فرق تو پڑتا ہے

350

کہتے ہیں جب کسی معاشرے میں بگاڑ حد سے زیادہ ہو جائے تو اسے سدھارنا عام انسان کے بس کی بات نہیں رہتی، اس کے لیے انقلاب لانا پڑتا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن صرف انقلاب کی حد تک۔ انقلاب کی ابتدا اپنی ذات سے کرنی پڑتی ہے۔ صرف یہ کہہ کر بری الذمہ ہو جانا کہ یہاں لوگ سدھرنے والے نہیں ہیں، کہاں کا انصاف ہے؟ اگر بہتری لانی ہے تو اس کے لیے ہر شخص کو کوشش کرنی ہوگی۔ ہم سب کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم معاشرے میں تبدیلی چاہتے تو ضرور ہیں لیکن اپنے آپ کو تبدیل کیے بغیر۔
ہم اپنے اوپر کوئی آنچ نہیں آنے دینا چاہتے، ہم جیسے ہیں ویسے ہی رہیں، لیکن ہمارے آس پاس کی دنیا بدل جائے۔ میں اس وقت عمر کے جس حصے میں ہوں، اس میں ویسے بھی اپنے آپ کو بدلنا اچھا نہیں لگتا لیکن جو تبدیلی اچھے کے لیے ہو، وہ یقیناً سب کی آنکھوں اور دل کو بھلی لگتی ہے۔ ملکی حالات جس قسم کے چل رہے ہیں اُن میں اگر دیکھا جائے تو سب ہی تبدیلی کی بات کر رہے ہیں، لیکن تبدیلی کہاں سے شروع ہو یہ کوئی نہیں جانتا۔
اچھائی اور برائی ناپنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہے، یہ تو اپنے اندر لگا ایک میٹر ہے جو خطرے کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہاں سے برائی کی حد شروع ہو رہی ہے۔ اب یہ آپ کے اندر کی اچھائی اور برائی ہے جو آپ کو روک دے گی یا آپ کو اور بڑھاوا دے گی۔
کسی نے لکھا ہے کہ ’’کچھ دن پہلے کا ذکر ہے ، میں صبح کی سیرکے لیے سمندر کا رخ کیا کرتا ہوں – میری یہ عادت ہے کہ کام شروع کرنے سے پہلے ساحل سمندر پر چہل قدمی کیا کرتا ہوں۔
ایک روز میں ساحل پر ٹہل رہا تھا تو مجھے کچھ دور کنارے پر ایک انسانی ہیولا کسی رقاص کی مانند حرکت کرتا دکھائی دیا۔ میں متجسس ہوا کہ یہ کون شخص ہے جو دن کا آغاز رقص سے کررہا ہے۔ یہ جاننے کے لیے میں تیز قدموں سے اس کی جانب چل پڑا۔ نزدیک پہنچا تو دیکھا کہ وہ ایک نوجوان ہے نوجوان رقص نہیں کر رہا تھا بلکہ وہ ساحل پر جھکتا، کوئی شے اٹھاتا اور پھر پھرتی سے اسے دور سمندر میں پھینک دیتا۔
میں اس نوجوان کے پاس پہنچا اور بلند آواز میں کہا ’’صبح بخیر! یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
نوجوان نے قدرے توقف کیا نظریں اٹھا کر میری جانب دیکھا اور بولا ’’ستارہ مچھلی کو سمندر میں پھینک رہا ہوں۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں‘ تم ستارہ مچھلی کو سمندر میں کیوں پھینک رہے ہو؟‘‘
’’سورج چڑھ رہا ہے اور لہریں پیچھے ہٹ رہی ہیں اگر میں نے انہیں پانی میں نہیں پھینکا تو یہ مر جائیں گی۔‘‘
لیکن نوجوان! یہ ساحل تو میلوں تک پھیلا ہوا ہے اور سارے ساحل پر ستارہ مچھلیاں بکھری ہوئی ہیں ممکن نہیں کہ تمھاری اس کوشش سے کوئی فرق پڑے۔‘‘
نوجوان نے شائستگی سے میری بات سنی ، نیچے جھک کر ایک اور ستارہ مچھلی اٹھائی اور اسے پیچھے ہٹتی ہوئی لہروں کے اندر پوری قوت سے اچھالتے ہوئے بولا ’’لیکن اس کے لیے تو فرق پڑ گیا ناں۔‘‘
ہمیں بھی اسی طرح ہر کسی کے ساتھ اچھائی کرتے رہنا چاہیے یہ سوچے بغیر کہ اس سے معاشرے پر فرق پڑے گا کہ نہیں کیوں کہ جس کے ساتھ اچھائی کی گئی اس پر تو پڑے گا ناں۔
ہمیں اندازہ نہیں ہے کہ کسی کے ساتھ کی جانے والی بظاہر چھوٹی سی نیکی اس کے لیے کیا معنی رکھتی ہے۔ اسی طرح ہم نہیں جانتے کسی کے ساتھ کی گئی چھوٹی سی برائی آگے جاکر کتنی بڑی مصیبت بن سکتی ہے۔ ہمارے چھوٹے سے ایک عمل سے کسی کی زندگی میں کتنا فرق پڑ سکتا ہے، یہ ہم بالکل نہیں جان سکتے… لیکن فرق تو پڑتا ہے۔
میں نے اپنی زندگی کے تجربو ں سے یہ سیکھا ہے کہ ہمارے ہر عمل سے دوسرے پر بہت فرق پڑتا ہے اور آپ بھی یہ تجربہ کرکے دیکھیے گا کہ کسی کے ساتھ کی جانے والی نیکی آپ کا اپنا دن کس قدر خوش گوار کر دیتی ہے، کبھی کسی کے کام آ کر دیکھیے تو پتا چلے گا کہ اس سے آپ کے لیے آگے کتنی آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔

حصہ