بڑھاپے کی دہلیز پر اداسی کے ڈیرے

492

روئے ارض پر جسے بھی زندگی ملی ہے اُسے ایک دن جانا ہے۔ یہ ایسی بدیہی حقیقت ہے کہ انسان بالعموم اس پر غور کرنے کی زحمت تک گوارا نہیں کرتا۔ انسان دنیا میں آتا ہے، شیر خوارگی، بچپن، لڑکپن، جوانی اور ادھیڑ عمر گزارنے کے بعد بڑھاپے کی طرف جاتا ہے۔ ہم زندگی بھر یہ تماشا دیکھتے ہیں اور خود بھی اِسی تماشے کا حصہ ہیں۔
ہم میں سے بہت سوں کی اس وقت جوانی چل رہی ہوگی، بہت سوں نے جوانی کو خیرباد کہتے ہوئے ادھیڑ عمر کی دہلیز پر قدم رکھ دیا ہوگا اور کتنوں ہی کا تو بڑھاپا بھی آچکا ہوگا۔ یہ سب کچھ بالکل فطری ہے۔ ہم رفتہ رفتہ جوانی کو خیرباد کہتے ہوئے ادھیڑ عمر اور پھر بڑھاپے کی طرف بڑھتے ہیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا!
بڑھاپے کو آنا ہے اور آکے ٹھہر جانا ہے۔ ہر انسان کے ساتھ یہی تو ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک جب عمر کا بہترین حصہ گزار چکتا ہے تب بڑھاپے کی طرف بڑھتا ہے۔ اور یہ بات بھی ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ بڑھاپا واحد مرحلہ ہے جس میں بہترین کی کوئی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی۔ اٹھتی ہوئی جوانی میں کوئی بیماری لاحق ہو تو آسانی سے علاج کرایا جاسکتا ہے۔ جوانی اور ادھیڑ عمر میں بھی کسی بیماری سے بہتر طور پر نمٹا جاسکتا ہے مگر بڑھاپا وہ مرحلہ ہے جس میں تمام ہی معاملات رفتہ رفتہ خرابی سے مزید خرابی کی طرف بڑھتے جاتے ہیں۔
کیا بڑھاپا محض اس لیے ہوتا ہے کہ اُسے ’’جیسا ہے، جہاں ہے‘‘ کی بنیاد پر قبول کرلیا جائے؟ یا کیا یہ زمانہ صرف اس لیے ہوتا ہے کہ ہر وقت اِس کے نام کا رونا رویا جائے؟ ہمارے ہاں بڑھاپے کے حوالے سے خاصی لاپروائی پر مبنی رویہ پایا جاتا ہے۔ بزرگ شہریوں کو قدم قدم پر مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ گھر سے معاشرے تک بیشتر افراد اُن کے مسائل سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ بزرگ شہریوں کے حوالے سے ہمارے ہاں جو لاپروائی پائی جاتی ہے وہ بالعموم کسی کو اپنی طرف متوجہ بھی نہیں کرتی۔ لوگ دیکھتے ہیں کہ بڑھاپے میں کسی کی مشکلات بڑھ گئی ہیں مگر پھر بھی اُس پر متوجہ ہونے کی کوشش نہیں کی جاتی۔
یہ سب کیوں ہے؟ کیا ہم بے حِس ہوچکے ہیں؟ کیا ہم یہ بھول گئے ہیں کہ بزرگ شہریوں کو بھولنے کی صورت میں ہمیں بھی بڑھاپے میں عدمِ توجہ کا سامنا کرنا پڑے گا؟ کیا بزرگ شہری صرف اپنی اولاد، اہلِ خانہ یا گھرانہ و خاندان کی ذمہ داری ہوتے ہیں؟ کیا بزرگ شہریوں کو اُن کے متعلقین کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا معقول رویہ ہے؟ یہ اور ایسے دوسرے بہت سے سوال ہیں جو دن رات ذہنوں میں گردش کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت پاکستانی معاشرہ انتہائی نوعیت کے معاملات سے دوچار ہے۔ کم و بیش ہر معاملے میں انتہا پسندی عمومی رویہ ہے۔ جب معاملات اس حد تک پیچیدہ ہوگئے ہوں تو اصلاحِ احوال کے حوالے سے غیر معمولی نوعیت کے اقدامات کیے جانے چاہئیں مگر افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہو رہا۔
بزرگ شہریوں کے حقوق کا احترام یقینی بنانا صرف متعلقین ہی نہیں بلکہ مجموعی طور پر پورے معاشرے کا فرض ہے۔ ہر مہذب معاشرے میں معمر اور معمر ترین افراد کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اُنہیں متعدد سہولتیں دی جاتی ہیں۔ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں آبادی میں نوجوانوں کی اکثریت ہے۔ معمر افراد بھی اچھے خاصے ہیں مگر مجموعی طور پر معاشرہ جوان ہے۔ یہی حال پڑوس کا بھی ہے۔ بنگلا دیش کی بھی کچھ ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ نئی نسل ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ بڑی عمر کے لوگ غیر معمولی تجربے کے حامل ہوتے ہیں اور اپنے تجربے سے نئی نسل کو مستفید کرتے ہیں۔ نئی نسل میں کام کرنے کا جذبہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ اُنہیں مستقبل سنوارنا ہوتا ہے۔ بڑی عمر کے لوگوں میں کام کرنے کا وہ جذبہ اور ولولہ تو نہیں ہوتا جو نئی نسل میں ہوتا ہے مگر ہاں، اُن کا تجربہ جذبے اور ولولے کی کمی بہت حد تک پوری کرتا ہے۔ نئی نسل کو بڑی عمر کے لوگوں سے بہت کچھ سیکھنا ہوتا ہے۔
دنیا بھر میں معمر افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ صحتِ عامہ کے حوالے سے پائی جانے والی غیر معمولی سہولتوں کی بدولت دنیا بھر میں اوسط عمر بڑھتی جارہی ہے۔ 2019 میں ورلڈ پاپولیشن پراسپیکٹس میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں ہر گیارہ میں ایک شخص 65 سال سے زیادہ عمر کا ہے۔ ہمارے ہاں بھی معمر ترین افراد کی تعداد سوا کروڑ کے مساوی ہے۔ اس حقیقت سے تو کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ معمر افراد متعلقہ گھرانوں سمیت پورے معاشرے کی ذمہ داری ہوتے ہیں یعنی وہ معاشی عمل میں مجموعی طور پر کوئی ٹھوس کردار ادا نہیں کرتے بلکہ اُن کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ بہت سے ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں معمر افراد اپنے لیے کوئی نہ کوئی معقول مصروفیت ڈھونڈ لیتے ہیں۔ وہ سماجی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں اور سَحر خیزی، چہل قدمی اور ورزش کے ذریعے اپنے آپ کو درست حالت میں رکھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں تاکہ بیمار نہ پڑیں اور کسی کے لیے کوئی اضافی یا غیر ضروری الجھن پیدا نہ ہو۔ یہ بات کتنی عجیب ہے کہ جس نے بھرپور زندگی گزاری ہو، بہت سے کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں اُسے بڑھاپے میں ناکارہ چیز سمجھ کر ایک طرف ڈال دیا جائے۔ جب ایسی کیفیت ہر طرف پائی جائے تو معمر افراد بھی خود کو ناکارہ سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسے میں اُن کی وہ صلاحیتیں بھی دب جاتی ہیں جو کسی نہ کسی طور بروئے کار لائی جاسکتی ہیں۔ جب کسی کی بھرپور جوانی اور ادھیڑ عمر کی خدمات اور کردار کو فراموش کردیا جائے تب اُداسی اور بے یقینی کی سی کیفیت کا پیدا ہونا لازم ہے۔ انسان سوچتا ہے کہ میں نے اہلِ خانہ کے لیے دن دیکھا نہ رات۔ خون پسینہ ایک کرکے اُن کی کفالت کی اور آج مجھے یوں نظر انداز کردیا گیا ہے گویا میں انسان نہیں، کوئی ناکارہ مشین یا ٹوٹا ہوا پُرزہ ہوں۔
ہمارے ہاں بڑی عمر میں ہونے والی بیماریوں کو بہت سے لوگ بالعموم نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ عمومی سوچ یہ ہے کہ بھئی بڑھاپا ہے، کچھ نہ کچھ تو ہوتا ہی رہے گا۔ بات ایک حد تک درست ہے۔ بڑھاپے میں پورا جسم کمزور ہوتا چلا جاتا ہے اس لیے مکمل نارمل زندگی بسر کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ بیشتر گھرانوں کا یہ حال ہے کہ اُن کی عمومی بیماری کو یہ کہتے ہوئے نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ اب اُنہیں کہاں کمانے جانا ہے کہ مکمل صحت ممکن بنائی جائے۔ بعض گھرانوں میں معمر افراد پر توجہ دینے کی روایت ہی نہیں پائی جاتی۔ ایسے میں اگر کوئی معمر شخص بیماری کا شکوہ کرے تو طرح طرح کے بہانے بناکر خاموش کردیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں کروڑوں معمر افراد ڈھنگ سے بولنے کے قابل نہیں رہتے۔ غیر معمولی شہرت کے حامل افراد کو بولنے، چلنے اور روزمرہ کے کام کرنے میں الجھن محسوس ہو تو خبر بنتی ہے۔ میڈیا والے ایسی ہر خبر کو ڈھول پیٹ کر پیش کرتے ہیں۔ عام آدمی اگر بڑھاپے کے ہاتھوں کسی انتہائی پریشان کن عارضے میں مبتلا ہو تو لوگ متوجہ نہیں ہوتے۔ اگر کوئی بولنے میں دقت محسوس کرے تو کہا جاتا ہے کہ بڑھاپے میں تو ایسا ہوتا ہی ہے۔
بڑھاپے میں ذہن پر دباؤ بڑھتا ہے تو حافظہ بھی کمزور ہو جاتا ہے۔ لوگوں کو یاد ہی نہیں رہتا کہ کون مرچکا ہے اور کون ابھی دنیا میں ہے۔ ہمارے ہاں بھی بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھنے والے بہت کچھ تیزی سے بھولتے جائیں تو لوگ متوجہ نہیں ہوتے۔ عام طور پر معمر افراد یہ سوچتے ہوئے گزارا کرلیتے ہیں کہ بڑھاپے میں حافظے کا کمزور ہو جانا فطری امر ہے۔ بیماری بھولنے کی ہو یا بول نہ پانے کی، اُس کا علاج ہوسکتا ہے۔ رعشہ کا علاج بھی کیا جاسکتا ہے۔ چائے کی پیالی اٹھاتے یا تھامتے وقت بزرگوں کے ہاتھ کانپنے لگیں تو ہمیں اکثر یہ خیال نہیں آتا کہ کہیں اُنہیں رعشہ تو نہیں۔ ہمارے ہاں معمر افراد کی کسی بھی بیماری کو اس وقت سنجیدگی سے لیا جاتا ہے جب وہ بہت بگڑ جاتی ہے اور حتمی مرحلے تک پہنچ جاتی ہے۔ متعدد بیماریاں ایسی ہیں جو معمر افراد کو سکون سے جینے بھی نہیں دیتیں اور مرنے بھی نہیں دیتیں۔ کسی بھی بیماری کو ابتدائی مرحلے ہی میں شناخت کرکے علاج پر توجہ دی جائے تو خاطر خواہ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ بڑھاپے میں یہ معاملہ زیادہ توجہ طلب ہوتا ہے۔
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ خاصی بڑی عمر میں کوئی بیماری لاحق ہوئی ہو تو متعلقین غیر معمولی خرچ کے ذریعے علاج کرانے سے گریز کرتے ہیں۔ سوچ یہ ہوتی ہے کہ اِتنی بڑی عمر میں علاج کرانے کا فائدہ؟ اگر علاج کا خرچ زیادہ ہو تو ترجیحات پر غور کیا جاتا ہے۔ بیشتر معاملات میں معمر افراد کا علاج گھرانے کی ترجیحات میں خاصا نیچے ہوتا ہے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی معمر فرد کو کینسر ہو جائے اور بیٹا علاج کی تیاری شروع کرے تو وہ شخص خود ہی کہہ دیتا ہے کہ اب یہ تیاریاں چھوڑوں، مزید جینا لکھا ہوا ہوگا تو جی لوں گا اور اگر مرنا لکھا ہوا ہوگا تو مر جاؤں گا۔
پاکستانی معاشرے میں بڑی عمر کی خواتین بھی صحت کے معاملات میں بہت لاپروا ہوتی ہیں۔ اُن میں کھانا پینا عمر کے حساب سے نہیں ہوتا۔ متحرک رہنے سے گریز کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں متعدد بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ خواتین ہوں یا مرد، سب کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ عمر کے ڈھلنے کا مطلب یہ نہیں کہ زندگی کا سفر رک گیا ہے، اٹک گیا ہے۔ زندگی چلتے رہنے کا نام ہے۔ چلتے رہنا یعنی معمول کے مطابق جیے جانا۔ بہت سے معمولات بڑھاپے میں ترک کردیے جاتے ہیں جبکہ وہ صحت کا عمومی معیار برقرار رکھنے کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں۔ بہت سے لوگ ریٹائرمنٹ کے بعد خود کو ناکارہ تصور کرنے لگتے ہیں۔ یہ اُن کا دردِ سر ہے، معاشرے کی روش نہیں۔
بہت سے افراد ڈھلتی عمر کے باوجود کام کرنا چاہتے ہیں۔ سرکاری سطح پر ریٹائرمنٹ کے بعد توسیع مشکل سے ملتی ہے۔ نجی شعبے میں لوگ بڑی عمر تک کام کرتے رہتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ساٹھ سال کا ہونے کے بعد کام کرنا چاہے تو اُسے کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے تاکہ اُس کے تجربے سے کماحقہ مستفید ہوا جاسکے۔ ہمارے معاشرے میں بیشتر معمر افراد شدید اُداسی اور بیزاری کی زندگی اس لیے بسر کر رہے ہوتے ہیں کہ اُن کے پاس کوئی کام ہی نہیں ہوتا۔ پینتیس چالیس تک کام کرنے کے بعد اچانک کرنے کو کچھ باقی ہی نہ رہے تو انسان الجھ کر رہ جاتا ہے اور زندگی کے نئے ڈھانچے کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ میں خاصی دشواری پیش آتی ہے۔
جاپان اور دوسرے بہت سے ممالک میں بہت سے معمر افراد رضا کارانہ طور پر کمیونٹی کی خدمت کرتے ہیں۔ وہ کوئی نہ کوئی ذمہ داری قبول کرلیتے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ جاپان میں 80 سال کے افراد وقت اچھی طرح کاٹنے کے لیے علاقے میں بجلی کے بل تقسیم کیا کرتے تھے۔ بہت سے بزرگ اب بھی محلے کے بچوں کو اسکول پہنچانے اور واپس لانے کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔
بڑھاپے میں انسان کا مزاج بہت حد تک تبدیل ہو جاتا ہے۔ چڑچڑا پن بڑھ جاتا ہے۔ بعض معاملات میں جَھکّی پن بھی مزاج میں در آتا ہے۔ ایسے میں متعلقین کے لیے اُنہیں تمام معاملات میں برداشت کرنا بہت بڑا دردِ سر ہوتا ہے۔ اس کا ایک آسان حل ہے اُن کے لیے کوئی معقول مصروفیت ڈھونڈ نکالنا۔ متعلقین کو سمجھنا چاہیے کہ اُنہوں نے زندگی بھر دوسروں کے لیے بہت کچھ کیا ہوتا ہے تو لازم ہے کہ اُن کے لیے آخرِ عمر میں کچھ نہ کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ کیا جائے۔
بزرگ شہریوں پر بھی لازم ہے کہ مثبت فکر و عمل اپنانے کی کوشش کریں۔ ہر معاملے کو منفی اندازِ نظر سے دیکھنا پوری زندگی کو تلپٹ کردیتا ہے۔ کسی بھی معاملے کا روشن پہلو تلاش کرنے کی کوشش لازم ہے۔ کسی بھی انسان کے لیے اہم ترین بات یہ ہے کہ آخری سانس تک بھرپور زندگی بسر کی جائے۔ اگر یہ طے کرلیا جائے کہ ہر حال میں بھرپور زندگی بسر کرنی ہے تو راستے کُھلتے چلے جاتے ہیں۔
آج کل معمر افراد اس لیے زیادہ اُداسی اور بیزاری محسوس کر رہے ہیں کہ معاشی سرگرمیوں میں گم رہنے والوں کے پاس وقت نہیں اور نوجوان اسمارٹ فونز پر سوشل میڈیا میں گم ہیں۔ اس حوالے سے متعلقین کو سوچنا چاہیے۔ بزرگوں کو توجہ نہ ملے تو اُن کے ذہن بہت الجھ جاتے ہیں۔ گزرے زمانوں میں بچے دادا دادی اور نانا نانی کو وقت دیا کرتے تھے۔ آج کے بچوں کے پاس تو اپنے لیے بھی وقت نہیں!

حصہ