روس کے برطانیہ پر کامیاب سائبر حملے

314

روس اور یوکرین کے درمیان تاحال جنگ جاری ہےٗ گوکہ یورپ براہ راست اس جنگ میں شریک نہیں لیکن کم از کم برطانوی میڈیا کے محاذ پر جنگ جاری ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ جب اخبار کے صفحہ اول پر جنگ کی خبر نہ ہو بیشتر اخبارات کا یہی حال ہے۔ ادھر الیکٹرانک و ڈیجیٹل میڈیا پر بھی جنگ کی لمحہ بہ لمحہ کوریج دی جارہی ہے گذشتہ ہفتے روس نے پولینڈ کی سرحد سے متصل یوکرین میں واقع نیٹو کے ایک ٹریننگ کیمپ پر میزائل حملہ کیا تھا کہ جس میں لاتعداد افراد کی ہلاکت کی اطلاعات تھیں لیکن باقاعدہ کسی سرکاری ذرائع سے اس کی تصدیق نہ ہوسکی۔ نیٹو کا یہ کہنا تھا کہ یہ تربیتی مرکز فروری 2022 سے غیر فعال تھا تاہم یہاں پر امریکی و برطانوی فوجی بھی مشقوں میں حصہ لینے کے لیے اس سے قبل موجود تھے۔
روس نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کیمپ میں یورپ سے آنے والی رسد فوجی و عسکری امداد موجود تھی اور اس کیمپ کو یوکرین میں روسی افواج کے خلاف جنگ کے لیے استعمال کیا جارہا تھا۔روس نے مزید دعویٰ کیا کہ اس کیمپ میں برطانیہ سمیت کئی ممالک کے جنگجو موجود تھے اور یہ کیمپ اس مہم کا لانچنگ پوائنٹ تھا۔ 15 مارچ 2022 کے ڈیلی مرر ( برطانوی اخبار ) نے اس حملے میں تین برطانوی شہریوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔ ادھر دوسری جانب برطانوی افواج اور وزارت دفاع نے بھی اس سے قبل خدشہ ظاہر کیا تھا کہ کچھ فوجی انفرادی طور پر یوکرین کی جنگ میں شرکت کے لیے گئے ہیں جن کے خلاف ضابطے کی کاروائی کی جائے گی۔ اس تمام پس منظر کا مقصد یہ تھا کہ اس جانب توجہ دلائی جائے کہ جنگ کیسے میڈیا کے محاذ سے لے کر ذاتی ابلاغ، و اطلاعات کے میدان تک جارہی ہے۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل نے 19 مارچ 2022 کی اشاعت میں دعویٰ کیا ہے کہ روس نے نیٹو کے کیمپ پر حملہ موبائل فون ڈیٹا کو ہیک کرکے کیا گیا ہے۔ رپوٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ روسی جاسوسوں نے برطانیہ کی حساس عسکری تنصیبات جس میں اسپشل بوٹ سروس کا ہیڈ کوارٹر اور اسپیشل ایئر سروسز کے دفاتر کا دورہ کیا جہاں سے انہوں نے اسکینگ ٹیکنالوجی کی مدد سے وہاں موجود موبائل فونز کا ڈیٹا حاصل کیا۔ روسی نے the hand shake نام کا جدید سوفٹ ویئر بنایا ہے جوکہ موبائل فونز ڈیٹا کے نیٹ ورک کو ہیک کرتے ہیں۔ روس نے اس سوفٹ ویئر کی مدد سے یوکرین کے موبائل نیٹ ورک سے برطانوی موبائل فونز کے آپریٹ ہونے پر میزائل حملہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ ان موبائل فونز کے ڈیٹا کو روسی سوفٹ ویئر نے اسکین کیا تھا۔ جس کے بعد برطانوی فوجیوں کی کیمپ میں موجودگی کی تصدیق ہونے کے بعد یہ حملہ کیا گیا۔ اس حملے کے بعد برطانوی افواج کو متنبہ کیا گیا اور ان کو ایسے موبائل فونز کے استعمال سے روک دیا گیا جوکہ کسی بھی فوجی بیس میں زیر استعمال تھے ہیں۔ اس کا مقصد ایسے موبائل فونز کو ہیک کرکے مزید ڈیٹا حاصل کرنے سے روکنا تھا۔
سابق برطانوی انٹیلی جنس افسر نے انکشاف کیا ہے کہ روس کے پاس ایسی ٹیکنالوجی موجود ہے کہ جس میں وہ موبائل نیٹ ورک اور موبائل فون کے ڈیٹا کا موازنہ کرسکتا ہے۔ جبکہ جدید موبائل فونز میں موجود لوکیشن کی مدد سے کسی بھی ہدف کو باآسانی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔
اس حملے کے بعد برطانوی افواج میں ریڈ الرٹ جاری کردیا گیا ہے اور برطانوی افواج میں کسی بھی قسم کی معلومات کے تبادلے کے لیے واٹس اپ کو مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔ برطانوی وزارت دفاع کے ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اس کا اطلاق ہر ایک فوجی پر ہوگا اور خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف ضابطے کی کارروائی کی جائے گی۔ اس بات کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ واٹس اپ کو روس ہیک کرسکتا ہے اور نیٹو فوجی کیمپ یوکرین پر روسی حملے کے بعد برطانوی افواج سائبر اسپیس میں انتہائی حساس ہوچکی ہیں۔ ادھر واٹس اپ کی انتظامیہ نے واٹس اپ کو ہیک کرنے یا اس سے ڈیٹا حاصل کرنے کو خارج از امکان قرار دیا ہے۔ برطانیہ افواج کے لیے اب باضابطہ طور پر ’’سگنل‘‘ نام کی سروس کو واٹس اپ کے متبادل کے طور پر استعمال کرنے کا کہا گیا ہے یہ سروس برطانیہ خفیہ ادارے ایم آئی 6 کی جانب محفوظ کہی جارہی ہے۔
اس سے قبل بھی روس پر یوکرین کے حملے سے قبل برطانوی سائبر سیکورٹی کے ادارے نے متوقع سائبر حملوں کا ریڈ الرٹ جاری کیا تھا لیکن اس کے باوجود بھی برٹش ایئر ویز کا سسٹم ہیک کرلیا گیا جس کی وجہ سے 25-26 فروری 2022 کو برٹش ایئر ویز کی پروازیں نہ اڑ سکیں۔ تاہم اس کے بعد اس کو بحال کردیا گیا اس کے ساتھ ہی میڈیا کے اداروں کی ویب سائٹس اور ایپ بھی حملوں کی زد میں رہی ہیں۔ جنگ گوکہ یوکرین میں لڑی جارہی ہے لیکن اس کے اثرات پورے یورپ پر محسوس کیے جارہے ہیں ایک جانب ابلاغی محاذ پر میڈیا یک طرفہ طور پرکوریج کررہا ہے اور دوسری جانب روس کی جانب سے اس جنگ کو مزید محاذوں یعنی سائبر اسپیس تک توسیع دی جاچکی ہے۔ محاذ جنگ پر یوکرین میں بھی روس نے کم از کم تین علاقوں کو اپنا زیر نگین بنالیا ہے اور دوسری جانب سائبر اسپیس میں بھی اب تک روس نے اپنی برتری ثابت کی ہے۔ تادم تحریر روس اور یوکرین کے سربراہان نے مذاکرات کو فیصلہ کن بنانے کے لیے خود ملاقات کرنے پر آمادگی کا اظہار کیاہے لیکن روس کی شرائط کے مطابق کریمیا اور دیگر مفتوحہ علاقے اب روس کا حصہ ہوں گے۔ یوکرین میں روسی زبان پر پابندی کو ختم کیا جائے اور یوکرین آئندہ کسی بھی فوجی معاہدے نیٹو کا دیگر کا حصہ نہیں بنے گا۔ ان تین شرائط کو یوکرین نے بظاہر تسلیم کرلیا ہے اب فیصلہ یہ ہونا ہے کہ یوکرین کا جغرافیہ اور اس کی سیاسی و انتظامی حیثیت کیا ہوگی۔ مغربی میڈیا کے بھرپور پروپیگنڈا کے باوجود تاحال وہ روسی جارحیت کے خلاف نہ تو عوامی رائے عامہ کو ہموار کرسکے اور نہ ہی بین الاقوامی دباؤ کے تحت روس کو جارحیت سے باز رکھا جاسکا۔ سائبر حملوں کے بعد روس نے برطانیہ میں بھی نقب زنی شروع کردی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ بظاہر روس یوکرین جنگ میں یورپ کی مشترکہ شکست کے بعد برطانیہ اس چیلنج کا کیسے مقابلہ کرتا ہے۔

حصہ