دلچسپ کھيل

147

رکشے سے اتر کر قاسم علی نے اپنے دوست ارسلان کے دروازے پر دستک دی. اس نے رکشے والے کو رکنے کا اشارہ کیا تھا – اسے یاد آیا کہ اس کی والدہ نے ارسلان کی والدہ کے لیے ایک شاپنگ بیگ دیا تھا،جس میں کچھ کپڑے تھے اور وہ اس بیگ کو رکشے میں ہی بھول گیا ہے،قاسم علی نے جا کر رکشے کی سیٹ پر سے بیگ اٹھایا۔
اسی دوران ارسلان کی والدہ دروازے پر آگئیں۔انھوں نے قاسم علی سے کہا کہ ارسلان اپنی دادی کی دوائی لینے گیا ہوا ہے اور قاسم کو اندر بلا لیا.ارسلان کی امی نے بیگ میں سے کپڑے اور اسٹیل کی کنگھی نکالی۔
اس دوران ارسلان بھی واپس آگیا.وہ قاسم علی کو دیکھ کر بہت خوش ہوا.قاسم علی نے ارسلان سے کہا کہ کرکٹ کھیلنے چلیں،تو ارسلان مان گیا اور دونوں گھر سے چل پڑے۔
ارسلان کی امی نے دوائی کی تھیلی میں صبح،دوپہر اور شام کی دوائیاں علیحدہ کر کے چھوٹی چھوٹی تھیلیوں میں بھرلیں.اچانک دروازے میں سے ایک عورت داخل ہوئی.ابھی ارسلان کی امی سوچ ہی رہیں تھیں کہ اچانک یہ عورت کہاں سے داخل ہوئی؟کہ انہیں خیال آیا کہ بچے جاتے وقت دروازہ کھلا چھوڑ گئے ہوںگے۔
انہوں نے اجنبی عورت سے پوچھا کہ آپ کون ہیں اور کس کام سے آئیں ہیں؟ابھی اس عورت نے جواب بھی نہیں دیا تھا کہ پیچھے سے تین نقاب پوش آدمی گھر میں داخل ہوئے.ان میں سے ایک کے ہاتھ میں پستول تھا.اس نے سختی سے کہا کہ گھر میں جو کچھ نقدی اور زیور ہیں، مجھے دے دو.ارسلان کی امی اس اچانک یلغار سے بوکھلا گئیں اور گھر میں جو کچھ نقدی اور زیور تھا،لا کے دے دیا.ڈاکوؤں نے سب چیزیں لیں اور دادی اماں کی دوائیوں والی کپڑوں کی پوٹلی میں سب کچھ رکھا اور فرار ہو گئے.دادی اماں پوچھتی رہ گئیں کہ کون ہے؟ کیا ہو رہا ہے؟..ارسلان کی امی نے انکی پریشانی کا خیال کر کے کوئی جواب نہیں دیا.تھوڑی دیر میں ارسلان کے ابو آئے تو انہیں ساری تفصیل بتا دی.”بیٹا!میری دوائی تو دے دو.”ارسلان کی دادی نے پکارا.ارسلان کی امی نے (ارسلان کے ابو سے) کہا کہ وہ دادی اماں کی دوائی کا تھیلا بھی لے گئے۔
ارسلان کے ابو نے اپنے دوستوں کو فون کیا،پولیس کو فون کیا اور ارسلان کی امی سے کہا کہ دروازہ اندر سے اچھی طرح بند کرلو،میں آرہا ہوں۔
ارسلان کے ابو میڈیکل اسٹور پر دوائی لینے گئے اور دوائی لے کر پلٹ ہی رہے تھے کہ ان کی نظر دادی اماں کے دوائیوں والے تھلے پر پڑی جو میڈیکل اسٹور کے کوڑے دان میں پڑا تھا.انہوں نے فورا وہ تھیلا اٹھایا اور دکان دار سے اس کے بارے میں پوچھا.پہلے تو وہ ٹال مٹول کرتا رہا لیکن جب ارسلان کے ابو نے سختی سے پوچھا تو کہنے لگا:”ابھی دو آدمی آئے تھے.انھوں نے مجھے کچھ دوائیاں دیں کہ یہ ہماری امی کی ہیں اوران کا انتقال ہوگیا ہے.آپ انہیں آدھی قیمت پر خرید لیں.یہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔
ارسلان کے ابو نے وہیں سے پولیس کو فون کر کے تھیلی کے بارے میں اطلاع دی.پولیس والےفورا پہنچے اور سی سی ٹی وی کے کیمروں سے دیکھ کر ڈاکوؤں کے بارے میں معلومات حاصل کر کے نادرا سے مزید تفصیل معلوم کیں اور ڈاکوؤں تک پہنچ گئے.ان سے لوٹا ہوا مال نکلوایا اور انہیں گرفتار کرلیا۔ارسلان کے ابو ابھی اپنی گلی میں داخل ہو ہی رہے تھے کہ قاسم علی اور ارسلان سامنے سے آتے ہوئے نظر آئے.قاسم علی نے ارسلان کے ابو کو سلام کیا اور بتایا کہ آج بہت دلچسپ کھیل رہا.ارسلان کے ابو نے ہنستے ہوئے کہا:”ہمارے گھر میں بھی بڑا دلچسپ کھیل رہا۔”

حصہ