دنیا بند گلی میں پھنس گئی

265

اب کثیر قطبی نظام ہی دنیا کو چلا سکتا ہے

دنیا ایک بار پھر بند گلی میں ہے۔ یہ کیفیت سو‘ سوا سو سال میں پیدا ہوکر رہتی ہے۔ انیسویں صدی کے اواخر تک فطری علوم و فنون کے حوالے سے پیش رفت کی رفتار بڑھی تو دنیا بھر میں تبدیلیوں کا دور شروع ہوا۔ ان تبدیلیوں نے صرف معیشت کو بلکہ سیاست اور اسٹریٹجک معاملات کو بھی بدل کر رکھ دیا۔ بیسویں صدی کی آمد تک فطری علوم و فنون کے حوالے سے مغرب کی بالا دستی اتنی واضح ہوچکی تھی کہ دنیا پر اُس کی حکومت کا قائم ہونا کسی بھی اعتبار سے کوئی حیرت انگیز امر نہ تھا۔ یورپ نے کم و بیش تین صدیوں تک مختلف خطوں پر حکومت کی تھی اور اُس کی مادّی ترقی ایک مثال بن چکی تھی۔ یورپ نے مادّی ترقی ہی کو بنیاد بنا کر دہریت پر مبنی ایک ایسی تہذیب تشکیل دی جس کا مقصد دنیا بھر میں صرف دہریت پھیلانا تھا اور دنیا بھر کے لوگوں کو یقین دلانا تھا کہ ترقی اگر ہے تو بس یہی یعنی مادّی ترقی۔ یورپ کے لبرل اذہان نے دنیا کو سمجھانا چاہا کہ اگر ڈھنگ سے جینا ہے تو صرف مادّہ پرستی کو اپنائیے۔ موجودہ مغربی تہذیب صرف اور صرف اس نظریے کی تبلیغ کرتی ہے کہ یہ کائنات از خود معرضِ وجود میں آئی ہے یعنی اِس کا کوئی خالق نہیں۔ اس نظریے کو تسلیم کرنے کی صورت میں مذہب کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔
مغرب نے اپنی برتری منوانے کے لیے کم و بیش چار صدیوں تک بھرپور طاقت سے کام لیا ہے۔ اس دوران کئی خطوں کو پامال کیا گیا‘ متعدد ممالک کے نقشے بدل دیے گئے اور قدرتی وسائل کو جی بھر کے لُوٹا گیا۔ دنیا کو اخلاقی معیارات کی تعلیم دینے والا مغرب خود بے انتہا گناہوں کا ارتکاب کرتا آیا ہے۔ مغربی ممالک دنیا کو سکھاتے ہیں کہ پورا تولنا چاہیے، جھوٹ نہیں بولنا چاہیے، وعدہ کرکے نبھانا چاہیے وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب کچھ درست مگر جب عمل کی بات آتی ہے تو معاملات کچھ اور ہو جاتے ہیں۔ مغربی معاشروں میں اخلاقی معیارات کا بہت خیال رکھا جاتا ہے مگر مغرب کی حکومتیں جب باہر نکلتی ہیں تو سب کچھ بھول جاتی ہیں۔ جس کی گردن پتلی ہوتی ہے اُسے دبوچ لیتی ہیں۔ اپنے باشندوں کی خوش حالی یقینی بنانے والی مغربی حکومتیں دنیا بھر میں ظلم و ستم کا بازار گرم رکھتی ہیں۔
یورپ ایک بار پھر شدید بحران کی زد میں ہے۔ یہ بحران برتری قائم رکھنے کا ہے۔ یورپ اور امریکا نے مل کر کم و بیش ایک صدی تک پوری دنیا کو اپنی مٹھی میں رکھا۔ اب ایسا کرنا آسان نہیں رہا۔ یورپ اور امریکا دونوں کمزور پڑتے جارہے ہیں۔ فطری علوم و فنون میں اُن کی پیش رفت مثالی نوعیت کی رہی ہے اور اب بھی ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ باقی دنیا بھی بہت بدل گئی ہے۔ ہر خطہ ابھرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ افریقا کو پانچ صدیوں سے بھی زائد مدت تک دبوچ کر رکھا گیا اب اس خطے کے ابھرنے کا وقت آیا ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے کو بڑی طاقتوں نے غلام بناکر رکھا ہے۔ افریقا کے لوگوں کے لیے مزید غلامی سہنا ممکن نہیں۔ یہی حال مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا کا بھی ہے۔ ان خطوں کے لوگوں کو بھی ڈیڑھ دو صدی تک دبوچ کر رکھا گیا تاکہ وہ ابھر نہ سکیں اور اُن کے قدرتی وسائل کی بندر بانٹ سے اپنی خوش حالی یقینی بنائی جاسکے۔
جب تک ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ نہیں ہوا تھااُس وقت تک تو معاملات مغرب کے حق میں تھے۔ اب مغرب کے لیے کئی الجھنیں کھڑی ہیں۔ یورپ کا سب سے بڑا مسئلہ آبادی میں کمی کا ہے۔ وہاں آبادی میں اضافے کی شرح برائے نام رہ گئی ہے۔ افرادی قوت کی کمی کو دوسرے خطوں کے لوگوں سے پورا کیا جا رہا ہے۔
اس وقت یورپ جس بحران کی زد میں ہے وہ دراصل برتری کے لیے جاری کشمکش کا منطقی نتیجہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سرد جنگ کے بعد سے اب تک مغرب میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ امریکا کے لیے بھی نئی دنیا پیدا ہوئی ہے اور یورپ کے لیے بھی۔ اس نئی دنیا میں کئی ریاستیں ایسی ہیں جو منہ دینے کی پوزیشن میں ہیں۔ چین میں امریکا اور یورپ کو (معاشی اعتبار سے ہی سہی) بھرپور طور پر منہ دینے کی صلاحیت بھی ہے اور سکت بھی۔ ساتھ ہی ساتھ روس بھی ابھرا ہے۔ روس اپنے ماضی کی برتری کو بنیاد بنا کر آج کی دنیا میں اپنے لیے بہت کچھ پانا چاہتا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن روسی سلطنت کا احیا چاہتے ہیں۔ اُن کی خواہش اور کوشش ہے کہ روس کم از کم اپنے خطے میں کسی اور کو اِس قدر پنپنے نہ دے کہ وہ اسے چیلنج کرسکے۔
ایشیائی طاقتیں اپنے لیے بھی بہت کچھ چاہتی ہیں اور خطے کے لیے بھی۔ چین اور روس کے ساتھ ساتھ ترکی، ملائیشیا اور چند دوسری چھوٹی ریاستوں نے بھی خود کو مضبوط کیا ہے اور اعلیٰ معیارِ زندگی ممکن بنایا ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا حماقت کا مظہر ہوگا کہ یہ ریاستیں اپنے لیے کچھ نہیں چاہیں گی۔ ترکی بھی عالمی معاملات میں اپنی ایک حیثیت چاہتا ہے اور اُس کے ساتھ جنوبی کوریا، ملائیشیا، انڈونیشیا وغیرہ بھی بہت کچھ طلب کرتے ہیں۔ امریکا اور یورپ پر اس حوالے سے دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔
یورپ اور امریکا نے اب تک ایشیائی طاقتوں کو دبوچنے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ ایک مدت سے یہ سوال بین الاقوامی تعلقات کے حلقوں میں گردش کر رہا ہے کہ کیا ایشیا کا مستقبل مغرب کے ماضی جیسا ہوگا۔ یورپ نے جہالت کا طویل دور گزارا تھا۔ امریکا بھی ابھی ڈیڑھ سو سال پہلے تک طرح طرح کی جہالتوں میں گھرا ہوا تھا اور وہاں انسانیت سوز معاملات بھی تھے۔ غلامی کی روایت ہی کو لیجیے جو امریکا میں ڈیڑھ صدی پہلے تک نمایاں تھی اور نسلی تنافر؟ وہ تو 1960 کے عشرے تک تھا۔ اس عشرے کے اواخر تک امریکا میں ایسے بہت سے ہوٹل اور ریسٹورنٹس تھے جن میں سیاہ فام افراد کا داخلہ ممنوع تھا۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک ریسٹورنٹ میں داخل ہونے سے روکے جانے پر باکسنگ کے چیمپئن کاسز کلے (محمد علی) نے اپنا اولمپک گولڈ میڈل دریا میں پھینک دیا تھا! ایسے گھناؤنے ماضی کا حامل ہونے پر بھی امریکا دنیا کو تہذیب سکھانا چاہتا ہے!
آج پھر طاقت کی کشمکش تیز ہوگئی ہے۔ امریکا اور یورپ کو چین، روس اور دیگر ریاستوں کی بڑھتی ہوئی قوت پر پریشانی کا سامنا ہے۔ امریکا نے پچاس سال سے عرصے تک متعدد ممالک اور خطوں کو دبوچ کر رکھا۔ اب ایسا ممکن نہیں۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے کہ تجارتی محاذ پر چین میں جتنی طاقت ہے اُس سے نصف بھی امریکا میں نہیں۔ چین اب عالمی معاشی انجن کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ وہ جتنے بڑے پیمانے پر اشیاء تیار کرتا ہے وہ امریکا اور یورپ دونوں کے لیے ممکن نہیں۔ امریکا اور یورپ اس معاملے میں اُس سے مقابلہ کر ہی نہیں سکتے۔ اُن کے پاس ہائی ٹیک میں برتری اور عسکری قوت کا آپشن موجود ہے مگر یہ آپشن ہر معاملے میں کام نہیں آسکتا۔ عسکری قوت چین اور روس کی بھی کم نہیں اور دیگر چھوٹی ریاستیں بھی کسی نہ کسی حد تک منہ دینے کی سکت رکھتی ہیں۔ ایسے میں دنیا بند گلی میں پھنسی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
ایشیا کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا یورپ کے حال جیسا؟ یہ سوال اہم ہے۔ ایشیائی طاقتوں کو یورپ کے اندرونی کشمکش اور امریکا و یورپ کی کشمکش سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے اپنی جنونیت کے ذریعے دنیا کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ یورپی طاقتیں ایک دوسرے پر بھروسا کرنے کو تیار نہیں اور امریکا کے معاملے میں بھی متذبذب ہیں۔ یوکرین کے بحران نے امریکا کو بے نقاب کردیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کی حکومت کو صرف دلاسے دیے عملاً کچھ بھی کرنے سے گریز کیا۔ سیدھی سی بات ہے روس ایٹمی قوت ہے اگر امریکا آگے بڑھا تو انتہائی خطرناک صورتِ حال پیدا ہوسکتی تھی۔
روسی صدر کا استدلال بالکل درست ہے کہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے اب تک کی دنیا میں مغربی طاقتوں نے اپنے مفادات کو تقویت فراہم کی ہے۔ چین اور روس کے مفادات کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ کئی دوسری ابھرتی ہوئی ریاستوں کو بھی دبوچنے کی کوشش کی گئی۔ مشرقِِ وسطیٰ کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ ایک مرحلے پر تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید امریکا اور یورپ نے مسلم دنیا کو ختم کرنے کا سوچ لیا ہے۔ افغانستان کے بعد عراق، لیبیا، شام اور یمن کو رہنے کے قابل نہ چھوڑا گیا۔ پاکستان کے معاملات بھی تہہ و بالا کیا جاتا رہا ہے۔
سرد جنگ کے بعد کی صورتِ حال میں امریکا اور یورپ نے صرف اپنے مفادات کو مدِ نظر رکھا اور باقی دنیا کو خرابیوں کی نذر رہنے دیا۔ یہ صورتِ حال چین اور روس دونوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔ روس نے کئی بار انتباہ کیا کہ اُسے بھی عالمی امور میں وہ مقام دیا جائے جس کا وہ مستحق ہے۔ اس انتباہ کو اہمیت دینے کے بجائے امریکا نے روس کو مزید دیوار سے لگانے کا عمل جاری رکھا اور معاہدۂ شمالی بحرِ اوقیانوس کی تنظیم (نیٹو) کو مشرقی یورپ تک توسیع دینے کا عمل جاری رکھا۔ یوکرین کا معاملہ ڈیڑھ عشرے سے اٹکا ہوا تھا۔ روس نے خبردار کردیا تھا کہ یوکرین کو نیٹو کا رکن بنانے کا نتیجہ بہت بھیانک ہوگا۔ اور جب امریکا اور یورپ نے نیٹو اور یورپی یونین کی توسیع کے ارادے ترک نہ کیے تب روس کو یوکرین پر حملے کی بھرپور تحریک ملی۔ آج عالمی حلقوں میں کُھل کر یہ بات کہی جارہی ہے کہ امریکا نے ایسے حالات پیدا کیے کہ روس مشتعل ہوکر یوکرین پر حملہ کرے۔ اور یوکرین نے بھی دیکھ لیا کہ اُسے لارے لپّے دینے والے آج کہاں ہیں۔
آج بحرِ ہند کے خطے کی صورتِ حال کیا بتار رہی ہے؟ یہ کہ سلامتی کے معاملات میں نئی سوچ اپنانے کی ضرورت ہے اور یہ بھی کہ دو چار ریاستیں یا چند ریاستوں کا ایک گروہ پوری دنیا کو چلانے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ امریکا اور یورپ اب بھی باقی دنیا کو اپنی مٹھی میں رکھنے کے درپے ہیں جو کہ ممکن نہیں۔ دنیا محض مغرب کے تابع نہیں رہ سکتی۔ اس وقت ایشیائی بلاک کی بات ہو رہی ہے۔ یہ بلاک لازمی طور پر صرف عسکری قوت کا حامل ہو یہ لازم نہیں۔ چین عسکری معاملات میں پڑنے سے گریز کر رہا ہے۔ روس البتہ طاقت کے استعمال پر زیادہ یقین رکھتا ہے۔ بہر کیف، چین اور روس مل کر اگر ترکی، ملائیشیا، انڈونیشیا، جنوبی کوریا وغیرہ کو بھی ساتھ لیں تو عالمی امور میں ایشیا کی بات بھی منوائی جاسکتی ہے۔اس وقت ایک ایسے عالمی نظام کی ضرورت ہے جس میں تمام خطوں کے مفادات کو تسلیم کیا جائے اور کسی کے حق پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے۔
ایشیائی بلاک کی تیاری میں چین، روس، بھارت، پاکستان اور ترکی کو کلیدی کردار ادا کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ آسان کام نہیں۔ اور بلاک سے مراد کوئی ایسا اتحاد نہیں جو مغرب سے ٹکرائے۔ مغرب سے ٹکرانے کی صورت میں فریقین کا نقصان ہے، اور کچھ نہیں۔ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ کمزور خطوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے پر توجہ دی جائے۔ اُن کے لیے بقا کا مسئلہ کھڑا نہ ہونے دیا جائے۔ امریکا نے ہر معاملے کو طاقت کے ذریعے اپنے حق میں کرنے کی جو پالیسی اپنائی ہے وہ کسی بھی اعتبار سے قابلِ برداشت نہیں۔ اس حوالے سے وسیع البنیاد مکالمے کی ضرورت ہے۔ چین، روس، بھارت، پاکستان، ترکی اور دیگر متعلق ریاستوں کو مل کر امریکا اور یورپ سے بات کرنی چاہیے اور معاملات کو اس طور طے کرنا چاہیے کہ آگے چل کر نوبت تصادم تک نہ پہنچے۔
یہ وقت پوری دنیا پر جاں کُنی کا ہے کیونکہ بڑی طاقتوں کے درمیان معاملات رُکے ہوئے ہیں۔ بہت کچھ تھما ہوا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران دو برس میں بہت کچھ بدل گیا ہے۔ یہ وبا کیا تھی اور اِس کے حوالے سے جو کچھ کیا گیا اُس کا مقصد کیا تھا یہ تو کچھ ہی مدت میں کھل کر سامنے آ جائے گا۔ چین ایک بڑی طاقت کے طور پر ابھر کر سامنے آچکا ہے مگر امریکا اور یورپ اُس کی اس حیثیت کو پوری طرح تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ روس میں تھوڑا بہت دم خم ہے تو وہ علاقائی سطح پر بالا دستی کا قیام یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ اُس نے یوکرین پر حملہ کرکے بتادیا ہے کہ اگر اُس کے مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے اُسے گھیرنے کی کوشش کی گئی تو وہ کسی بھی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے گریز نہیں کرے گا۔ امریکی قیادت روس سے اُس کے اپنے خطے کی بالا دستی بھی چھیننے کے درپے ہے۔ ایسے میں روس کا برافروختہ ہونا اور یوکرین پر چڑھائی کردینا فطری امر معلوم ہوتا ہے۔ اگر آج چین اور روس مل کر یورپ میں گُھسنے کی کوششیں یا امریکا کی طرف بڑھیں تو؟ ظاہر ہے تصادم ہوگا۔ چین اور روس یہی بات امریکا اور یورپ کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ اب وہ پاؤں پھیلانے سے گریز کریں کیونکہ اُن کی چادر چھوٹی ہوگئی ہے۔
ایشیا کی سطح پر مفادات کا تنوع موجود ہے۔ اِسی کی بنیاد پر وابستگیاں بھی ہیں۔ ایسے میں سب کو ایک پلیٹ فارم پر لانا خاصا مشکل اور محنت طلب کام ہے۔ اس معاملے میں بھارت کی مثال واضح ہے۔ اُس نے ہمیشہ وکٹ کے چاروں طرف کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ سرد جنگ کے زمانے میں وہ سوویت بلاک سے بھی مزے لُوٹتا رہا اور دوسری طرف امریکا اور یورپ کی گود میں بیٹھا رہا۔ لطیفہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود اُس نے ناوابستہ تحریک کی بنیادی رکھی اور خود کو ہر اعتبار سے نا وابستہ ثابت کرنے کی بھرپور کوشش بھی کرتا رہا! بھارت نے ایسے کسی بھی علاقائی اتحاد کو کبھی زیادہ اہمیت نہیں دی جس میں چین اور پاکستان نمایاں ہوں۔ جنوبی ایشیائی ریاستوں کی تنظیم ’’سارک‘‘ کو ناکام کرنے میں بھی بھارت کا ہاتھ تھا۔
سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے دنیا میں صرف ایک سپر پاور تھی۔ امریکا نے واحد سپر پاور ہونے کے خوب فوائد بٹورے۔ یک قطبی دنیا اب نہیں رہی۔ آج کی دنیا میں کئی قوتیں مل کر ہی عالمی نظام چلاسکتی ہیں۔ یہ حقیقت امریکا اور یورپ کو تسلیم کرنی ہے۔ امریکا اور چین کے درمیان کشیدگی رہے گی۔ چین اور یورپی یونین کے درمیان بھی کشیدگی رہے گی۔ بھارت چین کشیدگی بھی ختم ہونے والی نہیں۔ اس کے باوجود معاشی معاملات نمٹائے جاتے رہیں گے۔ اب ہم اختلافات اور کشمکش کی حقیقت کے ساتھ جینا ہے۔
آج کی دنیا میں مل جل کر چلنے کے سوا آپشن نہیں۔ ایشیائی ممالک کے لیے کامیابی کی ایک ہی صورت بچی ہے کہ مل کر ایک پلیٹ فارم پر آئیں اور مغرب سے ڈٹ کر بات کریں۔ بلاک بنانے کے سوا اب چارہ نہیں مگر یہ بلاک الگ تھلگ رہنے کے لیے نہیں بلکہ اپنی بات ڈھنگ سے بیان کرنے کے لیے ہونا چاہیے۔ یورپی یونین کی طرز پر ایشین یونین بھی تشکیل دی جاسکتی ہے۔ یہ سب کچھ اچھے، خوش گوار ماحول میں ہونا چاہیے۔ اگر امریکا، کینیڈا، یورپ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ ایک ہوکر بات کرسکتے ہیں تو ایشیائی ممالک بھی ایک پلیٹ فارم پر آکر اپنے معاملات زیادہ بارآور انداز سے نمٹاسکتے ہیں۔ امریکا اور یورپ کو بھی یہ حقیقت اب تسلیم کرلینی چاہیے کہ ایشیا کی ابھرتی ہوئی قوتیں ناقابلِ تردید حقیقت کا درجہ رکھتی ہیں۔ ان قوتوں کو نظر انداز کرکے کوئی بھی عالمی نظام ڈھنگ سے چلانا ممکن نہیں۔ ایشیائی قوتیں ایسی زمینی حقیقتیں ہیں جنہیں کسی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ مغرب کو چین اور دیگر ایشیائی قوتوں کے ساتھ مل کر کثیر قطبی عالمی نظام یقینی بنانے پر متوجہ ہونا چاہیے۔

حصہ