عروبہ کی کہانی

285

تیسری چوتھی پیشی تک تو کوئی نہ کوئی ساتھ آجایا کرتا تھا‘ مگر پانچویں آتے آتے سارا رش چھٹ گیا۔ اب صرف ماں بیٹی ہی خلع کے مقدمے میں عدالت پہنچی تھیں۔
لڑکے والے شروع ہی سے خلع پر راضی تھے اور لگتا یہی تھا کہ یہ کام پہلی پیشی ہی میں ہو جائے گا‘ مگر طرفین اس بدبودار عدالتی نظام سے واقف نہ تھے‘ جو اس ملک میں رائج تھا۔
’’خدا کرے وہ لوگ آجائیں۔‘‘ نجمہ بیگم کا اشارہ لڑکے والوں کی طرف تھا۔
’’اب تو بس دعائیں ہی کریں‘ کس نے کہا تھا خلع کا معاملہ مکمل ہونے سے پہلے سارے زیورات ان کی جھولی میں ڈال دیں۔‘‘ عروبہ تنک کر بولی۔
’’ہم نے جو بھی کیا استخارے سے کیا‘ اب پچھتانے کی ضرورت نہیں۔‘‘ نجمہ بیگم کا لہجہ بھی تیز ہوگیا۔
عروبہ کا دماغ پچھلے کئی ماہ سے آتش فشاں بنا ہوا تھا۔ اپنی ہی سوچیںاسے جلائے جارہی تھیں۔ ماں سے بحث کرنے کی گنجائش نہیں تھی لہٰذا وہ اٹھ کر ٹہلنے لگی۔
قریب ہی ایک لڑکی اپنی بچی کو چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس نے سوچا چلو اس سے بات چیت کرکے ہی دل بہلایا جائے۔
’’میں چپ کرائوں اسے۔‘‘ عروبہ ایسی ہی بے باک تھی۔ وہ لڑکی بھی شاید ہمت ہار چکی تھی‘ فوراً اپنی بچی کو عروبہ کے حوالے کر دیا اور مزے کی بات یہ کہ وہ چپ بھی ہوگئی۔
’’بڑا تجربہ لگتا ہے آپ کا بچوں میں۔‘‘
’’آپ کا نام؟‘‘ عروبہ نے اس کی بات نظر انداز کی۔
’’مہرین‘ عمر بتیس سال‘ ایم فل کیا ہے چونکہ شادی نہیں ہو رہی تھی پڑھتی جارہی تھی اور اگر نہ ہوتی تو اب تک پی ایچ ڈی کر چکی ہوتی۔‘‘
’’یہاں کیسے آنا ہوا؟‘‘ عروبہ کو تجسس ہوا۔
’’آپ کا نام؟‘‘ مہرین ے بدلہ لیا۔
’’اوہ…! عروبہ میں نے ماسٹرز کیا ہے لیکن اس وجہ سے نہیں کہ میری شادی نہیں ہو رہی تھی بلکہ یہ میرا شوق ہے۔‘‘
جواباً مہرین صرف مسکرائی۔
’’آپ نے میری بات کا جواب نہیں دیا؟‘‘ عروبہ بولی۔
’’ہاں… اس عدالت میں عموماً خلع ہی کے مقدمے چلتے ہیں‘ مجھے حیرت ہے تم یہاں کیوں آئی ہو؟‘‘ مہرین نے ٹھنڈی آہ بھری۔
’’میں بھی خلع کے لیے ہی آئی ہوں۔‘‘ عروبہ بولی۔
’’اب میں اس کی وجہ تم سے ہرگز نہیں پوچھوں گی کیوں کہ مجھے اس جملے کی دھار اور تکلیف کا اندازہ ہے اور یہ بھی کہ جب اگلا سننے والا کہتا ہے بس اتنی سی بات پر…‘‘
عروبہ ہنس پڑی۔ کوئی تو ملا جو اس کا درد سمجھ سکتا تھا۔
’’میرے والدین بضد ہیں ورنہ میں اس خلع کے حق میں نہیں ہوں۔‘‘ مہرین بولی۔
’’بھئی شوشا چھوڑوگی پھر تو بتانا پڑے گا۔ وعدہ کرتی ہوں اسے اتنی چھوٹی سی بات نہیں کہوںگی۔‘‘ عروبہ نے ہتھیلی اٹھا کر گویا عہد کیا۔
’’حالانکہ بات واقعی اتنی سی ہے کہ میرا شوہر مجھے ڈیڑھ سال سے لینے نہیں آیا۔‘‘
’’اتنی بڑی بات۔‘‘ عروبہ کے منہ سے نکلا۔
’’آپ سے نہ سہی‘ اس بچی سے تو ملنے کا دل کرتا ہوگا۔‘‘
’’اس بچی کی خبر سن کر ہی تو اس نے ہم سے منہ موڑ دیا۔ بیٹا ہوا ہوتا تو شاید یہ حالات نہ ہوئے ہوتے۔‘‘ مہرین کی آواز بھرا گئی۔
’’ان بے عقل مردوںکو کون سمجھائے کہ لڑکا یا لڑکی اللہ کا فیصلہ ہوتا ہے اور سائنس کے حساب سے مرد ان کا ذمہ دار ہوتا ہے۔‘‘عروبہ بھپر گئی۔
’’خیر مجھے تو امید ہے کہ وہ ایک نہ ایک دن واپس آجائے گا‘ مگر میرے والدین سے یہ برداشت نہیں‘ وہ اپنی زندگی ہی میں میرا گھر بستا دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ مہرین غم زدہ لہجے میں بولی۔
’’کیا بچی سے پہلے اس کا رویہ ٹھیک تھا؟‘‘ عروبہ نے سوال کیا۔
’’ہاں بچے کی آمد کی خبر سن کر بہتر ہو گیا تھا۔‘‘
’’مطلب اس سے پہلے بھی اچھا نہ تھا۔‘‘ عروبہ نے رائے قائم کی۔
’’جہاں غریبی ہو‘ وہاں روّیے خراب ہوتے دیر نہیں لگتی۔ کماتا دھماتا ٹھیک سے تھا نہیں۔ باتیں بڑی بڑی کرا لو۔ بھائی فلسفہ سے پیٹ نہیں بھرتا آج کل۔‘‘ پہلی بار مہرین کے لہجے سے شکایت چھلکی۔
’’ضروری نہیں کہ ہمیشہ ایسا ہی ہو۔ میں نے بھی شدید غربت دیکھی ہے مگر رویے ہمیشہ اچھے ہی رہے۔‘‘ عروبہ نے کہنا تو بہت یقین سے شروع کیا تھا مگر اختتام کرتے کرتے اس کی آواز بھی مدہم پڑ گئی۔
’’خرچے پورے کرنے کے لیے میں نے کچھ آن لائن کام شروع کر دیا۔ بس پھر اس بات پر جھگڑے ہونے لگے کہ پیسے کہاں چھپائے ہیں میرے حوالے کرو۔‘‘ مہرین نے افسوس سے بتایا۔
’’آپ لگتی تو نہیں ہیں جھگڑالو قسم کی۔‘‘ عروبہ نے اندازہ لگایا۔
’’جھگڑا وہ تالی ہے جو ایک ہاتھ سے بھی باآسانی بجائی جاسکتی ہے۔ پیسوں کی خاطر گالم گلوچ‘ مارنا پیٹنا‘ اب اس کو میں اور کیا نام دوں۔‘‘
’’اوہ…! اتنا سب کچھ‘ پھر بھی آپ خلع نہیں لینا چاہتیں؟‘‘ عروبہ حیران رہ گئی۔
’’شوہر شوہر ہے۔ اس کے ساتھ کچھ اچھے دن بھی دیکھے۔ اس کی بچی کی ماں بنی‘ مذاق بات نہیں ہے‘ تم شاید نہ سمجھو۔ تمہارا کوئی بچہ ہے؟ مہرین نے آخر کار عروبہ کی کہانی میں ٹانگ اڑا ہی دی۔
’’شکر ہے نہیں ہے۔ ورنہ وہ بھی واپس کرنا پڑتا۔ بلکہ اس کی نیکریں تک نہیں چھوڑنی تھی میرے سسرال والوں نے۔‘‘ عروبہ کے لہجے میں کڑوا پن آیا۔
’’شوشا تو تم نے بھی چھوڑ ہی دیا۔‘‘ مہرین نے دوبارہ بدلہ لیا۔
عروبہ کچھ دیر تو سوچتی رہی کہ کس وجہ کو ہیڈ لائن بنائے مہرین کی بتائی گئی باتوں کے آگے اسے اپنی ہر وجہ چھوٹی معلوم ہو رہی تھی۔ مگر وہ ایک ڈیبیٹر تھی‘ ہار کیسے مان سکتی تھی۔
’’میرا شوہر‘ زوہیب نام ہے اس کا۔ جسمانی طور پر فٹ نہیں ہے شادی کے لیے۔‘‘ عروبہ نے رک رک اور تول تول کر ایک ایک جملہ بولا۔
’’اوہ…‘‘ مہرین گہری سانس لے کر رہ گئی پھر توقف کے بعد بولی ’’علاج وغیرہ…؟‘‘
’’یہی تو مسئلہ ہے‘ حضرت خود کو ٹھیک سمجھتے ہیں اور علاج کرانے سے گریزاں ہیں۔‘‘ عروبہ کو خوشی ہوئی کہ مہرین نے اس کے مسئلے کو بڑا مسئلہ تو سمجھا۔
’’کاش میرا شوہر بھی ایسا ہوتا۔ کم از کم یہ تو نہ آتی اس دنیا میں‘ میں اپنے گھر میں تو ہوتی۔‘‘ مہرین نے دکھی ہوکر اپنی بچی کو عروبہ سے لے لیا جو سو چکی تھی۔
اس سے پہلے کہ مہرین کی دکھ بھری فلم پھر شروع ہوجاتی عروبہ بولی ’’اوپر سے طرم خانی یہ کہ غلط حرکتوں سے بھی باز نہیں آتے۔‘‘
’’کیسی حرکتیں؟‘‘
’’کیا کیا بتائوں… بس یوں سمجھ لیں انٹرنیٹ کی بدکاریاں‘ غیر عورتوں کے پاس جانا۔‘‘ عروبہ نے بم پھوڑا اور وہ پوری قوت سے پھٹا۔
’’ہی … ہی … ہی… ہاہا…ہاہا۔‘‘ پہلے تو کچھ دیر مہرین اپنی ہنسی ضبط کرنے کی کوشش کرتی رہی‘ پھر قہقہہ مار کر ہنس پڑی۔
اردگرد کے لوگ متوجہ ہو گئے کہ ایسا کیا ہوگیا۔
’’میں برسوں بعد اس طرح ہنسی ہوں۔‘‘ مہرین ابھی تک ہنس ہی رہی تھی۔
’’مگر ایسا بھی کیا کہہ دیا میں نے‘ کوئی لطیفہ تو نہیں سنایا تھا؟‘‘ عروبہ بگڑ گئی۔
’’ایک طرف تو تم کہہ رہی ہو کہ اس کی اس قسم کی حرکتیں ہیں‘ دوسری طرف کہہ رہی ہو کہ وہ فٹ نہیں ہے تمہاری کس بات کو مانوں؟‘‘ مہرین نے سوال کیا۔
’’دونوں کو‘ کیوں کہ غلط حرکتوں کی وجہ سے وہ فٹ نہیں رہا۔‘‘ عروبہ نے منہ بنایا۔
’’اوکے اوکے… مان لیتے ہیں‘ مگر تمہیں ان غلط حرکتوں کا پتا کیسے چلا؟‘‘ مہرین نے عروبہ کے تیور دیکھ کر ہتھیار ڈال دیے۔
’’میں نے خود پتا لگایا‘ موبائل ہسٹری چیک کی ساری کی ساری۔‘‘ عروبہ اکڑ کر بولی۔
’’اور تم نے یہ سب اسے بتا بھی دیا۔‘‘ مہرین حیرت سے بولی۔
’’تو اور کیا‘ ورنہ کیا فائدہ تھا؟‘‘ عروبہ بھی حیران ہی ہوئی مجھے بھی ایک مرتبہ اپنے شوہر کی کوئی بات پتا چلی‘ مگر میں انجان بن گئی۔‘‘ مہرین نے پھر اپنے ماضی میں کھونا چاہا۔
’’اس کا بھلا کیا فائدہ ہوا؟‘‘
’’اس سے شرم کا بھرم رہ گیا‘ وہ کم از کم اس معاملے میں ڈھیٹ نہیں ہوا۔‘‘
’’آپ الگ ٹائپ کی بندی ہیں‘ میں الگ ٹائپ کی ٹائپ کی ہوں۔‘‘ عروبہ نے کندھے اچکائے۔
’’بہرحال تمہارے اَن فٹ ہونے والے بیان کو میں رد کرتی ہوں۔‘‘ مہرین نے فیصلہ سنایا۔
’’چلیں مان لیا۔ مگر صرف یہی ایک مسئلہ تھوڑا ہی تھا‘ وہ انتہائی ناقابل بھروسہ شخصیت ہیں۔ ہماری آپس کی بات اپنے امی ابو‘ بھائی‘ بہن‘ کزن اور کزن کے دوستوں تک کو بتا دیتے ہیں۔‘‘ عروبہ نے پٹارے سے دوسرا کارڈ نکالا۔
’’اوہ…! یہ تو بہت غلط بات ہے۔‘‘
’’کبھی بھی وہ بالکل ناسمجھ بچہ بن جاتے ہیں۔ انہیں پتا ہی نہیں ہوتا کہ کس سے کیا بات کرنی ہے۔‘‘ عروبہ نے اضافہ کیا۔
’’یا تو تم اپنے شوہر کی شکایتیں لگا لو یا پھر صفائیاں پیش کر لو۔ دونوں کام نہ کرو۔‘‘ مہرین بگڑ کر بولی۔
’’کیا مطلب؟ میں شکایتیں ہی گنوا رہی ہوں۔ ایک لمبی فہرست ہے میرے پاس۔‘‘ عروبہ سمجھ نہ پائی۔
’’جب تم اسے ناسمجھ سمجھتی ہو تو دوسروں کو باتیں بتانے والی بات اس کا جرم نہیں بلکہ کمزوری ہے۔‘‘
’’خیر جو بھی ہو‘ مجھے کمزور اور ناسمجھ شوہر نہیں چاہیے۔ میں نے بچپن میں اپنے باپ کو کھو دیا۔ میرا کوئی بھائی نہیں جو ایک مرد زندگی میں آرہا ہے وہ تو آئیڈیل ہو۔‘‘ عروبہ کے دل کی بات زبان پر آہی گئی۔
’’آئیڈیل صرف جنت ہے‘ دنیا میں اس کا تصور کرنا بے وقوفی ہے۔ تم فلمیں‘ ڈرامے تو نہیں دیکھتیں زیادہ؟ ناول ضرور پڑھتی ہوگی۔‘‘
’’میں نے حقیقت میں آئیڈیل دیکھے ہیں۔ میرے والد میری ماں کے آئیڈیل تھے ۔‘‘
’’یہ ہوتا ہے آئیڈیل چھوٹی سی بچی کو چھوڑ کر چلا گیا۔‘‘ مہرین نے بات کاٹی۔
’’ان کا انتقال ہوا تھا‘ گردوں کا مسئلہ تھا۔‘‘
’’کیا تمہیں ایسا آئیڈیل چاہیے جسے گردوں کا مسئلہ ہو اور جب تمہاری اولاد چھوٹی ہوتو وہ تمہیں چھوڑ کر دنیا سے چلے جائے۔‘‘ مہرین کہتی چلی گئی۔
’’آپ زیادتی کر رہی ہیں۔‘‘ عروبہ چیخ پڑی۔
’’میں یہ نہیں کہہ رہی کہ ان کا قصور تھا۔ میرا مطلب یہ ہے کہ چیزوں کو مجموعی انداز میں دیکھنا چاہیے۔ خیر کسی اور آئیڈیل کا بتا دو۔‘‘
’’مجھے تو زیادہ تر آئیڈیل شوہر ہی نظر آتے ہیں۔ مثلاً میرے بہنوئی‘ میری کلاس فیلوز کے شوہر۔ سب ہنسی خوشی رہ رہی ہیں۔‘‘
’’کیوں کہ وہ غم چھپانے کا فن جانتی ہیں۔ میری بہن کیا تم نے ان کے دل کو چیر کر دیکھ لیا؟‘‘ مہرین نے سوال کیا۔
’’نہیں‘ لیکن وہ یہ بات خود کہتی ہیں۔‘‘
’’وہ شوہروں کو آئیڈیل کے معیار پر نہیں لے سکتیں‘ مگر اپنے آئیڈیل کے معیار کو تو اپنے شوہروں کی سطح پر لاسکتی ہیں۔ یہی کیا ہوگا۔ میرا شوہر بھی میرا آئیڈیل ہے‘ لو کر لو ایک کا اضافہ۔‘‘
’’چلیں آئیڈیل نہ ہو کچھ تو سمجھ دار اور بالغ العقل ہو۔‘‘
’’بہت کم شرطیں رکھیں تم نے‘ میرا شوہر ان دونوں پر پورا اترتا ہے۔‘‘ مہرین نے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
’’ایک تو آپ کا شوہر نہ جانے کہاںسے ہر جگہ ٹپک پڑتا ہے۔‘‘ عروبہ جل بھن کر بولی۔
’’کیا تمہارا شوہر تم سے پیار کرتا ہے؟‘‘ مہرین نے اچانک پوچھ لیا تو عروبہ کے دل پر ایک تیر پیوست ہوگیا۔
(جاری ہے)

حصہ