کے وعدے نبھانے کا یہ سب سے آسان اور بدترین طریقہ ہے۔‘‘
’’کیا…؟‘‘
’’لڑکا بیرون ملک سے آئے گا‘ باقاعدہ شادی کرے گا‘ مشرقی طور طریقے پیش کرے گا اور پھر سال دو سال کے لیے غائب۔ خود کبھی آ بھی گیا تو بیوی کو تو ہرگز یہاں سے نہیں لے جاتے یہ لوگ۔‘‘ مہرین کی سانسیں تیز ہو گئیں۔ اس کا اپنا نہیں تو کسی اپنے کا دکھ تھا جو بول رہا تھا۔
’’کون سی پیشی ہے آج آپ کی؟‘‘ عروبہ نے موضوع بدلا۔
’’تمہارے موبائل میں کیلکولیٹر ہے؟‘‘
’’میری میتھس کافی اچھی ہے۔‘‘
’’چھ ماہ میں ہر ماہ تین حاضریاں؟حساب لگا لو۔‘‘
’’یہ تو بہت آسان ہے اٹھارہ…‘‘ عروبہ جلدی سے بولی۔
’’چھ ماہ تک اٹھارہ مرتبہ کورٹ کے چکر‘ ایک سال کی دودھ پیتی بچی کو لے کر آنا آسان تھا؟‘‘ مہرین عروبہ پر الٹ پڑی۔
’’میرا یہ مطلب نہ تھا۔‘‘ وہ سہم کر بولی۔
’’تمہارے کتنے چکر لگ گئے؟‘‘
’’آج پانچواں ہے۔‘‘
’’مطلب دو ماہ ہو گئے‘ کسی پیشی میں لڑکے والے بھی آئے؟‘‘ مہرین نے پوچھا۔
’’ہاں پچھلی چار میں تو آئے تھے‘ آج کا پتا نہیں۔‘‘
’’کیا! مہرین اچھل پڑی۔ اس کی بچی بھی چونک کر اٹھ گئی۔
’’آخر اس میں حیرت کی کیا بات ہے؟‘‘
’’میرا شوہر تو ایک مرتبہ بھی نہیں پھٹکا۔‘‘ مہرین نے وجہ بتائی۔
’’اس کے زیورات نہیں ہوں گے نا آپ کے پاس۔‘‘ عروبہ نے بھنویں اچکائیں۔
’’کیا تمہارے پاس ان کے زیورات ہیں؟‘‘ مہرین نے پوچھا۔
’’ہاں اسی لیے تو وہ آتے ہیں۔‘‘ عروبہ کے منہ سے نل گیا۔ مگر اس نے آج تک جھوٹ نہیں بولا تھا۔‘‘ اس نے فوراً تصحیح کی۔
’’مطلب یک دو پیشیوں میں وہ زیورات کے لیے آئے پر ہم نے دے دیے۔ حالانکہ وہ ان کے نہیں میرے تھے۔
’’بڑی خوش نصیب ہو تم کہ تمہارے پاس کچھ دینے کے لیے تو تھا۔ میں تو یہاں صرف لینے آئی ہوں۔‘‘
’’کیا لینے؟‘‘ عروبہ چونکی۔
’’نت نئے الزامات۔ جو ان کا وکیل مجھ پر لگاتا ہے۔ جن کا مجھے تو کیا میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں۔ اس دس لاکھ کے مہر کا مطالبہ جو دینا تو درکنار کبھی لکھا بھی نہیں گیا۔‘‘ مہرین بد دلی سے بولی۔
’’تو آپ نکاح نامہ پیش کرتیں ناں۔‘‘
’’واہ کیا شاندار آئیڈیا ہے۔ ہم نے تو ایسا کبھی سوچا تک نہ تھا۔‘‘ مہرین نے تالی بجائے تو عروبہ جھینپ گئی۔
’’بات یہ ہے بھولی شہزادی کہ ہمارے پاس جو نکاح نامہ ہے وہ تو ہے جعلی کیوں کہ آج کل دس ہزار مہر میں کون بے وقوف لڑکی شادی کرتی ہے اور جو ان کے پاس نکاح نامہ ہے وہ ہے اصلی کیوں کہ دس لاکھ کا مہر ہی میڈیم مہرین ایم فل کے شایانِ شان ہے۔‘‘
’’اوہ…‘‘ عروبہ بس یہی کہہ سکی۔
’’تمہارے سسرال والے باقاعدگی سے آرہے ہیں یعنی وہ خلع پر راضی ہیں‘ پھر کیوں اتنے چکر لگ رہے ہیں؟‘‘
’’اس کی وجہ معلوم کرنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے‘ ایک پتھر لے کر اس جج کا سر پھوڑ دیا جائے اور دیکھا جائے کہ آخر اس کی کھوپڑی میںوجہ کیا ہے خلع نہ کرانے کی۔‘‘ عروبہ نے تو خیال ہی خیال میں جج کا سر پھوڑ بھی دیا۔
’’مجھے نہیں لگتا کہ میری خلع میری زندگی ہی میں ہو پائے گی۔‘‘ مہرین افسوس سے بولی۔
’’میں نے تو سنا ہے کہ اگر شوہر دو‘ تین پیشی میں نہ آئے تو عدالت خود خلع کرا دیتی ہے۔‘‘ عروبہ نے بتایا۔
’’سنا تو یہ بھی ہوگا کہ اگر شوہر راضی ہو اور آجائے تو پہلی ہی میں خلع ہو جاتی ہے اور ہوگئیں آپ کی خیر سے چھ پیشیاں۔‘‘ مہرین نے مذاق اڑایا۔
’’چھ نہیںچار… آج پانچویں ہے‘ آج ضرور کام ہو جائے گا۔‘‘ عروبہ یقین سے بولی۔
’’مجھے نہیں لگتا۔‘‘ مہرین نے کندھے اچکائے۔
’’کیوں…؟‘‘ عروبہ چیخی۔
’’لڑکا تم سے پیار کرتا ہے؟‘‘ مہرین نے پوچھا۔
’’میں اس کا جواب دے چکی ہوں۔‘‘
’’لگتا ہے وہ کوئی دَم درود کر رہا ہے ورنہ معاملہ تو سیدھا سادا ہے۔
’’درود شریف تو میں بھی پڑھ رہی ہوں‘ تو میں کیوں لٹکی ہوئی ہوں؟‘‘
’’لٹکی نہیں بچی ہوئی ہو۔ کچھ پتا نہیں کہ چھوٹی تو کہاں گرو گی… باغ میں یا انگاروں پہ۔‘‘
’’مطلب یہ کہ اس رشتے سے آزادی کے لیے میں درود شریف پڑھنا چھوڑ دوں؟‘‘ عروبہ بولی۔
’’خیر اتنے بڑے عمل سے تو کوئی گمراہ ہی منع کرے گا۔ پڑھتی رہو‘ مگر یہ شکایت نہ کرو کہ مجھ پر رحمتیں کیوں نہیں ہیں… درود پڑھو گی تو وہ تو تمہیںمل کر رہیں گی۔‘‘
’’آپ نے ایم فل کس میں کیا ہے؟‘‘ عروبہ کو فلسفہ سن کر پھر یاد آگیا‘ مگر پھر وہ چونکی‘ اس کی نگاہیں ایک طرف اٹھیں جہاں سن گلاسز لگائے ایک لڑکا ایک خاتون کے ساتھ آرہا تھا۔
’’وہ لوگ آگئے۔‘‘ عروبہ کے منہ سے نکلا اور جانے کے لیے اٹھی۔
’’ارے واہ…! یہ ہے تمہارا شوہر… کتنا ڈیشنگ ہے اور تمہارا ہم عمر بھی۔‘‘ مہرین نے ستائش کی۔
’’جی نہیں… وہ مجھ سے عمر میں پانچ سال بڑا اور عقل میں پانچ سال چھوٹا ہے۔‘‘
’’پھر تو وہ ساری زندگی تمہارے حساب سے چلے گا۔ میرا شوہر تو مجھ سے پندرہ سال بڑا ہے‘ عمر میں بھی اور عقل میں بھی۔‘‘ مہرین روہانسی ہوگئی۔
’’میں جا رہی ہوں‘ کیس لگنے والا ہوگا۔‘‘ عروبہ آگے بڑھی۔
’’جلدی سے جا کر خلع لو تاکہ میں اس ہینڈسم سے شادی کر لوں۔‘‘ مہرین بولی۔
’’پہلے آپ اپنی خلع تو کرا لیں۔‘‘ عروبہ فٹ سے بولی۔
’’لڑکا ٹھیک ہے‘ اسے مت چھوڑو۔‘‘ مہرین نے مشورہ دیا۔
’’اپنے فارمولے اپنے آپ ہی پر آزمائیں۔‘‘ عروبہ نے جوابی مشورہ دیا۔
’’ارے جاتے جاتے میرے ایم فل کا نچوڑ تو سنتی جائو۔‘‘ مہرین نے کہا تو عروبہ رک کر مڑ گئی۔
’’توبہ کرو تو آنکھیں دھو کر‘ علم حاصل کرو تو دماغ دھو کر‘ محنت کرو تو دل دھو کر ورنہ انہیں حاصل نہیں کر پائو گے۔‘‘
عروبہ سر ہلاتی آگے بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ سب عدالت سے غصے میں بلبلاتے ہوئے نکلے۔ مختلف جملے جو مہرین کی سماعتوں سے ٹکرائے وہ یہ تھے:
’’نہیں آنا تھا جج کو تو پہلے ہی بتا دیتے۔‘‘
’’اتنی گرمی اور روزے میں خوار کرا دیا۔‘‘
’’ضرور سحری کرکے لمبی تان کر سو گئی ہوں گی جج صاحبہ۔‘‘
’’رمضان میں صبح اٹھنے کا دل کس کا کرتا ہے۔‘‘
’’عمر دیکھو‘ مقام دیکھو اور بہانے اسکول کے بچوں والے۔‘‘
جب یہ قافلہ مہرین کے پاس سے گزرا تو وہ آہستہ سے بڑبڑائی ’’دَم درود۔‘‘
زوہیب کو تو شاید پہلے ہی یقین تھا‘ اب عروبہ کو بھی یقین ہو گیا کہ خلع کے راستے میں کوئی تو رکاوٹ ہے اور وہ شاید یہ دم درود ہی ہوں۔
کورٹ کے احاطے سے باہر نکل کر زوہیب کی والدہ حبیبہ خانم بولیں ’’آپ لوگ ہمارے ساتھ ہی چلے چلیں۔‘‘
نجمہ بیگم نے جلدی سے انکار کیا ’’نہیں نہیں‘ ہم چلے جائیں گے‘ آپ زحمت نہ کریں۔‘‘
جبیبہ خانم دوبارہ بولیں ’’ارے زحمت کیسی نجمہ بہن! ایک‘ دو کلو میٹر کا فرق ہے ہمارے گھروں میں۔ اس گرمی اور روزے ہی کا خیال کرلیں۔‘‘
عروبہ نے آنکھوں ہی آنکھوں میں والدہ کو کہا کہ ’’چلے چلیں کیا حرج ہے؟‘‘
زوہیب پارکنگ سے گاڑی نکال کر لایا تو حبیبہ خانم آگے کا دروازہ کھولتے ہوئے بولیں ’’عروبہ بیٹی! فی الوقت بھی یہ سیٹ تو تمہاری ہی ہے‘ چاہو تو بیٹھ سکتی ہو۔‘‘
مگر عروبہ پیچھے کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔
زوہیب کے لیے عروبہ کا گاڑی میں بیٹھنا بڑا غیر متوقع تھا اور یہ تغیر اس کے چہرے سے عیاں تھا۔
’’بیٹا! گاڑی چلاتے ہوئے اپنا دھیان آگے ہی رکھنا‘ ایسا نہ ہو کہیں لگ جائے۔‘‘ حبیبہ خانم نے اسے تنبیہ کی۔
عروبہ دل ہی دل میں مسکرائی۔ اس کی موجودگی سے کسی کو اتنا فرق پڑتا ہے‘ اس کے لیے یہ احساس خوش گوار تھا۔
گاڑی چل پڑی تو تھوڑی دیر بعد حبیبہ خانم پھر بولیں ’’بیٹا! یاد رکھنا افطاری کے لیے تربوز بھی لینا ہے۔‘‘
’’جی ٹھیک ہے۔‘‘ زوہیب فرمانبرداری سے بولا۔
’’اور دیکھ کر لینا سرخ ہو‘ ایک مرتبہ سفید اٹھا لائے تھے۔‘‘
’’جی ایک مرتبہ غلطی ہوگئی تھی‘ اس سے یہ سبق ملا کہ اب ہر مرتبہ کٹوا کر چیک کرکے لاتا ہوں۔‘‘ عروبہ نے سوچا کہ کہیں اشارے کنائے میں اس کی بات تو نہیں ہو رہی؟
حبیبہ خانم پھر بولیں ’’ہاں بیٹا! عقل مند وہی ہے جو اپنی غلطیوں سے کچھ سیکھ لے اور انہیں دوبارہ نہ دہرائے۔‘‘
’’میں اپنی ہر غلطی پر اللہ سے توبہ کر چکا ہوں۔ لوگ معاف نہ بھی کریں تو کیافرق پڑتا ہے۔ اللہ تو خوب معاف کرنے والا ہے۔‘‘ زوہیب نے کہا اور گاڑی روک دی۔
کچھ ہی دیر میںجب وہ تربوز لیے آیا تو اس نے ایک گلاب کا پھول چپکے سے عروبہ کی کھڑکی کے اندر سرکا دیا جو عروبہ نے فوراً ہی اسے واپس کر دیا۔ کچھ دیر وہ کبھی پھول کو اور کبھی عروبہ کو تکتا رہا اور پھر وہ پھول زمین پر پھینک دیا۔عروبہ گاڑی سے اتری اور پھول اٹھاتے ہوئے بولی ’’یہ اس پھول کی بے حرمتی ہے۔‘‘
’’اگر پھول کی زبان ہوتی تو اس سے پوچھتا کہ اسے قبول نہ کرنا بڑی بے حرمتی ہے یا زمین پر پھینکنا؟‘‘ زوہیب نے کہا۔
’’لوگ اسے پائوں تلے روندیںگے۔‘‘ عروبہ بولی۔
’’کاش میرے دل کی حیثیت اس پھول جتنی ہی ہوتی۔ وہ بھی پائوں تلے روندا ہی جارہا ہے۔‘‘ زوہیب نے کہا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔
حبیبہ خانم جو سارا ماجرا دیکھ رہی تھیں دکھی ہوکر بولیں ’’بس بیٹا مجھے جلدی سے گھر اتار دو‘ اب مجھ سے مزید بیٹھا نہیں جا رہا۔‘‘
زوہیب نے والدہ کو گھر پر اتارا تو نجمہ بیگم بولیں ’’ہم یہاں سے خود چلے جائیںگے۔‘‘
’’کوئی بات نہیں‘ زوہیب چھوڑدے گا آپ لوگوں۔‘‘ حبیبہ خانم بولیں۔ پھر بڑبڑائیں ’’زوہیب کو چھوڑ ہی دینا چاہیے آپ لوگوں کو۔‘‘
گاڑی دوبارہ چلی تو عروبہ بولی ’’زوہیب! میں نے پھول اس لیے واپس کیا تھا کہ آپ نے وہ مجھے چھپ کر چپکے سے دیا تھا۔ آخر کب آپ اپنے کام خود اعتمادی سے کرنا شروع کریں گے؟‘‘
’’شاید کبھی نہیں‘ یہ میری شخصیت اور طبیعت کا حصہ نہیں۔‘‘ زوہیب ٹوٹے دل سے بولا۔
عروبہ نے ایک گہری سانس لی اور موبائل دیکھنا شروع کر دیا۔ اتفاق تھا یا قدرت‘ اس کے سامنے ایک حدیث کا مفہوم آیا ’’تمام بنی آدم خطا کار ہیں اور ان خطا کاروں میں بہترین وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔‘‘
’’مطلب گناہ نہ کرنے والوںسے بہتر وہ ہیں جو گناہ کرکے توبہ کرلیں‘ گناہ نہ کرنے والے تو حدیث کی رو سے ہوتے ہی نہیں‘ مطلب توبہ کرنے والے بہترین لوگ ہیں؟‘‘ عروبہ کے ذہن میں حساب کتاب شروع ہوگیا۔
عروبہ کے گھر پر گاڑی رکی تو نجمہ بیگم تو فوراً ہی اتر کر چل پڑیں۔ عروبہ نے زوہیب سے کہا ’’ایک منٹ رکیے گا‘ مجھے آپ کو ایک چیز واپس کرنی ہے۔‘‘ اور اندر چلی گئی۔
زوہیب سوچنے لگا کہ ہر چیز تو واپس ہو چکی ہے کیا استعمال شدہ پرفیوم‘ کیا تہنیتی کارڈز‘ سب واپس ہو چکا‘ اب کیا رہ گیا ہے؟
عروبہ واپس آئی تو خالی ہاتھ تھی۔ زوہیب نے حیرت سے پوچھا ’’کیا چیز دینی ہے؟‘‘
عروبہ بولی ’’آپ کو بندی مل رہی ہے اور چیز کی فکر لگی ہے۔‘‘
’’کیا مطلب…؟‘‘
’’مطلب یہ کہ آپ کو آپ کی بیوی واپس کر رہی ہوں‘ اچھے اچھے نیک لوگ زندگی بھر دوسری بیوی کی تمنا کرتے رہے اور یہ آرزو لیے ہی دنیا سے چلے گئے اور میں آپ کو اتنی سی عمرمیں دوسری شادی کرنے دوں۔‘‘ عروبہ نے کہا اور اگلی سیٹ کا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی۔
زوہیب کو پہلے تو یقین ہی نہ آیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے پھر اس نے آسمان کی طرف دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا اور دھیرے سے بڑبڑایا ’’دَم درود۔‘‘
جب سے عروبہ گھر چھوڑ کر گئی تھی‘ وہ باقاعدگی سے حسب توفیق درود شریف پڑھ کر اس کا ثواب عروبہ کو بخش رہا تھا اور شاید اسی نے عروبہ کے دل کی بند کھڑکیوں کو ایک بار پھر اس کے لیے کھول دیا تھا۔

حصہ