ماہ رحمت ،شفقت ،جنت اور الخدمت

233

بنوں کی سائرہ بی بی کے شوہر کوئٹہ میں کوئلے کی کان میں کام کرتے تھے، گھر کا گزر بسر اچھی طرح سے ہورہا تھا، ایک بیٹا اور بیٹی اسکول جا رہے تھے۔ پھر ایک دن اچانک کوئٹہ میں کوئلے کی کان زمین میں دھنس گئی، سائرہ بی بی کے شوہر خان گل بھی ملبے تلے دب گئے، اس کان میں صرف خان گل ہی نہیں دفن ہوا تھا بلکہ سائرہ بی بی کے ارمان، بچوں کے سہانے مستقبل کے خواب بھی تاریکیوں میں کھو گئے تھے۔ سائرہ بی بی کے پاس اب بچوں کو اسکول سے ہٹانے اور بیٹے کو مزدوری کے لیے بھیجنے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔
بیوہ سائرہ بی بی معاشرے اور خاندان کی جانب سے ہاتھ کھینچ لینے کے بعد تلخ فیصلہ کرنے پر مجبور ہورہی تھی، شش و پنج میں مبتلا سائرہ کے بارے میں الخدمت فائونڈیشن کو اطلاع ملی، الخدمت فائونڈیشن نے سائرہ بی بی کے مسائل سنے اور اس کے بچوں کی کفالت کا فیصلہ کرلیا۔
یہ کہانی اور مسائل صرف سائرہ بی بی کے یا بنوں شہر تک ہی محدود نہیں بلکہ 6 ارب انسانوں پر مشتمل اس کرہ ارض پر15کروڑ 30 لاکھ بچے یتیم ہیں جب کہ صرف پاکستان میں یتیم بچوں کی تعداد 45 لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے۔
آرفن فیملی سپورٹ پروگرام:
الخدمت فاؤنڈیشن ’’کفالتِ یتیم سے جنت کا حصول بھی… رفاقتِ رسولؐ بھی‘‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے نہ صرف سائرہ بی بی کے دو بچوں بلکہ چاروں صوبوں بشمول آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں 19,281یتیم بچوں کی کفالت کر رہی ہے۔ اِن میں سے 17ہزار 8 سو 67 بچوں کی کفالت اُن کے گھروں پر جب کہ ایک ہزار 4 سو 14 یتیم بچوں کی کفالت ’’آغوش ہومز‘‘ میں کی جارہی ہے۔
تعلیم اور خوراک :
’’آرفن فیملی سپورٹ پروگرام‘‘ میں یتیم بچوں کی اُن کے گھروں پر کفالت کی جارہی ہے۔ بچہ اپنی والدہ کے ہمراہ رہتا ہے اور الخدمت بچے کی ماں یا سربراہ کے نام پر بینک اکائونٹ کھلوانے کا اہتمام کرتا ہے۔ جہاں اُس بچے کی تعلیم اور خوراک کی مد میں بچے کی ماں کے اکاؤنٹ میں رقم منتقل کی جاتی ہے۔ کسی بھی بیوہ ماں کے اسکول جانے والے تمام بچے اِس پروگرام کا حصہ بن سکتے ہیں۔ الخدمت کے زیر کفالت 17 ہزار867 بچوں کو ملک بھر کے مختلف حصوں سے چنا گیا ہے اور انہیں 80 کلسٹرز میں آرگنائز کیا گیا ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال کے لیے الخدمت نے کلسٹر کا ایک مربوط نظام قائم کیا ہے، ایک کلسٹر میں 100سے 250 بچوں کو شامل کیا گیا ہے ہر کلسٹر کا ایک انچارج ہوتا ہے، جسے ’’ایف ایس او‘‘ (فیملی سپورٹ آرگنائزر)کہا جاتا ہے۔ یہ فیملی سپورٹ آرگنائزر بچوں، ان کے خاندان اور تعلیمی ادارے کے سربراہ سے مسلسل رابطہ رکھتے ہیں۔ فیملی سپورٹ آرگنائزر اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بچے اسکول جاتے ہوں۔ بچوں کو گھروں اور اسکولوں میں کسی بھی قسم کی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے اور الخدمت کی جانب سے جاری کیے گئے وظائف ان بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہی استعمال ہوں۔
ہیلتھ اسکریننگ:
الخدمت کے تحت زیرِ کفالت بچوں اور اُن کی مائوں کے بنیادی طبی معائنے کے ساتھ ساتھ سال میں ایک مرتبہ ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹروں کی زیر نگرانی مکمل ہیلتھ اسکریننگ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ اُنہیں مفت ادویہ بھی مہیا کی جاتی ہیں اور خدانخواستہ کسی بھی مرض کی تشخیص کی صورت میں الخدمت کے مقامی اسپتال میں ان کے ہر ممکن علاج کا بندوبست کیا جاتا ہے۔
چائلڈ اینڈ مدر کریکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام:
الخدمت فاؤنڈیشن ان یتیم بچوں کا سہارا بننے کے لیے انہیں صرف تعلیم، خوراک، صحت اور دیگر ضروریات ہی فراہم نہیں کر رہی بلکہ اِن بچوں کی کردار سازی کا بیڑا بھی اٹھایا ہے جو کہ ایک مشکل لیکن اہم کام ہے۔ اس مقصد کے لیے ملک بھر میں مثالی مطالعاتی مراکز (ماڈل اسٹیڈی سینٹر) قائم کیے جا رہے ہیں۔ اس وقت ملک بھر میں 180 ماڈل اسٹیڈی سینٹر کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔ ان مراکز میں بچوں کے ساتھ ساتھ ان کی ماؤں کے لیے بھی ماہانہ بنیاد پر مختلف سرگرمیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے کیوں کہ صحت مند اور باشعور ماں ہی ایک مہذب معاشرے کی ضامن ہوا کرتی ہے۔ بچوں کی کردار سازی کے اِس مربوط نظام کو چار نکات کی مدد سے واضح کیا گیا ہے جن میں تعلیمی سرگرمیاں، جسمانی سرگرمیاں، اخلاقی سرگرمیاں اور معاشرتی سرگرمیاں شامل ہیں۔ چھوٹے بچوں کی دل چسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے اُن کے لیے تصویری کتب بنائی گئی ہیں جب کہ بڑے بچوں کے لیے عملی سرگرمیوں پر مشتمل نصاب تشکیل دیا گیا ہے۔ اِسی طرح اِن یتیم بچوں کے ٹرینرکے لیے بھی نصاب تشکیل دیا گیا ہے۔ الخدمت فاؤنڈیشن، فیملی سپورٹ آرگنائزر کے لیے بھی مختلف ٹریننگ ورکشاپس کا انعقاد کررہی ہے جس میں بچوں سے ہمدردی، دوستانہ ماحول اور ذمے داری کا احساس اجاگر کیا جاتا ہے تاکہ وہ اس اہم ذمے داری کو احسن طریقے سے سرانجام دے سکیں۔ بچوں کی اخلاقی اقدار و عادات جن میں صداقت، ایمان داری، نظم و ضبط، قوانین کی پاس داری، حقوق العباد، بہ حیثیت ذمے دار شہری فرائض وغیرہ‘ جیسی صفات سے لے کر بچوں کی کیریئر کونسلنگ کے ذریعے ان کی ذہنی قابلیت، دل چسپی اور مشاغل کو مدنظر رکھتے ہوئے مناسب شعبے کا انتخاب بھی چائلڈ ڈویلپمنٹ پروگرام کا حصہ ہے تاکہ وہ اس میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر معاشرے کے کارآمد فرد بن سکیں۔ بچوں میں اسکول بیگ اور اسٹیشنری کی تقسیم کے حوالے سے مختلف تقاریب کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔ تعلیمی اور دیگر بنیادی ضروریات کے ساتھ ساتھ بچوں کو سیر و تفریح کے مواقع بھی فراہم کیے جاتے ہیں۔ اِس کے علاوہ لیکچر، دستاویزی فلموں اور مختلف کھیلوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے، جس سے بچوں میں احساسِ محرومی کم کرنے میں مدد مل رہی ہے اور ان میں خوداعتمادی پیدا ہو رہی ہے۔
باہمت ماں کے لیے معاشی خود مختاری پروگرام:
الخدمت فاؤنڈیشن نہ صرف یتیم بچوں کی کفالت کا انتظام کرتی ہے بلکہ بچوں کی ماؤں کو بھی باعزت روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں کوشاں ہے اور ان بچوں کی ماؤں کو ’’مواخات پروگرام‘‘ کے تحت ووکیشنل ٹریننگ سمیت چھوٹے کاروبار کے لیے قرضِِ حسنہ بھی فراہم کرتی ہے تاکہ خاندان اپنے پاؤں پر کھڑا ہوسکے۔ یہی نہیں بلکہ خواتین کو روزگار شروع کرنے اور فنی تربیت کے لیے معاونت بھی کی جاتی ہے۔ اس منصوبے کے تحت سیکڑوں باہمت مائیں کوکنگ، کڑھائی اور سلائی کے کاروبار کے علاوہ بیوٹی پارلر، کریانہ اسٹور اور اسٹیشنری شاپس چلا رہی ہیں۔
یوں تو ملک بھر میں متعدد این جی اوز اور سرکاری ادارے آرفن کئیر کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ الخدمت فاؤنڈیشن ان این جی اوز اور اداروں سے مختلف کیسے ہے؟ ’’کفالت یتامیٰ پروگرام‘‘ کے تحت الخدمت کی پہلی ترجیح کسی بھی یتیم بچے کو اس کے خاندان کے ساتھ آگے بڑھنے کا موقع دینا ہے۔ آرفن فیملی سپورٹ پروگرام کا جائزہ لینے کے لیے خصوصی نگراں اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بچہ اسکول جارہا ہے یا نہیں؟ بچے کی والدہ یا نگراں اس پر توجہ دے رہے ہیں؟ بچے کی تعلیمی اور نفسیاتی صورت حال کیسے ہو رہی ہے؟ الخدمت فاؤنڈیشن کی دوسری ترجیح یتیم بچوں کی والدہ کو با اختیار بنانا ہے، اس کے لیے یتیم بچے کی فیملی کو سپورٹ کیا جاتا ہے، بچے کی والدہ کو فنی تربیت اور بلاسود قرضہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ خود مختار طریقے سے اپنے بچوں کی پرورش کرسکیں۔
پاکستان میں 45 لاکھ سے زائد یتیم بچے مسیحا کی تلاش میں ہے۔ ان بچوں کو زندگی کے اسرار و رموز سے واقفیت کے لیے ایک مربوط نظام کی ضرورت ہے تاکہ ملک کا یہ عظیم سرمایہ کسی ورکشاپ یا ہوٹل میں ’’چھوٹے‘‘ کی روپ میں یا کسی سگنل پر ’’صاحب جی! صاحب جی‘‘ کی صدائیں لگاتے ہوئے ضائع نہ ہوجائے۔ اس خزانے کو انسانی اسمگلروں اور جنسی درندوں سے بھی محفوظ بنانا ہے اور یہ سب تب ہی ممکن ہے جب معاشرے کا ہر فرد اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہو۔

حصہ