شعرو شاعری

277

مصطفیٰ خاں شیفتہ
شوخی نے تیری لطف نہ رکھّا حجاب میں
جلوے نے تیرے آگ لگائی نقاب میں
وہ قطرہ ہوں کہ موجۂ دریا میں گم ہوا
وہ سایہ ہوں کہ محو ہوا آفتاب میں
اس صوتِ جاں نواز کا ثانی بنا نہیں
کیا ڈھونڈتے ہو بربط و عود و رباب میں
پوچھی تھی ہم نے وجہ ملاقاتِ مدعی
اک عمر ہو گئی انہیں فکرِ جواب میں
لڑتی نہ جائے آنکھ جو ساقی سے شیفتہؔ
ہم کو تو خاک لطف نہ آئے شراب میں

ظہور نظر
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمہیں
ہم تو سلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سلگائیں تمہیں
ترکِ محبت ترکِ تمنا کر چکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بھلائیں تمہیں
دل کے زخم کا رنگ تو شاید آنکھوں میں بھر آئے
روح کے زخموں کی گہرائی کیسے دکھائیں تمہیں
درد ہماری محرومی کا تم تب جانو گے
جب کھانے آئے گی چپ کی سائیں سائیں تمہیں
سناٹا جب تنہائی کے زہر میں بجھتا ہے
وہ گھڑیاں کیونکر کٹتی ہیں کیسے بتائیں تمہیں
جن باتوں نے پیار تمہارا نفرت میں بدلا
ڈر لگتا ہے وہ باتیں بھی بھول نہ جائیں تمہیں
رنگ برنگے گیت تمہارے ہجر میں ہاتھ آئے
پھر بھی یہ کیسے چاہیں کہ ساری عمر نہ پائیں تمہیں
اڑتے پنچھی ڈھلتے سائے جاتے پل اور ہم
بیرن شام کا دامن تھام کے روز بلائیں تمہیں
دور گگن پر ہنسنے والے نرمل کومل چاند
بے کل من کہتا ہے آؤ ہاتھ لگائیں تمہیں
پاس ہمارے آکر تم بیگانہ سے کیوں ہو
چاہو تو ہم پھر کچھ دوری پر چھوڑ آئیں تمہیں
انہونی کی چِنتا ہونی کا انیّائے نظرؔ
دونوں بیری ہیں جیون کے ہم سمجھائیں تمہیں
ضیا جالندھری
رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے
درد پھولوں کی طرح مہکے اگر تو آئے
بھیگ جاتی ہیں اس امید پہ آنکھیں ہر شام
شاید اس رات وہ مہتاب لبِ جو آئے
ہم تری یاد سے کترا کے گزر جاتے مگر
راہ میں پھولوں کے لب سایوں کے گیسو آئے
وہی لب تشنگی اپنی وہی ترغیبِ سراب
دشتِ معلوم کی ہم آخری حد چھو آئے
مصلحت کوشئ احباب سے دم گھٹتا ہے
کسی جانب سے کوئی نعرۂ یاہو آئے
سینے ویران ہوئے انجمن آباد رہی
کتنے گل چہرہ گئے کتنے پری رو آئے
آزمائش کی گھڑی سے گزر آئے تو ضیاؔ
جشن غم جاری ہوا آنکھوں میں آنسو آئے

ظہیر کاشمیری
طلب آسودگی کی عرصۂ دنیا میں رکھتے ہیں
امید فصل گل ہے اور قدم صحرا میں رکھتے ہیں
ہوئے ہیں اس قدر مانوس ہم پیمان فردا سے
کہ اب دل کا سفینہ ہجر کے دریا میں رکھتے ہیں
بشر کو دیکھیے با ایں ہمہ ساحل پہ مرتا ہے
حباب اپنا اثاثہ سیلِ بے پروا میں رکھتے ہیں
ہمارے پاس کوئی گردشِ دوراں نہیں آتی
ہم اپنی عمرِ فانی ساغر و مینا میں رکھتے ہیں
ہمیں ہر گام پر ملتا رہا اعزازِ محرومی
وقار اپنا بہت ہم دیدۂ دنیا میں رکھتے ہیں
امیدوں کے کھنڈر مایوسیوں کے دم بخود سائے
بڑی ہی رونقیں ہم اس دلِ تنہا میں رکھتے ہیں
ہمارے دور کے انسان خود اپنی ہی ضد نکلے
طلب ماضی کی ہوتی ہے قدم فردا میں رکھتے ہیں
ظہیرؔ ان دل زدوں کی عظمتیں دیکھو یہ پروانے
چراغِ عشق روشن وادی و صحرا میں رکھتے ہیں

عبد الحمید عدم
خالی ہے ابھی جام میں کچھ سوچ رہا ہوں
اے گردشِ ایام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ساقی تجھے اک تھوڑی سی تکلیف تو ہوگی
ساغر کو ذرا تھام میں کچھ سوچ رہا ہوں
پہلے بڑی رغبت تھی ترے نام سے مجھ کو
اب سن کے ترا نام میں کچھ سوچ رہا ہوں
ادراک ابھی پورا تعاون نہیں کرتا
دے بادۂ گلفام میں کچھ سوچ رہا ہوں
حل کچھ تو نکل آئے گا حالات کی ضد کا
اے کثرتِ آلام میں کچھ سوچ رہا ہوں
پھر آج عدمؔ شام سے غمگیں ہے طبیعت
پھر آج سرِ شام میں کچھ سوچ رہا ہوں

صوفی تبسم
تو نے کچھ بھی نہ کہا ہو جیسے
میرے ہی دل کی صدا ہو جیسے
یوں تری یاد سے جی گھبرایا
تو مجھے بھول گیا ہو جیسے
اس طرح تجھ سے کیے ہیں شکوے
مجھ کو اپنے سے گلا ہو جیسے
یوں ہر اک نقش پہ جھکتی ہے جبیں
تیرا نقش کف پا ہو جیسے
تیرے ہونٹوں کی خفی سی لرزش
اک حسیں شعر ہوا ہو جیسے

عبید اللہ علیم
خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی
نہ شب کو چاند ہی اچھّا نہ دن کو مہر اچھّا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی
وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی
عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ
کھنچی ہوئی ہیں پس جاں یہ صورتیں کیسی
ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی
جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دے دی
میں سنگِ راہ ہوں مجھ پر عنایتیں کیسی
نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ہے سیاستیں کیسی
نہ صاحبانِ جنوں ہیں نہ اہلِ کشف و کمال
ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی
جو ابر ہے وہی اب سنگ و خشت لاتا ہے
فضا یہ ہو تو دلوں میں نزاکتیں کیسی
یہ دور بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو
یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی
صابر ظفر
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے
میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں
جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے
رکوں تو منزلیں ہی منزلیں ہیں
چلوں تو راستہ کوئی نہیں ہے
کھلی ہیں کھڑکیاں ہر گھر کی لیکن
گلی میں جھانکتا کوئی نہیں ہے
کسی سے آشنا ایسا ہوا ہوں
مجھے پہچانتا کوئی نہیں ہے

عدیم ہاشمی
کسی جھوٹی وفا سے دل کو بہلانا نہیں آتا
مجھے گھر کاغذی پھولوں سے مہکانا نہیں آتا
میں جو کچھ ہوں وہی کچھ ہوں جو ظاہر ہے وہ باطن ہے
مجھے جھوٹے در و دیوار چمکانا نہیں آتا
میں دریا ہوں مگر بہتا ہوں میں کہسار کی جانب
مجھے دنیا کی پستی میں اتر جانا نہیں آتا
زر و مال و جواہر لے بھی اور ٹھکرا بھی سکتا ہوں
کوئی دل پیش کرتا ہو تو ٹھکرانا نہیں آتا
پرندہ جانب دانہ ہمیشہ اڑ کے آتا ہے
پرندے کی طرف اڑ کر کبھی دانہ نہیں آتا
اگر صحرا میں ہیں تو آپ خود آئے ہیں صحرا میں
کسی کے گھر تو چل کر کوئی ویرانہ نہیں آتا
ہوا ہے جو سدا اس کو نصیبوں کا لکھا سمجھا
عدیمؔ اپنے کئے پر مجھ کو پچھتانا نہیں آتا

عندلیب شادانی
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے دامن ہاتھ میں آئے تو
چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ دیں اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو
کیوں یہ مہرانگیز تبسم مد نظر جب کچھ بھی نہیں
ہائے کوئی انجان اگر اس دھوکے میں آ جائے تو
سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خواب جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
نادانی اور مجبوری میں یارو کچھ تو فرق کرو
اک بے بس انسان کرے کیا ٹوٹ کے دل آ جائے تو

حصہ