دعا ،نمرا کیس: نسل نو کہاں جارہی ہے؟

374

مزید بات سے قبل یہ جان لیں کہ متذکرہ ایشوز آخری عشرے کی تمام برکتیں سمیٹنے کے مواقع کھا گئے ۔بازاری و نام نہاد خریداری سرگرمیاں ، ہوٹلنگ و کرکٹ الگ تھیں۔ مجھے اعتکاف، شبِ قدر، مغفرت کی رات، رمضان ،قرآن، تراویح جیسے ٹرینڈ نہیں نظر آئے جو پہلے ضرور نظر آجاتے تھے۔26 رمضان کو البتہ شرعی عدالت کی جانب سے دوبارہ سود کے خلاف فیصلہ پر JIWonCaseAgainstRibaکے ٹرینڈ کے ذیل میںجماعت اسلامی بہت خوش تھی۔
اس کے برعکس ہم نے دیکھا کہ DuaZehra, NimraKazmi بھی ٹرینڈ بن گئے۔ ان میں تیسری لڑکی ’دینار‘ خبروں میں اس لیے پیچھے رہ گئی کہ اس کے گھر والے اس کی اطلاع میڈیا میں نہیں لے گئے۔ بہرحال یکے بعد دیگرے کراچی سے یہ 3 کیسز آئے ہیں۔ تینوں نے پنجاب جا کر شادی کرلی۔ کسی نے کہا کہ یہ اغوا کرکے زبردستی وڈیو بنوائی جاتی ہے۔ توجناب پولیس نے لڑکیاں ڈھونڈی ہیں، اغوا ہوتا تو پولیس ایسے گینگ کو پکڑ کر تمغے سجانے میں کبھی پیچھے نہ رہتی ۔
فقہ جعفریہ کی لڑکیوں کی شادی دیگر فقہوں میں کئی صدیوں سے جاری ہیں۔ اسلام میں ایسی کوئی پابندی نہیں ۔ نہ ہی عمر کی کوئی قید ہے۔ بالغ ، نابالغ کی بحث انتہائی مضحکہ خیز رہی۔بلوغت دینی اصطلاح ہے۔ سائنسی بھی مان لی جائے تو بھی اس کا تعلق بلوغت کے آثار سے ہے جو کہ ماحول اور غذا کی بنا پر جلد یا دیر ظاہر ہوتے ہیں، تبھی فقہا اربعہ میں بلوغت کی عمر کے حوالے سے اختلاف ہے۔ جب کہ فقہ جعفریہ میں لڑکیوں کے لیے 9 سال کہی گئی ہے۔ حضرت آیت اللہ العظمی سیستانی۔ میں قطعاً لڑکیوں کے ایسے عمل کی کوئی حمایت نہیں کر رہا۔ میں تو اپنے عقیدے کے مطابق یہ جانتا ہوں کہ نبی کریمؐ کامستند حکم ہے کہ ’’بغیر ولی و گواہان کے نکاح نہیں۔‘‘اس ضمن میں ایک عدالتی فیصلہ کو جبران ناصر دلیل بنا رہے ہیں جس میں عدالت نے لڑکی کے میچیور ہونے کو بلوغت کی لازمی علامت قرار دیا اور ستم یہ کہ لڑکی میچیور ہے یا نہیں اس بات کا تعین والدین نہیں ریاست کرے گی۔
دوسرا کیس یعنی نمرہ کا شوہر تو صرف ’پب جی‘ کھیلتا ہےمگر پب جی سے توپیٹ نہیں بھرتا ۔مزید ظلم یہ کہ یہ لوگ تو اب ’جے ڈی سی‘ کی مفت افطاری و سحری میں بھی فش مندی، یاک بریانی و شتر مرغ کھانے نہیں آسکیں گے۔میڈیا پر ظاہر ہونے والے تمام لوگوں کے بیانات جھول سے بھرے نظر آئے۔ لڑکی کے والد اس کے دستاویزات میڈیا کو دکھا رہے ہیں کہ عمر کا تعین ہو جائے۔ لڑکی نے وڈیو بیان اور عدالت میں اپنے والد کے خلاف بیان دیا ہے، عدالت نے لڑکی کے بیان پر اسے شوہر کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔ لڑکی کو ساری خوشی سوشل میڈیا کے ذریعہ نیٹ ورکنگ وڈیو گیم ’کلیش آف کلینس‘ سے ہی ملنے والی اس نئی ’محبت‘ میں ہی نظر آئی اور اس نے والدین کی 14 یا 18سالہ محبتوں کو کچل ڈالا۔ دعا کے والد نے یہ بات انٹرویو میں بتائی کہ پب جی کے بارے میں منفی باتیں سن کر ڈیڑھ سال قبل بیٹی کو پب جی کھیلنے سے روک دیا تھا۔ دن میں پانچ سے سات گھنٹے وہ اپنے ٹیبلٹ پر لگاتی تھی اور اس نئے گیم میں کھو گئی تھی جس میں میسجنگ، وائس کال سمیت کئی سہولیات میسر تھیں۔ اب اس کے والد حیران ہیںکہ وہ کیوں اور کس کے دبائو میں ایسے بیانات دے رہی ہے؟
اسی طرح ایک اور مشہور وڈیو گیم ’پب جی‘ کا شکار کراچی کی ایک اور لڑکی نمرہ نکلی۔ بلاشبہ دعا کی وڈیو بیان میں اس کی باڈی لینگویج صاف بتا رہی ہے کہ وہ بیان کسی کے اشارے پر دے رہی ہے۔ یہی کیس نمرہ کی وڈیو میں بھی نظر آئے گا۔ ظاہر ہے پلانٹڈ وڈیو ہوتی ہے مخصوص اثرات زائل کرنے کے لیے، اس لیے اسی طرح بنائی جاتی ہے مگر اس میں لازمی کوئی ایسے لوگ شامل ہیں جو جانتے ہیں کہ ایسے موقع پر نپے تلے الفاظ کے ساتھ کیا بیان دینا چاہیے، کیوں کہ اس عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں میں ایسا کوئی شعور نہیں ہوتا۔ اب وہ کون لوگ ہیں؟ یہ تعین کرنا آسان نہیں؟
ان دونوں واقعات کے مزید شرم ناک اورمضحکہ خیز پہلو دیکھیں۔ نمرہ کی والدہ کے ٹی وی بیان کے مطابق اُن کی بیٹی کی دوستی پب جی کھیلتے کھیلتے بیرون شہر کے شاہ رخ سے ہوئی۔ یہ بات والدہ اس حد تک جانتی تھیں کہ انہوں نے شاہ رخ سے بھی معلوم کیا، شاہ رخ کی والدہ‘ بہن سب سے اپنی بیٹی کے بارے میں معلومات کی تھیں، کیوں کہ لڑکی اپنی ماں سے شاہ رخ سے شادی تک کا معاملہ ڈسکس کرتی رہی۔ ماں صاف کہہ رہی ہے کہ نکاح حکومت کے قانون کے مطابق 18سال پر ہی ہو سکتا ہے۔ کبھی ماں کہتی ہے کہ بچی 14 سال کی ہے دوسری جانب اسی انٹرویو میں کہتی ہے کہ میری ’جوان جہان بچی‘ کو بہکا کر لے گیا۔ ایک جانب وہی ماں نصیحت کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہم نے بہت لاڈ پیار کیا تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی دوسرا بہکا کر لے گیا؟ یہ خود انتہائی مضحکہ خیز بیان ہے کہ کوئی ماں باپ بیٹی سے بے انتہا پیار کریں اور محض وڈیو گیم کھیل کر ایک لڑکا لڑکی کو اس طرح لے جائے؟
مذہبی اور معاشرتی رویوں نے مذہبی بنیادوں پر باہم فاصلے یا دیواریں کھڑی کریں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے۔ مطلب یہ کام اپنے فقہ کی کٹر و کامل اتباع کی خاطر کیا گیااور اس کے پیچھے یہ سوچ بھی تھی کہ ہمارا فقہ صحیح ہے۔ مگر یہ ڈھونگ اس لیے بن گیا کہ اپنے فقہ کو دوسرے فقہوں سے الگ کرنے کے لیے کھڑی کی گئی ان دیواروں میں لوگوں نے ازخود ’لبرل اقدار‘ کے داخلے کے لیے سوراخ‘ بلکہ شگاف ڈال دیے اور اپنی معاشرت کو اپنے مذہبی فقہ کے بجائے لبرل اقدار کے حوالے کر دیا۔ چوں کہ دعا کیس کو پوری قوت سے فرقہ وارانہ لکیر کو بڑھاوا دینے میں استعمال کیا گیا، اس لیے اس پہلو کو سامنے لانا ضروری ہے۔ یہ جان لیں کہ لبرل اقدار،انسان کو اپنے رب سے ، رشتوں سے کاٹ کر صرف نفسانی خواہشات کا غلام بناتی ہیں ۔
دعا کے والد ین اپنے ایشو پر پولیس سے مطلوبہ تعاون نہ ملنے پر جے ڈی سی کے پاس چلے گئے۔ ظفر عباس نے فرقہ وارانہ لکیر کو بڑھاوا دے دیا جس کو مزید وسیم بادامی و اقرارالحسن اور کئی ’’سیلیبرٹیز‘‘ نے ہوا دی۔ مگر اغوا کیس کا ڈراپ سین جلد ہی ہوگیا۔ اب میں اگر ان فقہی امور پر اختلافات کو ہوا دینے والوں سے ہی سوال کردوں کہ کون سا فقہ بے پردگی، بے حیائی، لو میرج کلچر، مخلوط ماحول، لہو و لعب کو جائز قرار دیتا ہے؟ تو کوئی جواب نہ ہوگا۔ ایک صاحب کہنے لگے کہ ’’محبت کی شادی مسلک اور مذہب نہیں دیکھتی‘ بھارت میں تو عام ہو گیا ہے۔‘‘ تو میں نے جناب کی خدمت میں عرض کیا کہ’’جناب! محبت کی شادی مذہب مسلک اس لیے نہیں دیکھتی کہ وہ ساری محبت صرف جنسی جذبات کی تسکین کے لیے ہوتی ہے۔ اس لیے کسی بھی مسلک میں مخلوط ماحول، بے پردگی، بے حیائی اور فحاشی کی سخت ممانعت بالاجماع موجود ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ شیطان کے خاص اوزار ہیں۔‘‘
اب جب ہم نے اپنی فقہ کی بڑی عظیم دیواروں میں شیطانی تہذیب کے داخلے یعنی ’لبرل ازم‘ کے لیے سوراخ کر دیے ہیں تو نتائج ویسے ہی آئیں گے۔یہ سب بڑے دھوکے باز، ہمارے سب سے بڑے دشمن شیطان کا ہی وعدہ ہے کہ جو ہم بھول جاتے ہیں۔
’’ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو ، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو ۔ اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ تو اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا۔‘‘
آپ جائزہ لے لیں کہ پاکستان میں جتنے مذہبی فرقے ہیں، اگر وہ خود اپنی ہی فقہی تعلیمات پر مکمل عمل کرلیں تو یقین مانیں معاشرتی برائیوں، گناہوں، خرابیوں میں بہت حد تک کمی ہو جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے اجتماعی نظام کی اصلاح کے لیے بننے والی ایک جماعت نے اپنا مقصد بہت واضح لکھا کہ ’’اپنی زندگیوں سے دو رنگی ختم کریں۔‘‘
دعا اور نمرہ کیس میڈیا کی وجہ سے بلاشبہ ایکسپلائٹ ہوا ہے کیوں کہ یہ کوئی خبر نہیں تھی‘ کہ والدین بہت کچھ جانتے تھے کہ وہ سچ چھپا رہے ہیں۔ تیسری لڑکی دینار کی زیادہ خبریں نہ آنا خود مثال ہے کہ وہ کیس میڈیا پراس طرح نہیں لایا گیا نہ ہی نام نہاد انسانی ہمدردی کے نام پر بلا تحقیق دعا کے اغوا پر احتجاج والے منہ کھول رہے ہیں۔ نمرہ کی ماں جانتی تھی کہ ان کی لاڈلی بیٹی نمرہ موبائل پر ’پب جی‘‘ کھیلتے کھیلتے شادی کے پروپوزل تک جا پہنچی۔ دعا کے بارے میں ان کے والدین کے بیانات میں بھی ایسے تضادات موجود ہیں کہ وہ کچھ ضرور چھپا رہے تھے۔ چوں کہ میڈیا کو دل چسپی صرف اپنی ریٹنگ سے تھی‘ اس لیے اس نے بھی اچانک سے اس ایشو سے آنکھیں پھیر لیں۔
جان لیں کہ اس بے راہ روی اور گندگی کے اس سیلاب کو روکنے کا دین اسلام کی کامل اتباع کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں۔ لڑکی کا کسی نا محرم کے ساتھ گھر سے بھاگ جانا کسی طور سے بھی قابل برداشت عمل نہیں ہونا چاہیے۔ عبرت پکڑنی چاہیے۔’’جدیدیت‘‘ کے نتیجے میں لبرل اقدار کو دین سمجھ کر اپنانے میں ایسی تباہیاں آئیں گی جو پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے لیں گی۔ ہم ابھی نور مقدم کیس سے نکلے ہی نہ تھے کہ یہ لہر آگئی اور اتنی قوت سے یہ لہر آئی ہے کہ رمضان المبارک کا اتنا ایمان افروز، بابرکت، رحمت و رجوع الی اللہ والا مہینہ بھی ان لڑکیوں کے قدم نہ روک سکا۔ ذرا سوچیں کہ بقول والدین کہ انہوں نے ہمیشہ اپنی اولاد کی سب فرمائشیں پوری کیں، لاڈ پیار کی مگر کیا موبائل اور پب جی کی فراہمی جیسا کھوکھلا پیار تھا؟ پھراس کا نتیجہ تو ایسا ہی نکلتا ہے۔ میں جانتا نہیں کہ ان کے گھروں کی معاشرت کیسی تھی مگر یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ دونوں گھرانوں میں ہر طرح کے میڈیا، انٹرنیٹ، کیبل کے ذریعہ لبرل اقدار بچپن ہی سے جگہ بناتی رہیں جنہیں روکنے کی ہمت کبھی کسی نے نہ کی۔
عورت حقوق کے چیمپئن، حقوق نسواں کے نعرے لگانے والی تمام دینی و لبرل جماعتوں کی خاموشی اس لیے بھی ہے کہ وہ لڑکیوں کے حق کے لیے نکلیں یا والدین کے لیے؟کیونکہ لبرل ازم فرد کی آزادی پر اس طرح بات کرتا ہے کہ بلوغت سے تین دن پہلے تک اُسے گھر سے بھاگنے کی بھی آزادی دیتا ہے، مرضی سے کورٹ میرج کی سہولت بھی ، دارالامان بھی ، مزید تحفظ کے لیے این جی اوز بھی ،سب مل کر خاندانی نظام کی تباہی میں معاونت کرتے ہیں۔ یہی نہیں تین دن بعد جیسے ہی ان کے مطابق لڑکی بالغ ہوجائے اسکو تو پھرسب کچھ کرنے کی مکمل آزادی دیتا ہے ، جیسے نور مقدم کو تھی۔کوئی کہنے والا کہے کہ ایک جانب لڑکی پر ظلم کا پہلو لڑکے کی محض 20 سال عمر دیکھ کر کسی کو نہیں نظر آرہاکہ وہ گھر کیسے چلائے گا؟ اگر گھر سے وہ بھی بھاگا ہوا ہو تو کیا ہوگا؟ اگر لڑکے کے گھر والوں نے لڑکی کو قبول نہ کیا۔ اسی فقہی فرق کی وجہ سے تو آپ سوچ سکتے ہیںکہ گھر سے بھاگی لڑکی کو اس کے سسرال والے کتنی عزت سے ڈیل کریں گے۔ کیا کچھ طعنے نہیں سننے پڑیں گے؟ یہ کوئی گمان یا پیش گوئی نہیں بلکہ ایک معاشرتی حقیقت ہے۔
سابق وزیر اعظم نے بہرحال اس پہلو کو کئی بار قوت سے ایڈریس کیا ان کی تقریر کا جملہ کہ ’’والدین جانتے نہیں کہ ان کے بچے کمروں میں کیا دیکھ رہے ہیں۔‘‘ اسی طرح کپڑوں کے حوالے سے، فحاشی و عریانی کو بہرحال سابق وزیر اعظم نے اپنی پارٹی پالیسی کے برخلاف پوری قوت سے ایڈریس کیا تھا۔ مگر اب رہ کیا گیا؟ ذلت و رسوائی یا پشیمانی… حل کیا ہے؟ رجوع الی اللہ، جس نے پیدا کیا ہے،اس نے عزت و عفت والا نظامِ زندگی بھی دیا ہے۔ اس کے مقابلے پر جو کچھ ہے وہ باطل ہے اور باطل کی ہلکی سی اتباع بھی زہر ہے۔
اسی طرح جامعہ کراچی میں ہونے والا بم دھماکہ بھی اس لیے موضوع رہا کہ وہ کرنے والی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بال بچے دار خاتون تھیں۔ لوگ اس کی ڈگریوں پر اس کے عمل کو جانچ رہے تھے جس کے نتیجے میں یہ بات بھی ہوئی کہ بلوچستان میں ایسا کیا مسئلہ ہے؟ یہ بات صاف تھی کہ اس دھماکے سے خطے میں امریکی اور بھارتی مفادات کو مکمل فائدہ پہنچایا گیا ہے۔ پھر جس تنظیم کا نام آیا وہ بھارتی فنڈڈ ہے اس میں بھی کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ پب جی اور کلیش آف کلینز والی 14 سالہ لڑکیاں تو کم عمری اور خواہشاتِ نفس کا شکار ہوئیں مگر شاری بلوچ کیسے نہ سمجھ سکی کہ اس کے اصل دشمن کون ہیں؟ اس کو یہ کیوں نہ سمجھ آیا کہ پاکستان مکمل امریکی غلامی میں ہے نہ کہ چینی غلامی میں۔ اس کو یہ کیوں نہ سمجھ آیا کہ اس کی تنظیم نے کبھی بھی خطے میں عالمی دہشت گرد امریکا کے کسی ایک مفادپر بھی ضرب لگائی ہو؟ اتنی معصوم تھی کہ یہ نہ سمجھ پائی کہ بلوچستان میں احساس محرومی اور افراد کی گمشدگی و حقوق کا مسئلہ امریکی اشاروں پر کیا جاتا ہے؟ تو کسی کو کیا کہہ سکتے ہیں۔

حصہ