جادوگر

199

شہر کا سب سے بڑا میدان آدم زاد سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ لوگ سورج طلوع ہونے سے قبل ہی میدان میں آنا شروع ہو گئے تھے تاکہ آسانی سے اسٹیج کے قریب کی جگہ انہیں مل سکے۔ میدان میں داخلے کے لیے کوئی ٹکٹ نہیں تھا اس لیے بھیڑ میں ہر آن اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ میدان کے مشرقی کنارے میں ایک بہت ہی شاندار اسٹیج تعمیر کیا گیا تھا۔ اسٹیج پر کافی قیمتی اور دبیز قالین بچھا تھا اور آرام دہ صوفہ سیٹ لگا ہوا تھا۔ اوپر ایک بہت ہی نفیس سا شامیانہ تھا جس سے اسٹیج کا حصہ سورج کی تیز کرنوں سے محفوظ تھا۔
میدان میں آئے ہوئے تمام لوگوں کی نگاہیں اسٹیج پر مرکوز تھیں اور سارے لوگ بڑی بے صبری سے آٹھ بجنے کے منتظر تھے کیوں کہ ٹھیک آٹھ بجے ہی اس خوب صورت اسٹیج پر ملک کا سب سے بڑا جادوگر آنے والا تھا‘ جس کی شہرت ملک کے گوشے گوشے میں پھیلی ہوئی تھی۔
میدان کی بے پناب بھیڑ میں بہت سے ایسے لوگ بھی تھے جنہوں نے اس جادوگر کے کئی پروگرام اس سے قبل بھی دیکھے تھے۔ وہ اپنی برتری جتانے کے لیے مزے لے لے کر جادوگر کے کارنامے آس پاس کے لوگوں کو سنا رہے تھے۔
’’یہ جادوگر تو کمال کا ہے بھائی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے اس کا ایسا حیرت انگیز کارنامہ دیکھا ہے جس پر یقین کرنا بھی مشکل ہے۔‘‘
’’کیا دیکھا تم نے؟‘‘ ایک ساتھ کئی آوازیں پوچھ بیٹھیں۔
’’کیا بتائوں آخر۔ آج بھی وہ نقشہ نگاہوں کے سامنے ہے۔ اس نے سارے لوگوں کے سامنے ایک کمسن لڑکی کو تلوار سے دو ٹکڑے کر دیا۔ خون کا فوارہ جاری ہوا۔ لڑکی کا سر دھڑ سے جدا ہو کر تڑپ تڑپ کر شانت ہو گیا اور…‘‘
’’اور…اور…‘‘ حیرت زدہ کئی آوازیں۔
’’اور وہ بے دم سی زمین پر ساکت ہو گئی۔ سارے لوگ سانس روکے اس منظر کو دیکھ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہوگا۔ اس کمال کے جادوگر نے اپنی جادوئی چھڑی گھمائی اور آن کی آن میں لڑکی کا دھڑ گردن سے مل گیا اور وہ زندہ ہو کر مسکرانے لگی۔‘‘
’’کیا واقعی ایسا ہوا تھا؟‘‘
’’تو کیا میں ڈینگ مار رہا ہوں؟‘‘ راوی برا مان کر وہاں سے کھسک گیا۔
’’ہاں بھائی! جادوگر ہے… غضب کا کھیل دکھاتا ہے۔‘‘ دوسرا شخص میدان کے دوسرے گوشے میں آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا تھا۔
’’کیا واقعی آپ نے اپنی آنکھوں سے اس کا کھیل دیکھا ہے۔‘‘
’’ہاں بھئی قسم سے…‘‘ وہ شخص سینہ تان کر بولا۔
’’ایک بار اس نے کھیل کے دوران میری انگلی سے سونے کی انگوٹھی اتار لی اور سب کے سامنے پوری شدت سے ہوا میں اچھال دی۔‘‘
’’پھر کیا ہوا…‘‘
’’ہوتا کیا‘ انگوٹھی ہوا میں غائب ہوگئی۔ میرا تو کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ انگوٹھی گم ہونے کا اتنا دکھ نہیں تھا جتنا واپسی پر بیگم کی ڈانٹ سننے کا خوف تھا۔‘‘
’’تو کیا واقعی انگوٹھی نہیں ملی…؟‘‘
’’ارے بھائی! میرا چہرہ تو سفید پڑ گیا۔ اس جادوگر نے پھر میری خبر بھی نہ لی۔ وہ اپنے دوسرے کھیل دکھانے میں مشغول رہا۔ اسی دوران اپنی پیاس کا اظہار کرتے ہوئے اس نے ایک لیموں کی فرمائش کی۔ ایک صاحب دوڑے گئے اور بازار سے بڑا سا لیموں خرید لائے۔ جادو گر اپنے جادوئی چاقو سے اسے بڑی باریکی سے چھیلنے لگا اور جب اس نے لیموں کا چھلکا صاف کر دیا تو سارے لوگ حیرت زدہ ہوگئے کیوں کہ اس کے ہاتھ میں لیموں کے بجائے انڈا نظر آرہا تھا۔‘‘
’’ارے واہ…‘‘ خوشی سے پُر کئی آوازیں ابھریں۔
’’پھر…؟‘‘
’’پھر کیا جادوگر نے کہا بھائی مانگا تھا لیموں اور تم انڈا لے آئے چلو یہی سہی‘ اسے ہی پی لے لیتے ہیں۔ اس نے انڈا پھوڑا اور سارے تماشائی حیرت میں ڈوب گئے مگر میری بانچھیں کھل گئیں۔‘‘
’’ارے بھائی! وہ انڈا بھی خالی اور اس میں میری انگوٹھی پڑی ہوئی تھی۔‘‘
’’باپ رے باپ…‘‘ حیرت سے پُر آوازیں چاروں طرف پھیل گئیں۔
میدان کے تیسرے گوشے میں بھی اسی قسم کی باتیں ہو رہی تھیں۔ راوی اپنی مونچھوں پر تائو دیتے ہوئے واقعات بیان کر رہا تھا۔ درمیان میں ایک شخص نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا ’’کیا سچ مچ ایسا ہی ہوا تھا؟‘‘
اس راوی نے بگڑتے ہوئے جواب دیا ’’تو کیا میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ آنے دو اسے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا۔ میرا دعویٰ ہے تم سب کی عقل گھاس چرنے لگے گی اس کا کھیل دیکھ کر…‘‘
’’مگر کب آئے گا وہ…؟‘‘ اشتیاق سے بھری آوازیں۔
’’آٹھ…‘‘ اس کی آواز ادھوری رہی گئی اور وہ حیرت سے بولا ’’ارے یہ تو دس بج رہے ہیں۔‘‘
’’دس بج گئے؟‘‘ سارے میدان میں کھلبلی مچ گئی۔ دو گھنٹے تاخیر ہو چکی تھی مگر جادوگر کا کوئی پتا نہ تھا جب کہ ٹھیک آٹھ بجے اسے اس میدان میں حاضر ہونا تھا۔ گرمی اپنے شباب پر تھی‘ سورج دھیرے دھیرے ان کے سروں پر پہنچ رہا تھا اور کرنیں ان کے لباس کے اندر پہنچ کر چبھن کا باعث بن رہی تھیں۔ ساری نگاہیں بار بار اسٹیج کی جانب اٹھ رہی تھیں جو کسی قبرستان کی پگڈنڈی کی طرح اداس تھا۔
سارے لوگ ملک کے سب سے بڑے جادوگر کا کھیل دیکھنے آئے تھے۔ ان میں جوان‘ بوڑھے‘ مرد‘ عورت‘ بچے‘ بچیاں سبھی شامل تھے۔
’’ہم اس دھوپ میں کس کا انتظار کر رہے ہیں؟‘‘
’’ملک کے سب سے عظیم جادوگر کا۔‘‘
’’کیا اس کے آنے کا وقت نہیں ہوا ہے؟‘‘
’’وقت آٹھ بجے کا ہی تھا مگر…‘‘
’’مگر ابھی تو گیارہ بج رہے ہیں ماں۔‘‘
’’ہاں بیٹے…‘‘
’’تو کیا اتنا بڑا جادوگر غیر ذمے دار بھی ہو سکتا ہے؟‘‘
’’نہیں بیٹے… ایسا نہیں کہتے۔‘‘
اب میدان کی خاموشی ریزہ ریزہ ہو چکی تھی۔ دن کے بارہ بجنے والے تھے‘ لوگوں کا حلق پیاس کی شدت سے خشک ہو رہا تھا۔ پسینے سے ان کے کپڑے بھیگ گئے تھے۔ مارے گرمی کے سب بے حال ہو رہے تھے۔ میدانِ کربلا کا عالم تھا۔ بچے خاص طور سے پیاس کی شدت سے تڑپ رہے تھے۔ سب کی زبان خشک ہو کر تالو سے چپک گئی۔ سورج اپنی پوری تمازت کے ساتھ جلوہ گر تھا۔ بادل بھی اس کی تمازت کی تاب نہ لا کر کہیں دور چھپ گیا تھا۔ لوگ بار بار اپنی گھڑی کی طرف دیکھ رہے تھے جہاں سوئی بارہ سے آگے بھاگی جارہی تھی۔ پورے میدان میں شور بپا تھا۔ بوڑھے لوگوں کی آواز نہیں نکل رہی تھی‘ جوان غصے میں بھرے تھے اور بچے حیرت زدہ تھے کہ آخر یہ سب کیسا ہنگامِہ ہے اور وہ کس جنم کی سزا بھگتنے کے لیے یہاںموجود ہیں۔ ہر شخص مدد کا طالب تھا مگر کوئی بھی کسی کی مدد نہیں کرسکتا تھا۔ سکون کی جگہ صرف ایک تھی جہاں کسی کی رسائی ممکن نہ تھی۔ شامیانے کے نیچے وہ خوب صورت سا اسٹیج… جو خالی تھا‘ سونا تھا… عظیم جادوگر کا منتظر تھا۔
’’اماں! اماں! چلو نا اس اسٹیج کی پناہ میں تھوڑی دیر تو اس گرمی سے نجات ملے گی۔‘‘
’’نہیں بیٹے! وہاں صرف جادوگر ہی جا سکتا ہے۔
’’وہ کتنی دیر جادو کا کھیل دکھائے گا؟‘‘
’’کچھ کہا نہیں جاسکتا‘ منٹ دو منٹ‘ گھنٹہ دو گھنٹہ۔‘‘
’’وہ تھوڑی دیر کے لیے وہاں رکے گا‘ اس کے لیے سائے کا انتظام پہلے سے کر کے رکھا گیا اور ہم گھنٹوں سے اس کی آمد کے منتظر ہیں مگر ہمارے لیے کوئی سائبان نہیں…‘‘ بچہ جو شعور کی حد کو چھو رہا تھا‘ بڑے تاسف سے بولا۔
’’یہ کہاں کا انصاف ہے ماں کہ…‘‘
ماں کا زوردار چانٹا اس کے منہ پر پڑا‘ اس کی ماں کے پاس اس سے بہتر جواب کوئی تھا بھی نہیں۔
لوگوں نے اب کھلم کھلا جادوگر کو گالیاں دینا شروع کردیا جو آٹھ بجے کا وعدہ کرکے ابھی تک لاپتا تھا اور سورج کی ظالم کرنیں ان کے وجود کو تہہ و بالا کر دینے پر تلی ہوئی تھیں۔ جادوگر کے خلاف غم و غصے کی لہر تیز ہو گئی تھی۔ جوان تو جوان‘ بوڑھے بچے اور عورتیں بھی اپنے غصے کا اظہار کر رہی تھیں۔ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ جادوگر کے آتے ہی سب اس کی بوٹی بوٹی نوچ لیں گے۔ پھر اچانک ایک شور بلند ہوا ’’آگیا… آگیا… جادوگر آگیا…‘‘
آواز میں غصہ تھا‘ جوش بھی تھا اور خوشی کی ہلکی سی رمق بھی موجود تھی۔ جادوگر بڑے آب و تاب سے بیش قیمت ائرکنڈیشنڈ کار سے باہر آیا اور پروقار انداز میں شامیانے کے نیچے خوب صورت سے اسٹیج پر کھڑآ ہو کر لوگوں کی طرف ہاتھ ہلا ہلا اپنی آمد کا اعلان کرنے لگا۔
میدان میں بھنبھناہٹ خاموشی میں تبدیل ہونے لگی۔ یہ خاموشی یقینا طوفان کی آمد سے قبل جیسی تھی پھر یہ خاموشی تار تار کر دی گئی۔
’’تم… ملک کے سب سے عظیم جادوگر… اتنے جھوٹے ہو سکتے ہو‘ ہمیں معلوم نہ تھا۔‘‘ سامنے کے ایک نوجوان نے کہا جو آدھی رات ہی سے اسٹیج کے قریب بیٹھنے کے لیے آدھمکا تھا۔
’’تم اتنے لاپرا ہو سکتے ہو یہ ہم نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا۔‘‘یہ دوسری آواز تھی‘ غصے سے بھری ہوئی سیدھی تلوار کی کاٹ جیسی۔
’’سارے ملک کے لوگ چار گھنٹے تک اس گرمی کی شدت میں تمہارا انتظار کرتے‘ جلتے بھنتے رہے اور تمہیں احساس بھی نہ ہوا۔‘‘ یہ تیسری آواز تھی۔
’’مگر بھائیو! مجھے میرا قصور بھی بتلائو آخر ہوا کیا ہے؟ آپ سب اتنے غصے میں کیوں ہیں…؟‘‘
’’تم اپنا قصور پوچھ رہے ہو‘ بڑے معصوم بنتے ہو تم… ذرا اپنی گھڑی پر تو نظر ڈالو۔‘‘ غصے سے بھری ہوئی آواز جیسے ایک ہی وار میں جادوگر کا صفایا کردینے کا ارادہ ہو۔
’’کیا ہوا میری گھڑی کو…؟ ٹھیک تو چل رہی ہے۔‘‘
جادوگر اب بھی معصوم لگ رہا تھا ’’ٹھیک چل رہی ہے…‘‘ تمسخرانہ ہنسی۔
’’آٹھ بج رہے ہیں نا …؟‘‘
’’ہاں… بالکل آٹھ بج رہے ہیں۔ نہ ایک کم نہ زائد۔‘‘
جادوگر نے اپنی گھڑی پر ہاتھ پھیرا اور پورے مجمع سے بلند آواز سے کہا۔ سارے مجمع نے اپنی اپنی گھڑی کی طرف نگاہیں جھکائیں۔
واقعی اس وقت ان کی گھڑیوں میں آٹھ ہی بج رہا تھا…نہ ایک منٹ کم نہ زائد۔ سورج ٹھیک سر کے اوپر تھا اور ان کے بونے سے سائے ان کے قدموں سے لپٹ رہے تھے۔پھر مجمع میں کسی کا بھی سر اوپر نہ اٹھ سکا۔

حصہ