قیصروکسریٰ قسط (46)

324

شراب کے نشے میں اُن کے پائوں لڑکھڑا رہے تھے۔ سب سے اگلے آدمی نے یوسیبیا کی گردن پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی اور وہ دونوں منہ کے بل گرپڑے۔ عاصم نے گرجتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’ٹھہرو! تم نہیں جانتے کہ تمہیں ایران کے شہنشاہ کے سامنے اس گستاخی کا جواب دینا پڑے گا۔ تم شہنشاہ کے ایک ایسے دوست کا عتاب مول لے رہے ہو جس کے اشارے پر تمہارے سرداروں کی گردنیں اڑا دی جائیں گی‘‘۔
وہ انتہائی بدحواسی کے عالم میں عاصم کی طرف دیکھنے لگے اور پیشتر اس کے کہ وہ کوئی اور اقدام کرسکتے ایرانی سپاہی جو عاصم کے پیچھے آرہے تھے انہیں اپنے گھیرے میں لے چکے تھے۔
عاصم نے آگے بڑھ کر یوسیبیا کو اٹھنے کے لیے سہارا دیا۔ اور وہ ہوش میں آتے ہی چلانے لگی۔ ’’خدا کے لیے! میری بیٹی کو بچائو۔ وہ مکان کے اندر ہے‘‘۔
عاصم پوری قوت سے مکان کی طرف بھاگا ایک کمرے سے فسطینہ کی چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ اس نے زور سے دھکا دے کر دروازہ کھولا اور ہوا کے ایک تندوتیز جھونکے کی طرح اندر داخل ہوا۔ فسطینہ ایک دیو قامت آدمی کے بازوئوں کی گرفت سے آزاد ہونے کی جدوجہد کررہی تھی۔ وہ فسطینہ کو ایک طرف دھکیل کر عاصم کی طرف متوجہ ہوا لیکن اُس کے ہاتھ خالی تھے اور ہتھیار کمرے کے دوسرے کونے میں پڑے تھے۔ عاصم اپنی تلوار پھینک کر ایک زخمی شیر کی طرح اُس پر جھپٹ پڑا۔ اُس نے مدافعت کے لیے ہاتھ اٹھائے لیکن نشے کی حالت میں اُس کی پیش نہ گئی۔ عاصم نے یکے بعد دیگرے اُس کے منہ اور گردن پر چند مکے رسید کیے وہ تیورا کر فرش پر گرا اور دوبارہ اُٹھنے کی کوشش نہ کی۔ فسطینہ ایک بچے کی طرح سسکیاں لیتی اور روتی ہوئی عاصم سے لپٹ گئی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ ’’خدا کے لیے! آپ یہاں سے نکل جائیں۔ آپ بھاگ جائیں۔ آپ کو ہمارے ساتھ نہیں آنا چاہیے تھا۔ ہمیں آپ کو بار بار خطرے میں ڈالنے کا کوئی حق نہیں۔ اگر ہمارے مقدر میں ذلت اور رسوائی ہے تو آپ ہماری کوئی مدد نہیں کرسکتے‘‘۔
عاصم نے اُسے تسلی دیتے ہوئے کہا۔ ’’نہیں فسطینہ میں بھاگنے کے لیے یہاں تک نہیں آیا۔ میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جائوں گا۔ اور تمہارے مقدر میں ذلت و رسوائی نہیں ہے‘‘۔
یوسیبیا اور ایرانی افسر کمرے میں داخل ہوئے اور فسطینہ عاصم کو چھوڑ کر اپنی ماں سے لپٹ گئی۔ ایرانی افسر نے آگے بڑھ کر نیچے پڑے ہوئے آدمی کو اچھی طرح دیکھنے بھالنے کے بعد یوسیبیا کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ’’اگر آپ کا محافظ اس معزز آدمی کو قتل کردیتا تو مسئلہ بہت خطرناک ہوجاتا‘‘۔
یوسیبیا غصے سے کانپتے ہوئی بولی۔ ’’تم اس وحشی کو ایک معزز آدمی سمجھتے ہو؟‘‘۔
ایرانی افسر نے کہا۔ ’’جناب! یہ حیرہ کے ایک معزز خاندان کا رئیس ہے اور لڑائی کے میدان میں بہت کم لوگ اس کے ہم پلہ سمجھے جاتے ہیں، آج اگر یہ شراب سے مدہوش نہ ہوتا تو اِس کی یہ حالت نہ ہوتی‘‘۔
یوسیبیا فسطینہ سے مخاطب ہوئی۔ ’’وہ لڑکی کون تھی، وہ کہاں گئی؟‘‘۔
فسطینہ نے جواب دیا۔ ’’میں اُسے اچھی طرح نہیں پہچان سکی لیکن میرا خیال ہے کہ وہ یوحنا کی بہن تھی۔ میں نے اُسے پچھلے کمرے کی طرف بھاگتے دیکھا تھا‘‘۔
یوسیبیا نے آگے بڑھ کر عقبی کمرے کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کہا۔ ’’دروازہ کھولو۔ تمہیں اب کوئی خطرہ نہیں میں تمہاری حفاظت کا ذمہ لیتی ہوں۔ میں یوسیبیا ہوں‘‘۔
ایک عورت دروازہ کھول کر باہر نکلی، اُس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرے سے وحشت برس رہی تھی۔
’’ہیلانہ!‘‘ یوسییا اور فسطینہ نے یک زبان ہو کر کہا۔ وہ چند ثانیے گردن جھکائے بے حس و حرکت کھڑی رہی۔ پھر اُس نے اچانک آگے بڑھ کر فرش پر پڑی ہوئی تلوار اٹھائی اور گرے ہوئے آدمی پر حملہ کرنے کی کوشش کی لیکن عاصم نے بھاگ کر اُس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وہ چلائی، ’’مجھے چھوڑ دو۔ خدا کے لیے! مجھے انتقام لینے دو۔ تم نہیں جانتے یہ کتنا ظالم ہے۔ اُس نے میرے شوہر کو قتل کیا ہے، اور میں کل سے…‘‘ ستم رسیدہ عورت کی آواز سسکیوں میں گم ہو کر رہ گئی اور اُس کی آنکھوں میں آنسو چھلکنے لگے۔
عاصم نے اُس کے ہاتھ سے تلوار چھین لی اور وہ اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپا کر رونے لگی۔
ایرانی افسر نے یوسیبیا سے سوال کیا۔ ’’یہ آپ کی بہن ہے‘‘۔
اُس نے جواب دیا۔ ’’یہ ہمارے ایک پڑوسی کی بیوی ہے‘‘۔
فسطینہ نے کہا۔ ’’ہیلانہ! حوصلے سے کام لو۔ اور خدا کے لیے مجھے نانا جان کے متعلق بتائو‘‘۔
’’تمہارے نانا جان یہاں نہیں ہیں‘‘۔ ہیلانہ نے اپنی سسکیاں ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔
’’وہ کہاں ہیں؟‘‘۔
’’انہیں زندہ جلادیا گیا۔ دمشق والوں کو ایک بے گناہ آدمی کی جان لینے کی سزا ملی ہے۔ میرے خاوند نے انہیں بچانے کی کوشش کی تھی لیکن وہ بے بس تھا۔ اور کل اُس وحشی نے میری آنکھوں کے سامنے آپ کے بوڑھے نوکر کا گلا گھونٹ دیا‘‘۔
یوسیبیا نے پوچھا۔ ’’میرے باپ کو زندہ جلانے والے کون تھے؟‘‘۔
’’انہیں رومی سپاہی پکڑ کر لے گئے تھے۔ اور ہمارا بشپ اور شہر کے سیکڑوں آدمیوں کا جلوس اُس کے ساتھ تھا۔ اُن پر ایرانیوں کے جاسوس ہونے کا الزام لگایا گیا تھا‘‘۔
یوسیبیا نے ڈوبتی ہوئی آواز میں کہا۔ ’’تمہیں یقین ہے کہ میرے باپ کو زندہ جلادیا گیا‘‘۔
’’ہاں! جب اُن کی چتا کو آگ لگائی گئی تھی تو میرا شوہر اور محلے کے کئی آدمی وہاں موجود تھے‘‘۔
’’اور محلے کے لوگوں نے اُن کی کوئی مدد نہ کی؟‘‘۔
’’ان کے سیکڑوں ہمدرد رو رہے تھے لیکن کلیسا کی عدالت کے فیصلے کے بعد کسی کو اُن کے خلاف دم مارنے کی جرأت نہ تھی۔ اور شہر کے عوام کی اکثریت بھی اُن کے خلاف مشتعل ہوچکی تھی‘‘۔
یوسیبیا اور فسطینہ تھیوڈوسیس کی موت کی تفصیلات پوچھ رہی تھیں اور ایرانی افسر سریانی زبان سے ناآشنا ہونے کے باعث پریشانی کی حالت میں کھڑا تھا۔ مکان کے باہر اُس کے سپاہی تین عربوں کو گھیرے میں لیے کھڑے تھے۔ ایک سپاہی کمرے میں داخل ہوا اور اُس نے اپنے افسر سے کہا۔ ’’جناب! اُن عربوں کے متعلق کیا حکم ہے۔ وہ ہمیں دھمکیاں دے رہے ہیں‘‘۔
’’انہیں پڑائو میں لے جائو، شراب کا نشہ اُترنے کے بعد اُن کا دماغ ٹھیک ہوجائے گا۔ لیکن پہلے اُن کے سردار کو یہاں سے نکالو اور کم از کم چار آدمیوں کو پہرا دینے کے لیے یہاں چھوڑ دو‘‘۔
سپاہی نے مڑ کر اپنے ساتھیوں کو آواز دی اور تین آدمی بھاگتے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے، ایرانی افسر آگے بڑھ کر عرب سردار کو جھنجھوڑنے لگا اور اُس نے ہوش میں آکر آنکھیں کھول دیں۔ ایرانی افسر کے اشارے پر سپاہیوں نے اس کے بازو پکڑ کر اُسے اٹھایا اور دروازے کی طرف کھینچنے لگے۔ اُس نے بدحواسی کی حالت میں چند قدم اٹھائے اور پھر اچانک اپنے آپ کو اُن کی گرفت سے چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ لیکن چار آدمیوں کے مقابلے میں اُس کی پیش نہ گئی اور وہ اُسے زبردستی کمرے سے باہر لے گئے۔
ایرانی افسر نے یوسیبیا سے مخاطب ہو کر کہا۔ ’’یہ عرب سخت منتقم مزاج ہوتے ہیں لیکن یہ شخص دوبارہ آپ کو پریشان نہیں کرے گا۔ تاہم موجودہ حالات میں آپ کا گھر محفوظ نہیں۔ اس لیے جب تک آپ یہاں ہیں میرے سپاہی آپ کے دروازے پر پہرا دیں گے۔ میں سپہ سالار کو آپ کے متعلق اطلاع دینے جارہا ہوں اور اگر انہوں نے اجازت دی تو میں بذاتِ خود آپ کی حفاظت کے لیے یہاں آجائوں گا۔ اگر سپہ سالار نے آپ کو کسی اور محفوظ جگہ ٹھہرانا ضروری خیال نہ کیا تو میں اِس بات کا خیال رکھوں گا کہ یہاں آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ لیکن اگر اس نوجوان کو اپنی جان عزیز ہے تو اسے مکان سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔ میرا خیال تھا کہ یہ کسی لخمی کا تمیمی دستے کا آدمی ہوگا لیکن یہ تو کوئی اجنبی معلوم ہوتا ہے‘‘۔
یوسیبیا نے جواب دیا۔ ’’اگر یہ نوجوان یروشلم سے دمشق تک ہمارا ساتھ نہ دیتا تو ہم اس وقت رومیوں کی قید میں ہوتے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر شہنشاہ ایران کی نظروں میں سین کی بیوی اور بیٹی کی کوئی قیمت ہے تو وہ اس نوجوان کو عزت کے قابل سمجھیں گے۔ تم اپنے سپہ سالار سے کہو کہ جب تک مجھے اپنے خاوند کا حال معلوم نہیں ہوتا میں یہیں رہنا پسند کروں گی‘‘۔
’’بہت اچھا! میں فی الحال چار آدمی یہاں چھوڑ کر جارہا ہوں لیکن تھوری دیر میں چند اور آدمی یہاں پہنچ جائیں گے‘‘۔ افسر یہ کہہ کر باہر نکل گیا اور یوسیبیا اور فسطینہ دونوں ہیلانہ کی طرف متوجہ ہوئیں۔
باقی سارا دن خیریت سے گزر گیا۔ سہ پہر کے قریب دمشق فتح کرنے والے لشکر کا سپہ سالار بذاتِ خود اظہار ہمدردی کے لیے سین کی بیوی کے پاس آیا۔ اور پہریداروں کو جو بیرونی دروازے کے قریب پائیں باغ میں ایک خیمہ نصب کرچکے تھے ضروری ہدایات دینے کے بعد واپس چلا گیا۔
رات کے وقت عاصم سکونتی مکان کے ایک سرے پر مہمان خانے کے ایک کمرے میں لیٹا ہوا تھا۔ لیکن تھکاوٹ کے باوجود اس کی آنکھوں میں نیند نہ تھی۔ دن بھر اُس نے ہیلانہ کی زبان سے اہل دمشق پر ایرانی لشکر کے وحشیانہ مظالم کی داستانیں سنی تھیں۔ اور اُسے یہ خوبصورت شہر اپنے وطن کے ریگ زاروں سے زیادہ وحشت ناک محسوس ہوتا تھا۔ وہاں قبائل ایک دوسرے سے برسرپیکار تھے اور یہاں سلطنتوں کا تصادم تھا۔ دمشق کی گلیوں اور بازاروں میں فاتح لشکر کے نعرے اور قہقہے اور آس پاس کے مکانوں سے مفتوح قوم کی چیخیں سنائی دے رہی تھی۔ وہ اپنے دل میں کہہ رہا تھا۔ کاش! میں وحشت اور بربریت کے اس طوفان کو روک سکتا۔ کاش! میں دمشق کے ہر گھر پر پیغام دے سکتا۔ سمیرا! تم نے کہا تھا کہ رات کے مسافر کو صبح کی روشنی کا انتظار کرنا چاہیے۔ لیکن وہ صبح کب آئے گی؟۔ کیا ان تاریک بادلوں کے آغوش سے کوئی آفتاب نمودار ہوسکتا ہے؟۔ عاصم کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہ تھا۔ اُسے انسانیت کا مستقبل اس کے ماضی اور حال سے زیادہ بھیانک نظر آتا تھا اور وہ بار بار یہ کہہ رہا تھا ’’کاش! فسطینہ کی دُنیا سمیرا کی دُنیا سے مختلف ہوتی‘‘۔ دیر تک بے چینی کی حالت میں کروٹیں بدلنے کے بعد اُس کو نیند آگئی۔ لیکن پچھلے پہر وہ ہڑبڑا کر اُٹھا۔ بیرونی دروازے کی طرف پہریداروں کا شور سنائی دے رہا تھا۔ اُس نے تلوار اُٹھائی اور ننگے پائوں باہر نکل آیا۔ پائیں باغ میں چند آدمی مشعلیں اُٹھائے مکان کا رُخ کررہے تھے۔ عاصم درختوں کی آڑ لیتا ہوا چند قدم اُس طرف بـڑھا لیکن پھر اچانک کچھ سوچ کر بھاگتا ہوا اُس کمرے کے دروازے کے سامنے کھڑا ہوگیا جہاں یوسیبیا اور اُس کی بیٹی سو رہی تھی۔ مشعلوں کی روشنی میں اُسے آٹھ دس آدمی دکھائی دے رہے تھے۔ عاصم سوچ رہا تھا۔ ’’وہ آرہے ہیں۔ پہریداروں نے اُن کا راستہ روکنے کی کوشش نہیں کی۔ شاید اُن کا افسر بھی غداری کررہا ہو۔ میں اتنے آدمیوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ اگر میں ایک بار اُن کا منہ پھیردوں تو بھی یہ معاملہ ختم نہ ہوگا۔ اگر یہ بھاگ گئے تو اور آجائیں گے اور اُن کی تعداد زیادہ ہوگی۔ فسطینہ کہتی تھی کہ اگر ہمارے مقدر ہی میں ذلت اور رسوائی ہے تو تم ہماری مدد نہیں کرسکتے۔ لیکن میں اپنی زندگی میں اُس کی ذلت و رسوائی نہیں دیکھوں گا۔ اور اس کے بعد مجھے اس بات سے کوئی سروکار نہ ہوگا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ میری آنکھیں اُسے سمیرا کی طرح مرتے ہوئے نہیں دیکھیں گی۔ وہ میری لاش روندے بغیر اُس کے کمرے میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔ لیکن کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ اگر میں انہیں تھوڑی دیر کے لیے روک سکوں تو سین کا کوئی وفادار دوست یہاں پہنچ جائے۔ آج ایرانی سپہ سالار بذاتِ خود اُن کی مزاج پُرسی کے لیے آیا تھا۔ عاصم موت کے بھیانک چہرے پر اُمید کی روشنی تلاش کررہا تھا۔ وہ مکان سے چند قدم دور رُکے ایک دراز قامت آدمی نے دوسرے کے ہاتھ سے مشعل لینے کے بعد ان سے کچھ کہا اور وہ واپس چلے گئے۔ اجنبی تیزی سے آگے بڑھا اور عاصم دروازے کی محراب کے اندر سمٹنے لگا۔ پھر اچانک اُس نے اپنی تلوار کی نوک اُس کے سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔ ’’تم آگے نہیں جاسکتے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ