مٹھی بھر چاول

ساری دنیا میں موسمی تبدیلیوں کے رونما ہونے سے کئی سال سے رمضان المبارک شدید گرمی میں آرہے ہیں۔ کراچی کا درجہ حرارت ہر روز بڑھتا جارہا ہے۔ اس دن تو تپش، دھوپ اور لُو بہت زیادہ تھی۔ گرم ہوائوں کے تھپیڑے جسم کو جھلسائے دے رہے تھے۔ اخبارات، ریڈیو، ٹی وی سبھی ہیٹ ویو کے اندیشے کے سبب لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کررہے تھے۔ زرمینہ ظہر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ وہ جائے نماز تہہ کرکے دروازے پر پہنچی، Peeping Lence سے جھانکا۔ سفید چادر میں ملبوس ایک بوڑھی اور نحیف سی خاتون دروازے پر کھڑی تھیں۔ زرمینہ کے لیے یہ چہرہ نیا تھا۔ دروازہ کھولتے ہوئے اسے ہچکچاہٹ ہوئی۔ دستک دوبارہ ہوئی تو اسے دروازہ کھولنا پڑا۔
دروازہ کھول کر خاتون کو اندر آنے کا اشارہ کرکے وہ ایک طرف ہوگئی تاکہ وہ اندر آسکیں۔ وہ خاتون کرسی پر بیٹھیں تو زرمینہ تیزی سے فریج سے ٹھنڈے پانی کی بوتل لے آئی۔ اس سے پہلے کہ وہ پانی بوتل سے نکال کر گلاس میں بھرتی، خاتون نے نرمی سے کہا ’’بیٹی! میں روزے سے ہوں۔‘‘
’’اوہ میں بھول گئی…‘‘ وہ شرمندگی سے بولی۔
’’کوئی بات نہیں۔‘‘ خاتون نے اِدھر اُدھر نظریں دوڑائیں۔ ’’رضیہ بہن کہاں ہیں، نظر نہیں آرہی ہیں؟‘‘
زرمینہ کو اندازہ ہوا کہ شاید ان خاتون نے بہت دن بعد چکر لگایا ہے، جبھی انہیں معلوم نہیں کہ امی تو پندرہ دن پہلے عمرے پر گئی ہیں۔ وہ بولیں ’’بیٹی میں رضیہ بہن کے پاس بہت دن بعد آنے پر شرمندہ ہوں۔ واقعی مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ عمرے پر گئی ہیں۔ سبحان اللہ۔ اللہ تعالیٰ ان کے عمرے کو آسان بنائے، ان کے سفر کو آسان بنائے، رمضان کی اس بہترین عبادت اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی سعادت کو قبول فرمائے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاتون کرسی سے کھڑی ہوگئیں۔
’’آنٹی! آپ بیٹھیں تو، مجھے بتائیں امی سے کیا کام تھا؟ اتنی گرمی میں روزے میں کہاں جائیں گی؟ تھوڑا آرام کرلیں، روزہ افطار کرکے جایئے گا۔‘‘ زرمینہ نے انتہائی خلوص سے ان کا ہاتھ تھامتے ہوئے کہا۔
’’بیٹی! تمہارا بہت بہت شکریہ۔ مگر میں اتنی دیر رک نہیں سکتی۔ میرے ننھے ننھے پوتا پوتی گھر میں اکیلے ہیں، میں اِدھر سے گزر رہی تھی تو سوچا رضیہ بہن سے بھی ملتی چلوں۔‘‘
وہ کھڑی ہوگئیں، ان کے لہجے میں اتنی بے کسی اور مجبوری تھی کہ زرمینہ تڑپ کر رہ گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کرے! پھر جیسے اسے کسی نے اندر سے جھنجھوڑ دیا۔ ’’بیٹا اتنی گرمی، تپش اور لُو میں کوئی انتہائی ضرورت مند ہی تمہارا دروازہ کھٹکھٹائے گا، ایسے ضرورت مند کو کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹانا۔ اگر کچھ نہ ہو تو مٹھی بھر آٹا اور مٹھی بھر چاول ہی اس کی جھولی میں ڈال دینا۔‘‘ وہ جیسے خواب سے جاگ اٹھی۔
’’آنٹی دو منٹ ٹھیر جائیں، میں ابھی آتی ہوں۔‘‘ اس نے اپنی وہ مخصوص رقم جو اپنے عید کے جوڑے کے لیے رکھی تھی، پرس سے نکال کر مٹھی میں دبائی، باورچی خانے میں سے ایک شاپر میں چاول، دوسرے شاپر میں آٹا بھر کر کمرے میں آگئی۔ وہ خاتون واپس جانے کے لیے دروازے پر کھڑی تھیں۔ زرمینہ نے ان کی مٹھی میں پیسے دباکر شاپر انہیں پکڑا دیے۔
ان بوڑھی خاتون نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھا، اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور شفقت سے بولیں ’’جیتی رہو، خوش رہو، سدا سہاگن رہو، اللہ تم کو ٹھنڈی چھائوں میں رکھے، بالکل اپنی ساس جیسی ہو۔‘‘ زرمینہ کا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔
’’ساس جیسی…‘‘ خاتون کے رخصت ہونے کے بعد وہ جیسے بے جان ہوکر صوفے پر لڑھک گئی۔ ’’کیا واقعی میں اپنی ساس جیسی ہوں؟‘‘ اس نے اپنا احتساب کیا۔ ’’نہیں میں تو اُن کی طرح نہیں ہوں۔‘‘ اس نے سچائی سے اعتراف کیا۔
سادہ مزاج، خوش اخلاق رضیہ بیگم ضرورت مند، غریب رشتے داروں کی تو اس طرح مدد کرتی تھیں کہ نہ دینے والے کو کوئی بار محسوس ہوتا، نہ لینے والے کو شرمندگی ہوتی۔ رمضان آنے سے پہلے بیوائوں اور یتیموں کا راشن اُن کے گھر بھجوا دیتی تھیں۔ گھر میں جو مسکین عورتیں آتیں اُن کو رخصت کرتے وقت مٹھی میں رقم دبا دیتیں۔ زرمینہ کو ان کے خیالات اور ان کے معمولات سے اختلاف تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ آنے والی ضرورت مند صرف ڈرامے بازی کرتی ہیں، اس لیے وہ تو ان کے پاس بیٹھنا بھی وقت کا ضیاع سمجھتی تھی۔
رمضان المبارک میں عمرہ کرنا رضیہ خانم اور شفیع صاحب کی بہت بڑی تمنا تھی۔ بیٹے کو بونس ایک معقول رقم کی صورت میں ملا تو اس نے سب سے پہلے والدین کے عمرے کے ویزے کے لیے درخواست دی۔ شاید یہ رضیہ خانم کی نیک نیتی اور خلوص کا انعام تھا کہ عمرے کا ویزا ایک ہفتے میں لگ گیا۔ زرمینہ کو ان کے جانے سے گھر کی تنہائی کی وجہ سے وحشت ہونے لگی تھی۔ گھریلو کام کاج واجبی سا آتا تھا۔ سینے پرونے کا شوق نہیں تھا۔ ٹی وی وہ دیکھتی نہیں تھی۔ ملنے ملانے کی قائل نہیں تھی۔ رضیہ خانم خود بہت فکرمند تھیں کہ رمضان میں سحر اور افطار کا کیا ہوگا۔ وہ زرمینہ کا مزاج سمجھتے ہوئے اسے نصیحت کرنا نہیں چاہتی تھیں، مگر پھر بھی جاتے وقت اس کو پیار کرکے کہا ’’بیٹا! ہم دونوں اللہ کے بلاوے پر اس کے گھر جارہے ہیں، کون جانے واپسی ہو نہ ہو، مگر بیٹا! تم میری اُن تمام زیادتیوں کو معاف کردینا جو میں نے نادانستہ تم سے کی ہوں۔ بس تم سے اتنی درخواست ہے کہ اس گھر کے دروازے کسی غریب ضرورت مند پر بند نہ کرنا۔ تم ایک اچھی ماں کی بہت اچھی بیٹی ہو۔ میں جانتی ہوں تمہارا دل بھی بہت اچھا ہے۔ تم میرے جانے کے بعد اس گھر کی روایات کو زندہ رکھو گی۔ بے وقت دروازہ کھٹکھٹانے والا یا تو بہت زیادہ ضرورت مند ہوگا یا پریشان حال، اس کی ضرورت اگر پوری کرسکتی ہو تو ضرور کرنا، اللہ تمہاری بے شمار ضرورتیں پوری کرے گا۔ ایسی جگہ سے تمہیں رزق دے گا جہاں سے تمہیں امید بھی نہ ہوگی۔‘‘ وہ زرمینہ کو گلے لگا کر پیار کررہی تھیں اور زرمینہ شرم سے پانی پانی ہورہی تھی۔ وہ نہ تو اچھی تھی، نہ اتنی کشادہ دل کہ ہر وقت محبت اور اخلاق سے ہر آنے والے کو خوش آمدید کہے اور ان کی ضرورت پوری کرے۔ پتا نہیں ساس امی کو میرے بارے میں اتنی خوش گمانی کیوں ہے کہ میں اُن کی طرح بن جائوں گی۔ مگر جب اس نے ان بوڑھی خاتون کے تھکے، بے بس چہرے پر نظر ڈالی تھی تو اسے لگا جیسے اس کے دل میں وہی تڑپ پیدا ہوگئی جو اس کی ساس کے دل میں ہوتی ہوگی۔ یقینا یہ انہی کی محبت اور دعائوں کا اثر تھاکہ وہ اب روزانہ کسی نہ کسی ضرورت مند کے لیے دروازہ کھولتی، خوش اخلاقی سے آنے والے کو بٹھاتی، اس کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کرتی۔ اور وہ حیران تھی کہ اس کے روزمرہ کے اخراجات میں کوئی کمی بھی نہ ہوئی اور دستر خوان پرکھانا بھی کبھی کم نہ ہوا۔ اس نے شاید اپنی منفی سوچ پر پابندی لگا لی تھی، اسی لیے ہر آنے والا جاتے وقت یہ ضرور کہتا تھا ’’اللہ تمہیں خوش رکھے، آباد رکھے، بالکل اپنی ساس جیسی ہو۔‘‘