تکریم

213

موبائل فون ہاتھ میں لے کر وہ سکتے کی سی کیفیت میں تھیں۔ شکیلہ انور بہت دیر تک گم سم رہنے کے بعد ایک دم ہوش و حواس کی دنیا میں واپس آئیں۔
دل خوشی سے بے قابو ہو کر پسلیوں سے نکل رہا تھا اس کی دھڑدھڑ کرتی آواز انہیں خود بھی سنائی دے رہی تھی۔
’’کیا اللہ اتنا مہربان ہو سکتا ہے وہ بھی مجھ گناہ گار پر؟‘‘ بار بار آنسو پونچھتیں ،آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتیں۔ ’’کیا اللہ نے ان کی دعا قبول کر لی ؟ اللہ نے ان پر خیر کے دروازے کھول دیے… اللہ تیرا شکر ہے…ہائے شکر کیسے ادا کروں…؟‘‘ وہ بے خود ہو کر بولیں۔
ان کی بیٹی کا زینب بتول کا کہیں رشتہ نہیں ہو رہا تھا، ڈگری بھی جان دار تھی رنگ بھی گورا، بال گھنے لمبے کھولتی تو جیسے گھٹا چھا گئی ہو۔ آنکھیں سرمئی… نظر بھر کر دیکھنا مشکل ہو جاتا لیکن قدرت نے اسے بہت چھوٹا قد دے کر تقریباً معذور لوگوں کے حلقے میں شامل نہیں بھی کیا تو وہ اپنے آپ کو معذور ہی سمجھتی تھی۔
اٹھارہ، بیس‘ بائیس کے بعد وہ پچیس کے ہندسے کو عبور کر گئی لیکن رشتے ناتے تو اوپر لکھے ہوتے ہیں یہ نہیں کہ کوئی رشتہ نہیں آیا تھا۔ بہت آئے‘ کھایا پیا اور ’’بعد میں رابطہ کریں گے‘‘ کہہ کر رخصت ہوتے رہے۔
ستائیس سال کی عمر ہو جانے پر اس نے رشتہ کروانے والیوں کے سامنے آنا ہی چھوڑ دیا حالانکہ وہ لڑکے والوں کو بتاتی تھیں کہ بچی کا قد چھوٹا ہے لیکن لڑکے والے پھر بھی آجاتے‘ چائے پانی کے بعد لڑکی کو دیکھ کر ایک آدھ فقرہ ہمدردی کی آڑ میں کہہ کر اپنی انا کو تسکین پہنچا کر چلے جاتے۔ تیس سال کی عمر ہوئی تو والدین کی آنکھوں میں امید کے ستارے بجھ گئے۔
اب وہ کسی سے بھی نہیں کہتی تھیں‘ انہیں یقین تھا کہ بیٹی کا رشتہ ہونا ہوا تو گھر بیٹھے ہی ہوجائے گا نہ ہونا ہوا تو الٹی لٹک جائیں پھر بھی نہیں ہوگا۔ ماں تھیں دل میں تو حسرت ہی نے ڈیرہ ڈال لیا جب مایوسی گہرے کالے سیاہ بادلوں جیسی ہوگئی اور بقول کسے ’’چت نہ چیتا‘‘ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ابھی جو موبائل فون پر بیپ ہو رہی یے یہ کیسی خوشیوں بھری خبر لے کر آئے گی۔
نمبر ان جانا تھا،انہوں نے بے دھیانی میں اٹھا لیا ’’ہیلو…‘‘
’’جی السلام علیکم،شکیلہ میں راحت فردوس بات کر رہی ہوں سرگودھا سے…کیسی ہو؟‘‘
ایک لمحے کے لیے وہ چوکنی ہوئیں راحت فردوس ان کی بھابھی کی امیر ترین اور نہایت‘ نفیس وضع دار قسم کی کزن تھیں‘ ایک دو مرتبہ ملاقات ہوئی تھی واقعی وہ دنگ رہ گئی تھیں۔ شخصیت کمال کی تھی تو اخلاق اس سے بھی اعلیٰ۔ جب بھی بھابھی نورانجم سے ملاقات ہوتی آنے بہانے وہ اپنی کزن راحت فردوس کا تذکرہ ضرور کرتی تھیں۔
’’وعلیکم السلام… کیسی ہیں آپ؟‘‘وہ ہکلا کر بولیں۔
ان کے ادھورے جواب پر یقینا وہ مسکرائی ہوں گی اگلا فقرہ یہ تھا کہ ’’کیا آپ کچھ دیر کے لیے فارغ ہیں ضروری کام ہے۔‘‘
’’جی کہیے…‘‘ شکیلہ فوراً بولیں۔
’’ہمیں آپ کی رانی بٹیا چاہیے اپنے بیٹے زین العابدین کے لیے۔‘‘
’’کک کیا…؟‘‘ شکیلہ کو لگا اسے شاید سننے میں غلطی ہوئی ہے۔
’’زین کی تعلیم مکمل ہو چکی ہے الحمد للہ بہت اچھی ملازمت بھی مل چکی ہے‘ کمپنی کی طرف سے اسے لاہور میں گھر اور گاڑی بھی ملی ہے تو ہم سوچ رہے ہیں کہ اکیلے کیوں رہے اس کی شادی کر کے بیوی کو ساتھ ہی بھیج دیتے ہیں۔‘‘
شکیلہ ابھی تک سکتے کے عالم میں تھی‘ اُسے سمجھ ہی نہیں آرہا تھا کہ کیا کہے۔
’’بھابھی آپ سن رہی ہیں ناں میری بات…؟‘‘ راحت نے متوجہ کیا۔
’’جی جی… میں سن رہی ہوں‘ لیکن میری بیٹی تو بہت چھوٹے قد کی ہے چار فٹ سے بھی کم۔‘‘ وہ آہستہ سے بولیں۔
’’کمال کرتی ہیں، قد آپ نے بنایا ہے یا اوپر والے نے؟ آپ شاید نہیں جانتی کہ ہمارے داماد کا رنگ بے حد کالا ہے لیکن لوگوں کی نظر میں، ہماری نظر میں اس کا دل نورِ ایمان سے منور ہے‘ وہ اتنی خوبیوں کا مالک ہے کہ دس گورے لڑکے مل بھی کر اس تک نہیں پہنچ سکتے۔ جن چیزوں پر انسان کا اختیار نہ ہو اُن کو پسند ناپسند کی فہرست سے نکال دینا چاہیے۔‘‘ انہوں نے وضاحت کی۔
شکیلہ بہ خوبی واقف تھی کہ وہ درست کہہ رہی ہیں۔ بھابھی یہ پہلے ہی بتا چکی تھیں۔
’’پھر ہم اس جمعے کی سہہ پہر آجائیں؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’اس لیے کہ دو ہفتوں بعد رمضان المبارک شروع ہو رہا ہے ہم دیکھنے کے بجائے بات پکی کرنے آئیں گے اور ان شاء اللہ چند دنوں میں ہی سادگی سے رخصتی کروالیں گے‘ ولیمہ خیر سے عید کے بعد ہوتا رہے گا۔‘‘ انہوں نے پروگرام پیش کیا۔
دو چار باتوں کے بعد فون کال کاٹ دی تو شکیلہ گم سم تقدیر کے فیصلے کے متعلق سوچنے لگیں۔ میاں اور بیٹے کو فون کر کے بلایا۔ کام والی ما سی سے کہا دو دن کے لیے بہو اور بیٹیوں کو بلوا لے۔ خوشی کے مارے اُن کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے‘ صرف تین دن… اتنے امیر کبیر مہمان… مہمان بھی بیٹی کے رشتے کے لیے… جو بھی کروں کم ہے۔
کبھی جالے اتروانے شروع کر دیتیں‘ کبھی فرش کی رگڑائی‘ کبھی گیٹ صاف کرنے کا کہتیں‘ کبھی کھڑکیوں کے شیشے گندے نظر آتے‘ کبھی قالین صاف کروانے کا بولتیں تو کبھی باورچی خانے پر نظر ڈالتیں۔ وہ صفائی طلب نظروں سے دیکھ رہی ہوتیں… لانکے پودے بے ترتیب نظر آتے تو واش روم کے فلش اور کموڈ پر کائی نظر آرہی ہوتی۔ سب کی دوڑیں لگوا رہی تھیں اور خود بھی کافی متحرک تھیں۔ سارا کام تیزی سے کیا جا رہا تھا۔ تقریب کے لیے مینو سوچا جا چکا تھا، کیٹرنگ والوں سے سب ڈیل کر لی گئی تھی لیکن ان کا دل اُڑا جارہا تھا ہائے کتنے کام باقی ہیں اور درمیان میں صرف ایک دن۔ سستانے کے لیے کمر بستر سے لگائی تھی کہ سہیلی کا فون آگیا۔
’’کہاں ہو کوئی اتا پتا ہی نہیں۔‘‘
’’بہت اچھی خبر ہے‘ ہمارا دورۂ قرآن ان شاء اللہ شروع ہورہا ہے‘ استقبال رمضان کے پروگرام کا دعوت نامہ بھیج رہی ہوں، رمضان اللہ کا مہمان، ذرا تیاری پکڑ لو بڑا زبردست پروگرام ہے غزالہ باجی کا روح کے جالے اور دل کی صفائی ستھرائی خوب کرتی ہیں۔‘‘
شکیلہ پھر گم سم ہو گئی کچھ بولنے کے قابل ہی نہ رہی۔
’’اللہ کا مہمان… مہمان…‘‘ پھنسی پھنسی آواز میں کہا اور لمبی سانس کھینچ کر باہر نکالی۔ دل کی صفائی نہ کوئی مینو ترتیب دیا۔ نہ معافی تلافی نہ روزوں کا سوچا۔ رمضان اللہ کا مہمان… سوچا ہی نہیں۔ اس کی کیسے ضیافت کرنی ہے، رمضان اللہ کا مہمان۔ لب تھرتھرا رہے تھے اور بے آواز آنسو اس کی غفلت پر خاموشی سے ماتم کر رہے تھے۔

حصہ