رمضان سے پہلے رمضان کی تیاری

581

وقت کی سوئیاں تیزی سے گھوم رہی ہیں۔ شب و روز، ماہ و سال میں لپٹتے چلے جارہے ہیں۔ ماہِ صیام اپنی تمام تر برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ سایہ فگن ہونے کو ہے۔ رمضان المبارک میں معمولاتِ زندگی یکسر تبدیل ہوجاتے ہیں۔ سونے، جاگنے، اسکول اور دفاتر کے اوقات، گھریلو امورکی نوعیت اور اوقات بھی بدل جاتے ہیں۔ گہما گہمی اور رونق الگ ہی رنگ لیے ہوتی ہے اور ہر ذی شعور ماہِ مبارک کی ساعتوں سے فائدہ اٹھانے کی سعی میں مصروف دکھائی دیتا ہے۔
ان دنوں خواتین کی ذمے داری بھی دہری ہوجاتی ہے اور عام دنوں کی نسبت وہ زیادہ مصروف دکھائی دیتی ہیں۔ نتیجتاً پریشانی اور اُلجھن کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ رمضان کی آمد سے پہلے ہی کچھ گھریلو امور نمٹا لیے جائیں تو نہ صرف وافر وقت میسر آسکے گا بلکہ وہ یکسوئی سے عبادات سر انجام دے سکیں گی۔ ماہِ شعبان میں ہی تمام امور کی فہرست ترتیب دے دی جائے تاکہ فرداً فرداً نمٹایا جاسکے۔ ناگزیر اور اہم کاموں کو ترجیحی بنیادوں پر رکھیں۔
آغاز گھر کی صفائی ستھرائی سے کریں۔ تفصیلی جھاڑ پونچھ کرلیں تاکہ عید کی تیاریوں کے لیے نئے سرے سے محنت درکار نہ ہو۔ دروازے، کھڑکیاں، پنکھے، دیواریں جھاڑ لیں۔ اسی طرح الماریوں میں کپڑوں کو ترتیب وار رکھا جا سکتا ہے۔ رمضان میں عبادات کے لیے کمرہ مختص کرلیں اور میز پر عبادت کے لیے درکار اشیا سجائیں۔ قرآن کریم، تسبیحات، جا نماز سے مزین میز سے نہ صرف اہلِ خانہ کوفت کا شکار نہیں ہوں گے بلکہ وقت کے ضیاع کے بغیر عبادت میں مشغولیت میسر آسکے گی۔ سیرت اور دعاؤں کی کتابیں بھی رکھی جاسکتی ہیں۔
یہ مہینہ چند روزہ اور قیمتی لمحات سے مزین ہوتا ہے۔ لغویات سے بچنے کی حتی الامکان کوشش کرنی چاہیے۔ اسی لیے ہر طرح کی اسکرین کا اگر بائیکاٹ نہ بھی کرسکیں تو اس کا استعمال کم سے کم کیا جاسکتا ہے۔ لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ وغیرہ سامنے رکھنے کے بجائے ایسی جگہ محفوظ کریں جہاں بوقتِ ضرورت ہی رسائی ممکن ہو۔ ہر وقت سامنے نہ ہونے سے بھی غیر ضروری استعمال سے بچا جا سکے گا۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ خواتین اہلِ خانہ کی فرمائشوں کی بجا آوری کرتے دعاؤں کے اہم لمحات سے محروم ہوجاتی ہیں اور سحر و افطار کا وقت باورچی خانے میں صرف کردیتی ہیں۔ خواتین رمضان کی آمد سے قبل چند ضروری امور سرانجام دے کر عبادتوں کو توجہ سے ادا کرسکتی ہیں۔ رمضان میں زیر استعمال اشیا کے لیے باورچی خانے کا ایک حصہ مخصوص کرلیں۔ پلاسٹک کی بوتل یا جار میں سامان رکھیں تاکہ روزانہ ڈھونڈنے میں پریشانی نہ ہو اور نمایاں بھی رہے۔ چنے اُبال کر فریز کیے جا سکتے ہیں جو کہ ضرورت کے وقت پانی میں گرم کرنے سے بالکل تازہ ہوجائیں گے۔ کباب تیار کرکے رکھ لیں۔ اسی طرح پھلکیاں بناکر کاغذ میں لپیٹ دیں۔ لہسن، ادرک کا پیسٹ تو تقریباً ہر گھر میں موجود ہوتا ہے۔ پیاز ہلکی آنچ پر فرائی کرکے کاغذ کے لفافوں میں بھر لیں اور خشک جگہ پہ رکھیں تاکہ نرم نہ پڑے۔ سموسے اور رول تقریباً ہر دسترخوان کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس کے لیے سموسے، رول مسالہ بھری پٹی بناکر بآسانی فریز کیا جا سکتا ہے۔ افطار بھیجنے کا رواج آج بھی ماند نہیں پڑا۔ ضرورت کے مطابق تعداد محفوظ کرنے سے بروقت سہولت رہتی ہے۔
موسم کی مناسبت سے کچھ سبزیاں بھی صاف کرکے اور کاٹ کر رکھی جا سکتی ہیں، خیال رہے کہ سبزیاں اُبال کر محفوظ رکھنے سے بالکل نرم ہوجاتی ہیں اور ذائقہ بھی نہیں رہتا۔ اسی طرح دھنیے پودینے کی چٹنی بھی بناکر رکھی جا سکتی ہے مگر املی بنی چٹنی محفوظ نہ کریں، چٹنی کا ذائقہ بدل کر خراب ہوجاتا ہے۔ چٹنی کو کسی سانچے میں فریز کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح بچوں یا کسی مددگارکے ساتھ مل کر مسالے پیسے جاسکتے ہیں۔ ایسے متعدد امور کی قبل از وقت منصوبہ بندی سے نہ صرف رمضان میں سہولت رہتی ہے بلکہ ذرا سی سمجھ داری سے خاصا وقت بھی بچایا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں ایک خاتونِ خانہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’منصوبہ بندی سے کیے گئے کاموں سے رمضان میں بھی بہت آسانی فراہم ہوجاتی ہے اور ہر کام بروقت ہوجاتا ہے۔ اس طرح سحری اور افطاری بنانے میں دلی سکون ملتا ہے۔‘‘
ایک اور خاتون نے اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ ’’پہلے رمضان میں سب کو یہی باور کراتے گزر جاتا تھا کہ میرا بھی روزہ ہے اور عبادتیں نہ کرنے پر دل الگ کڑھتا۔ مگر جب سے رمضان سے پہلے ہی کچھ امور سے فراغت ہوئی تو نہ تھکاوٹ ہوتی ہے اور نہ اہلِ خانہ کو کسی دقت کا سامنا رہتا ہے، ماحول بھی تناؤ کا شکار نہیں ہوتا۔ سب سے بڑھ کر روزوں کا اصل لطف تو عبادتوں کے ساتھ جڑا ہے، وہ بھی حاصل ہوجاتا ہے۔‘‘
اکثر خواتین رمضان میں شاپنگ کی عادی ہوتی ہیں، خاص کر عید کی تیاری کے لیے رمضان کا انتظار کیا جاتا ہے اور اکثر اسی وجہ سے روزہ بھی چھوڑنے سے گریز نہیں کرتیں۔ اس طرح نیکیوں کی لوٹ سیل سے محروم ہوجاتی ہیں۔ عیدالفطر کی تیاری پہلے سے کرلینا بہتر ہے۔ رمضان سے کم از کم ایک ماہ پہلے مکمل کرلی جائے تو سہولت رہتی ہے۔ کپڑے خرید کر سلوا کر رکھ لیں۔ چوڑیاں، دوپٹوں کی پیکو، بٹن، بچوں کی اشیا کی خریداری مکمل کرلیں۔ ایسا نہ ہو کہ خریداری کے ان مسائل میں اُلجھ کر برکتوں والی طاق راتیں ضائع ہوجائیں۔
کسی بھی مہمان کی آمد سے پہلے کی جانے والی تیاری سے مہمان کے ساتھ بیشتر وقت گزارنا مقصود ہوتا ہے۔ ماہِ صیام چند روزہ اور چند ساعتیں لیے آتا ہے، کچھ ساعتیں گزار کر ہم سے جدا ہوجائے گا۔ کوشش ہونی چاہیے کہ ہمارا یہ مہمان کہیں ہم سے روٹھ نہ جائے۔ رمضان میں ہر شے کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ منصوبہ بندی سے کی گئی خریداری سے بجٹ پر بوجھ نہیں پڑتا۔ اشیائے خورونوش کی فہرست ترتیب دے کر ان کی خریداری بھی پہلے کی جا سکتی ہے۔ رمضان سادگی اور صبر کا درس دیتا ہے۔ اعتدال کی نیت سے کی گئی خریداری کا بھی ثواب ہے۔ معتدل خریداری ہوگی، معتدل سحروافطار ہوں گے، پھر یقیناً صحت پر بھی اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔
خواتین کی مصروفیات رمضان میں کم عمر بچوں کے ساتھ دوچند ہوجاتی ہیں۔ چھوٹے بچوں کی موجودگی میں کبھی تراویح نہ پڑھنے کا دُکھ رہتا ہے تو کبھی مطالعۂ قرآن سے محرومی ملتی ہے۔ ایسی خواتین اکثر شکوہ کناں رہتی ہیں کہ رمضان، رمضان ہی نہیں لگتا۔ مگر ذرا سی عقل مندی سے اس ندامت سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اگرچہ چھوٹی عمر کے بچے روزے رکھنے کے قابل نہیں ہوتے مگر ان میں روزہ رکھنے کی معصوم خواہش ہر کچھ گھنٹوں بعد جاگتی ہے۔ ان کی عمر کے مطابق رمضان کی تیاریاں ترتیب دیں۔ صوم و صلوٰۃ کے شوق کو پروان چڑھانے کے لیے گھر میں ہی مسجد تیار کرلیں۔ اس کے لیے چارٹ پیپر پر مسجد کا گنبد بناکر ایک دیوار پر چسپاں کیا جاسکتا ہے۔ کچھ رنگ بھرے چارٹ پیپر پر دعاؤں کا اہتمام بھی بچوں کو دعا مانگنے کی رغبت دے گا۔ بچوں کو اس سرگرمی میں اپنے ساتھ مصروف رکھیں۔ ان کے ذوق اور شوق کے مطابق کام لیں۔ چارٹ پیپر کے ذریعے درخت تیار کرلیں ، جس پر 30 پتے لگائے جا سکتے ہیں۔ رمضان میں روزانہ بچوں کے کرنے کے لیے نیکی کا کام لکھتی جائیں اور اس درخت کا نام ’’جنت کا درخت‘‘ رکھ لیں۔ اسی طرح مختلف سرگرمیوں سے نہ صرف بچوں میں ماہ صیام کی اہمیت جذب ہوگی، وہ مصروف بھی رہیں گے بلکہ خواتین اپنی عبادات کی ادائیگی پر توجہ مرکوز کرسکیں گی۔
رمضان جہاں روحانی بالیدگی کا باعث بنتا ہے وہیں گھریلو آرائش عموماً خاتونِ خانہ کو تنگی میں مبتلا رکھنے کا باعث بنتا ہے۔ خواتین کی اکثریت کا رمضان کا بیشتر وقت باورچی خانے کی نذر ہونا عام ہے۔ تمام افطار و سحر نکتہ چینی سننے میں ہی گزر جاتے ہیں۔ ذرا سی کوتاہی گویا ساری محنت غارت کرنے کے مترادف ہوتی ہے۔ مختلف غیر مناسب القابات سے نوازا جاتا ہے، جس سے پورا مہینہ ہی کھچاؤ اور ناخوش گوار فضا قائم رہتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک خاتون خانہ کا کہنا تھا کہ ’’ذمے داریاں بلاشبہ رمضان میں دگنی ہو جاتی ہیں۔ یہ مہینہ صبر و شکر کا مہینہ ہے، پریشانیوں اور مشکلات کا نہیں۔ اس میں کام کا بوجھ بڑھ بھی جائے تو مل جل کر کرنے سے کچھ بھی محسوس نہیں ہوتا بلکہ مزید ہمت اور قوت آجاتی ہے۔‘‘
رمضان کا مہینہ زبان کے چٹخاروں کو لگام دینے کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں زبان کی مٹھاس کو بڑھائیں، نکتہ چینی کم کریں اور معاون بنیں۔ صحت بخش غذا کھائیں۔ ماہ مبارک قربانی، ایثار، صبر اور تقویٰ قائم کرنے کا نام ہے۔ آیئے عہد کریں کہ اس رمضان میں اپنے گھروں اور معاشرے کو ان صفات کا گہوارہ بنادیں گے۔

حصہ