تزکیہ نامہ:رمضان کا قیمتی تحفہ

314

ہر یاد گار عمارت کی تعمیر کے وقت اس کے معمار کوئی نہ کوئی تقریر کرتے ہیں۔ تقریر میں ڈھلی ان کی تمنائیں اس کے ایوان کی پہچان بن جاتی ہے۔ جب کعبہ کی تعمیر کا وقت آیا تب سیدنا ابرہیمؑ اور ان کے صاحبزادے اسمعیلؑ نے رب ِ کائنات سے ایک دعا مانگی تھی کہ انسانوں کے ’’تزکیہ‘‘ کی مہم کے لیے ایک نبی بھیج جو حکمت مآب زندگی جینے کا سلیقہ سکھا دے۔ رب ِ کعبہ نے اس دعا کو قبول کیا اور ان الفاظ کو پورے کائنات کی گونج بنا دیا۔ اس کی رحمت کا تقاضا بھی یہی تھا کہ انسانی سماج کو ایک حسین ترین مرقع بنادے۔ فرد کا نکھرا ہوا کردار کائنات کے حسن سے جڑجائے۔
تزکیہ کے معنی ہی نمو، ترقی اور اس میں برکتوں کے نزول ہیں۔ اپنی ذات کے کھوٹ کو چھانٹ چھانٹ کر الگ کرنا پھر فطری رنگ و نور میں رچ بس جانا ہی تزکیہ نفس ہے۔ تربیت کے کساو کے سبب ذہن و دل کی حقیقی مہک پا جانا ہی فوز و فلاح کا مقام ہے۔ حقیقی کردار کے معیار و وقار کے اپنا لینا۔ کیوں کہ خیر کا دائمی حسن جب کسی شے کے اندر سے ابھرتا ہے تو شرکی شورشیں رسوا کن انجام کو پہنچتی ہیں۔ تربیت کے نتیجے میں انسانی نفس و کردار کی خوش بو پورے سماج میں محسوس کی جاتی ہے۔ ایک سادہ سی بات ہے کہ کھرے سکوں میں اگر کھوٹے سکے ملا دیے جائیں تو کھرے سکوں کا اعتبار نہیں رہتا۔ اس لیے فطرت کھوٹ چھانٹتی رہتی ہے۔ صرف انسان کو یہ اختیار کی نعمت حاصل ہے کہ وہ تزکیہ و تربیت کا کوئی نظام اپنے لیے منتخب کرے۔
اسلام نے نصاب زندگی کو جو روشن باب دیے اس میں ’’نفس کے تین پڑائو ہیں۔ میری نظر میں نفس کا مطالعہ اسٹاک مارکیٹ اور عالمی منڈیوں کے مطالعے سے اہم ہے۔ جس پر اگر ہماری گہری گرفت ہو جائے تو نفسیاتی ہنگام کو آسودگی کی بشارتیں ملے بلکہ دنیا کا ہر فرد نفس کے تہلکوں کو اپنی مٹھیوں میں بھینچنے کے فن سے محروم نہ ہو۔ کسی کا بلا عنوان غم نہ ہو، بلا سبب ذہنی خلجان نہ ہو اور بے معنی زندگی نہ ٹھہرے۔ جدھر سے دیکھو زندگی ایک اجلا سچ نظر آئے۔ رُخ ِ حیات روشن دلیلوں سے دمک اٹھے۔ اس سلسلے میں پہلا مرحلہ’’نفس امارہ ‘‘ کا ہے۔ قرآن کی زبان میں ’’بے شک نفس تو برائی سکھاتا ہے۔‘‘
نفس امارہ جو طیش میں لاتا ہے۔ گناہوں پر اُتاولا ہوتا ہے، پل پل کر شرمناکیاں اپناتا ہے۔ جلد بازی کی روش کے سبب ٹھوکریں کھاتا ہے۔ جذبات کی پیشوائی میں پورے حواس کو لگا دیتا ہے۔ عقلِ سلیم کو ٹھکراتا رہتا ہے۔ اس پر قابو پانا قدرے مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ سقراط کا بھی ایک دانش اساس قول ہے کہ ’’جذبات کا تزکیہ کمال کی منزل ہے۔‘‘بقول شیخ ابراہیم ذوق:
بڑے موذی کو مارا ’’نفسِ امارہ‘‘ کو گر مارا
نہنگ و اژدھا و شیر نر مارا تو کیا مارا
گیا شیطان مارا ایک سجدہ کے نہ کرنے میں
اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا
انسانی ذات میں دوسرا پڑائو ’’نفسِ لوامہ‘‘ ہے جو ہر بھول چوک پر ملامت کرتا ہے۔ ہر لغزش پر دل کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے‘ تنبیہ و تاکید کرتا ہے۔ جسے ہم ضمیر کہتے ہیں۔ یہ ذات کے چھپی دنیا کا ایسا لوہار ہے جس کے گھن کی ضربیں بار بار ایسے ہتھوڑے مارتی ہیں کہ گناہوں کی تمنائیں ریزہ ریزہ ہوکر بکھرتی رہتی ہیں۔ یہ رب ِ رحیم نے ذات کے نہاں خانے میں ایک ایسی توانائی رکھ دی ہے جو گناہ کے بعد گناہ گار کا باطن انگاروں پر لوٹنے لگتا ہے۔ ہر انسان کا ضمیر بہت سخت جان ہوتا ہے۔ اس کو گناہوں کی عادتیں، لت بھی بن جائے تب بھی کچوکے لگانا نہیں بھولتا ہے۔ یہ احساس اتنا قیمتی ہے کہ سرسے پیر تک گناہ آلود وجود بھی رب کی اس رحمت کو محسوس کرتا رہتا ہے۔ ہاں! کروڑوں کی بھیڑ میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو ضمیر کو مار ڈالتے ہیں۔ کبھی اُن کا معاشرہ اس کو روزِ اوّل سے تیزاب میں ڈال کر خیر کی بنیادی اقدار کو بدشکل بنا دیتا ہے۔ کبھی تعبیرات کی دھاندلی سے‘ کبھی ہوس ناکیوں سے اَٹی زندگی کے سبب چند اہم قدریں پامال ہوجاتی ہیں۔ لیکن اس زمین کی وسعت اور انسانوں کی جل تھل میں آج بھی ایسی کوئی آبادی نہیں جس میں ’’حسن، خیر اور صداقت‘‘ کے بنیادی قدروں کو مکمل طور پر پامال کردیا گیا ہو۔ ایک نیکی مار دے تو کوئی اور سماجی خیر اس کی جگہ لے لیتی ہے۔ صرف ترجیحات گتھم گتھا ہوجاتے ہیں۔
جو لوگ اپنی زندگی میں نفسِ لوامہ کو شریک مہات نہیں کرتے وہ ضبط نفس کے کچے منصوبے پامال کرتے ہیں۔ انھیں کہیں رشوت کا لالچ ایمان فراموشی پر آمادہ کرتا ہے‘ کہیں ہوس کی رنگینیاں اپنی کشش سے خیر کے منصوبے بھلا دیتی ہیں۔ ان کی شخصیتوں کا بودا پن امارہ کے حملوں سے بکھر جاتا ہے۔ ان کے جرائم کا نگار خانہ اور زیادہ رنگین ہو جاتا ہے جب انسان کی اختیارات کی دنیا وسیع ہو جاتی ہے۔ جیسے حکومتوں کا ظلم، سرمایہ داروں کا جبراور عالمی اداروں کا قہر۔ ہر شرکی شورش تزکیہ نہ ہونے کے سبب پھلتی پھولتی ہے۔
رمضان کا مہینہ دراصل ایک ایسا نصابِ تربیت لاتا ہے جس میں فکر انگیز شب بیداریاں جہاں فہم قرآن کی سبب بنتی ہیں۔ مشقت کی راہوں سے گزار کر ہر فرد کے انفرادی بگاڑ کو بہت کچھ اشارے دے جاتا ہے۔ منہ زوریوں کی روک ہوتی ہے۔ جذبات پر لگام اور اسراف پر قد غن۔ یعنی ذہن سے لے کر بدن تک اور پھر پورے معاشرے کا تزکیہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ہر فرد کا ایک مرکزی بگاڑ ہوتا ہے۔ کہیں خدا سے دوری، کہیں مال سے لالچ کے سبب سے لگائو، کہیں خوش خوری و پُر خوری، کہیں غیر روحانی زندگی بلکہ بے خدا زندگی۔ اس لیے ماہِ رمضان تزکیہ کے ہر امکان کو روشن رکھتا ہے۔ رمضان میں بظاہر سب ایک طرح کی سرگرمی میں کوشاں رہتے ہیں لیکن ہر فرد کی کسی نہ کسی کمزوری کو توانائی میں بدلنے کا یہ نظام لاتاہے۔
نظام تربیت کی گزر کا نفس کا وہ آخری پڑائو ملتا ہے جس کو ’’نفس مطمئنہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اپنی ذات میں چھپے نفس ِ امارہ کو نفسِ لوامہ کی مدد سے روند کر ایسا قرار آفریں و پُرسکون بنا دیتا ہے جس پر رب العالمین اپنی رضا اور خوشی کا اظہار کرکے جنتوں کی بشارت دیتا ہے۔ اس ترتیب کو اگر سمجھ لیا جائے اور برتنے کے گر آجائیں تو اضطرب کی گھڑیوں میں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ہم کہاں ہیں۔ امارہ کی قید میں یا لوامہ کی معاونت میں یا نفس مطمئنہ کی پناہوں میں۔ اس سے ہٹ کر نفس کی کوئی حیثیت نہیں۔ ان مراحل کا ادراک انسانی الجھنوں کی ہر گتھی کا یقینی حل ہے۔

حصہ