شعرو شاعری

336

مومن خاں مومن
اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا
بے وفا کہنے کی شکایت ہے
تو بھی وعدہ وفا نہیں ہوتا
ذکرِ اغیار سے ہوا معلوم
حرف ناصح برا نہیں ہوتا
کس کو ہے ذوقِ تلخ کامی لیک
جنگ بن کچھ مزا نہیں ہوتا
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا
اس نے کیا جانے کیا کیا لے کر
دل کسی کام کا نہیں ہوتا
امتحاں کیجئے مرا جب تک
شوق زور آزما نہیں ہوتا
ایک دشمن کہ چرخ ہے نہ رہے
تجھ سے یہ اے دعا نہیں ہوتا
آہ طولِ امل ہے روز فزوں
گرچہ اک مدعا نہیں ہوتا
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا
حالِ دل یار کو لکھوں کیوں کر
ہاتھ دل سے جدا نہیں ہوتا
رحم کر خصم جان غیر نہ ہو
سب کا دل ایک سا نہیں ہوتا
دامن اس کا جو ہے دراز تو ہو
دستِ عاشق رسا نہیں ہوتا
چارۂ دل سوائے صبر نہیں
سو تمہارے سوا نہیں ہوتا
کیوں سنے عرضِ مضطرب مومنؔ
صنم آخر خدا نہیں ہوتا

میراجی
نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا
کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا
کیا بھولا کیسے بھولا کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو
کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا
کیسے دن تھے کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں
من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا
اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی
دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ بھول گیا
یاد کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی
دکھ میں سکھ ہے سکھ میں دکھ ہے بھید یہ نیارا بھول گیا
ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی
ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا
سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ
لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا

معین احسن جذبی
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہشِ دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبیؔ ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے

منیر نیازی
اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو
اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو
یہ اجنبی سی منزلیں اور رفتگاں کی یاد
تنہائیوں کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو
لائی ہے اب اڑا کے گئے موسموں کی باس
برکھا کی رت کا قہر ہے اور ہم ہیں دوستو
پھرتے ہیں مثلِ موج ہوا شہر شہر میں
آوارگی کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو
شام الم ڈھلی تو چلی درد کی ہوا
راتوں کا پچھلا پہر ہے اور ہم ہیں دوستو
آنکھوں میں اڑ رہی ہے لٹی محفلوں کی دھول
عبرت سرائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو

محسنؔ بھوپالی
چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری
لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری
میں نے دل کی بات رکھی اور تو نے دنیا والوں کی
میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری
روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی مجبوری
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہر بلب
جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری
اک آوارہ بادل سے کیوں میں نے سایہ مانگا تھا
میری بھی یہ نادانی تھی اس کی بھی تھی مجبوری
مدت گزری اک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسنؔ
ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری

مصطفی زیدی
کسی اور غم میں اتنی خلشِ نہاں نہیں ہے
غمِ دل مرے رفیقو غمِ رائگاں نہیں ہے
کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے
فقط ایک دل تھا اب تک سو وہ مہرباں نہیں ہے
مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو
مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے
کسی زلف کو صدا دو کسی آنکھ کو پکارو
بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے
انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ
مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے

محسن نقوی
اجڑے ہوئے لوگوں سے گریزاں نہ ہوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر
کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر
اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہوں گے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آ کر
ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کر دے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر
وہ آج بھی صدیوں کی مسافت پہ کھڑا ہے
ڈھونڈا تھا جسے وقت کی دیوار گرا کر
اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقۂ یاراں میں بھی محتاط رہا کر
اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسنؔ
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بجھا کر

مرتضیٰ برلاس
آنکھ برسی ہے ترے نام پہ ساون کی طرح
جسم سلگا ہے تری یاد میں ایندھن کی طرح
لوریاں دی ہیں کسی قرب کی خواہش نے مجھے
کچھ جوانی کے بھی دن گزرے ہیں بچپن کی طرح
اس بلندی سے مجھے تو نے نوازا کیوں تھا
گر کے میں ٹوٹ گیا کانچ کے برتن کی طرح
مجھ سے ملتے ہوئے یہ بات تو سوچی ہوتی
میں ترے دل میں سما جاؤں گا دھڑکن کی طرح
اب زلیخا کو نہ بد نام کرے گا کوئی
اس کا دامن بھی دریدہ مرے دامن کی طرح
منتظر ہے کسی مخصوص سی آہٹ کے لیے
زندگی بیٹھی ہے دہلیز پہ برہن کی طرح

میر تقی میر
فقیرانہ آئے صدا کر چلے
کہ میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو اب وفا کر چلے
شفا اپنی تقدیر ہی میں نہ تھی
کہ مقدور تک تو دوا کر چلے
پڑے ایسے اسباب پایان کار
کہ ناچار یوں جی جلا کر چلے
وہ کیا چیز ہے آہ جس کے لیے
ہر اک چیز سے دل اٹھا کر چلے
کوئی ناامیدانہ کرتے نگاہ
سو تم ہم سے منہ بھی چھپا کر چلے
بہت آرزو تھی گلی کی تری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے
دکھائی دیئے یوں کہ بے خود کیا
ہمیں آپ سے بھی جدا کر چلے
جبیں سجدہ کرتے ہی کرتے گئی
حق بندگی ہم ادا کر چلے
پرستش کی یاں تک کہ اے بت تجھے
نظر میں سبھوں کی خدا کر چلے
جھڑے پھول جس رنگ گلبن سے یوں
چمن میں جہاں کے ہم آ کر چلے
نہ دیکھا غم دوستاں شکر ہے
ہمیں داغ اپنا دکھا کر چلے
گئی عمر در بند فکر غزل
سو اس فن کو ایسا بڑا کر چلے
کہیں کیا جو پوچھے کوئی ہم سے میرؔ
جہاں میں تم آئے تھے کیا کر چلے

حصہ