شعرو شاعری

315

فیض احمد فیض
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے
اک فرصتِ گناہ ملی وہ بھی چار دن
دیکھے ہیں ہم نے حوصلے پروردگار کے
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دل فریب ہیں غم روزگار کے
بھولے سے مسکرا تو دیے تھے وہ آج فیضؔ
مت پوچھ ولولے دل ناکردہ کار کے

قمر جلالوی
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہو گئی زمانے کو
دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے
کہیں جگہ نہ رہی میرے آشیانے کو
مری لحد پہ پتنگوں کا خون ہوتا ہے
حضور شمع نہ لایا کریں جلانے کو
سنا ہے غیر کی محفل میں تم نہ جاؤ گے
کہو تو آج سجا لوں غریب خانے کو
دبا کے قبر میں سب چل دیئے دعا نہ سلام
ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو
اب آگے اس میں تمہارا بھی نام آئے گا
جو حکم ہو تو یہیں چھوڑ دوں فسانے کو
قمرؔ ذرا بھی نہیں تم کو خوفِ رسوائی
چلے ہو چاندنی شب میں انہیں بلانے کو

قابل اجمیری
نئے چراغ لیے شامِ بے کسی آئی
کہ دل بجھا تو ستاروں میں روشنی آئی
جنونِ شوق نے پہنچا دیا کہاں مجھ کو
نگاہِ دوست بھی اکثر تھکی تھکی آئی
ہمارے پاس کہاں آنسوؤں کی سوغاتیں
کسی کو اپنا بنا کے بڑی ہنسی آئی
جہانِ دار و رسن ہو کہ بزمِ شعر و ادب
ہمارے سامنے اپنی ہی زندگی آئی
تمہاری یاد کو آرام ِ جاں بنایا تھا
تمھاری یاد بھی لیکن کبھی کبھی آئی
ہزار رنگ دیئے جس نے زندگانی کو
اسی نظر سے محبت میں سادگی آئی
مِرے خلوص کا عالم نہ پوچھئے قابلؔ
شکستِ جام سے آوازِ زندگی آئی

قتیل شفائی
اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں سجا لے مجھ کو
میں ہوں تیرا تو نصیب اپنا بنا لے مجھ کو
میں جو کانٹا ہوں تو چل مجھ سے بچا کر دامن
میں ہوں گر پھول تو جوڑے میں سجا لے مجھ کو
ترکِ الفت کی قسم بھی کوئی ہوتی ہے قسم
تو کبھی یاد تو کر بھولنے والے مجھ کو
مجھ سے تو پوچھنے آیا ہے وفا کے معنی
یہ تری سادہ دلی مار نہ ڈالے مجھ کو
میں سمندر بھی ہوں موتی بھی ہوں غوطہ زن بھی
کوئی بھی نام مرا لے کے بلا لے مجھ کو
تو نے دیکھا نہیں آئینے سے آگے کچھ بھی
خود پرستی میں کہیں تو نہ گنوا لے مجھ کو
باندھ کر سنگِ وفا کر دیا تو نے غرقاب
کون ایسا ہے جو اب ڈھونڈ نکالے مجھ کو
خود کو میں بانٹ نہ ڈالوں کہیں دامن دامن
کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو
میں کھلے در کے کسی گھر کا ہوں ساماں پیارے
تو دبے پاؤں کبھی آ کے چرا لے مجھ کو
کل کی بات اور ہے میں اب سا رہوں یا نہ رہوں
جتنا جی چاہے ترا آج ستا لے مجھ کو
بادہ پھر بادہ ہے میں زہر بھی پی جاؤں قتیلؔ
شرط یہ ہے کوئی بانہوں میں سنبھالے مجھ کو

مجید امجد
دل سے ہر گزری بات گزری ہے
کس قیامت کی رات گزری ہے
چاندنی نیم وا دریچہ سکوت
آنکھوں آنکھوں میں رات گزری ہے
ہائے وہ لوگ خوب صورت لوگ
جن کی دھن میں حیات گزری ہے
تمتماتا ہے چہرۂ ایام
دل پہ کیا واردات گزری ہے
کسی بھٹکے ہوئے خیال کی موج
کتنی یادوں کے سات گزری ہے
پھر کوئی آس لڑکھڑائی ہے
کہ نسیمِ حیات گزری ہے
بجھتے جاتے ہیں دکھتی پلکوں پہ دیپ
نیند آئی ہے رات گزری ہے

محسن احسان
شاخِ مژگان محبت پہ سجا لے مجھ کو
برگ آوارہ ہوں صرصر سے بچا لے مجھ کو
رات بھر چاند کی ٹھنڈک میں سلگتا ہے بدن
کوئی تنہائی کے دوزخ سے نکالے مجھ کو
دور رہ کے بھی ہے ہر سانس میں خوشبو تیری
میں مہک جاؤں جو تو پاس بلا لے مجھ کو
میں تری آنکھ سے ڈھلکا ہوا اک آنسو ہوں
تو اگر چاہے بکھرنے سے بچا لے مجھ کو
شب غنیمت تھی کہ یہ زخم نظارہ تو نہ تھا
ڈس گئے صبحِ تمنا کے اجالے مجھ کو
میں منقش ہوں تری روح کی دیواروں پر
تو مٹا سکتا نہیں بھولنے والے مجھ کو
صبح سے شام ہوئی روٹھا ہوا بیٹھا ہوں
کوئی ایسا نہیں آ کر جو منا لے مجھ کو
تہہ بہ تہہ موجِ طلب کھینچ رہی ہے محسنؔ
کوئی گردابِ تمنا سے نکالے مجھ کو

کشور ناہید
حسرت ہے تجھے سامنے بیٹھے کبھی دیکھوں
میں تجھ سے مخاطب ہوں ترا حال بھی پوچھوں
دل میں ہے ملاقات کی خواہش کی دبی آگ
مہندی لگے ہاتھوں کو چھپا کر کہاں رکھوں
جس نام سے تو نے مجھے بچپن سے پکارا
اک عمر گزرنے پہ بھی وہ نام نہ بھولوں
تو اشک ہی بن کے مری آنکھوں میں سما جا
میں آئینہ دیکھوں تو ترا عکس بھی دیکھوں
پوچھوں کبھی غنچوں سے ستاروں سے ہوا سے
تجھ سے ہی مگر آ کے ترا نام نہ پوچھوں
جو شخص کہ ہے خواب میں آنے سے بھی خائف
آئینۂ دل میں اسے موجود ہی دیکھوں
اے میری تمنا کے ستارے تو کہاں ہے
تو آئے تو یہ جسمِ شبِ غم کو نہ سونپوں

حصہ