جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو

1127

شاپنگ مال سے مجھے کچھ ضروری خریداری کرنی تھی پارکنگ ایریا میں بیٹے نے گاڑی روکی، میں اپنا عبایہ سنبھالتی گاڑی سے باہر آئی سامنے نظر پڑی۔ نوجوان خوبصورت لڑکی بڑے نازواندام و فاخرانہ طرز سے گاڑی سے نکلی پنڈلیوں سے اوپر تک ٹائیٹ اسکن کلر پاجامہ جو دور سے تو نظر بھی نہیں آرہا تھا ٹی شرٹ، بکھرے بال کندھے پر جھولتا بیگ، آس پاس پچاس سے زیادہ لوگ تھے کچھ نے اسے تنقیدی نگاہوں سے دیکھا تو کسی نے داد وبینی نظروں سے، دعوت گناہ دیتی یہ بڑے انداز دلبرنہ سے شاپنگ مال کی طرف بڑھی چند اوباش ٹائپ لڑکے اس کی طرف لپکے کتنوں کے بازوئوں اور کندھے اس سے چھوئے لیکن یہ جدت پسند لڑکی بڑے فاخرانہ انداز اور بے شرمی سے لہلہاتی ایک سے دوسری دکان کے پھیرے لگاتی رہی۔ کس کی نطروں پر پہرے لگائیں؟ اس بے باکانہ طرز عمل کو کس طرح روکیں۔ بازار تو ویسے ہی ’’بری جگہ‘‘ ہے۔ پھر ہر قسم و طبقہ سے تعلق رکھنے والے یہاں آتے ہیں۔ جن کی نطروں کا یہ لڑکی مرکز تھی۔ آج سب کی بدقسمتی کہیں کہ اسے جدت پسندی والے و بے حیائی کے مناطر ہر جگہ نظر آتے ہیں جو پورے معاشرے کو آلودہ کررہے ہیں۔ دیکھا دیکھی اس نام نہاد اس ترقی کے راستے میں پر نئی نسل مبتلا ہوتی جارہی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ دین اسلام کی تعلیمات و احکامات سے منہ موڑنا ہے۔ دین اسلام ضابطہ حیات ہے زندگی گزارنے کا کوئی معاملہ اور اس سے متعلق ہدایت سے ہمیں محروم نہیں رکھا گیا ہے میرے نبیؐ کی ذات اقدس جو قرآن پاک و احکامات کا مظہر ہیں پر اس کی تقلید و عمل پیراہی سے دنیا و آخرت منظور ہوسکتی ہے لیکن افسوس کا مقام ہے کہ لبرازم اور نام نہاد جدت پسندی نے ہمیں احکامات الٰہی سے دور کردیا ہے۔ آج ماڈرن دنیا ان احکامات الٰہی کی پیروی کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔ خصوصاً معاشرہ میں اس طرح عمل کی وجہ سے جو گندگی بے شرمی نظر آرہی ہے وہ لمحہ فکریہ ہے۔ صرف میرے نبیؐ کی اس ایک حدیث سے امت مسلمہ آراستہ ہوجائے تو پاکیزہ معاشرہ استوار کیا جاسکتا ہے۔ حدیث مبارکہ ہے ’’جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو‘‘ بخاری و مسلم کی یہ حدیث سے واضح ہے کہ ’’حیا‘‘ وہ ڈھال ہے جس کی بدولت بندہ ہر بدی و برائی سے اپنی ذات کو بچا سکتا ہے۔ تقویٰ کی راہ پر گامزن ہو کر نہ صرف اپنی ذات بلکہ آس پاس والوں کے لیے بھی فلاح کے راستے کھول سکتا ہے۔ اسی لیے قرآن پاک میں بھی اور اللہ رب العزت نے نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو تاکید بھی حیا کی تلقین فرمائی گئی ہے۔ سورۃ النور میں رب العالمین کا فرمان ہے کہ ’’مسلمان مردوں سے کہو کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت رکھیں، یہی ان کے لیے پاکیزہ ہے لوگ جو کچھ کریں اللہ تعالیٰ اس سے باخبرہے مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالیں اور اپنی آرائش کو ظاہر نہ کریں۔ سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والدین کے یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوندوں کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے (سورۃ النور آیت 30، 31) اسی طرح میرے رب نے بے حیائی کو شیطان کی خصلت کہا ہے۔ سورۃ النور میں دوسری جگہ اللہ نے اس بات کو اس طرح بیان کیا ہے کہ ’’اے ایمان والوں شیطان کے قدم بقدم نہ چلو، جو شخص شیطان کے قدموں کی پیروی کرے گا تو وہ تو بے حیائی اور برے کاموں کا ہی حکم کرے گا اور اگر اللہ کا کرم و فضل ہم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی پاک صاف نہ ہوتا لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ سب سننے والا اور سب جاننے والا ہے‘‘۔
بے حد افسوس کا مقام ہے کہ اللہ ربّ العزت اور اس کے نبیؐ ہمیں بار بار ’’حیا‘‘ کی تلقین کررہے ہیں لیکن آج اس حیا کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر روندا جارہا ہے مغرب کی اندھی تقلید نے مرد و عورت دونوں سے حیا کو دور کردیا ہے۔ جبکہ اسی بے حیائی کی راہ نے مغرب کو گمراہیوں کے گڑھے میں دفنا دیا ہے اور آج ہم ان کی پیروی کرنا جدت اور ترقی کی علامت سمجھ رہے ہیں جبکہ اس ایک ’’حیا‘‘ کے بندھن سے جڑ کر ہم ہر برائی و بدی سے بچ سکتے ہیں باعث مقام افسوس کہ اس بے حیائی نے معاشرے کو اس قدر آلودہ کردیا ہے کہ تعلیمی ادارے بھی اس محفوظ نہیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ اس بے حیائی اور جدت اندازی کی بدولت کوئی اندوہناک واقعہ نہ ہو، نورمقدم، زینب جیسے کئی واقعات جن سے ہمیں عبرت حاصل کرنی چاہیے، روز کا معمول بن گئے ہیں۔ ان واقعات کے پیچھے کیا وجوہات ہیں ان سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ دین اسلام نے چار محافظ عورت ذات کو عطا فرمائے ہیں، باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا۔ ان محافظوں کے کچھ فرائض ہیں، ان محافظوں کے ہوتے ہوئے ایک عورت نیم برہنہ گھر سے نکلتی ہے کیوں؟ اگر کوئی اللہ کا بندہ اسے نصیحت کرے تو اسے دقیانوسی اور پرانے خیالات کا سمجھ کر اس سے کنی کترائی جاتی ہے، مائیں جو اولاد کی پہلی ’’درسگاہ‘‘ ہیں وہ اپنے ہاتھوں سے اسے ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے جدید، انداز و تعلیمات سے آراستہ کرکے سر فخر سے بلند کرتی ہے کہ میں نے اپنی اولاد کی پرورش میں کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ پھر عورت کو تعلیم حاصل کرنے سے نہیں روکا گیا ہے۔ ضرورت پڑنے پر (شرعی) وہ گھر سے باہر بھی آسکتی ہے، حیا کے دائرے میں رہ کر گھر و باہر کے کام انجام دے سکتی ہے، ہمارے سامنے ام المومنین حضرت خدیجہؓ کی مثال ہے۔ حضرت اسماء شوہر کی غیر موجودگی میں اپنے جانوروں کی خود دیکھ بھال فرماتیں، صحابیات جہاد میں حصہ لیتی لیکن حیا کے زیور سے آراستہ ہو کر۔ ان خواتین اسلام پر آج بھی ہم فخر کرتے ہیں جو شرم و حیا کا پیکر تھیں۔ یہ ہماری آئیڈیل ہیں۔ بے شک حیات ہے تو پاکیزگی ہے، شرم ہے، حیا ہے تو نگاہیں جھکی ہوئی ہیں، حیا ہے تو ہر قدم سنبھل کر اُٹھتا ہے۔ حیا ہے تو ماں باپ کی عزت و احترام ہے، حیا ہے تو شوہر کے لیے بیوی ہی مقدم ہے، حیا ہے تو عورت کے لیے شوہر ہی قابل عزت و تکریم ہے۔ حیا ہے تو بندہ پاکیزہ ہے، اس میں تقویٰ و پرہیز گاری ہے، اس حیا کو آج مغرب کی تقلید میں فراموش نہ کریں کہ دنیا بھی برباد ہوجائے اور آخرت بھی۔ کیونکہ حیا دین اسلام کی خاص فطرت ہے۔ جیسا کہ آپؐ نے فرمایا۔ ’’بے شک ہر دین کی ایک خاص خصلت (فطرت، مزاج و پہچان) ہوتی ہے۔ اور اسلام کی وہ خاص خصلت ’’حیا‘‘ ہے۔
(سنن ابن ماجہ، صحیح بخاری)
اسی لیے مومن کوئی گناہ کرتے ہوئے شرماتا ہے۔

حصہ