گھٹیا پن کی وبا نے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے

389

احمد جاوید زیرک نقاد، شاعر، ماہرِ اقبالیات، دانش ور اور ہمہ جہت علمی، ادبی شخصیت ہیں۔ آپ کی سحر انگیز شخصیت میں مذہب، فلسفہ، ادب اور تصوف کے علوم جمع ہیں۔ فارسی، اردو، انگریزی پر عبور رکھنے کے ساتھ فارسی اور اردو میں شاعری بھی کرتے ہیں۔ اقبال اکادمی سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ کی مصروفیات میں مختلف ادبی، علمی موضوعات پر تقریباً روزانہ لیکچر دینا شامل ہے۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ آپ معاشرے کی رفتار ِ نبض سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ بیماری کا علاج بھی تجویز کرتے ہیں اور معاشرے کے انحرافات اور کج فکریوں کے اسباب پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ ماضی میں آپ سے ایک ملاقات میں اُمتِ مسلمہ کے زوال اور معاشرتی انحطاط کا ذکر آیا تو میں نے ان سے ا س کے اسبا ب جاننے کی کوشش کی ایک سوال کے جواب میں آپ کا کہنا تھا کہ ’’ہمارا سب سے بڑا اجتماعی مرض یا اُمّ الامراض یہ ہے کہ ہم گھٹیا لوگ بن کر رہ گئے ہیں۔ ذوق میں، فہم میں، ذہن میں، اخلاق میں… ہر معاملے میں ہم اوسط سے نیچے ہیں۔ یہ ہمارے انحطاط کا سب سے بڑا سبب ہے اور اسی سے ذہنی اور اخلاقی انحطاط پیدا ہوا۔ ہم بہت چھوٹے لوگ ہیں اور اس چھوٹے پن کو دور کرنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے، ہم بہت معمولی لوگ ہیں اور اس معمولی پن سے نکلنے کی کوئی طلب نہیں رکھتے۔ معمولی پن پیدا ہوجانا مرض ہے لیکن معمولی پن پر راضی ہوجانا موت ہے۔‘‘ گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے میں نے پوچھا کہ پاکستانی معاشرے میں ایک قحط الرجال ہے‘ نہ بڑا ادیب پیدا ہو رہا ہے اور نہ ہی بڑا شاعر۔ علما میں بھی ایسے قد آور علما جن کا خواص و عوام میں احترام ہو،نظر نہیں آتے۔ آپ کے خیال میں اس جمود سے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟ احمد جاوید صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں فرمایا کہ ’’اِس کا ایک بنیادی سبب تو میں نے ابھی عرض کیا تھا کہ ہم زندگی کے ہر شعبے میں اور ہر نفسیاتی معیار پر معمولی لوگ بن کر رہ گئے ہیں، گھٹیا پن کی ایک وبا پھیلی ہوئی ہے جس نے معاشرے کے بہت بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اِس وَبا سے بچنے کی ویکسین دستیاب ہے لیکن ہم خود کو بھی اور اپنے بچوں کو بھی اس ویکسین کے قریب بھی نہیں جانے دیتے۔‘‘
بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بات بہت سنجیدگی سے لینی اور سمجھنی چاہیے کہ تہذیب کا، آدمی ہی کی طرح ایک ذہن ہوتا ہے، ایک دل ہوتا ہے اور ایک ارادہ جو اُس کے دِل و دماغ کی مشترکہ پروڈکٹ ہوتا ہے۔ گو کہ ہم لوگ ریاست اور سوسائٹی کے ادارے رکھنے کے باوجود فی الوقت کسی تہذیب میں نہیں رہ رہے، ہماری تہذیب وجود تو کیا رکھتی ہماری جبری، رسمی اور اتفاقی اجتماعیت تہذیب بننے کے عمل سے بھی دور ہے۔ کسی تہذیب کا پہلا ثبوت اُس کے نظامِ تعلیم اور نظامِِ مراتب سے ملتا ہے۔ نظامِ تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ اس تہذیب کا ایک ذہن بھی ہے اور وہ اپنے تہذیبی اصول پر رہتے ہوئے مسلسل حالت ِ نمو میں ہے۔ اسی طرح اُس تہذیب میں جاری نظامِ مراتب سے پتا چل جاتا ہے کہ اس تہذیب کی اخلاقی یا قلبی بناوٹ کیا ہے، اگر کسی معاشرے یا سماج کا نظامِ تعلیم اُس کے اپنے تصوّر ِ علم سے پیدا نہ ہوا ہو، اور مانگے تانگے کا ہو تو ظاہر ہے کہ اُس تعلیم سے اجتماعی شعور کی تقویت کا کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا۔ اجتماعی شعور کو حالتِ تسکین، حالتِ سیرابی بلکہ حالتِ نمو میں رکھنے کے لیے وہ تہذیب اپنا نظام تعلیم بناتی ہے۔ اسی طرح ہر تہذیب کا ایک اجتماعی ارادہ ہوتا ہے جو اُس میں عملی وحدت پیدا کرتا ہے اور مستقل اور عارضی مقاصد کی تکمیل میں اجتماعی قوت ِعمل کو سرگرم رکھتا ہے۔ اِس لیے اگر کوئی تہذیب اپنی اصل (original) مراد سے دست بردار ہوکر دوسروں کے مقاصد کو اپنا مقصد بنانے کا فیصلہ کرلے تو اس کا وہ اجتماعی، فطری ارادہ جو اس کی اپنی مراد سے مناسبت رکھنے کی حالت ہی میں عمل میں آسکتا تھا، وہ معطل ہوکر رہ جاتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں آپ تخلیقی اعمال بجا نہیں لاسکتے۔ آپ بڑے مقاصد کو حاصل کرنے والی اجتماعی محنت نہیں کرسکتے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح ایک اجتماعی قلب ہوتا ہے جو اس تہذیب کی محبت اور نفرت اور اس تہذیب کے احساسات اور جذبا ت کو ایک خاص ہیئت، رنگ اور حالت میں رکھتا ہے۔ ہر تہذیب اپنا نظام ِاحساسات رکھتی ہے۔ اگر تہذیب اپنے نظامِ احساسات سے خالی اور غیر مطمئن ہو جائے تو ا س کا قلب دھڑکنا بند کر دیتا ہے‘ اس کا قلب معطل ہو جاتا ہے۔ اس لیے ان تین سطحوں پر اگر دیکھیں تو نظر یہ آتا ہے کہ ہم ان تینوں سطحوں پر بانجھ پن کا شکار ہیں۔ اب ہم یہ کہنے کے لائق نہیں ہیں کہ یہ رہا ہماری تہذیب کا اجتماعی ذہن اور یہ اس کے اَفکار و اَقدار۔ یہ رہی ہماری منزل، اور یہ رہی ہماری پسند و ناپسند… اور ہم اس قدر سے وفادار ی رکھتے ہوئے چیزوں کو پسند و نا پسندکرتے ہیں۔ تو جس تہذیب کے اندر اس کی آبیاری اور نگہداشت کا نظام ختم ہوجائے، اُس تہذیب کو طاقت فراہم کرنے والا نظام، تعلیم کی شکل میں، اخلاق کی شکل میں، انصا ف کی شکل میں مردہ ہو جاتا ہے، تو پھر وہ تہذیب بڑا آدمی پیدا کرنے سے معذور ہوجاتی ہے۔ بڑا آدمی کہتے ہیں اپنی تہذیب کے ذہن اور قلب کا مظہر بن جانے والے کو۔ اس لیے جس تہذیب کے اندر خلا پیدا ہو جائے گا وہ پھر کھوکھلے لوگ ہی پیدا کرے گی، اس لیے ہم اس بحران میں مبتلا ہیں۔ اس بحران سے نکلنے کا اس کے سوا اور کوئی حل نہیں ہے کہ ہم بلا تاخیر، پہلے اقدام کے طور پر، اپنے نظام ِ تعلیم میں انقلابی تبدیلیاں لے کر آئیں اور اسے اپنے تصّورِ علم، تصّورِ اخلاق اور دینی و دنیاوی ضروریات کے مطابق کریں اور دینی و دنیاوی ضروریا ت و مقاصد میں مغرب کے اثر سے جو فاصلہ بلکہ ٹکرائو پیدا ہوگیا ہے، اُسے ختم کرنے کے لیے ایک ہی نظامِ تعلیم ہونا چاہیے ورنہ ہمارے تہذیبی ضمیر میں ایک ایسی دو لختی پیدا ہو جائے گی جو ہمیں اسی طرح دنیا میں پسماندہ اور دین سے نامانوس رکھے گی۔ ‘‘
میں نے احمد جاوید سے عرض کیا کہ آپ نے فرمایا کہ بالحاظ نظام ِتعلیم، نظامِ اخلاق اور نظام ِانصاف ہم بانجھ پن کا شکار ہیں۔ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ تبدیلی کے حوالے سے تین قسم کے ماڈل ہمارے سامنے آئے ہیں۔ ان میں اوّل تبلیغی جماعت کا ماڈل ہے، دوسرا جمہوریت کا ہے اور تیسرا ماڈل یہ ہے کہ آپ کے پاس طاقت ہو اور اس کے ذریعے اقتدار پر قبضہ کرکے خلافت قائم کرلیں۔ آپ ان ماڈلز کو کس طرح دیکھتے ہیں اور کیا کوئی چوتھا طریقہ یا ماڈل بھی موجود ہے جس کے ذریعے تبدیلی آسکتی ہے؟ اس پر احمد جاوید کا کہنا تھا کہ:
’’دیکھیے اتفاق یہ ہے، بلکہ اتفاق کیا شاید ہم سب کا یہ مشاہدہ ہے کہ یہ تینوں ماڈل (یعنی تبلیغی جماعت، جمہوریت اور طاقت سے خلافت قائم کرنے کے خواہش مند) اپنی بہترین صلاحیتوں کو استعمال کر لینے کے باوجود بے اثر، بے نتیجہ اور ناکام ہیں۔ اس وقت دنیا کے کسی بھی مذہب میں تبلیغی جماعت سے بڑا دعوتی نیٹ ورک نہیں، لیکن اس کے کام کا مسلمانوں کے اجتماعی وجود پر کوئی اثر نہیں پڑا اور مسلم زندگی کو چلانے والے نظام کی تبدیلی کی شکل میں نظر نہیں آتا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ بڑے دائرے میں ناکام جب کہ چھوٹے چھوٹے دائروں میں کامیاب ہے۔ اسی طرح دین کی سیاسی تعبیر کر کے غلبۂ دین کی وہ جدوجہد جس میں جمہوریت کو ذریعہ مان لیا گیا ہے، جسے آج کی اصطلاح میں مذہبی سیاسی جماعتیںکہتے ہیں، یہ جماعتیں مضحکہ خیز صورت اختیار کرچکی ہیں۔ مثال کے طور پر اس کا بڑا اور شاید سب سے مضبوط نمونہ جماعت اسلامی ہے۔ جماعت اسلامی کے پاس ایک بڑی فکر بھی ہے، کارکنوں کا اخلاص اور عمل کی قوت بھی ہے۔ جو ایک سیاسی جماعت کی خوبیاں ہوسکتی ہیں وہ ان کے پاس ہیں، ان کا ایک بیانیہ بھی ہے، اس بیانیے کو عمل میں لانے کے لیے جدوجہد کرنے والے کارکنوں کی فوج بھی موجود ہے اور اپنی جماعت کو چلانے والا ایک فیئر ڈسپلن بھی حاضر ہے، مگر یہ سب خوبیاں رکھنے کے باوجود جماعت اسلامی پہلے دینی شناخت یا تشخص رکھنے میں کامیاب ہوئی، اس کے بعد اس میں سے یہ چیز غائب ہوگئی۔ سیاسی وجود یا شناخت کچھ حاصل ہوئی، لیکن اب سیاست سے بھی عملاًغائب ہوگئی ہے۔ اب موجودہ صورت یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی نہ کوئی دینی وقعت رہ گئی ہے، نہ سیاسی اہمیت۔ یہ گویا ایک ماڈل کی مکمل ناکامی کا ایک نمونہ ہے۔ اور تیسرا ماڈل جس کا آپ نے ذکر کیا کہ غلبہ بذریعہ طاقت برائے قیام ِخلافت، تو یہ مایوسی میں اٹھی ہے، یہ گویا احتجاج میں اٹھی ہے، یہ پچھلے دو ماڈل کی مسلسل اور مکمل ناکامی کے مشاہدے سے پیدا ہوئی ہے، اپنی ساخت میں یہ ردِعمل ہے۔ ہر زمانے میں عالم گیر سطح پر تبدیلی کا ایک میکانزم ہوتا ہے، جس کی حق اور باطل دونوں کے ترجمان کو پابندی کرنا پڑتی ہے۔ یہ جو تیسرا گروپ ہے ان کا المیہ یہ ہے کہ آج تبدیلی کا جو آفاقی آرڈر ہے یا یوں کہہ لیں کہ اجتماعیت میں انقلاب لانے کے جو لازمی وسائل ہیں‘ مسلم عسکریت پسند ان سے کسی بھی طرح کا کوئی تعلق نہیں رکھتے۔ ایک عالم گیر مزاج کی تبدیلی اور نظام کی تبدیلی سے خود کو بالکل لاتعلق رکھ کر دنیا میں تبدیلی لانے کا خواب دیکھنا گویا ناممکن کو ممکن فرض کرلینا ہے۔ جو عسکریت پسند جماعتیں یا قیامِ خلافت کے لیے پُرامن جدوجہد کرنے والی تحریکیں ہیں، یہ دونوں اپنے زمانے کی روح سے لڑ رہی ہیں اور روحِ عصر سے لڑائی کامیاب نہیں ہوتی۔ کیوںکہ جمہوریت پوری دنیا کے اجتماعی لاشعور کا عقیدہ بن چکی ہے، اب اس سے بلاوجہ کی لڑائی چھیڑ کر لوکل تبدیلی لانے کے لیے پوری دنیا کو اس کی اَساس سے ہٹانے کی کوشش کرنا ایک ناسمجھی کا کام ہے۔ یہ ایسا کام ہے کہ ذہن میں آتے ہی ناکام ہوجاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اس پر جو عمل ہو رہا ہے افسوس کہ وہ عسکریت پسندی کی شکل میں ہو رہا ہے۔ عسکریت پسندی جو ہے وہ قدیم زمانے کی بناوٹ کے مطابق تو تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی تھی لیکن جدید دنیا کی ساخت یہ ہے کہ کسی گروپ کی عسکریت پسندی سوشل یا ریاستی سطح کے چیلنج کا باعث کبھی نہیں بن سکتی اور نہ کبھی بنی ہے۔ اس لیے جو لوگ عسکریت میں ملوث نہیں مگر ان کے مقاصد سے متفق ہیں، ان کے لیے یہ ایک المیہ بھی ہے۔ دوسرا یہ ایک دہشت ناک تصور ہے کہ آپ اپنے تخیل میں کھِلے ہوئے پھول کو باہر کی زمین میں اُگانے کے لیے اس زمین میں آگ لگا رہے ہیں اور پہلے سے کھِلے ہوئے پھولوں کو پائوں تلے روند رہے ہیں۔ یہ بہت پست ذہنی اور اخلاقی کمی کی علامت ہے۔ میں خود دینی اجتماعیت کی ریاستی تشکیل میں موجودہ جمہوریت کو بعض مضبوط نظریاتی اسباب سے مضر سمجھتا ہوں۔ مشاہدہ بھی یہ ہے کہ جمہوریت جو سر سے پائوں تک اپنی تمام صورتوں میں مغرب کی تخلیق ہے، یہ جہاں بھی جاتی ہے سب سے پہلے وہاں کی دینی اور اخلاقی اقدار پر ضرب لگاتی ہے اور اپنے دائرے میں آنے والی ہر تہذیب کے ایمانی اسٹرکچرز کو شدید نقصان پہنچاتے ہوئے اُن کے اخلاقی اصول کو بھی ویسٹرنائز کر دیتی ہے۔ یعنی جمہوریت جس تہذیب میں بھی جگہ بنا لیتی ہے اُس کے اجتماعی شعور، اخلاق اور ارادے کو مؤثر حالت میں نہیں رہنے دیتی۔ جمہوریت کا یہ ضرر غالباً ہر ایک کے مشاہدے میں ہے لہٰذا اس بلا استثنیٰ مشاہدے کے باوجود ا س کو ایک اٹل سیاسی اصول اور نظام کی حیثیت دے لینا ہمارے تہذیبی امتیازات کی بنیادوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے بلکہ پہنچا چکا ہے۔ تاہم جمہوریت چو نکہ اس وقت کم از کم ایک آفاقی سیاسی قدر بن چکی ہے تو اس کے ساتھ ایسی لڑائی چھیڑ دینا جس کا انجام یقینی شکست ہو، دانش مندی نہ ہوگی۔ میرے خیال میں ہمیں حقیقت میں جس ماڈل کی ضرورت ہے وہ بنیادی طور پر تو دعوتی ہے۔ اس میں کچھ طاقتور عناصر ظاہر ہے کہ سیاسی ہوں گے۔ تو دعوت اور سیاست کو ملا کر معاشرے کو اپنی بنیادی اقدار پر ری اسٹرکچر کرنے کی کوشش کرنا ضروری بھی ہے اور ممکن بھی۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری جو غالب مذہبی قوتیں ہیں وہ ریاستی اسٹرکچر میں تبدیلی لانے میں زیادہ دل چسپی رکھتی ہیں بہ نسبت معاشرتی دروبست میں انقلاب لانے کے۔ جبکہ انسانوں میں دیرپا انقلاب کی ہر قسم، فرد سے شروع ہوتی ہے، معاشرے میں اپنے حق پر ہونے کا ثبوت فراہم کرتی ہے اور معاشرے کی تبدیلی کے نتیجے میں ریاستی نظام خود بہ خود بدلنے لگتا ہے۔ تو ہمارے یہاں معاشرے کو بدلنے کا کوئی مربوط تصور موجود نہیں ہے۔ فرد کو بدلنے کا ایک تصور ہے جسے تبلیغی جماعت بہت اچھی طرح استعمال کر رہی ہے۔ لیکن مسلم معاشرہ کسے کہتے ہیں؟ مسلم معاشرے کے قیام کو اپنا مقصد بنا کر اس کے لیے فکری اور عملی جدوجہد کرنا، اس کی تحریک چلانا… یہ دستیاب مذہبی جماعتوں کا موضوع یا مقصد نہیں ہے جو میرے خیال میں ایک بہت بڑی کمی ہے۔ اب اگر ہماری تہذیب یعنی مسلم تہذیب کی تجدید یا بقا کا کوئی بھی کام ہوگا تو وہ اپنی صورت اور معنویت میں معاشرتی ہوگا‘ سیاسی یا ریاستی نہیں ہوگا۔‘‘
میں نے سوال کیا کہ پھر تبدیلی کیسے آئے گی؟ تو انہوں نے مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’’ممکن ہے کہ دینی جماعتیں اپنے اندر بنیادی اور مؤثر تبدیلی لائیں۔ جیسے مسلم لیگ۔ جس مسلم لیگ نے پاکستان بنایا ہے، یہ پہلے جاگیرداروں کا کلب تھا، اس نے خود کو بدل کر پاکستان بنایا تھا۔ لیکن یہ ثانوی باتیں ہیں کہ یہ خود کو بدلیں یا اس کی جگہ نئی جماعت بنے، دونوں صورت میں نتائج کی امید کی جاسکتی ہے۔ اصل میں سب سے زیادہ ضروری یہ سمجھنا ہے کہ دین کس طرح کی اجتماعیت ہم سے طلب کرتا ہے۔ اس طلب کو درست انداز میں سمجھ کر اسے اپنی ذہنی اور اخلاقی قوتوں سے عمل میں لانا‘ یہ ہماری ذمے داری ہے۔ مسلم معاشرے کا اگر ایک نمونہ بھی مسلمان پیش کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو ان پر مغرب کی یلغار ہی نہیں رک جائے گی بلکہ مغرب میں اسلام پھیلنا شروع ہوجائے گا۔ کیوں کہ مغرب کو ایک روحانی معاشرے کی پیاس لگی ہوئی ہے جو وہاں کے حَساس اور ذہین طبقات محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہم روحانی بنیادوں پر ایک فلاحی اور انسانی معاشرہ بناکر دکھا دیں تو مغرب ایک بھی گولی چلائے بغیر فتح ہوسکتا ہے۔ لیکن ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم اس کو تو روتے ہیں کہ عالمِ اسلام میں کوئی حکومت اسلامی نہیں ہے، لیکن اس طرف نظر نہیں کرتے کہ عالم اسلام میں کوئی معاشرہ اسلامی ہے یا نہیں؟ ہمیں اس بات کی کسک محسوس نہیں ہوتی کہ اس وقت عالمِ اسلام میں ایک معاشرہ بھی اسلامی معاشرہ نہیں ہے حالانکہ معاشرے کی اسلامی تشکیل کا کام کم ازکم ایک قابل ِ اعتبار حد تک ریاست کی مدد کے بغیر بھی ہو سکتا ہے۔ ہمیں اسلامی معاشرے میں ڈھلنے کے لیے بہت زیادہ نظریاتی پن یا بہت زیادہ قانونی پن کی حاجت نہیں ہے۔ بندگی اور آدمیت میں، یا بالفاظ ِ دیگر دین اور فطرت میں آجانے والے فاصلے کو کم کر دینے کی اُمنگ اور قدرت سے معاشرہ اس طرح اسلام کے اجتماعی دروبست کا نمونہ بن سکتا ہے جس کی تحسین اور تعریف میںغیر مذہبی ذہن بھی بخل نہ کرے۔ ایک خاص طرح کی دست نگری والے مزاج نے ہم پر ایسا غلبہ کر رکھا ہے کہ ہم ریاست اور حکومت کو بہت زیادہ اہمیت دینے لگے ہیں اور ان پر ضرورت سے زیادہ انحصار کرنے لگے ہیں۔ حالانکہ ریاست جز ہے اور معاشرہ کُل، لیکن ہم نے ریاست اور سوسائٹی کی اس فطری نسبت کو عمل میں لانے کی کوشش نہیں کی، کوشش تو دور کی بات ہے ہمارے اندر سے وہ تصور ہی غائب ہو چکا ہے جس کے مطابق حکومت سوسائٹی کا ایک طفیلی ادارہ ہے اور حکومت و ریاست میں بھی تبدیلی معاشرتی قوت ہی سے آتی ہے۔ مختصر یہ کہ سرِدست امت ِ مسلمہ اپنے معاشرتی تنوع کے اندر کسی ایسے معاشرے سے تقریباً خالی ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اسلام ایسا معاشرہ تخلیق کرتا ہے یا ایسی معاشرت ہمارے دین کو مطلوب ہے۔ پوری اُمت اس پہلو سے ایک افلاس کا شکار ہے اور اِس کی طرف سے غیر سنجیدہ اور بے پروا بھی۔ ہم اسلام کے سفر کو ایک بہت مختصر سی فہرست کے ساتھ فرد پر روک دیتے ہیں اور خود فرد میں ایسی توسیع کا کوئی تصور یا معاشرتی بندوبست نہیں رکھتے جس کی بنیاد پر کوئی معاشرہ اپنے فطری دروبست کے ساتھ وجود میں آتا ہے۔ پڑوس یعنی ہم سائیگی جو معاشرت میں سنگِ بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے، ہمارے یہاں تو اس سنگ ِ بنیاد پر بھی اب کائی جمتی جا رہی ہے۔ ویسے باتیں ہم بہت بڑی بڑی کرتے ہیں، زبان گز بھر کی ہے لیکن دماغ اور دل کو خورد بین سے ڈھونڈنا پڑتا ہے۔ یہ غصے میں کہی ہوئی بات نہیں ہے بلکہ اسے ایک نوحہ اور واویلا سمجھیں۔

حصہ