نعتیہ شاعری بھی ہمارے ایمان کو تازہ کرتی ہے‘ رفیع الدین راز

140

نعت سننا‘ پڑھنا اور لکھنا باعث ِ ثواب ہے۔ نعت گوئی کا آغاز ہمارے رسول اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ہوا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔ نعتیہ ادب کی ترقی کا سفر جاری ہے اب نعتیہ شعری مجموعے بھی تواتر کے ساتھ شائع ہو رہے ہیں۔ نعتیہ شاعری ہمارے ایمان کو تازہ کرتی ہے‘ اصناف سخن میں نعت ایک اہم باب ہے۔ ان خیالات کا اظہار معروف شاعر رفیع الدین راز نے کراچی کی ایک ادبی تنظیم کے نعتیہ مشاعرے کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ نعت کہتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہے‘ اس صنف سخن میں جھوٹ اور غلو سے پرہیز لازمی ہے‘ اس کے علاوہ نعت میں حمدیہ مضامین کی ملاوٹ مت کیجیے‘ عبد اور معبود کا فرق بحال رکھا جائے۔ اس نعتیہ مشاعرے کے نظامتِ کار ڈاکٹر قمر رضوی نے کہا کہ نعتیہ ادب کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہے کہ شعرائے متقدین اور شعرائے متوسطین کی نعتوں میں جمالِ مصطفی کے رویے کو کثرت سے برتا گیا ہے لیکن وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ نعت گو شعرائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ نعت آنحضرت ؐ کے جمال اور سیرت کے امتزاج کا نام ہے اب نعتیہ ادب میں فضائل و مناقبِ رسالت کے ساتھ ساتھ سیرتِ رسولؐ کی تبلیغ اور مقاصد ثبوت کا ابلاغ بھی موجود ہے۔ مشاعرے کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے ہوا جس کی سعادت بینا کامران نے حاصل کی۔ اس موقع پر رفیع الدین راز‘ راشد نور‘ ڈاکٹر قمر رضوی‘ عنبرین حسیب عنبر‘ ڈاکٹر عباس شہیر‘ زاہد حسین‘ وقار زیدی‘ ریحانہ احسان‘ سرور غزالی (جرمنی)‘ افتخار حیدر‘ عدنان عکس‘ قمر آسی‘ یاسر سعید صدیقی‘ مہتاب عالم مہتاب‘ ضیا زیدی‘ غضنفر علی‘ گل افشاں‘ محمد علی سوز‘ کاشف علی ہاشمی‘ کاوش کاظمی‘ شاہ فہد‘ شہاب‘ شہناز جعفری‘ ڈاکٹر نزہبت انیس اور دانیال اسماعیل نے اپنا نعتیہ کلام نذر سامعین کیا۔

حصہ