انکار و اقرار کی حرکیات

273

اقرار کا مطلب ہو کہ انکار کے معنی
کوئی تو ہو سمجھے مری گفتار کے معنی
لوگ بات نہیں مانتے! ہر بھلی بات کو رد کردیتے ہیں! تو پھر ہم کیسے لوگوں کے انکار کو اقرار میں بدلیں؟ یہ سوال ہر اُس جاگتے ذہن کی روشن سطح سے ابھرتا ہے جو اپنی زندگی کے لیے کوئی خاص راہ چنتا ہے۔ وہ کسی کو نظریہ کی سوغات دیتے ہوئے صدمات اٹھاتا ہے‘ کسی کو کاروبارکے امکانات بتاتے ہوئے الزامات ڈھوتا ہے یا اپنی ذاتی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اوروں کے جذبات سہتا ہے۔
انکار کی Dynamics کو سمجھنے اور اس پر قابو پانے کی پہلی شرط یہ ہے کہ ہم کسی کے انکار پر زیادہ تعجب نہ کریں۔ یہ ہمیں حیرت میں ڈھکیل سکتاہے۔ حیرت زدہ کا منہ کھلتے ہی عقل کا دروازہ بند ہو جاتا ہے۔ ہر تحیر سے عقل پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔ جب کہ یہی وہ وقت ہے جب ہم کسی کے انکار کو اپنے حُسن اظہار کے جادو سے اس کے مؤقف کو بدلنے کا موقع پاتے ہیں۔ انکار کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سکہ کا ایک ہی رخ ہوتا ہے۔ اگر اسے پلٹ کر دیکھیں تو کوئی دوسرا پہلو ابھرے گا۔ انکار کرنے والے کی روح میں اترکر دیکھں تو پتا چلے گا کہ انکارکرنے والے کی ایک درد بھری کراہ چیخ بن کر ابھرتی ہے۔ انکار ایک درد مندانہ پکار بھی ہوسکتی ہے کہ اس کی کسی رائے کا بگاڑ۔ اس کی فکر کہیں کانٹوں میں الجھی ہوئی ہو۔ اس کی رائے بیمار کے منہ کا ذائقہ جیسے‘ ممکن ہے اس کا سبب اس کی کسی اہم ضرورت کا پورا نہ ہونا ہو۔ کوئی سنگین محرومی۔ کوئی ناقص خیال کے ہتھے چڑھی ہوئی گمراہی‘ کہیں غلط جذبات کے دلدل میں سر سے پیر تک دھنسے مجبور لوگوں کا ذہنی ہنگام۔ ان کا انکار کسی بڑی ناتمام تمنا کی آگ کا دھواں ہوتا ہے۔ آگ کہاں لگی وہ پتا لگانا ہوگا۔ کسی عدم تحفظ کے سبب خوف سے چھپے ہوئے قلعے کی دیوار کا سایہ ہوسکتا ہے۔ ہم سائے کے پھیلاو پر نہیں اس کے کھلے ہوئے پھاٹک سے اندر جائیں یا ہمت کرکے نقب لگائیں۔ ہمیں چاہیے کہ انکار کرنے والے سے زیادہ اپنے اقرار کی بنیادوں پر یقین بڑھائیں۔ ہم کیسے امکانات کے منکر ہوسکتے ہیں۔
اور اگر ہو جائیں تو فرق مٹ جائے گا۔ کبھی تو ہم خود سامنے والے کے انکار کو اپنی روح میں اتارکر بجلیوں کے کوندے سے بھی زیادہ تیز ایک غلط نتیجہ پر پہنچ جاتے ہیں۔ اگر موسی ؑمزاج لوگ اپنے دور کے فرعونوں کے انکار کو پیار بھرے لہجہ میں (قول لیّن) سے جواب دیتے رہیں گے تو نتیجہ جو بھی ہوگا لیکن اظہار پر وقار ہوگا۔ فرعون بھی ڈوبتی گھڑیوں میں اپنی خدائی سے دست بردار ہوا تھا۔ ہاں! یہ اور بات ہے کہ اس کے اقرار کو خدا نے اعتبار نہیں بخشا؎
بوئے اقرار بھی آتی ہو جو انکار کے ساتھ
ایسے انکار پسندیدہ ہیں اقرار کے ساتھ
انکار پر دل ہارنے والے لوگ کسی سڑک چھاپ عاشق کی طرح ہوتے ہیں جو اپنے محبوب کے انکار پر اُسے اپنی ناکام محبت جتلا کر خود کشائی کے بجائے خود کشی کا ایک حماقت مآب فیصلہ کرلیتے ہیں۔ کسی کے انکار پر خود کو کمتر اور حقیر، اگر بات سنگین ہو تو ذلیل بھی گردانتے ہیں۔ اپنے یقین کو تذبذب کے تیزاب میں ڈال کر، اپنی رائے کومسخ کرکے اپنے نظریہ سے نظریں چھپا کرجیتے ہیں۔ انکار کے بلیک ہول میں لوگ، قومیں اور ملکوں کے ساتھ نظریات بھی گم ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں دنیا کو شفا آسا لہجے والے مسیحائوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انکار تو امکانات کی نئی دنیا کا پتا دیتی ہے‘ ہمیں نئی حکمت ِ عملی برتنے پرآمادہ کرتی ہے۔ بند دروازوں کے سکوت کے بجائے اپنی دستکوں پر یقین بڑھا دیتی ہے۔ اس یقین کے سبب ہی ہماری سرگوشیاں گونج بن سکتی ہیں۔ ہمیں بس بہترین زبان و لہجے میں بات کو قابل عمل مرحلوں تک لانا ہوگا۔ میدان و مؤقف چھوڑے بغیر، ٹکرائو کی بولی ٹھولی کو اپنائے بغیر‘ اپنے کردار و اظہار کے بودے پن پر کڑی نگاہ رکھتے ہوئے۔ بحث کے نرغے میں گھری ہوئی گھڑیوں میں اپنے ذہن میں مچی بھگڈر پر قابو پاتے ہوئے، طیش و جلد بازی سے دامن بچاتے ہوئے، کج بحثی کی خواہش کی نفسانی باڑہ پر بندھ باندھتے ہوئے، محبت کے ہالۂ نور میں اپنے مخالف کو لیتے ہوئے بات کی جائے تو انجام کار جیت ممکن ہے اور اگر جیت کا روپ رنگ من چاہا نظر نہ آئے تب بھی اس کا اپنا اثر گہرا ہوتا ہے۔ ان انکار کرنے والوں پر بھی ہوتا ہے جو اخلاقی جزام کے مریض ہوتے ہیں۔
پتھروں کی خدائی ماننے والے بھلے ہی پتھروں پر پھول چڑھائیں وہ انسانوں کو پیار مشکل سے بانٹتے ہیں۔ اس لیے اپنی پیش کش کے بعد اگر آپ سامنے والے سے یہ پوچھیں کہ آپ اس پیش کش پر کیسا ’’محسوس‘‘ کر رہے ہیں؟ تو آپ نے ’’محسوس‘‘ لفظ کی وساطت سے اس کے ’’بدن‘‘ سے سوال کیا۔ جہاں سے قیاس اُبل پڑتے ہیں، اندازے داغے جاتے ہیں۔ اس کے بجائے آپ اس کے ذہن پر دستک دیں جیسے کہ ’’آپ کیا سوچتے ہیں۔‘‘ اگر آپ سامنے والی کی ’’ضرورت‘‘ کی تکمیل کرتے ہوئے اپنی ضرورت بتائیں تو اس سے وہ متصادم نہیں ہوگی بلکہ وہ اپنے اختیار کی برتری کے احسا س میں آکر آپ کی ضرورت پوری کردے گا۔ اگر انکار کو اقرار میں بدلنے کا نصاب بنایا جائے تو یہ چند نکات نتیجہ خیز ہوسکتے ہیں:
1۔انکار کرنے والے کی بات کو ذات و ذاتیات پر نہ لی جائے (یہ نفع بخش دانشورانہ سرمایہ کاری ہے۔ بعد میں نفع ہی نفع مقدر ہوگا۔)2۔ سامنے والے کی کسی اہم ضرورت اور مشترک آگاہی سے اپنی بات کو جوڑا جائے۔3۔ اپنی ضرورت پر جمے رہتے ہوئے حکمت عملی اور طریقہ کی تبدیلی پر ہر دم تیار رہیں۔ 4۔ اپنے نکات اور نظریات کے ٹکرائو کا فوری حل نہ ڈھونڈیں بلکہ کبھی کشادہ دلی سے پہلے پہل کی شکست بھی قبول کرلیں۔ انکارکرنے والا کا مان بڑھاتے رہیں تاکہ دوسری ملاقات کی راہیں روشن رہیں۔ 5۔بحث کے ہنگام میں کہیں ’’چپ‘‘ بھی ہوجائیں۔ کبھی سکوت سامنے والے کی سوچ کی سمت بدلتا ہے۔ 6۔ سامنے والے کے جذبات کا گدلہ پانی اُبلنے دیں اور یقین رکھیں کہ ٹھنڈے پانے کا چشمہ وہیں گہرائیوں سے پھوٹے گا۔ تب تک اس کی زبانی گندگی کا ڈھیر ڈھوتے رہیں یا بچ بچ کر اپنی مہم پر جمے رہیں۔ 7۔یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ انکار کو اقرار بنانا فوری حربہ نہیں بلکہ ایک تدریجی طریقۂ کار ہے۔ یہ ایک پروسس ہے۔ 8۔مذاکرات، مباحثے تو لین دین کی ذہانت طلب کرتے ہیں۔ جہاں کچھ کھونے اور پانے کی اصول ہوتے ہیں۔9۔ مخالف کے جملوں کے ٹکڑوں کے جال میں پھنس کر ہم نظریہ نہ ہاردیں۔10۔ مخالف کا نہ لفظ اہم ہے، نہ اظہار اور نہ مؤقف بلکہ ہمیں اپنی تمناوں و تصورات کی دنیا پر یقین رکھنا چاہئیے۔ بقول اقبالؔ
الفاظ کے پیچوں میں الجھتے نہیں دانا
غواص کو مطلب ہے صدف سے کہ گہر سے

حصہ