جوڑوں کا درد

616

یہ ایک قدیم مرض ہے جہاں تک انسانی تاریخ ہمیں ملتی ہے وہیں تک اس مرض کی موجودگی کے آثار بھی پائے جاتے ہیں۔ اہرامِ مصر میں رکھی ہوئی ’’ممیز‘‘ کا تفصیلی جائزہ لینے پر ان میں سے کچھ میں ایسے آثار پائے گئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ وہ جوڑوں کی تکلیف میں مبتلا رہے ہوں گے دوسری پتھرائی ہوئی لاشوں (فاسلز) میں جو کہ زمین کی کھدائی میں برآمد ہوئی ہیں ان میں بھی اس مرض کی علامات ملی ہیں۔
یہ درد کبھی بڑے جوڑوں میں ہوا کرتے ہیں جسے عرف عام میں ’’گٹھیا‘‘ عربی میں ’’وجع المفاصل‘‘ اور انگریزی میں ’’رومے ٹزم‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ عموماً جسم کے بڑے اور درمیانہ مفاصل جیسے کولہے‘ گھٹنے‘ ٹخنے یا شانے کہنی و پہنچے کے جوڑ میں ہوا کرتے ہیں اور کبھی چھوٹے چھوٹے جوڑ مثلاً ہاتھوں اور پیروں کی انگلیوں کے جوڑ بھی مبتلائے درد ہو جاتے ہیں اسے عربی میں ’’نقرس‘‘ اور انگریزی میں ’’گائوٹ‘‘ کہا جاتا ہے۔ کبھی درد حاد یا ایکیوٹ ہوا کرتے ہیں جو کہ بہت تیزی اور شدت کے ساتھ بڑھتے ہیں اور کبھی مزمن یا کرانک ہوتے ہیں جو کہ بہت آہستہ آہستہ پیدا ہوتے ہیں۔ علامات بھی تیز نہیں ہوا کرتیں مگر ٹھیک بھی وقت سے ہوتے ہیں۔
درد کی مزید تفصیلات میں جانے سے پہلے جوڑوں کی بناوٹ اور ان کے کام جائزہ لینا مناسب ہوگا انسانی اعضا میں ہر اس جگہ جہاں ان کا مڑنا ضروری تھا‘ قدرت نے جوڑے بنائے ہیں۔ یہ ہڈیوں‘ کڑیوں‘ عضلات‘ خلیوں مختلف قسم کے پٹھوں اور ریشوں کی مدد سے بنتے ہیں‘ ان میں دوران خون کے لیے رگیں اور حس و حرکت کے لیے اعصاب موجود ہوتے ہیں‘ ہڈیوں کے سرے انتہائی چکنے و ہموار ہوا کرتے ہیں تاکہ ایک دوسرے پر آسانی کے ساتھ پھسل سکیں اور ایک نہایت چکنی رطوبت انہیں تر رکھتی ہے تاکہ رگڑ انہیں کھردرا نہ بنا سکے تمام تر بندش اور مضبوطی کے ساتھ ان میں قدرت نے اتنی گنجائش بھی رکھی ہے کہ مکمل مڑنے پر بھی تنائو یا کھنچائو پیدا نہ ہو۔
سوال یہ ہے کہ اتنے سب انتظام کے بعد جوڑوں میں درد کیوں ہونے لگتا ہے؟ اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ہڈیوں کے دونوں چکنے سروں پر اس طرح کے خشک مادے جمع ہو جائیں جوکہ انہیں ریگ مال کی طرح کھردرا کر دیں یا ان کی ساخت میں خرابی ہو جائے اور وہ ناہموار ہو جائیں‘ ایسی صورت میں حرکت ہوتی ہے تو رگڑ سے سوزش اور ورم پیدا ہو کر درد ہونے لگتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ چکنی سفید رطوبت کا بننا کم ہو جائے اور وہاں چکناہٹ کی کمی رگڑ پیدا کرنے کا باعث بننے لگے جیسا کہ ضعیف العمری میں ہوتا ہے اسی طرح رطوبت کی زیادتی بھی جوڑ کی خالی جگہ کو پُر کر دیتی ہے جس کی وجہ سے گنجائش کم ہو جاتی ہے اور حرکت میں وقت ہونے لگتی ہے۔ بعض اوقات چوٹ‘ جوڑ میں بدوضعی پیدا کر دیتی ہے اور اس کی وجہ سے درد ہونے لگتے ہیں یا وہاں کے اعصاب حساس و کمزور ہو کر درد کا موجب بنتے ہیں۔
وجع المفاصل یا رومے ٹزم دو طرح کا ہوا کرتا ہے ایک شدید جسے حاد ی ایکیوٹ کہا جاتا ہے اور دوسرا مزمن یا کرانک۔
وجعد المفاصل حاد ہر عمر میں ہو سکتا ہے مگر زیادہ تر سولہ سے پیتنیس سال کی عمر میں لاحق ہوتا ہے اس میں جوڑوں کی اندرونی جھلیاں اور ان میں پائی جانے والی رگیں پھول جاتی ہیں اور ان سے رطوبت رسنے لگتی ہے۔ یہ رطوبت گدلے رنگ کی اور گاڑھی ہوتی ہے۔ ایسے ممالک کے باشندے جہاں کا موسم سرد اور مرطوب ہو‘ مرض کی اس قسم میں زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ گرم ممالک کے لوگ بارش میں بھیگے رہنے یا گیلے کپڑے زیادہ دیر تک پہنے رہنے کی وجہ سے یا سردی لگ جانے سے اس مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ غربت کی زندگی کے ساتھ محنت خصوصاً ایسے کام بھی اس مرض کا باعث بن جاتے ہیں جن کے کرنے سے ایک یا چند جوڑوں پر مسلسل زور پڑتا ہے مثلاً ہتھوڑا چلانا یا مخصوص قسم کی مشینیں چلانا‘ وزن اٹھانا‘ بہت زیادہ پیدل چلنا وغیرہ۔ غذا بھی اس میں بڑی اہمیت رکھتی ہے اگر غذا کم مقدار میں ملے یا غیر متوازن و ناقص ہو تب بھی یہ صورت پیدا ہو سکتی ہے۔ ہاضمے کی خرابی اور قبض کی موجودگی کا جوڑوں کے درد سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ عورتوں میں ایام کی خرابی یا کمزور صحت کے باوجود طویل مدت تک بچوں کو دودھ پلانا بھی اس کا سبب ہے۔ بعض امراض مثلاً سوزاک و آتشک کے مریض آخر میں وجع المفاصل میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایک برائی اس مرض میں یہ ہے کہ یہ بار بار لوٹ کر آنے کی استعداد رکھتا ہے اس لیے ٹھیک ہو جانے کے بعد بھی احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس مرض کی پہچان یہ ہے کہ ابتدا میں لرزہ کے ساتھ بخار چڑھتا ہے‘ درجۂ حرارت 102 سے 105 تک ہو سکتا ہے‘ چوبیس یا چھتیس گھنٹے بعد پائوں کے جوڑوں میں سختی پیدا ہو جاتی ہے اور درد شدید ہو جاتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کافی دنوں تک جسم کے مختلف حصوں پر ہلکا ہلکا درد رہنے کے بعد یکایک بڑے بڑے جوڑ متورم ہو جاتے ہیں کبھی لوزتین یا ٹانسلز میں بھی ورم و سوزش ہو جاتی ہے۔ جب مرض پوری طرح ظاہر ہو جاتا ہے تو جوڑ بہت تکلیف دہ ہو جاتے ہیں حتیٰ کہ کپڑا چھونے سے بھی شدید درد ہونے لگتا ہے۔ بخار آٹھ دس یوم رہتا ہے اور کبھی بہت تیز بھی ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی یہ درد ایک جوڑ سے دوسرے جوڑ میں منتقل بھی ہوتا رہتا ہے۔ چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور زبان کا معائنہ کرنے پر سفید تہہ جمع ہوئی نظر آتی ہے۔ بھوک کم ہو جاتی ہے اور عموماً قبض رہا کرتا ہے‘ پیشاب کی مقدار کم اور رنگت گہری ہو جاتی ہے۔ پسینہ و لعاب دہن اور پیشاب میں تیزابیت بڑھ جاتی ہے۔اس بیماری کے نتیجے میں جو کچھ ذیلی امراض پیدا ہو سکتے ہیں وہ کافی تشویش ناک ہیں مثلاً دل کے غلاف پر ورم آجانا یا دل کے عضلات اور صمامات (والوز) کا متورم ہو جانا۔ نمونیہ‘ پھیپھڑوں کے غلاف میں پانی بھر جانا‘ رعشہ‘ جنون وغیرہ بھی پیدا ہو سکتے ہیں مگر زیادہ خطرناک صورت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب دماغ اور اس کی جھلیوں پر ورم آجائے۔
وجع المفاصل مزمن کبھی وجع المفاصل حاد کے بعد پیدا ہو جایا کرتا ہے اور بھی شروع سے ہی یہ مرض مزمن شکل اختیار کرتا ہے‘ سرد و مرطوب موسم بھی اس کے لیے بڑا سازگار ہوتا ہے۔ عموماً چالیس سال کی عمر کے بعد ہوا کرتا ہے اور اس مرض میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ مبتلا ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی والدین یا ان کے بزرگوں سے وراثت میں ملتا ہے۔
وجع المفاصل مزمن کی صورت میں درد زیادہ شدید نہیں ہوتا۔ بخار ہلکا رہتا ہے یا بالکل نہیں ہوتا۔ جوڑوں میں حرکت کم یا بالکل ختم ہو جاتی ہے‘ جوڑ سخت ہبو جاتے ہیں اور رات کو سوتے وقت درد میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ قریبی عضلات بھی کمزور پڑ جاتے ہیں مگر جوڑوں میں پانی اکٹھا نہیں ہوا کرتا‘ ہاضمہ اکثر خراب رہتا ہے۔
چھوٹے جوڑوں کے درد جنہیں ’’نقرس‘‘ یا ’’گائوٹ‘‘ کہا جاتا ہے‘ عموماً پیر کے انگوٹھے کے جوڑ سے شروع ہوتے ہیں یا پھر انگلیوں و ٹخنے کے جوڑ اس میں مبتلا ہوتے ہیں ایک مخصوص مادہ جسے حامض بولی (یورک ایسڈ) کہا جاتا ہے اس مرض کو پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جس طرح بڑے جوڑوں کا درد زیادہ تر غریب و محنت کش لوگوں کو ہوا کرتا ہے اس کے برخلاف چھوٹے جوڑوں کا درد یا نقرس امیروں اور آرام دہ زندگی بسر کرنے والوں کی بیماری ہے۔ یہ مرض اکثر وراثت میں ملا کرتا ہے اور مرد ہی اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں‘ عام پر طور پر تیس‘ چالیس سال کی عمر میں ہوتا ہے مگر جب وراثت میں ملے تو پھر عمر کی قید نہیں ہوتی۔ عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنا‘ ورزش و کھیل کود میں حصہ نہ لینا‘ گوشت کا بہ کثرت استعمال اور شراب نوشی اس کے خاص اسباب میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ غذائی بد احتیاطی‘ ہاضمہ کی خرابی‘ زیادہ دماغی محنت‘ موٹاپا‘ رنج و غم میں مبتلا رہنے‘ بارش میں بھیگنے اور سردی لگ جانے سے اس مرض کے پید اہونے میں مدد ملتی ہے ایسے اداروں میں کام کرنے سے بھی یہ مرض شدید ہو سکتا ہے جہاں سیسے کا کام ہوتا ہے مثلاً مختلف رنگ بننے والے کارخانے یا پینسل بنانے والے کارخانے۔
یہ مرض بعض اوقات جوڑوں کے علاوہ جسم کے اندرونی اعضا میں بھی ہو جاتا ہے مثلاً معدہ‘ آنتیں‘ پھیپھڑے‘ گردے و دماغ اس سے متاثر ہو سکتے ہیں اسی لیے اس کا نام ’’نقرس اندرونی‘‘ رکھا گیا ہے اور یہ ایک خطرناک صورت حال ہوا کرتی ہے۔ نقرس کا حملہ عموماً رات کے پچھلے حصے میں ہوا کرتا ہے۔ اکثر صرف دائیں پیر کے انگوٹھے کے جوڑ میں اور کبھی دونوں پیر کے انگوٹھوں کے جوڑ میں اور کبھی ایڑی و ٹخنے کے جوڑ میں شدید درد ہوا کرتا ہے جس کی وجہ سے مریض نیند سے بیدار ہو جاتا ہے‘ متاثرہ جوڑ متورم و سرخ ہو جاتا ہے‘ درد کی وجہ سے انگوٹھے کو ہلانا یا چھونا بھی دوبھر ہو جاتا ہے۔ لرزہ کے ساتھ بخار ہو جاتا ہے جو صبح کے وقت پسینہ آکر کم ہو جاتا ہے۔ تمام دن درد میں کمی رہتی ہے مگر جوں ہی رات شروع ہوتی ہے درد شدید ہو جاتا ہے۔ دس بارہ دن بعد جا کر علامات میں کمی ہوتی ہے‘ جب ورم اترتا ہے تو اس مقام سے جلد کے چھلکے سے نکلتے رہتے ہیں اور وہاں شدت سے خراش ہوتی ہے اگر مرض جم جائے تو مزمن صورت اختیار کر لیتا ہے اور جوڑ ٹیڑھے پڑ جاتے ہیں‘ جلد پھٹ جاتی ہے اور اس میں سے یورک ایسڈ خارج ہوتا رہتا ہے کبھی اس کی خراش کی وجہ سے زخم پیدا ہو جاتے ہیں۔
گوشت اور اسی قسم کی دوسری غذائوں کی ہضم کے دوران جو فضلہ بچتا ہے اسے یورک ایسڈ کہتے ہیں۔ غذا میں دو اجزا نیو کلیئک ایسڈ اور پیورین موجود ہوتے ہیں جو عموماً گوشت‘ انڈے‘ کلیجی‘ تلی‘ گردے‘ مغز و پائے وغیرہ میں پاتے ہیں ان کے علاوہ نباتاتی غذائوں مثلاً دالوں‘ مٹر‘ لوبیا‘ اناج کی بھوسی‘ میٹھی شراب وغیرہ میں بھی بہ کثرت پائے جاتے ہیں بڑے گوشت کے شوربے میں بھی ملتے ہیں‘ یورک ایسڈ خون کے شور اجزا کے ساتھ مل کر ’’کواڈری یوریٹ‘‘ بن جاتا ہے جو کہ حل ہو جانے والی چیز ہے اس لیے گردے اسے خون میں چھان کر محلول کی شکل میں خارج کرتے رہتے ہیں۔ اگر یہی یورک ایسڈ خون میں ’’سوڈیم کاربونیٹ‘‘ کے ساتھ مل جائے تو ’’سوڈیم ہائی یوریٹ‘‘ بن جاتا ہے جو کہ حل نہیں ہو سکتا اس لیے گردے اسے خارج بھی نہیں کر پاتے اور خون میں اس کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے یہ جوڑوں اور دوسرے اعضا میں جمع ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
وجع المفاصل اور نقرس دونوں کے علاج تقریباً یکساں ہی ہیں اور دونوں میں غذا و پرہیز کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ غذا میں یورک ایسڈ بنانے والی تمام چیزیں بند کر دی جائیںجن کا ذکر ہو چکا ہے۔ نقرس کے مریضوں کو اپنی غذا کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اس کی مقدار بھی کم کر دینی چاہیے۔ بہت مرغن تلی ہوئی اور تیز مرچ مسالے والی غذائیں بھی نہیں لینا چاہئیں تاکہ ہاضمے کا فعل درست رہے۔ سبزیاں‘ ترکاریاں اور پرندوںکے گوشت مناسب ہیں۔ وجع المفاصل کے مریض کو بھی اپنی غذا کا جائزہ لینا چاہیے کہ اس میں کوئی کمی یا خامی تو نہیں ہے مثال کے طور پر بعض لوگ باریک سفید چھنا ہوا آٹا استعمال کرتے ہیں یا بغیر چھلکے کی دالیںاستعمال کی جاتی ہیںاسی طرح چاول اور سبزیوں کو ابال کر ان کا پانی پھینک دیتے ہیں جس کی وجہ سے جسم میں ضروری غذائی اجزا کی کمی ہو جاتی ہے اور اس طرح کے امراض پیدا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔مزمن صورتوں میں چہل قدمی اور ہلکی ورزش فائدہ مند ہوگی مگر حاد صورتوں میں مکمل آرام کے ساتھ متاثرہ جوڑ کو فلالین کی پٹیوں سے لپیٹ کر سہارا دینا چاہیے۔ سرد و نمی سے حفاظت ضروری ہے‘ اگر مرطوب مقام پر رہائش ہو تو مقام کی تبدیلی سود مند ہوگی۔شدتِ درد کے وقت پوست خشخاش پانی میں جوش دے کر نیم گرم پانی متاثرہ جوڑ پر ڈالا جائے‘ روغن موم لگانا یا کوئی بام لگانا بھی تسکین دیتا ہے اس کے علاوہ مہندی کے پسے ہوئے خشک پتے اور صابن دیسی برابر وزن لے کر سرکہ میں آٹے کی طرح گوندھ لیے جائیں اور پھر انہیں نیم گرم کرکے لیپ کیا جائے۔ پوست خشخاش اور ثابت اسپغول برابر وزن کوٹ لیے جائیں اور پانی میں اچھی طرح جوش دیا جائے تھوڑا ٹھنڈا ہونے پر روغن گل ملا کر لیپ کیا جائے‘ درد میں آرام آجانے کے بعد روغن سرخ‘ روغن سورنجان یا روغن گل آکھ کی مالش کی جائے۔
کھانے کی دوائوں میں جو چیز سب سے زیادہ مفید ثابت ہوئی ہے وہ ’’سورنجان‘‘ ہے‘ اس بوٹی پر کئی ممالک نے ریسرچ کی ہے اور اسے جوڑوں کے درد میں مفید پایا ہے۔ یہ مسکن درد ہونے کے ساتھ ساتھ یورک ایسڈ کو بھی خون سے خارج کرتی ہے۔ نیز ملین بھی ہے اس کے مرکبات حب سورنجان اور معجون سورنجان کے نام سے بازار میں ملتے ہیں۔ دو دو گولیاں صبح اور سوتے وقت پانی کے ساتھ کھائی جاسکتی ہیںاور معجون نصف چمچہ چائے‘ صبح نہار منہ سوتے وقت نوش کی جائے۔ وہ لوگ جن کی آنتیں حساس ہوں یا دست کے مریض ہوں حسب برداشت خوراک کی مقدار کم کر سکتے ہیں۔ دوسری دوا ’’چوب چینی‘‘ ہے جو چین سے آتی ہے اس کا استعمال پرانے درد میں مفید ثابت ہوا ہے۔ اس کی معجون نصف چمچہ چائے‘ صبح نہار منہ اور سوتے وقت استعمال کی جاتی ہے اس مرض میں پیشاب آور ادویہ کی بھی ضرورت ہوتی ہے تاکہ گردے دھلتے رہیں اور یورک ایسڈ خارج ہوتا رہے۔ اس کے لیے شربت بزوری معتدل دو بڑے چمچے نصف گلاس گرم پانی میں ملا کر نوش کیے جائیں۔
غذا میں ادرک و لہسن کی مقدار بڑھا دینا چاہیے۔ سہاجنے کی پھلیاں پکا کر کھائی جائیں‘ بغیر پالش کیے ہوئے چاول بھی پکا کر کھائے جاسکتے ہیں اور پانی میں ابال کر ان کا پانی بھی پیا جاسکتا ہے یہ حیاتین ب کی کمی اور کمزور اعصاب کی وجہ سے ہونے والے درد میں بہت مفید ہے اس کے استعمال سے لو بلڈ پریشر کے مریض بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں پھلوں کا استعمال کثرت کے ساتھ کیا جائے اور اگر تین ہفتے غذا میں صرف پھل ہی لیے جائیں تو بڑے اچھے نتائج نکلتے ہیں۔
یہ مرض حاد سے مزمن میں تبدیل ہونے کی صفت رکھتا ہے اس کے علاوہ بار بار لوٹ کر آنے والی بیماری ہے اس کے علاج پر بڑی توجہ دینی چاہیے‘ ٹھیک ہو جانے کے بعد بھی کچھ دن دوائیں جاری رکھنا چاہیے اور پرہیز و احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا چاہیے کیوں کہ جوڑوں کا متاثر ہو جانا زندگی کی جدوجہد اور دوڑ بھاگ میں رکاوٹ بننے لگتا ہے۔

حصہ