بہت بولتے ہو تم

303

پچھلے دنوں ہمارے ایک دوست پاسپورٹ بنوانے کی غرض سے ضلعی آفس چلے گئے۔ آفس میں لوگوں کا ہجوم دیکھ کر وہ کسی ایسے شخص کی تلاش میں تھے جو انہیں پاسپورٹ بنوانے سے متعلق معلومات فراہم کرسکے۔ اس آفس میں نوجوانوں کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی، لہٰذا انہوں نے اپنے تئیں بہتر سمجھتے ہوئے ایک نوجوان کے سامنے آپنا مسئلہ رکھ دیا۔ عارف نامی یہ شخص چہرے سے انتہائی شریف دکھائی دے رہا تھا، کہنے لگا:
”انکل یہاں رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، وہ شخص جو سامنے کھڑا ہے یہاں کا ایجنٹ ہے، اس سے مل لو، سارے دفتری کام کروا دے گا، میرے بھائی نے بھی اسی سے رابطہ کیا ہے، کوئی بھی شریف آدمی اور خاص طور پر آپ جیسا شخص رشوت کا حامی نہیں ہوسکتا، اس لیے میرے مشورے پر عمل کریں اور اسی سے رابطہ کرلیں۔“
ہمارے دوست کی ابھی عارف سے بات چیت جاری ہی تھی کہ دفتری ایجنٹ صورتِ حال کو بھانپتے ہوئے سہولیات کا پیکیج لیے خود ان کے قریب آن پہنچا اور ہمارے دوست سے مخاطب ہوتے ہوئے کہنے لگا:
،،نوجوان کا پاسپورٹ بنواناہے کیا؟ پندرہ سو روپے اوپر کا خرچہ آے گا تم کو صرف بینک چالان اور بچے کی تصاویر بنوانا ہوں گی باقی ساری پھٹیکیں ہماری ہوں گی،،
یہ شخص مسئلہ سنے بغیر ہمارے دوست کو عارف کا والد سمجھ کر ڈیل کرنے لگا وہ باتوں سے بڑا ہوشیار دکھائی دیے رہا تھا عارف کو ہدف تنقید بنا کر ہمدردانہ رویہ اپناتے ہوئے کہنے لگا:
”دنیا بھر کے ممالک پاکستانیوں کے لیے نوگو ایریا بنتے جارہے ہیں، خاص طور پر اس حکومت کے دوران تو دنیا ہمیں اور بھی زیادہ حقارت سے دیکھ رہی ہے، لیکن پھر بھی ہماری نوجوان نسل کسی نہ کسی طرح امریکا اور یورپ پہنچنے کی جگاڑ میں لگی رہتی ہے، گوروں کے دیس جانے کا دورہ نوجوانوں کو ہوش سنبھالتے ہی پڑنے لگتا ہے، ان کی پہلی اور آخری خواہش بس یہی ہوتی ہے کہ وہ جلد سے جلد یورب جاکر کسی گوری سے شادی کرلیں چاہے یہ شادی کاغذی ہی کیوں نہ ہو، اور اس طرح ولایتی شہریت حاصل کرکے ساری زندگی وہیں عیش و آرام سے گزاریں، گویا جیسے یورپ کی گوریاں بالوں میں گجرے لگائے، پھولوں کے ہار لیے ان کی راہیں تک رہی ہیں۔ شاید ان نوجوانوں کے نزدیک دنیا میں آنے کا واحد مقصد یہی ہوتا ہے۔ روپے پیسے کی بربادی ایک طرف… ملک سے باہر جانے کی دھن میں یہ نوجوان اُن راستوں کا انتخاب کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے جہاں ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ پاسپورٹ کے دفاتر میں نوجوانوں کی بڑی تعداد دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ولایت جانے کا وائرس ہمارے ہاں کوڈ 19 سے بھی زیادہ خطرناک اور جان لیوا بنتا جا رہا ہے۔“
ایجنٹ مسلسل بولے جارہا تھا۔ اُس کا غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک جانے والے نوجوانوں کے خلاف گفتگو کرنا میرے دوست کے لیے حیران کن تھا۔ اس کے قول و فعل میں واضح تضاد تھا۔ ایک طرف اگر اُسے ان نوجوانوں کی زندگیوں کی فکر تھی، تو دوسری طرف وہ پاسپورٹ بنوانے کے لیے آنے والے گاہکوں سے بھاؤ تاؤ کرنے اور انہیں ملک سے باہر بھجوانے کے لیے اپنے ہی ساتھی ایجنٹوں کے پتے دینے میں مصروف تھا۔ خیر میرے دوست نے اس نان اسٹاپ ٹرین کو روکتے ہوئے کہا:
”جناب اس لڑکے سے میرا کوئی تعلق نہیں، اگر خارجہ پالیسی پر آپ کا بیانیہ ختم ہوگیا ہو تو میں اپنی بات آپ کے گوش گزار کردوں؟“
”جی جی بولیں، ہم تو بیٹھے ہی آپ لوگوں کی خدمت کرنے کے لیے ہیں۔“
”مجھے عمرے کی ادائیگی کے لیے جانا ہے، میری دلی خواہش ہے کہ ماہِ رمضان سے قبل سرزمینِ مقدس پہنچ جاؤں اور پورا رمضان المبارک حرم شریف کے احاطے میں گزاروں، لیکن پاسپورٹ نہ ہونے کے باعث اس سعادت سے محروم ہوں۔ میں دفتری پنچایتوں کو نہیں جانتا، آپ کے پاس اگر میرے مسئلے کا کوئی حل ہے تو بتائیں۔“
میرے دوست کے پوچھنے پر ایجنٹ نے فقط دو جملوں میں بات سمیٹتے ہوئے کہا:
”وہی پیکیج جو پہلے بتایا تھا، یعنی پیسہ بولتا ہے۔“
پھر چند لمحے خاموش رہنے کے بعد دوسری جانب حصولِ پاسپورٹ کی قطار میں کھڑے ایک عمر رسیدہ شخص کی جانب اشارہ کرتے ہوئے یوں درس دینے لگا:
”ہمارے ملک میں زیادہ تر لوگ زندگی کے آخری حصے میں خدا کے گھر اور روضہ رسولؐ کی زیارت کا شرف حاصل کرنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ معذرت خواہ ہوں، میرا مقصد کسی کی دل آزاری کرنا نہیں بلکہ اس کلیے کی حقیقت سمجھنے کی کوشش کرنا ہے جس کے تحت ہمارے لوگ اٹھارہ سے تیس سال تک یورپ، اور بڑھاپے میں قدم رکھتے ہی مکہ مدینہ جانے کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں بندہ اگر حج کرلے تو سارے گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے، شاید اسی لیے انسان نے اپنے تئیں زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا ہے، پہلا حصہ دنیا کے مختلف کاموں کے لیے، جب کہ دوسرے حصے کو اللہ تعالیٰ کے گھر جانے، عبادات کرنے، اور اگلے جہاں کی کامیابیاں سمیٹنے کے لیے مختص کر رکھا ہے۔ ہم نے سمجھ لیا ہے کہ ہم مسلمان ہیں، دنیا اور آخرت میں کامیاب ہونے والی قوم ہیں، ہم ہی ہیں جب چاہیں جیسے چاہیں زندگی گزاریں، بس آخری وقت میں جہاز کا ٹکٹ کٹا کر خدا کے گھر اور روضہ رسولؐ پر حاضری دے کر آجائیں اور پھر سے نئے نکور ہوکر زندگی کی پٹری پر اپنا سفر جاری رکھیں۔ بزرگوار! ہمارا کام ایجنٹی کرنا ہے، برسوں سے یہی ہماری روزی روٹی ہے۔ جب سے اس کام سے وابستہ ہوئے ہیں یہی کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ فارمولا ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔ جوانی کی عمر میں کی جانے والی عبادت کا زیادہ ثواب ہے، بڑھاپے میں حج وعمرہ کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے، اور ویسے بھی اس عمر میں انسان بیماریوں کا گھر بن جاتا ہے، ٹخنوں اور گھٹنوں کا درد آدمی کو اس قابل نہیں چھوڑتا کہ وہ دو قدم بھی بغیر سہارے کے چل سکے۔ ایسی حالت میں ارکانِ حج و عمرہ کی ادائیگی آسان کام نہیں۔ اس قسم کے لوگوں کی عادت تبدیل نہیں ہوتی، یہ حج و عمرے کے بعد بھی ویسے کے ویسے ہی رہتے ہیں۔ واپس آکر جوڑیا بازار سے خریدی گئی کھجوریں عجوہ بناکر اہلِ محلہ اور رشتے داروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ سارا چکر اپنے نام کے ساتھ ”حاجی“ لکھوانے کا ہوتا ہے۔ خیر ہم کو اس سے کیا! ان کی مرضی… ہم کو تو اپنے کام سے ہی مطلب رکھنا چاہیے۔ بولو میری آفر منظور ہے کہ نہیں؟“
ہمارے دوست پہلے ہی اس کی حرکتوں سے سیخ پا ہوچکے تھے، انتہائی غصّے میں بولے:
”تم کیا چیز ہو؟ تنقید نگار ہو یا تجزیہ کار…؟ جب سے آئے ہو مسلسل بولے ہی جارہے ہو۔ دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کے سوا کوئی کام ہے تمہارے پاس؟ اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے، ایجنٹی کرکے لوگوں سے ناجائز پیسہ وصول کرتے ہو، دفتر والوں کے ساتھ مل کر حرام کھاتے ہو، میں لعنت بھیجتا ہوں رشوت لینے اور دینے والوں پر۔ خدا میرے کام میں آسانی کرے گا، تم لوگ ہر کسی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے کی کوشش کرتے ہو۔“
باتونی ایجنٹ ضرورت سے زیادہ ہی ڈھیٹ تھا، بجائے خاموش رہنے کے، پھر سے لفظوں کی گولہ باری کرنے لگا:
”جناب! ایجنٹ ہوں، محنت کرکے پیسہ کماتا ہوں۔ کام نہیں کروانا تو نہ کرواؤ لیکن ایجنٹوں کے بارے میں اپنی رائے تبدیل کرلو۔ یہ 2022ء ہے، اِس دور میں ہمارے بغیر سسٹم کا چلنا مشکل ہے۔ پاسپورٹ ہم سے نہیں بنوایا تو کیا ہوا، اگلے کام ایجنٹوں سے ہی کروانے پڑیں گے، عمرے کا ویزا ایجنٹ ہی لگوا کر دے گا، پھر ٹریول ایجنٹ بھی ہمارا ہی کوئی بھائی ہوگا۔ دنیا کا نظام ہم نے ہی سنبھال رکھا ہے۔ ”را“ کا ایجنٹ ہو یا ”موساد“ کا، یا کہ سی آئی اے کا… یا پھر جائداد کی خرید و فروخت ہو یا قبرستانوں میں من پسند جگہ پر قبر کی کھدائی.. ہر جگہ ایجنٹوں کا ہی سکہ چلتا ہے۔ تمھاری نظر میں میری عزت ہو یا نہ ہو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، یہاں کے لوگ مجھے ماسٹر مائنڈ کہتے ہیں، باقی تمھاری مرضی.. اگر دفتروں کے چکر کاٹتے کاٹتے تھک جاؤ تو مجھ سے ضرور رابطہ کرلینا۔“
یوں اس ایجنٹ نے ہمارے دوست کو مزید آگ بگولا کردیا۔ وہ ولاحول ولاقوۃ کا ورد کرتے ہوئے پاسپورٹ آفس سے باہر نکل آئے۔ اب ہمارے دوست کو بھلا یہ بات کون سمجھائے کہ پاکستان میں سرکاری ملازمین کا ایجنٹوں کے ذریعے غریب عوام سے بھاری رشوت طلب کرنا کوئی نئی بات نہیں، یہ سب کچھ تو ہمارے یہاں قوانین کی طرح نافذ ہیں، بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ روزِ اوّل سے ہی تمام سرکاری محکموں خاص طور پر محکمہ پاسپورٹ کی شہرت اچھی نہیں رہی، اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ہمارے لالچ اور کمزوریوں کے باعث ماضیِ قریب و بعید میں دنیا بھر سے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار ہونے والے غیر ملکی دہشت گردوں کے پاس ہمارے ہی ملک کے پاسپورٹ و دیگر دستاویزات نکلتے رہے ہیں۔ ان ملک دشمن راشی افسران کی پیسہ کمانے کی ہوس نے نہ صرف ہمارے سرکاری اداروں بشمول محکمہ پاسپورٹ پر بدنما داغ لگایا، بلکہ دنیا بھر میں پاکستان کا نام بھی بدنام کردیا۔ اب جبکہ خدا خدا کرکے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے اِن حالات میں ایک مرتبہ پھر پاسپورٹ جیسے حساس محکمے میں کھلے عام رشوت کا طلب کیا جانا ہمارے حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اس بگڑتی ہوئی صورت حال میں حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اس مسئلے پر توجہ دے اور محکمے میں ایمان دار اور اچھی شہرت کے حامل قابل افسران کی تقرریاں کرے، جس سے خاصی حد تک ادارے کی ساکھ بحال کی جا سکتی ہے۔ بروقت کیے جانے والے اقدامات سے ہی بہتر نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ دیر ہوجانے کی صورت میں ایسی کالی بھیڑوں کا صفایا ناممکن ہوگا۔

حصہ