کیا خودکشی طلاق سے بہتر ہے؟

309

کم عمری میں ہی شوہر سے علیحدگی کے تلخ تجربے سے گزرنے والی ماہر نفسیات علینہ ارشد کہتی ہیں کبھی بھی عورت یہ نہیں چاہتی‘ اسے یہ فیصلہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ خاموش ہو جاتی ہے کیوں کہ مستقبل کے بارے میں سوچتے ہوئے اگر وہ یہ فیصلہ کرے تو کبھی بھی یہ فیصلہ نہیں کرے گی اگر اتنی ہمت کرتی ہے تو ہمارے معاشرے کو چاہیے کہ اس خاتون کو سپورٹ کریں تاکہ وہ آنے والے وقت میں ایک بہتر مستقبل اور بہترین قوم کو تشکیل دے سکے۔
ہمارا معاشرہ مرد کا معاشرہ ہے تو اس معاشرے میں عورت کو اپنا مقام ڈھونڈنے کے لیے بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اگر ایک عورت اپنے لیے کچھ کرتی ہے تو مردوں کے معاشرے میں ہمیں لگتا ہے کہ نہیں عورت تو کمزور ہے وہ اتنی بہادر کیسے ہو گئی ہے‘ تو پھر پورا معاشرہ مل کر جستجو میں لگ جاتا ہے۔ دوسری چیز یہ کہ مردوں کی سوسائٹی ایک الگ چیز ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ عورت ہی عورت کی سب سے بڑی دشمن ہوتی ہے تو عورت ہی دوسری عورت کا جینا زیادہ حرام کرتی ہے پھر چاہے وہ نند ہو‘ ساس ہو یاخاتون افسر‘ آپ کی کولیگ ہو یا کوئی بھی ہو۔ ہم ہمیشہ مقابلے میں دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ایک دوسرے کا جینا حرام کر رہے ہوتے ہیں۔
ہم نے طلاق اور خلع کو ایسا موضوع بنا دیا ہے کہ جس پر طلاق یا خلع یافتہ لڑکیاں بات بھی نہیں کرنا چاہتیں۔ مجھے لگتا ہے زندگی اتنی مشکل نہیں ہے جتنی ہم نے بنادی ہے۔ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کی بات کریں تو آپؐ نے کہا کہ اگر تم لوگوں کی نہیں نبھ رہی تو آپس میں بات چیت کر کے الگ راستہ اختیار کر سکتے ہیں لیکن اگر موجودہ معاشرے کی بات کریں تو ہماری سوسائٹی کا اتنا پریشر ہوتا ہے کہ آدھی سے زیادہ لڑکیاں اس دبائو میں آکر اپنے شوہر کو نہیں چھوڑ پاتی کہ اس کے بعد ان کی زندگی کا وجود نہیں رہے گا‘ لوگ ہمیں تنقیدی نگاہ سے دیکھیں گے اور پھر زندگی اس کے بعد ختم ہو جائے گی۔ جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔
معاشرتی رویے بہت تکیلف دیتے ہیں‘ مثال کے طور پر اکثر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا افسوس تمہیں طلاق ہوگئی ہے‘ تمہاری عمر کم ہے‘ تم نے تو ابھی دیکھا ہی کیا ہے‘ تمہاری پوری زندگی پڑی ہے اتنا لمبا سفر ہے تمہاری شادی کیسے ہوگی؟ کون تم سے شادی کرے گا؟ اس طرح کے سوالات تھے جس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ خلع لے کر مجھ سے نہ جانے کون سا ایسا گناہ ہوگیا جس کی میں سزا کاٹ رہی ہی ہوں۔
والدین نے سہارا دیا‘ میری فیملی نے بہت سہارا دیا الحمدللہ چھوڑا کسی نے بھی نہیں کیوں کہ سب کو معلوم تھا کہ کیا ہوا ہے اور کس طرح ہوا ہے اور کس کی غلطی تھی۔ پہلے اور موجودہ زندگی میں مجھے موجودہ زندگی بہتر لگتی ہے کیوں کہ میں نے حالات سے گھبرا کر ڈپریشن میں جانے والی فیز کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ایک وقت آیا تھا کچھ عرصے کے لیے‘لیکن اللہ نے ہمت اور حوصلہ دیا کہ اس سے نکلنے کی کوشش کی۔ اللہ آپ سے اگر کوئی ایک چیز لیتا ہے تو اس کے بدلے میں آپ کو بہتر چیز دیتا ہے‘ اللہ نے مجھے اتنی کامیابیاں دی ہیں کہ اس کا شکر ادا نہیں کرسکتی۔مجھے اپنے فیصلے پر کبھی پچھتاوا نہیں ہوا اور نہ ہی ان شاء اللہ ایسا وقت آئے گا کہ مجھے اس پر پچھتانا پڑے۔ بہت سے مسائل ہیں جو خاتون کو یہ فیصلہ لینے سے روکتے ہیں جس میں سب سے پہلے ہماری سوسائٹی کا پریشر ہے‘ والدین کا پریشر بھی ہوتا ہے خاص طور پر جب بچے ہوں تو بچوں کا پریشر بہت ہوتا ہے کہ ان کا کیا ہوگا؟ ان کے مستقبل کا کیا ہوگا؟
انسان سوچتا ہے کہ والدین نے اسے مشکل سے بیاہیا ہے اور جب وہ یہ سنیں گے تو اُن پر کیا گزرے گی‘ وہ یہ صدمہ برداشت کر پائیں گے یا نہیں۔ میرے اس فیصلے کا میرے چھوٹے بہن بھائیوں کی زندگی پر کیا اثر ہوگا‘ میرے خاندان والے مجھے کیا سمجھیں گے؟ میرے گھر والوں کو اور میرے والدین کو کیا سمجھیں گے؟ تو یہ بہت سے عوامل ہوتے ہیں جو مجھے لگتا ہے کہ ایک خاتون کو اتنا بڑا قدم اٹھانے سے روکنے پر مجبور کرتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں دوسری شادی اس لیے معیوب سمجھی جاتی ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ اگر لڑکی نے خلع لی ہے تو بس پھر وہ کوئی پہنچی ہوئی چیز تھی‘ وہ تو اپنے آپ کو پتا نہیں کیا سمجھتی تھی کہ اس نے لڑکے کو دبا کے رکھنا چاہا وہ نہیں دبا تو بس پھر اس نے سوچا کہ میں خلع لے لیتی ہوں۔ اور اگر لڑکی کو طلاق ہو جائے تو پھر بھی لڑکی غلط ہوتی ہے یا تو اس کے کردار میں نقص نکل آتے ہیں یا اور بہت ساری خامیاں ہیں‘ ہمیں لگتا ہے کہ ہر حال میں غلطی عورت کی ہوتی ہے کیوں کہ عورت جو ہے وہی گھر بنا سکتی ہے اور عورت چاہے تو وہی گھر توڑ سکتی ہے۔ پھر اگر وہ عورت دوسری شادی کرلے تو کہا جاتا ہے اسے تو کرنی ہی دوسری شادی تھی‘ اس کو کوئی اور پسند تھا اسی لیے اس نے پہلے شوہر کو چھوڑ دیا۔ اس طرح کی باتیں ہمیں سننے کو ملتی ہیں۔
خاتون کی کامیابی کی لیے شادی شدہ ہونا مجھے نہیں لگتا ضروری ہے۔ کہا جاتا ہے مرد کی کامیابی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ عورت کی کامیابی کے پیچھے بھی ایک مرد کا ہاتھ ہوتا ہے وہ مرد اس کا بھائی بھی ہو سکتا ہے وہ مرد اس کا شوہر بھی ہو سکتا ہے اور وہ مرد اس کا باپ بھی ہو سکتا ہے۔
بطور ماہر نفسیات میں دیکھتی ہوں تو ہمارے ہاں سب سے بڑا مسئلہ ہے طاقت کے اظہار کا کہ ہمیں لگتا ہے کہ مرد اپنی طاقت کا اظہار بہتر کر سکتا ہے عورت کے پاس چونکہ طاقت نہیں ہوتی اس لیے وہ زیادہ مضبوط نہیں ہوتی۔ ایک بین الاقوامی ادارے میں اعلیٰ عہدے پر فائز بشریٰ کہتی ہیں جب بھی کوئی عورت اس طرح کا قدم اٹھاتی ہے تو اس پر بہت زیادہ معاشرتی طور پر دباؤ آتا ہے۔
میرے لیے سنبھلنا آسان تھا کیوں کہ میں مضبوط عورت تھی اور ملازمت کر رہی تھی‘ مجھے معاشی مسائل کا سامنا نہیں تھا مجھے دوسروں سے مانگنا پڑتا یا مجھے گھر کے اندر بالکل قید ہو کر بیٹھنا پڑتا اور اپنے ارد گرد لوگوں کے سوالوں کے جوابات دینے پڑتے ہیں میں ایک آزادانہ زندگی گزار رہی تھی اس لیے میرے لیے اتنی زیادہ مشکلات نہیں ہوئی اور کورٹ کچہری کے بھی زیادہ چکر نہیں لگانے پڑے۔ معاشرتی رویوں کا سامنا اس طرح سے کیا کہ کسی شادی یا دیگر تقریبات میں نہیں جاتی تھی۔ اپنی مصروفیات کا بہانہ کر دیتی تھی کیونکہ مجھے پتا تھا کہ ہمارے لوگوں کی کیا سوچ ہے اور بہت عرصے تک بتایا ہی نہیں فیملی میں اس لیے کسی کو پتا ہی نہیں تھا کہ میں عدت گزار رہی ہوں اس لیے کسی نے زیادہ سوال ہی نہیں کیا اس کے بعد ملازمت شروع کر دی تو پھر بہت عرصے کے بعد لوگوں کو پتا چلا اور تب تک میں معاشی طور پر اپنے آپ کو مستحکم کرچکی تھی اس وجہ سے مجھے بہت زیادہ پریشانیوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
شادی کے تقریباً پانچ سال کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ بس اب اس چیز کو آگے نہیں کرنا چاہیے۔
چھوٹے شہر سے بڑے شہر میں چلی گئی جہاں میں نے ملازمت شروع کی اور خلع کا پراسیس شروع کیا۔ سہارا کسی بھی رشتے نے نہیں دیا جب دیکھا کہ یہ خود مضبوط ہے تو سب بھی ٹھیک ہو گئے‘ مجھے اپنا سہارا خود ہی بننا پڑا۔ ماشاء اللہ موجودہ زندگی بہتر اور بہت اچھی ہے‘ اپنے فیصلے پر کبھی پچھتاوا نہیں ہوا۔
مجھے معلوم تھا کہ میری زندگی شادی نہیں بلکہ معاشی خود مختاری بچا سکتی ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کہ شادی یا کسی مرد کا آپ کے ساتھ ہونا آپ کی کامیابی کی ضمانت نہیں۔
طلاق و خلع یافتہ عورت کو بھی جینے کا حق دیں۔ والدین بیٹیوں کو ڈولی میں بٹھاتے وقت جنازے میں واپس آنے کی تلقین کرنا چھوڑ دیں۔
مردہ سے طلاق یافتہ بیٹی بہتر ہوتی ہے والدین اپنی اولادوں کو یہ حوصلہ دیں کہ وہ اپنی تکلیف آپ کے سامنے بیان کرسکیں کیوں کہ معاشرے میں اب بھی ایسی کئی خواتین موجود ہیں جو مسائل کے باوجود اپنے دکھ نہیں بتا سکتیں۔

حصہ